Wednesday 11 August 2010

کياقرآن دستورہے؟

کياقرآن دستورہے؟

واضح رہناچاہيے کہ جس طرح قرآن عام کتابوں کي طرح کي کتاب نہيں ہے اسي طرح عام دساتيرکي طرح کادستوربھي نہيں ہے دستورکاموجودہ تصورقرآن مجيدپرکسي طرح صادق نہيں آتا اورنہ اسے انساني اصلاح کے اعتبارسے دستورکہہ سکتے ہيں۔

دستورکي کتاب ميں چندخصوصيات ہوتي ہيں جن ميں سے کوئي خصوصيت قرآن مجيد ميں نہيں پائي جاتي ہے۔

دستورکي تعبيرات ميں قانون دانوں ميں اختلاف ہوسکتاہے ليکن دستورکے الفاظ ايسے نہيں ہوسکتے جن کابظاہرکوئي مطلب ہي نہ ہو اورقرآن مجيدميں حروف مقطعات کي يہي حيثيت ہے کہ ان کي تفسيردنياکاکوئي بھي عالم عربيت ياصاحب زبان نہيں کرسکتا۔

دستورميں ايک مقام کو واضح اوردوسرے کومجمل نہيں رکھاجاتاکہ مجمل کي تشريح کے ليے واضحات کي طرف رجوع کياجائے اورکسي ايک دفعہ کابھي مستقل مفہوم نہ سمجھاجاسکے اور قرآن مجيدميں ايسے متشابہات موجودہيں جن کا استقلالي طورپرکوئي مفہوم اس وقت تک نہيں بيان ہوسکتا جب تک محکمات کونہ ديکھ لياجائے اوران کے مطالب پرباقاعدہ طہارت نفس کے ساتھ غورنہ کرلياجائے۔

دستورہميشہ کاغذپرلکھاجاتاہے يااس چيزپرجمع کياجاتاہے جس پرجمع کرنے کا اس دوراوراس جگہ پررواج ہو۔دستورميں يہ کبھي نہيں ہوتا کہ اسے کاغذپرلکھ کرقوم کے حوالے کرنے کي بجائے کسي خفيہ ذريعہ سے کسي ايک آدمي کے سينے پرلکھ دياجائے اورقرآن مجيدکي يہي حيثيت ہے کہ اسے روح الامين کے ذريعے قلب پيغمبر پر اتار دياگياہے۔

دستورکسي نمائندہ مملکت کے عہدے کاثبوت اورحاکم سلطنت کے کمالات کا اظہار نہيں ہوتااس کي حيثيت تمام باشندگان مملکت کے اعتبارسے يکساں ہوتي ہے قرآن مجيدکي يہ نوعيت نہيں ہے، وہ جہاں اصلاح بشريت کے قوانين کامخزن ہے وہاں ناشرقوانين مرسل اعظم کے عہدہ کاثبوت بھي ہے۔ وہ ايک طرف انسانيت کي رہنمائي کرتاہے اوردوسري طرف ناطق راہنماکے منصب کااثبات کرتاہے ۔

دستورکاکام باشندگان مملکت کے اموردين ودنياکي تنظيم ہوتاہے،اسلام کاکام سابق کے دساتير يا ان کے مبلغين کي تصديق نہيں ہوتاہے اورقرآن مجيدکي يہ ذمہ داري بھي ہے کہ ايک طرف اپني عظمت اوراپنے رسول کي برتري کااعلان کرتاہے تو دوسري طرف سابق کي شريعتوں اوران کے پيغمبروں کي بھي تصديق کرتاہے۔

دستورتعليمات واحکام کامجموعہ ہوتاہے اس ميں گذشتہ ادوارکے واقعات ياقديم زمانوں کے حوادث کاتذکرہ نہيں ہوتاہے ۔ليکن قرآن کريم جہاں ايک طرف اپنے دورکے ليے احکام وتعليمات فراہم کرتاہے وہاں ادوارگذشتہ کے عبرت خيز واقعات بھي بيان کرتاہے، اس ميں تہذيب واخلاق کے مرقع بھي ہيں اوربدتہذيب امتوں کي تباہي کے مناظربھي ۔!

دستورکے بيانات کاانداز حاکمانہ ہوتاہے اس ميں تشويق وترغيب کے پہلوں کا لحاظ نہيں کياجاتاہے۔ اس ميں سزاؤں کے ساتھ انعامات اوررعايات کاذکرہوتاہے،ليکن دوسروں کے فضائل وکمالات کاتذکرہ نہيں کياجاتااورقرآن مجيدميں ايسي آيتيں بکثرت پائي جاتي ہيں جہاں احکام وتعليمات کاتذکرہ انسانوں کے فضائل وکمالات کے ذيل ميں کياگياہے اورجواس بات کاواضح ثبوت ہے کہ قرآن صرف ايک دستورکي کتاب ياتعزيرات کا مجموعہ نہيں ہے،اس کي نوعيت دنياکي جملہ تصانيف اورکائنات کے تمام دساتيرسے بالکل مختلف ہے،وہ کتاب بھي ہے اوردستوربھي ،ليکن نہ عام کتابوں جيسي کتاب ہے اورنہ عام دستوروں جيسا دستور۔

اوريہي وجہ ہے کے اس نے اپنے تعارف ميں دستورجيساکوئي اندازنہيں اختيار کيا بلکہ اپني تعبيران تمام الفاظ والقاب سے کي ہے جس سے اس کي صحيح نوعيت کا اندازہ کياجسکے۔

سوال يہ پيدا ہوتاہے کہ پھرقرآن مجيدہے کيا؟۔ اس کاجواب صرف ايک لفظ سے ديا جا سکتاہے کہ قرآن خالق کائنات کے اصول تربيت کامجموعہ اوراس کي شان ربوبيت کا مظہرہے۔اگرخالق کي حيثيت عام حکام وسلاطين جيسي ہوتي تواس کے اصول وآئين بھي ويسے ہي ہوتے ۔ليکن اس کي سلطنت کااندازہ دنياسے الگ ہے اس ليے اس کاآئين بھي جداگانہ ہے۔

دنياکے حکام وسلاطين ان کي اصلاح کرتے ہيں جوان کے پيداکيے ہوئے نہيں ہوتے، ان کاکام تخليق فردياتربيت فردنہيں ہوتا،ان کي ذمہ داري تنظيم مملکت اوراصلاح فردہوتي ہے اورظاہرہے کہ تنظيم کے اصول اور ہوں گے اورتربيت وتخليق کے ا صول اور اصلاح ظاہرکے طريقے اورہوں گے اورتزکيہٴ نفس کے قوانين اور۔

قرآن کے آئين ربوبيت ہونے کاسب سے بڑا ثبوت يہ ہے کہ اس کي وحي اول کا آغاز لفظ ربوبيت سے ہواہے۔

”اقراباسم ربک الذي خلق “ يعني ميرے حبيب تلاوت قرآن کا آغازنام رب سے کرو۔ وہ رب جس نے پيداکياہے۔

”خلق الانسان من علق“۔ وہ رب جس نے انسان کوعلق سے پيداکياہے يعني ايسے لوتھڑے سے بناياہے جس کي شکل جونک جيسي ہوتي ہے۔

”اقراٴوربک الاکرالذي علم بالقلم ۔“پڑھو کہ تمہارارب وہ بزرگ وبرترہے جس نے قلم کے ذريعہ تعليم دي۔

”علم الانسان مالم يعلم۔“ آيات بالا سے صاف ظاہرہوتاہے کہ قرآن کا آغازربوبيت سے ہواہے۔ ربوبيت کے ساتھ تخليق،مادہ تخليق، تعليم بالقلم کاتذکرہ اس بات کازندہ ثبوت ہے کہ قرآن مجيدکے تعليمات ومقاصدکاکل خلاصہ تخليق وتعليم ميں منحصرہے، اس کانازل کرنے والاتخليق کے اعتبارسے بقائے جسم کاانتظام کرتاہے اورتعليم کے اعتبار سے تزکيہٴ نفس کااہتمام کرتاہے۔

ميرے خيال ميں(واللہ اعلم) قرآن مجيدميں سورہ حمدکے ام الکتاب ہونے کا راز بھي يہي ہے کے اس ميں ربوبيت کے جملہ مظاہرسمٹ کرآگئے ہيں اوراس کاآغازبھي ربوبيت اوراس کے مظاہرکے ساتھ ہوتاہے۔ بلکہ اسي خيال کي روشني اس حديث مبارک کوبھي توجيہ کي جاسکتي ہے کہ”جوکچھ تمام آسماني صحيفوں ميں ہے وہ سب قرآن ميں ہے، اورجوکچھ قرآن ميں ہے وہ سب سورہ حمدميں ہے۔“ يعني قرآن مجيد کا تمام ترمقصدتربيت ہے اورتربيت کے ليے تصورجزا۔ احساس عبديت،خيال بےچارگي، کردار نيک وبدکاپيش نظرہوناانتہائي ضروري ہے ۔اورسورہ حمدکے مالک يوم الدين، اياک نعبد،اياک نستعين، صراط الذين انعمت عليہم، غيرالمغضوب عليہم ولاالضالين ميں يہي تمام باتيں پائي جاتي ہيں، حديث کے باقي اجزاء کہ”جوکچھ سورہٴ حمدميں ہے وہ بسم اللہ ميں ہے اورجوکچھ بسم اللہ ميں ہے وہ سب بائے بسم اللہ ميں ہے ۔“ اس کي تاويل کاعلم راسخون في العلم کے علاوہ کسي کے پاس نہيں ہے، البتہ ”اناالنقطة التي تحت الباء ۔“ کي روشني ميں يہ کہاجا سکتاہے کہ خالق کي ربوبي شان کا مظہرذات علي بن ابي طالب ہے اوريہي کل قرآن کامظہر ہے۔

قرآن کريم اوردنياکے دوسرے دستوروں کاايک بنيادي فرق يہ بھي ہے کہ دستور کا موضوع اصلاح حيات ہوتاہے تعليم کائنات نہيں يعني قانون سازي کي دنياسائنس کي ليبارٹي سے الگ ہوتي ہے۔ مجلس قانون سازکے فارمولے اصلاح حيات کرتے ہيں اور ليبارٹي کے تحقيقات انکشاف کائنات ۔ اورقرآن مجيدميں يہ دونوں باتيں بنيادي طورپرپائي جاتي ہيں۔ وہ اپني وحي کے آغازميں”اقراٴ“ ”علم “ بھي کہتاہے اور”خلق الانسان من علق “ بھي کہتاہے يعني اس ميں اصلاح حيات بھي ہے اورانکشاف کائنات بھي،اوريہ اجتماع اس بات کي طرف کھلاہوااشارہ ہے کہ تحقيق کے اسرارسے ناواقف، کائنات کے رموز سے بے خبرکبھي حيات کي صحيح اصلاح نہيں کرسکتے ۔ حيات کائنات کاايک جزء ہے۔ حيات کے لوازم وضروريات کائنات کے اہم مسائل ہيں اورجوکائنات ہي سے بے خبرہوگاوہ حيات کي کيااصلاح کرے گا۔ اسلامي قانون تربيت کابنانے والارب العالمين ہونے کے ا عتبارسے عالم حيات بھي ہے اورعالم کائنات بھي۔ تخليق،علم کائنات کي دليل ہے اورتربيت،علم حيات وضروريات کي۔

عناصرتربيت

جب يہ بات واضح ہوگئي کہ قرآن کريم شان ربوبيت کامظہراوراصول وآئين تربيت کا مجموعہ ہے تواب يہ بھي ديکھناپڑے گاکہ صحيح وصالح تربيت کے ليے کن عناصرکي ضرروت ہے اورقرآن مجيدميں وہ عناصرپائے جاتے ہيں يانہيں؟

تربيت کي دوقسميں ہوتي ہيں : تربيت جسم ، تربيت روح۔

تربيت جسم کے ليے ان اصول وقوانين کي ضرورت ہوتي ہے جوجسم کي بقاکے ضامن اورسماج کي تنظيم کے ذمہ دارہوں۔ اورتربيت روح کے ليے ان قواعدوضوابط کي ضرورت ہوتي ہے جوانسان کے دل ودماغ کوروشن کرسکيں،اس کے ذہن کے درےچوں کو کھول سکيں اورسينے کواتناکشادہ بناسکيں کہ وہ آفاق ميں گم نہ ہوسکے بلکہ آفاق اس کے سينے کي وسعتوں ميں گم ہوجائيں ” وفيک انطوي العالم الاکبر “ اے انسان! تجھ ميں ايک عالم اکبرسمٹاہواہے۔

اب چونکہ جسم وروح دونوں ايک دوسرے سے بے تعلق اورغيرمربوط نہيں ہيں، اس ليے يہ غيرممکن ہے کہ جسم کي صحيح تربيت روح کي تباہي کے ساتھ ياروح کي صحيح تربيت جسم کي بربادي کے ساتھ ہوسکے،بلکہ ايک کي بقاوترقي کے ليے دوسرے کالحاظ رکھنا انتہائي ضروري ہے يہ دونوں ايسي مربوط حقيقتيں ہيں کہ جب سے عالم ماديات ميںقدم رکھاہے دونوں ساتھ رہي ہيں اورجب تک انسان ذي حيات کہاجائے گادونوں کارابطہ باقي رہے گاظاہرہے کہ جب اتحاداتنا مستحکم اور پائدار ہوگا تو ضروريات ميں بھي کسي نہ کسي قدر اشتراک ضرورہوگا اورايک کے حالات سے دوسرے پر اثربھي ہوگا۔

ايسي حالت ميں اصول تربيت بھي ايسے ہي ہونے چاہئيں جن ميں دونوں کي منفرداورمشترک دونوںقسم کي ضروريات کالحاظ رکھاگيا ہو۔ليکن يہ بھي يادرکھنے کي بات ہے کہ وجودانساني ميں اصل روح ہے ا ورفروع مادہ ۔ارتقائے روح کے ليے بقائے جسم اورمشقت جسماني ضرروي ہے ليکن اس ليے نہيں کہ دونوں کي حيثيت ايک جيسي ہے بلکہ اس ليے کہ ايک اصل ہے اورايک اس کے ليے تمہيدومقدمہ۔

جسم وروح کي مثال يوں بھي فرض کي جاسکتي ہے کہ انساني جسم کي بقا کے ليے غذاؤں کااستعمال ضروري ہے ۔لباس کااستعمال لازمي ہے،مکان کا ہونا ناگزير ہے۔ ليکن اس کايہ مطلب ہرگزنہيں ہے کہ غذاولباس ومکان کامرتبہ جسم کامرتبہ ہے بلکہ اس کاکھلاہوامطلب يہ ہے کہ جسم کي بقا مطلوب ہے اس ليے ان چيزوں کا مہيا کرنا ضروري ہے۔ بالکل يہي حالت جسم وروح کي ہے، روح اصل ہے اورجسم اس کا مقدمہ۔

جسم اوراس کے تقاضوں ميں انسان وحيوان دونوں مشترک ہيں ليکن روح کے تقاضے انسانيت اورحيوانيت کے درميان حدفاصل کي حيثيت رکھتے ہيں اورظاہرہے کہ جب تک روح انسان وحيوان کے درميان حدفاصل بني رہے گي اس کي عظمت واہميت مسلم رہے گي ۔

بہرحال دونوں کي مشترک ضروريات کے ليے ايک مجموعہ قوانين کي ضرورت ہے، جس ميں اصول بقا و ارتقاء کابھي ذکرہواوران اقوام وملل کابھي تذکرہ ہوجنھوں نے ان ا صول وضوابط کوترک کرکے اپنے جسم يااپني روح کو تباہ وبربادکياہے۔ اس کے بغيرقانون تو بن سکتاہے ليکن تربيت نہيں ہوسکتي ۔ دوسرے الفاظ ميں يوں کہاجائے گاکہ اصلاح و تنظيم کوصرف اصول وقوانين کي ضرورت ہے ليکن تربيت روح ودماغ کے ليے ماضي کے افسانے بھي درکارہيں جن ميں بداحتياطي کے مرقع اوربدپرہيزي کي تصويريں کھينچي گئي ہوں۔ قرآن مجيدميں احکام وتعليمات کے ساتھ قصوں اورواقعات کافلسفہ اسي تربيت اوراس کے اصول ميں مضمرہے۔

تربيت کے ليے مزيدجن باتوں کي ضرورت ہے ان کي تفصيل يہ ہے :

۱۔ انسان کے قلب ميں صفائي پيداکي جائے۔

۲۔ اس کے تصورحيات کو ايک خالق کے تصورسے مربوط بناياجائے۔

۳۔ دماغ ميں قوت تدبروتفکرپيداکي جائے۔

۴۔ حوادث ووقائع ميں خوئے توکل اےجاد کي جائے۔

۵۔ افکارميں حق وباطل کاامتيازپيداکراياجائے۔

۶۔ قانون کے تقدس کوذہن نشين کراياجائے۔

۷۔ اخلاقي بلندي کے ليے بزرگوں کے تذکرے دہرائے جائيں۔

وہ قوانين کے مجموعہ کے اعتبارسے کتاب ہے اورصفائے قلب کے انتظام کے لحاظ سے نور۔

قوت تدبرکے اعتبارسے وحي مرموزہے اورخوئے توکل کے لحاظ سے آيات محکمات ومتشابہات۔

تصورخالق کے ليے تنزيل ہے اورتقدس قانون کے ليے قول رسول کريم ۔

امتيازحق وباطل کے ليے فرقان ہے،اوربلندي اخلاق کے ليے ذکروتذکرہ۔

ان اوصاف سے يہ بات بالکل واضح ہوجاتي ہے کہ قرآن نہ تصنيف ہے نہ دستور، وہ اصول تربيت کامجموعہ اورشان ربوبيت کامظہرہے، اس کانازل کرنے والاکائنات سے مافوق، اس کے اصول کائنات سے بلنداوراس کااندازبيان کائنات سے جداگانہ ہے۔

يا مختصرلفظوں ميں يوں کہاجائے کہ قرآن اگرکتاب ہے توکتاب تعليم نہيں بلکہ کتاب تربيت ہے۔ اوراگردستورہے تودستورحکومت نہيں ہے بلکہ دستورتربيت ہے۔ اس ميں حاکمانہ جاہ وجلال کااظہارکم ہے اورمربيانہ شفقت ورحمت کامظاہرہ زيادہ۔ اس کا آغاز بسم اللہ رحمت سے ہوتاہے قہر ذوالجلال سے نہيں۔ اس کاانجام استعاذہٴ رب الناس پر ہوتا ہے جلال وقہاروجبارپرنہيں۔

دستورحکومت کاموضوع اصلاح زندگي ہوتاہے۔ اوردستورتربيت کاموضوع استحکام بندگي۔ استحکام بندگي کے بغيراصلاح زندگي کاتصورايک خيال خام ہے اوربس۔

قرآن مجيدکے دستورتربيت ہونے کاسب سے بڑاثبوت اس کي تنزيل ہے۔ کہ وہ حاکمانہ جلال کامظہرہوتاتواس کے سارے احکام يکبارگي نازل ہوجاتے اورعالم انسانيت پر ان کاامتثال فرض کردياجاتاليکن ايساکچھ نہيں ہوابلکہ پہلے دل ودماغ کے تصورات کو پاک کرنے کے ليے عقائدکي آيتيں نازل ہوئيں،اس کے بعدتنظيم حيات کے ليے عبادات ومعاملات کے احکام نازل ہوئے،جب تربيت کے ليے جوبات مناسب ہوئي کہہ دي گئي، جو واقعہ مناسب ہوا سنادياگيا،جوقانون مناسب ہوا نافذکردياگيا۔ جيسے حالات ہوئے اسي لہجہ ميں بات کي گئي جوتربيت کاانتہائي اہم عنصراورشان تربيت کاانتہائي عظيم الشان مظہرہے۔

No comments:

Post a Comment