قرآن مجید کے ناموں کی معنویت
دنیا میں ہر کتاب کا کوئی نام ہوتا ہے جس سے وہ جانی پہچانی جاتی ہے۔ قرآن پاک کا بھی ایک معروف نام ”القران“ ہے جس کے حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے لیکن خود قرآن پاک میں اس کتاب کے کئی اور نام بھی دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نام ایسے نمایا ں ہیں جن کا ذکر مختلف سورتوں اور مختلف آیات میں ملتا ہے۔ قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں خاص طور پر یہ چار نمایاں نام اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتے ہیں۔ یہ معنویت اتنی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ خود اس سے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کے شواہد اور مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
یوں تو دنیا کا ہر مصنف اپنی کتاب کا کوئی نہ کوئی نام رکھ ہی دیتا ہے، لیکن دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس کا نام اس کتاب پر اتنا مکمل طور پر صادق آتا ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کتاب کے نام سے زیادہ کوئی نام اس کتاب پر صادق نہیں آسکتا۔ یہ بات قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ مثال کے طورپر مشہور کتاب ” داس کپیٹال“ کارل مارکس کی لکھی ہوئی ایک معروف اور اہم کتاب ہے جس کا موضوع سرمایہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ کے موضوع پر دنیا میں ہزاروں کتابیں موجود ہوں گی۔ ممکن ہے ان میں سے بعض کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی ہوں، اور فرض کریں اگر یہ سب کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی نہ بھی ہوں بلکہ فرض کر لیں کہ ساری کتابیں اس سے کم درجہ ہی کی ہوں تب بھی ان میں سے ہر کتا ب کو سرمایہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ جو کتاب بھی سرمائے کے موضوع پر ہے تو آپ اسے داس کپیٹال کہہ سکتے ہیں اور کوئی شخص اس نام پر نہ اعتراض کر سکتا ہے نہ اس نام کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ اس لیے اس نام میں کوئی ایسی خصوصی معنویت نہیں ہے جو کارل مارکس کی داس کپیٹال کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہ پائی جاتی ہو اور اس کی وجہ سے یہ نام اس موضوع کی کسی اور کتاب کے لئے آپ استعمال نہ کر سکیں۔
” دیوان غالب“ کو لیجئے جو اردو ادب تو کیا عالمی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ لیکن لفظ ” دیوان غالب“ میں کیا معنویت ہے، کچھ نہیں۔ ہر وہ شاعر جس کا تخلص غالب ہو اپنے مجموعہ کلام کو دیوان غالب کے نام سے موسوم کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہرصاحب دیوان شاعر کا دیوان ہوتا ہے جو اس کے نام سے معروف ہوجاتا ہے۔ اس میں نہ کوئی خاص بات ہے اور نہ کوئی منفرد انداز کی معنویت۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں شاعر ہوئے۔ ہر شاعر کے مجموعہ کلام کو آپ اس کا دیوان کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح سے آپ دیکھتے جائیں تو دنیا میں جتنی کتابیں ہیں ان کے نام کے بارے میں آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا۔ کسی کتاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ صرف ”قرآن“ ایسا نام ہے جو صرف ایک ہی کتاب پر صادق آتا ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی کتاب پر اس مفہوم میں اس منفرد نام کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
القرآن
القرآن کے لغوی معنی ہیں وہ تحریر جسے باربار پڑھا جائے۔ لہذا باربار پڑھی جانے والی کتاب کو عربی زبان میں قرآن کہا جائے گا۔ پھر جب اس میں حرف تخصیص یعنی الف لام لگتا ہے تو اس میں مزید تخصیص پیدا ہوجاتی ہے، یعنی القرآن۔ اس اضافہ سے اس میں یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ وہ واحد چیز جو باربار کثرت اور تسلسل کے ساتھ پڑھی جارہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اتنے تواتر اور تسلسل سے پڑھی جارہی ہو۔ القرآن کا یہ لفظی مفہوم ذہن میں رکھیں۔
اس مفہوم کے بعد میں آپ کے سامنے ایک دعویٰ پیش کرتا ہوں اور اس دعویٰ کی ایک دلیل بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پاک دنیا کی تاریخ میں واحد کتاب ہے جو گذشتہ چودہ سو سال سے روئے زمین پر اتنے تسلسل سے پڑھی جارہی ہے اور ہر وقت، ایک ایک وقت میں، بلکہ ایک ایک لمحہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اس کو مسلسل اور تواتر سے اس طرح پڑھ رہے ہیں کہ اس تلاوت میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کا بھی وقفہ نہیں آتا۔ روئے زمین کا اگر نقشہ ہمارے سامنے ہو اوراس کو سامنے رکھ کر اس دعویٰ پر غور کیا جائے کہ چودہ سو برس سے لے کر اس لمحہ تک اور آئندہ جب تک یہ دنیا موجود ہے ایک سیکنڈ کا وقفہ اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا کہ اس وقفہ میں لاکھوں آدمی کہیں نہ کہیں قرآن پاک کی تلاوت نہ کر رہے ہوں تو ذرا سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح اور مبرہن ہو جاتی ہے، اور یہ صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس کی دلیل خود آپ کے سامنے موجود ہے۔ روئے زمین پر ایک ارب بیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روئے زمین کے جنوب مشرقی کونے میں فجی اورآاسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں۔ فجی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا میں چار لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو اکثر وبیشترآسٹریلیا کے بالکل جنوب مشرق کے علاقہ نیو ساؤتھ ویلز میں رہتے ہیں۔ جب فجی اورآسٹریلیا میں صبح کی نماز کا وقت ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ دنیا میں صبح سب سے پہلے فجی اورآسٹریلیا ہی میں ہوتی ہے تو وہاں کے مسلمان کیا کرتے ہوں گے؟ آپ مان لیجئے کہ نماز پڑھنے والوں کا اوسط مسلمانوں میں بہت کم رہ گیا ہے۔ فرض کر لیں کہ مسلمان قوم میں بہت سے لوگ لا مذہب اور بے دین ہو گئے ہیں اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی مخالف زیادہ سے زیادہ یہی فرض کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات سے کوئی بڑے سے بڑا مخالف اسلام بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سے ایک چوتھائی یعنی پچیس فی صد لوگ ضرور نماز پڑھتے ہوں گے۔ اگر پچیس فیصد لوگ نماز پڑھتے ہوں تو گویا کم از کم ایک لاکھ مسلمان اس علاقے میں ایسے ضرور ہیں جو روزانہ علی الصباح فجر کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اور کھڑے ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد بقدر توفیق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ مان لیجئے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان دس فیصد میں بھی دس فیصد ہیں تو پھر بھی کئی ہزار مسلمان وہ ہیں جو قرآن پاک کھول کر تلاوت کر رہے ہوں گے، اور جو باقاعدہ تلاوت نہیں کرتے وہ بھی کم از کم نماز میں سورةفاتحہ اور سورة اخلاص وغیرہ کی تلاوت ضرور کرتے ہیں۔ اول تو یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن بڑے سے بڑا مخالف بھی چند ہزار کا اعتراف ضرور کرے گا اور نہیں کرتا تو آپ اسے فجی اور آسٹریلیا لے جا کر دکھا دیجئے۔
اس کے بعد جب آسٹریلیا میں فجر کی نماز کا وقت ختم ہونے لگتا ہے تو انڈونیشیا میں فجر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں بیس کروڑسے زائد مسلمان بستے ہیں۔ پورے ملک میں ساڑھے پانچ ہزار جزائر ہیں جو تین ہزار میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جزائر کا ایک لمبا سلسلہ آپ نقشہ پر دیکھ لیجئے۔ ان بیس کروڑ کی آباد ی میں اگر دس فیصد بھی نماز پڑھتے ہوں تو پہلے مشرقی علاقہ میں فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے پہلے مشرقی جزائر میں فجر کی نمازوں سے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے، پھر وسطی جزائر میں پھر آخر میں مغربی جزائر میں۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا کے مغربی جزائر ملائیشیا کے ساتھ ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں۔ یوں فجر کا وقت ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بیک وقت شروع ہو جاتا ہے، اور جونہی وہاں یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو بنگلہ دیش میں شروع ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ختم ہوتے ہی بھارت میں شروع ہو جاتا ہے جہاں بیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں۔
ابھی بھارت کے مسلمان نماز پڑھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ فجی میں ظہر کا وقت داخل ہو جاتا ہے وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب گویا دو سلسلے ہوگئے۔ اس روئے زمین پر تلاوت قرآن پاک کی دو لہریں چل رہی ہیں، یہ دو لہریں یا سلسلے یا دو (Waves) جو مشرق سے شروع ہو کر مغرب کو جار ہی ہیں۔ ہندوستان میں ابھی یہ لہر ختم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں شروع ہوجاتی ہے اور پاکستان کے بعد پورا سنٹرل ایشیا، پورا افغانستان، پورا چین جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اس لہر میں شامل ہو جاتے ہیں،اور یوں اس وسیع وعریض خطہ میں تلاوت قرآن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پاکستان کے چودہ کروڑ میں سے اگر بیس مسلمان بھی قرآن پڑھتے ہوں تو کم وبیش ستر اسی لاکھ مسلمان پاکستان بھر میں فجر کے وقت تلاوت اور نماز میں مشغول ہوتے ہیں اگرچہ یہاں تلاوت قرآن کرنے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ جب نماز فجر کا یہ سلسلہ مصر تک پہنچتا ہے تو فجی میں عصر کا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح بیک وقت تین سلسلے شروع ہو جاتے ہیں، اور جب یہ سلسلہ آگے پہنچتا ہے اور مراکش میں داخل ہوتا ہے تو پیچھے فجی میں مغرب کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ اب چار سلسلے ہو گئے اور جب امریکہ میں جہاں نوے لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں فجرکا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے اور وہ فجر کی نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں تو فجی میں عشاء کا وقت شر وع ہوجاتا ہے، یوں روئے زمین پر نمازوتلاوت کے پانچ سلسلے ایسے چلتے رہتے ہیں کہ جن میں چاروں طرف سے تسلسل قائم رہتا ہے۔ اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو شک ہوں تو وہ ٹیلیفون کرکے معلوم کر سکتا ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں اس وقت کون کونسی نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور کہاں کہاں تلاوتیں ہو رہی ہیں۔ یوں بھی دنیا کا نقشہ سامنے ہو، نمازوں کے اوقات اور دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا علم ہو اور سورج کی حرکت کا اندازہ ہو تو ٹیلی فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ نقشہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ چوبیس گھنٹے میں نمازو تلاوت کی ہر وقت یہ پانچ روئیں مسلسل اور متواتر چلتی رہتی ہیں، اور روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ہزاروں، لاکھوں مسلمان قرآن پاک کی تلاوت یا قرآن پاک کے کسی ایک حصہ کی تلاوت یا سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔
اس اعتبار سے اگر ہم یہ کہتے ہیں تو درست کہتے ہیں کہ القرآن وہ واحد کتاب ہے جس پر یہ لفظ اس کمال اور بھر پور طریقہ سے صادق آتا ہے کہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا اور دنیا میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو اتنے تسلسل کے ساتھ اور اتنی کثرت کے ساتھ پڑھی جار ہی ہو کہ اس میں چودہ سو سال سے کوئی وقفہ ہی نہ آیا ہو۔ وقفہ آہی کیسے سکتا ہے، اس تسلسل میں ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی اس لیے نہیں آ سکتا کہ پانچ روئیں متواتر چل رہی ہیں۔ لہذا القرآن ایسا نام ہے کہ یہ کسی اور کتاب پر پورا اتر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کے لئے نام بھی ایسا رکھا ہے کہ اس ایک کتاب کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو القرآن تو کیا قرآن بھی کہلا سکے۔ یہ نام 26مرتبہ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے۔
دوسرا نام اس کتاب کا ”الکتاب“ ہے
یہ بھی بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا ہے اللہ رب العزت کی جو مجموعی اسکیم ہے انبیاء کی اور نبوت کے سلسلہ کی کتابیں بھیجے جانے اور شریعتیں اتارے جانے کی، اس ساری اسکیم سے اس نام کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
قرآن مجید کو باربا ر الکتاب کہا گیا ہے۔ آغاز میں ہی ارشاد باری ہے :
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابُ۔
سب تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے بند ہ پر الکتاب اتاری۔
الکتاب کے معنی ہیں (The Book)دی بک۔ جب انگریزی میں دی(The) اور عربی میں ال، تخصیص کے حرف کے طور پر لگایا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں صرف وہ متعین چیز جس کا تذکرہ ہے۔ یعنی وہ متعین کتاب جس کا اس سیاق وسباق میں تذکرہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ قرآن پاک نے باربار خود کو الکتاب کہا ہے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے پچھلی کتابوں کا تذکرہ بھی ہے، تورات کا بھی ذکر ہے اور انجیل اور زبور کا بھی ذکر ہے۔ ان تین کتابوں کے نام تو لئے گئے ہیں۔ بقیہ کتابوں کے نام نہیں لئے گئے۔ بقیہ کتابوں کا ذکر عمومی انداز میں ہے۔ مثال کے طورپر سورة اعلیٰ میں صحف ابراہیم وموسیٰ کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبَرَاہیْمَ وَمُوْسٰی۔
یعنی یہی پیغام پرانے صحیفو ں میں بھی ہے۔ ابراہیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔
اب جہاں تک حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا تعلق ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے خامس خمس یعنی عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں مراد ہیں جن کو تورات کہا جاتا ہے۔ اگرچہ تورات کو کہیں بھی قرآن میں صحیفے نہیں کہا گیا۔ اس لیے قطعی طورپر ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحیفے جو یہاں کہاگیا ہے ان سے مراد تورات ہی ہے یا کوئی اور صحیفے مراد ہیں۔ غالب خیال البتہ یہی ہے کہ اس سے تورات مراد ہو۔ لیکن حضرت ابراہیم کے صحیفے، جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم پر بھی صحیفے یا کتابچے الگ الگ اجزاء، سورتوں یا پمفلٹوں کی شکل میں اتارے گئے تھے۔ جن کا قرآن پاک کی ان آیات میں ذکر ہے۔ یقیناً یہ صحیفے ان تین مشہور کتابوں کے علاوہ ہیں۔
قرآن مجید میں ایک جگہ پرانی کتابوں کا عمومی انداز سے ذکر کیاگیا ہے:
وَاِنَّہ‘ لَفِی زُبُرِالْاَوَّلِیْن۔
اور یہی پیغام پہلے لوگوں کی (پرانی) کتابوں میں بھی بیان کیا گیا تھا۔ گویا کچھ اور قدیم اور پرانی کتابیں بھی ایسی تھیں جو اللہ نے پہلے اتاری تھیں جن کے ناموں اور مندرجات کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس اجمال کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے جو مسند امام احمد بن حنبل میں بیان ہوئی ہے۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان میں سے 315صاحب کتاب تھے۔ اس طرح گویا کتابوں کی تعداد 315کے لگ بھگ تھی۔ لگ بھگ اس لیے کہا گیا کہ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک سے زائد پیغمبروں کو دی گئیں۔ اس اعتبار سے کتابوں کی تعداد بہرحال سینکڑوں میں ضرور ہو گی۔ کتنی ہو گی یہ ہم قطعیت سے نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ان کتابوں کا اجمالی ذکر آیا ہے، اور ایک صاحب ایمان کے لئے ا ن سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں چاہے ان کے نام ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں، چاہے ان کی تفصیلات ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔ یہ بات اسلامی عقیدہ کا جزو ہے جس کو ماننا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔
ان کتابوں کے لئے قرآن پاک میں دو الفاظ استعمال ہوئے اور ان دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن پاک کے اس نام ” الکتاب“ سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ان سب کتابوں کے لئے جن کی تعداد تین سو پندرہ کے لگ بھگ ہے قرآن میں کئی جگہ کتب (کتابیں) کا لفظ بصیغہ جمع استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات میں ارشاد ہوا ہے :
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَأئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ۔
یعنی رسول اللہ اور سب اہل ایمان اللہ، اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اور اس کے رسالوں پر ایمان لائے ہیں۔
یہاں کتب (کتابوں، بصیغہ جمع) سے مراد وہ ساری کتابیں ہیں جو اللہ نے اتاریں، بشمول قرآن مجید۔ یہاں اللہ رب العزت نے کتب کا لفظ استعال کیا ہے جو جمع کے لئے ہے یعنی بہت ساری کتابیں، لیکن ایک دوسری جگہ پہلی تمام کتابوں کے لئے ” الکتاب“ کا لفظ (بصیغہ واحد) استعمال کیا گیا ہے۔ سورة مائدہ کی آیت 48میں جہاں قرآن مجید کا تعارف کرایا گیا ہے وہاں فرمایا :
مُصَدِّقًالِّمٰا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ۔
کہ قرآن اپنے سے پہلے آنے والی ” الکتاب“ کی تصدیق کرتا ہے اور اس کا محافظ اور اس پر حاوی ہے۔
یہاں بھی دونوں صیغے مفرد کے ہیں۔ اگرچہ کتابیں جن کی طرف اشارہ مقصود ہے بہت سی ہیں، لیکن الکتاب کا لفظ اور علیہ کی ضمیر دونوں صیغہ واحد میں استعمال ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن نے بہت سی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد جیسا کہ ہم نے دیکھا سینکٹروں میں ہے۔ پھر الکتاب اور علیہ دونوں کے لئے صیغہ مفرد کیوں استعمال کیا گیا۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ قرآن کو بھی الکتاب کہا گیا اور پچھلی ساری کتابوں کو بھی مجموعی طور پر الکتاب کہا گیا؟آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ صیغہ جمع میں الکتب کا لفظ ہو یا صیغہ واحد میں الکتاب کا لفظ ہو درست ہیں۔
ان میں نہ کوئی تعارض ہے نہ کوئی تضاد، بلکہ اس اسلوب بیان سے ایک چیز کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے اس کا ارشاد ہے کہ مَایُبَدِّلَالْقَوْلَ لُدَی (میرے ہاں بات بدلتی نہیں ہے)جو بات اس نے پہلے دن کہہ دی تھی وہی بات اس نے بعد میں بھی کہی۔ جو تعلیم اس نے حضرت موسیٰ کو دی تھی وہی تعلیم حضرت عیسیٰ کو بھی دی، اور جو تعلیم حضرت عیسٰی کو دی وہی ہمارے نبی کو بھی دی۔ لہذااللہ کی تعلیم میں کبھی کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ اس نے پہلے دن بھی توحید کی تعلیم دی تھی، رسالت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا تھااور آخرت پر ایمان کا سبق دیا تھا،مکارم اخلاق کی اور برے کردار سے بچنے کی تعلیم پہلے بھی دی تھی اور انہی چیزوں کی تعلیم آج بھی دی۔ تفصیلات میں جو فرق نظر آتا ہے وہ لوگوں کے اپنے حالات بدلنے کی وجہ سے ہے۔ جو ں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی اسی لحاظ سے تعلیم کی تفصیلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن دین کی جو بنیادی تعلیم روز اول تھی وہ ہر زمانے میں ایک ہی رہی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ نے جتنی کتابیں اتاریں ان سب کو آپ ایک کتاب کہہ سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ ان کا مصنف ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، کہ لوگ اچھے انسان بن جائیں، آخرت میں ان کو فلاح حاصل ہو اور وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل ہو جائیں۔ یہی مقصد وحید تھا ان سب کتابوں کے اتارے جانے کا۔ ان میں سے ہر کتاب کا سبق یہ تھا کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑے، ایمان اختیار کرے، تقویٰ کا رویہ اپنائے، اور اعمال صالحہ پر کاربند ہو۔ اس اعتبار سے ان سب کتابوں کو ” ایک کتاب“ کہا جا سکتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک مصنف آج اردو میں ایک کتاب لکھتا ہے جس میں وہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے باشندے اچھے انسان کس طرح بنیں، اچھا اخلاق ان میں کیسے آجائے، کردار کی تعمیر کیسے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں دلائل دیئے جاتے ہیں، مثالیں دی جاتی ہیں اور تعمیر کردار کا پیغام دیا جاتا ہے۔ فرض کیجئے وہ کتاب بہت مقبول ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بیرون ملک مثلاً بنگلہ دیش کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کے لئے بھی تیار کر دیا جائے۔ اب یہ مصنف جو اتفاق سے بنگالی زبان بھی جانتا ہے اس کتاب کے مضامین کو بنگالی زبان میں بھی شائع کراتا ہے۔ لیکن بنگالی ایڈیشن میں وہ مصنف ان مقامی حوالوں اور مثالوں کو بدل دیتا ہے جن کا تعلق صرف پاکستانی معاشرہ سے تھا، اور پاکستانی لوگ ہی ان مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں مثلاً پاکستانی ایڈیشن میں کسی سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کا ذکر ہو سکتا ہے، لیکن بنگالی ایڈیشن میں اس سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کے بجائے فرخاڈیم کا حوالہ لکھا جاتا ہے، جس سے وہ لوگ نسبتاً زیادہ مانوس ہیں۔ یہاں بلوچستان کے حوالے سے اگر اونٹوں کا ذکر ہے تو بنگالی ایڈیشن میں کشتیوں کی مثال دی جائے گی۔ اسی طرح یہاں کی مشہور شخصیتوں کے حوالوں کی جگہ بنگلہ دیش کی شخصیتوں کا حوالہ دیا جائے گا جسے وہ لوگ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
اسی طرح اب یہ کتاب ترکی کے لوگوں کے علم میں آئی اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کیلئے بھی شائع کر دیا جائے، اب اس مصنف نے ترکی کے حوالے، شخصیتیں اور مقامات کا ذکر کرکے وہ کتاب ترکی کے لئے تیار کر دی۔ اب دیکھاجائے تو کتاب کا بنیادی پیغام کہ انسانوں کو کس طرح بہتر انسان بنایا جائے وہ تو ایک ہی ہے، خواہ وہ پاکستانی ہوں، بنگالی ہوں، یا ترکی ہوں۔ بنیادی اخلاقی تعلیمات سب کے لئے ایک ہی ہیں۔ صرف مثالیں، حوالے وغیرہ مختلف ہیں۔ اب چونکہ مصنف بھی ایک ہی ہے، کتاب بھی ایک ہی ہے، پیغام بھی ایک ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں اس لئے کہ وہ تین مختلف علاقوں اور تین مختلف زبانوں میں لکھی گئیں۔
قریب قریب یہی معاملہ بلا تشبیہ کتب سماویہ کا بھی سمجھنا چاہیے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید نے ان ساری کتابوں کو کتابیں بھی قرار دیا، اور ایک الکتاب بھی قرار دیا ہے۔ الکتاب وہ سب اس اعتبار سے ہیں کہ ان کا بھیجنے والا ایک، ان کا پہنچانے والا ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، اور ان سے بالآخر جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ایک، اسی طرح ان کو الگ الگ کتابیں بھی قرار دیا گیا، اس اعتبار سے کہ وہ مختلف انبیاء پر اتاری گئیں، مختلف زبانوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف علاقوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف اوقات میں ان کو اتارا گیا، ان اسباب کی بنیاد پر ان کو جداگانہ کتابیں بھی کہا جا سکتا ہے۔
اب آپ دیکھئے کہ قران مجید یہاں جب اپنے آپ کو الکتاب کہتا ہے تو وہ گویا دو باتیں کہتا ہے۔ ایک تو وہ اپنی ایک بنیادی صفت کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس وقت یہ اسی طرح کی الکتاب (دی بک) ہے جس طرح ایک زمانہ میں تورات الکتاب تھی یا انجیل الکتاب تھی۔ یعنی اللہ کی مرضی کی واحد ترجمان اور اس کے قانون اور نظام کا واحد اور قطعی ماخذ۔ دوسری بات جو اس پہلی بات سے آپ نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اب رہتی دنیا تک کے لئے یہی الکتاب ہے۔ اس لیے کہ اس کو لانے والا خاتم الانبیاء ہے اور جس امت پر یہ اتاری گئی و ہ خاتم الامم ہے،لہذا لا محالہ اس کو بھی خاتم الکتب ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ جہاں الکتب (کتابوں) کا ذکرکرتا ہے وہاں ایک تو اشارہ پچھلی کتابوں کی طرف ہے، قرآن ان سب کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کا سارا پیغام درست تھا۔ اس لیے کہ ہم ہی نے ان کو بھی اتار ا تھا، ہم اس پہلی بات کی آج تصدیق کرتے ہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ وہ صحیح بات تھی اورآج بھی وہی بات کہتے ہیں جو پہلے کہی تھی۔ گویا مصنف خود یہ کہہ رہا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اگلی صفت یہ بتائی کہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مہیمنا علیہ بھی ہے، یعنی یہ اس سابقہ کتاب(یا کتابوں) پر اس طرح حاوی ہے کہ اس کے جو بنیادی عناصر ہیں یہ ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور گویا اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔
عربی زبان میں بڑے جامع قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو مفہوم کو اس طرح اداکرتے ہیں کہ اور کسی زبان میں وہ مفہوم اس جامعیت کے ساتھاادا نہیں ہوتا۔ ”مہیمن“ کہتے ہیں اس طرح حاوی ہو جانے کو جس طرح وہ مرغی کہ جب کوئی چیل یا کوا اس کے بچوں پر جھپٹنے لگے تو وہ پر پھیلا کر اپنے سارے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر ایسے بیٹھ جاتی ہے کہ کوئی بچہ اس کا باہر نہیں رہتا، اور یوں وہ اپنے سب چوزوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے۔ اس کیفیت کو ”مہیمن“ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی قرآن میں ”مہیمن“ آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس طرح اپنے قبضہ اور حفاظت میں لیے ہوئے ہے کہ کوئی قوت ایسی نہیں ہے کہ اس کی کائنات میں دخل اندازی کر سکے یا خالق کائنات کے کام میں مداخلت کر سکے۔ قرآن پاک کیلئے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا صاف مفہوم یہ ہے کہ قرآن پاک پچھلی آسمانی کتابوں میں دی گئی تعلیمات کا اس طرح محافظ ہے اور ان کے عطر اور جوہر کو اس نے اس طرح اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے کہ کوئی اس میں دخل اندازی کرکے اس کو مٹا نہیں سکتا۔
لوگوں نے تورات کو مٹا دیا، انجیل کو مٹا دیا، دیگر کتابوں میں ملاوٹیں کر دیں۔ لیکن تورات میں کیا تھا آج ہمیں معلوم ہے، اس لیے کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کہا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔ زبور میں جو پیغام دیا گیا تھا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن مجید محفوظ ہے لہذا ساری کتابوں کی بنیادی تعلیم بھی محفوظ ہے اور یوں ہر نبی نے جو تعلیم دی وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی ہے۔
قرآن میں یہ جو باربار کہا گیا کہ فلاں نبی کا ذکر کرو، فلاں نبی کا ذکر کرو، یہ اس لیے نہیں ہے کہ بلاوجہ قصے سنانے مقصود ہیں۔ بلکہ یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ہر علاقہ میں، ہر زمانہ میں، ہر نبی نے یہی بنیادی تعلیم دی ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی طرح آخرت، رسالت اور مکارم اخلاق کے متعلق ایک جیسی تعلیم دی گئی۔ اس لیے الکتاب کا لفظ قرآن پاک کے لئے بھی استعمال ہوا اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ جس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کتاب وہ واحد کتا ب ہے جو پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان پرانی کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو کچھ ہے وہ اب اس کتاب میں موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب یہی واحد کتاب ہے جو ان ساری کتابوں کی قائم مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان کتابوں کے صرف نام اور حقیقت پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ اتاری گئی تھیں،تو وہ صحیح تھیں، اور جس زمانے کے لئے وہ اتاری تھیں اس وقت تک کے لئے صحیح تھیں۔ ان سب کی تعلیم اور خلاصہ کے طور پر اب اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہ ہے مفہوم الکتاب کا جو قرآن پاک کے نام کے طورپر کئی مقام پر آیا ہے۔
اس کتاب کا تیسرا اہم اور معنی خیز نام الفرقان ہے
سورة فرقان کا آغاز ہی اس اعلان سے ہوتا ہے کہ وہ ذات انتہائی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمائی۔ عربی زبان میں فرقان مصدر کا وزن ہے اور عربیت کے قاعدہ سے اگر مصدر کے وزن کو کسی صفت کے مفہوم میں استعمال کیا جائے تو اس میں دوام اور تسلسل کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے فارق اور فاروق سے مراد وہ چیز یا وہ فرد ہے جو کوئی سی دو چیزوں کے درمیان فرق کرتا ہو۔ فاروق میں مبالغہ کا مفہوم بھی موجود ہے اور اصطلاحاً فاروق سے مراد وہ ہستی یا شخصیت ہے جو حق وباطل کے درمیان فرق کردے۔ جو جھوٹے اور سچے کو الگ الگ کر دے، جو کھرے اور کھوٹے کو جداجدا کر دے۔ فرقا ن کا بھی یہی مفہوم ہے۔ لیکن اس میں مبالغہ کے ساتھ ساتھ دوام اور تسلسل کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ لہذا فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق وباطل میں دائمی طورپر تمیز کر سکے اور کھرے کھوٹے کو الگ الگ کرکے یہ بتا سکے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ گویا فرقان سے مراد وہ دائمی کسوٹی ہے جو پرکھ کر یہ بتا سکے کہ سونا کھرا ہے کہ کھوٹا۔
قرآن مجید نہ صرف فرقان ہے بلکہ ”الفرقان“ ہے، یعنی وہ واحد اور مخصوص کسوٹی جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ الفرقان کے آجانے کے بعد اب کسی فارق یا کسی اور فرقان کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق وباطل کی واحد کسوٹی یہی الفرقان ہے۔ اب یہی الفرقان وہ ”المیزان“ ہے جس پر تول کر دیکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا ہے اور کون ہلکا ثابت ہوتا ہے۔ اب جو کچھ اس دائمی کسوٹی کی پرکھ پر پورا اترتا ہے وہ صحیح اور قابل قبول ہے، اور جو پورا نہیں اترتا وہ غلط اور ناقابل قبول ہے۔ یہ ایک فولادی چوکھٹا ہے جس سے کسی بھی چیز کا صحیح اور مکمل ہونا جانچا جائے گا، جو جتنا پورا ہے اتنا مکمل ہے، اور جو جتنا جھوٹا ہے اتنا کھوٹا ہے۔ یہ سارے مفاہیم الفرقان کے لفظ میں شامل ہیں۔
اس کتاب کا چوتھا نام” الذکر“ ہے
ذکرکے معنی یاددہانی کے ہیں۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں قرآن مجید کو” الذکر“کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ سورة حجر کی آیت 9 میں جہاں قرآن پاک کی حفاظت کا ذکر ہے وہاں الذکر ہی کا نام استعمال فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِناّٰ لَہ‘ لَحَافِظُونَ۔
کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
یاد دہانی کالفظ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اگر آپ پہلی مرتبہ کسی کو کوئی خط لکھیں یا پہلی مرتبہ کسی سے کوئی سوال، مطالبہ یا درخواست کریں تو آپ اس کو یاددہانی کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے۔ یاددہانی اس صورت میں ہوتی ہے جب آپ وہ بات پہلے کہہ چکے ہوں۔ کوئی بات، تحریر یا خط اگر ایک بار بھیجا جا چکا ہو اور اس پر عمل نہ ہوا ہو، یا اس کو غلط سمجھا گیا ہو یا اس میں کسی نے ردوبدل کر دی ہو یا وہ سابقہ تحریر سرے سے گم ہو گئی ہو تو پھر یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
قرآن مجیداس اعتبار سے ایک یا ددہانی کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ پچھلی تمام کتابوں کی آخری، حتمی، قطعی اور مکمل یاد دہانی ہے۔ قرآن مجید چونکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور قرآنی وحی کو سابقہ کتابوں کی وحی کا ہی
تسلسل قرار دیتا ہے اس لیے اس کی نوعیت دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے ایک یاددہانی ہی کی ہونی چاہیے۔
پہلے کہا جا چکا ہے کہ قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے بنیادی اور اساسی پیغام پر حاوی ہے۔ قرآن کا یہ حاوی ہونا خود ایک مسلسل یاد دہانی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ذکر کے معنی یاد دہانی کے علاوہ کسی چیز کو زبانی یاد کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن مجید اس اعتبار سے بھی ”الذکر“ ہے کہ دیگر آسمانی کتابوں کے برعکس یہ واحد کتاب ہے جس کو حفاظت کی خاطر کروڑوں انسانوں نے کاغذی سفینوں کے ساتھ ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رکھا۔ قرآن مجید کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کو اس محبت، عقیدت، احترام، اہتمام اور انتظام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر کسی کتاب پر” الذکر“ کالقب صادق آسکتا ہے تو وہ یہی کتاب حکیم ہے۔
یہ چار تو وہ نام ہیں جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں اور اس کتاب کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے صفاتی نام بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً قرآن پاک میں استعمال ہوئے ہیں اور اس کتاب کی مختلف حیثیتوں کو اور مختلف صفتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ جن کا اندازہ سینکٹروں میں ہے۔ یہ ساری قرآن کی صفتیں ہیں یعنی یہ وہ کتاب ہے جو سراپا حکمت ودانائی ہے، جو عظیم الشان ہے، جو بزرگی اور برتری والی ہے۔ اس طرح دیگر صفات قرآن مجید کی مختلف حیثیتوں اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں۔
قرآن مجید کے ناموں کی معنویت
دنیا میں ہر کتاب کا کوئی نام ہوتا ہے جس سے وہ جانی پہچانی جاتی ہے۔ قرآن پاک کا بھی ایک معروف نام ”القران“ ہے جس کے حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے لیکن خود قرآن پاک میں اس کتاب کے کئی اور نام بھی دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نام ایسے نمایا ں ہیں جن کا ذکر مختلف سورتوں اور مختلف آیات میں ملتا ہے۔ قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں خاص طور پر یہ چار نمایاں نام اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتے ہیں۔ یہ معنویت اتنی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ خود اس سے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کے شواہد اور مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
یوں تو دنیا کا ہر مصنف اپنی کتاب کا کوئی نہ کوئی نام رکھ ہی دیتا ہے، لیکن دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس کا نام اس کتاب پر اتنا مکمل طور پر صادق آتا ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کتاب کے نام سے زیادہ کوئی نام اس کتاب پر صادق نہیں آسکتا۔ یہ بات قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ مثال کے طورپر مشہور کتاب ” داس کپیٹال“ کارل مارکس کی لکھی ہوئی ایک معروف اور اہم کتاب ہے جس کا موضوع سرمایہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ کے موضوع پر دنیا میں ہزاروں کتابیں موجود ہوں گی۔ ممکن ہے ان میں سے بعض کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی ہوں، اور فرض کریں اگر یہ سب کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی نہ بھی ہوں بلکہ فرض کر لیں کہ ساری کتابیں اس سے کم درجہ ہی کی ہوں تب بھی ان میں سے ہر کتا ب کو سرمایہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ جو کتاب بھی سرمائے کے موضوع پر ہے تو آپ اسے داس کپیٹال کہہ سکتے ہیں اور کوئی شخص اس نام پر نہ اعتراض کر سکتا ہے نہ اس نام کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ اس لیے اس نام میں کوئی ایسی خصوصی معنویت نہیں ہے جو کارل مارکس کی داس کپیٹال کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہ پائی جاتی ہو اور اس کی وجہ سے یہ نام اس موضوع کی کسی اور کتاب کے لئے آپ استعمال نہ کر سکیں۔
” دیوان غالب“ کو لیجئے جو اردو ادب تو کیا عالمی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ لیکن لفظ ” دیوان غالب“ میں کیا معنویت ہے، کچھ نہیں۔ ہر وہ شاعر جس کا تخلص غالب ہو اپنے مجموعہ کلام کو دیوان غالب کے نام سے موسوم کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہرصاحب دیوان شاعر کا دیوان ہوتا ہے جو اس کے نام سے معروف ہوجاتا ہے۔ اس میں نہ کوئی خاص بات ہے اور نہ کوئی منفرد انداز کی معنویت۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں شاعر ہوئے۔ ہر شاعر کے مجموعہ کلام کو آپ اس کا دیوان کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح سے آپ دیکھتے جائیں تو دنیا میں جتنی کتابیں ہیں ان کے نام کے بارے میں آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا۔ کسی کتاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ صرف ”قرآن“ ایسا نام ہے جو صرف ایک ہی کتاب پر صادق آتا ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی کتاب پر اس مفہوم میں اس منفرد نام کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
القرآن
القرآن کے لغوی معنی ہیں وہ تحریر جسے باربار پڑھا جائے۔ لہذا باربار پڑھی جانے والی کتاب کو عربی زبان میں قرآن کہا جائے گا۔ پھر جب اس میں حرف تخصیص یعنی الف لام لگتا ہے تو اس میں مزید تخصیص پیدا ہوجاتی ہے، یعنی القرآن۔ اس اضافہ سے اس میں یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ وہ واحد چیز جو باربار کثرت اور تسلسل کے ساتھ پڑھی جارہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اتنے تواتر اور تسلسل سے پڑھی جارہی ہو۔ القرآن کا یہ لفظی مفہوم ذہن میں رکھیں۔
اس مفہوم کے بعد میں آپ کے سامنے ایک دعویٰ پیش کرتا ہوں اور اس دعویٰ کی ایک دلیل بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پاک دنیا کی تاریخ میں واحد کتاب ہے جو گذشتہ چودہ سو سال سے روئے زمین پر اتنے تسلسل سے پڑھی جارہی ہے اور ہر وقت، ایک ایک وقت میں، بلکہ ایک ایک لمحہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اس کو مسلسل اور تواتر سے اس طرح پڑھ رہے ہیں کہ اس تلاوت میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کا بھی وقفہ نہیں آتا۔ روئے زمین کا اگر نقشہ ہمارے سامنے ہو اوراس کو سامنے رکھ کر اس دعویٰ پر غور کیا جائے کہ چودہ سو برس سے لے کر اس لمحہ تک اور آئندہ جب تک یہ دنیا موجود ہے ایک سیکنڈ کا وقفہ اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا کہ اس وقفہ میں لاکھوں آدمی کہیں نہ کہیں قرآن پاک کی تلاوت نہ کر رہے ہوں تو ذرا سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح اور مبرہن ہو جاتی ہے، اور یہ صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس کی دلیل خود آپ کے سامنے موجود ہے۔ روئے زمین پر ایک ارب بیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روئے زمین کے جنوب مشرقی کونے میں فجی اورآاسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں۔ فجی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا میں چار لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو اکثر وبیشترآسٹریلیا کے بالکل جنوب مشرق کے علاقہ نیو ساؤتھ ویلز میں رہتے ہیں۔ جب فجی اورآسٹریلیا میں صبح کی نماز کا وقت ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ دنیا میں صبح سب سے پہلے فجی اورآسٹریلیا ہی میں ہوتی ہے تو وہاں کے مسلمان کیا کرتے ہوں گے؟ آپ مان لیجئے کہ نماز پڑھنے والوں کا اوسط مسلمانوں میں بہت کم رہ گیا ہے۔ فرض کر لیں کہ مسلمان قوم میں بہت سے لوگ لا مذہب اور بے دین ہو گئے ہیں اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی مخالف زیادہ سے زیادہ یہی فرض کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات سے کوئی بڑے سے بڑا مخالف اسلام بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سے ایک چوتھائی یعنی پچیس فی صد لوگ ضرور نماز پڑھتے ہوں گے۔ اگر پچیس فیصد لوگ نماز پڑھتے ہوں تو گویا کم از کم ایک لاکھ مسلمان اس علاقے میں ایسے ضرور ہیں جو روزانہ علی الصباح فجر کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اور کھڑے ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد بقدر توفیق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ مان لیجئے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان دس فیصد میں بھی دس فیصد ہیں تو پھر بھی کئی ہزار مسلمان وہ ہیں جو قرآن پاک کھول کر تلاوت کر رہے ہوں گے، اور جو باقاعدہ تلاوت نہیں کرتے وہ بھی کم از کم نماز میں سورةفاتحہ اور سورة اخلاص وغیرہ کی تلاوت ضرور کرتے ہیں۔ اول تو یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن بڑے سے بڑا مخالف بھی چند ہزار کا اعتراف ضرور کرے گا اور نہیں کرتا تو آپ اسے فجی اور آسٹریلیا لے جا کر دکھا دیجئے۔
اس کے بعد جب آسٹریلیا میں فجر کی نماز کا وقت ختم ہونے لگتا ہے تو انڈونیشیا میں فجر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں بیس کروڑسے زائد مسلمان بستے ہیں۔ پورے ملک میں ساڑھے پانچ ہزار جزائر ہیں جو تین ہزار میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جزائر کا ایک لمبا سلسلہ آپ نقشہ پر دیکھ لیجئے۔ ان بیس کروڑ کی آباد ی میں اگر دس فیصد بھی نماز پڑھتے ہوں تو پہلے مشرقی علاقہ میں فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے پہلے مشرقی جزائر میں فجر کی نمازوں سے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے، پھر وسطی جزائر میں پھر آخر میں مغربی جزائر میں۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا کے مغربی جزائر ملائیشیا کے ساتھ ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں۔ یوں فجر کا وقت ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بیک وقت شروع ہو جاتا ہے، اور جونہی وہاں یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو بنگلہ دیش میں شروع ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ختم ہوتے ہی بھارت میں شروع ہو جاتا ہے جہاں بیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں۔
ابھی بھارت کے مسلمان نماز پڑھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ فجی میں ظہر کا وقت داخل ہو جاتا ہے وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب گویا دو سلسلے ہوگئے۔ اس روئے زمین پر تلاوت قرآن پاک کی دو لہریں چل رہی ہیں، یہ دو لہریں یا سلسلے یا دو (Waves) جو مشرق سے شروع ہو کر مغرب کو جار ہی ہیں۔ ہندوستان میں ابھی یہ لہر ختم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں شروع ہوجاتی ہے اور پاکستان کے بعد پورا سنٹرل ایشیا، پورا افغانستان، پورا چین جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اس لہر میں شامل ہو جاتے ہیں،اور یوں اس وسیع وعریض خطہ میں تلاوت قرآن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پاکستان کے چودہ کروڑ میں سے اگر بیس مسلمان بھی قرآن پڑھتے ہوں تو کم وبیش ستر اسی لاکھ مسلمان پاکستان بھر میں فجر کے وقت تلاوت اور نماز میں مشغول ہوتے ہیں اگرچہ یہاں تلاوت قرآن کرنے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ جب نماز فجر کا یہ سلسلہ مصر تک پہنچتا ہے تو فجی میں عصر کا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح بیک وقت تین سلسلے شروع ہو جاتے ہیں، اور جب یہ سلسلہ آگے پہنچتا ہے اور مراکش میں داخل ہوتا ہے تو پیچھے فجی میں مغرب کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ اب چار سلسلے ہو گئے اور جب امریکہ میں جہاں نوے لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں فجرکا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے اور وہ فجر کی نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں تو فجی میں عشاء کا وقت شر وع ہوجاتا ہے، یوں روئے زمین پر نمازوتلاوت کے پانچ سلسلے ایسے چلتے رہتے ہیں کہ جن میں چاروں طرف سے تسلسل قائم رہتا ہے۔ اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو شک ہوں تو وہ ٹیلیفون کرکے معلوم کر سکتا ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں اس وقت کون کونسی نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور کہاں کہاں تلاوتیں ہو رہی ہیں۔ یوں بھی دنیا کا نقشہ سامنے ہو، نمازوں کے اوقات اور دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا علم ہو اور سورج کی حرکت کا اندازہ ہو تو ٹیلی فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ نقشہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ چوبیس گھنٹے میں نمازو تلاوت کی ہر وقت یہ پانچ روئیں مسلسل اور متواتر چلتی رہتی ہیں، اور روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ہزاروں، لاکھوں مسلمان قرآن پاک کی تلاوت یا قرآن پاک کے کسی ایک حصہ کی تلاوت یا سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔
اس اعتبار سے اگر ہم یہ کہتے ہیں تو درست کہتے ہیں کہ القرآن وہ واحد کتاب ہے جس پر یہ لفظ اس کمال اور بھر پور طریقہ سے صادق آتا ہے کہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا اور دنیا میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو اتنے تسلسل کے ساتھ اور اتنی کثرت کے ساتھ پڑھی جار ہی ہو کہ اس میں چودہ سو سال سے کوئی وقفہ ہی نہ آیا ہو۔ وقفہ آہی کیسے سکتا ہے، اس تسلسل میں ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی اس لیے نہیں آ سکتا کہ پانچ روئیں متواتر چل رہی ہیں۔ لہذا القرآن ایسا نام ہے کہ یہ کسی اور کتاب پر پورا اتر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کے لئے نام بھی ایسا رکھا ہے کہ اس ایک کتاب کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو القرآن تو کیا قرآن بھی کہلا سکے۔ یہ نام 26مرتبہ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے۔
دوسرا نام اس کتاب کا ”الکتاب“ ہے
یہ بھی بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا ہے اللہ رب العزت کی جو مجموعی اسکیم ہے انبیاء کی اور نبوت کے سلسلہ کی کتابیں بھیجے جانے اور شریعتیں اتارے جانے کی، اس ساری اسکیم سے اس نام کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
قرآن مجید کو باربا ر الکتاب کہا گیا ہے۔ آغاز میں ہی ارشاد باری ہے :
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابُ۔
سب تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے بند ہ پر الکتاب اتاری۔
الکتاب کے معنی ہیں (The Book)دی بک۔ جب انگریزی میں دی(The) اور عربی میں ال، تخصیص کے حرف کے طور پر لگایا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں صرف وہ متعین چیز جس کا تذکرہ ہے۔ یعنی وہ متعین کتاب جس کا اس سیاق وسباق میں تذکرہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ قرآن پاک نے باربار خود کو الکتاب کہا ہے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے پچھلی کتابوں کا تذکرہ بھی ہے، تورات کا بھی ذکر ہے اور انجیل اور زبور کا بھی ذکر ہے۔ ان تین کتابوں کے نام تو لئے گئے ہیں۔ بقیہ کتابوں کے نام نہیں لئے گئے۔ بقیہ کتابوں کا ذکر عمومی انداز میں ہے۔ مثال کے طورپر سورة اعلیٰ میں صحف ابراہیم وموسیٰ کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبَرَاہیْمَ وَمُوْسٰی۔
یعنی یہی پیغام پرانے صحیفو ں میں بھی ہے۔ ابراہیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔
اب جہاں تک حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا تعلق ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے خامس خمس یعنی عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں مراد ہیں جن کو تورات کہا جاتا ہے۔ اگرچہ تورات کو کہیں بھی قرآن میں صحیفے نہیں کہا گیا۔ اس لیے قطعی طورپر ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحیفے جو یہاں کہاگیا ہے ان سے مراد تورات ہی ہے یا کوئی اور صحیفے مراد ہیں۔ غالب خیال البتہ یہی ہے کہ اس سے تورات مراد ہو۔ لیکن حضرت ابراہیم کے صحیفے، جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم پر بھی صحیفے یا کتابچے الگ الگ اجزاء، سورتوں یا پمفلٹوں کی شکل میں اتارے گئے تھے۔ جن کا قرآن پاک کی ان آیات میں ذکر ہے۔ یقیناً یہ صحیفے ان تین مشہور کتابوں کے علاوہ ہیں۔
قرآن مجید میں ایک جگہ پرانی کتابوں کا عمومی انداز سے ذکر کیاگیا ہے:
وَاِنَّہ‘ لَفِی زُبُرِالْاَوَّلِیْن۔
اور یہی پیغام پہلے لوگوں کی (پرانی) کتابوں میں بھی بیان کیا گیا تھا۔ گویا کچھ اور قدیم اور پرانی کتابیں بھی ایسی تھیں جو اللہ نے پہلے اتاری تھیں جن کے ناموں اور مندرجات کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس اجمال کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے جو مسند امام احمد بن حنبل میں بیان ہوئی ہے۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان میں سے 315صاحب کتاب تھے۔ اس طرح گویا کتابوں کی تعداد 315کے لگ بھگ تھی۔ لگ بھگ اس لیے کہا گیا کہ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک سے زائد پیغمبروں کو دی گئیں۔ اس اعتبار سے کتابوں کی تعداد بہرحال سینکڑوں میں ضرور ہو گی۔ کتنی ہو گی یہ ہم قطعیت سے نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ان کتابوں کا اجمالی ذکر آیا ہے، اور ایک صاحب ایمان کے لئے ا ن سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں چاہے ان کے نام ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں، چاہے ان کی تفصیلات ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔ یہ بات اسلامی عقیدہ کا جزو ہے جس کو ماننا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔
ان کتابوں کے لئے قرآن پاک میں دو الفاظ استعمال ہوئے اور ان دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن پاک کے اس نام ” الکتاب“ سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ان سب کتابوں کے لئے جن کی تعداد تین سو پندرہ کے لگ بھگ ہے قرآن میں کئی جگہ کتب (کتابیں) کا لفظ بصیغہ جمع استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات میں ارشاد ہوا ہے :
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَأئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ۔
یعنی رسول اللہ اور سب اہل ایمان اللہ، اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اور اس کے رسالوں پر ایمان لائے ہیں۔
یہاں کتب (کتابوں، بصیغہ جمع) سے مراد وہ ساری کتابیں ہیں جو اللہ نے اتاریں، بشمول قرآن مجید۔ یہاں اللہ رب العزت نے کتب کا لفظ استعال کیا ہے جو جمع کے لئے ہے یعنی بہت ساری کتابیں، لیکن ایک دوسری جگہ پہلی تمام کتابوں کے لئے ” الکتاب“ کا لفظ (بصیغہ واحد) استعمال کیا گیا ہے۔ سورة مائدہ کی آیت 48میں جہاں قرآن مجید کا تعارف کرایا گیا ہے وہاں فرمایا :
مُصَدِّقًالِّمٰا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ۔
کہ قرآن اپنے سے پہلے آنے والی ” الکتاب“ کی تصدیق کرتا ہے اور اس کا محافظ اور اس پر حاوی ہے۔
یہاں بھی دونوں صیغے مفرد کے ہیں۔ اگرچہ کتابیں جن کی طرف اشارہ مقصود ہے بہت سی ہیں، لیکن الکتاب کا لفظ اور علیہ کی ضمیر دونوں صیغہ واحد میں استعمال ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن نے بہت سی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد جیسا کہ ہم نے دیکھا سینکٹروں میں ہے۔ پھر الکتاب اور علیہ دونوں کے لئے صیغہ مفرد کیوں استعمال کیا گیا۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ قرآن کو بھی الکتاب کہا گیا اور پچھلی ساری کتابوں کو بھی مجموعی طور پر الکتاب کہا گیا؟آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ صیغہ جمع میں الکتب کا لفظ ہو یا صیغہ واحد میں الکتاب کا لفظ ہو درست ہیں۔
ان میں نہ کوئی تعارض ہے نہ کوئی تضاد، بلکہ اس اسلوب بیان سے ایک چیز کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے اس کا ارشاد ہے کہ مَایُبَدِّلَالْقَوْلَ لُدَی (میرے ہاں بات بدلتی نہیں ہے)جو بات اس نے پہلے دن کہہ دی تھی وہی بات اس نے بعد میں بھی کہی۔ جو تعلیم اس نے حضرت موسیٰ کو دی تھی وہی تعلیم حضرت عیسیٰ کو بھی دی، اور جو تعلیم حضرت عیسٰی کو دی وہی ہمارے نبی کو بھی دی۔ لہذااللہ کی تعلیم میں کبھی کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ اس نے پہلے دن بھی توحید کی تعلیم دی تھی، رسالت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا تھااور آخرت پر ایمان کا سبق دیا تھا،مکارم اخلاق کی اور برے کردار سے بچنے کی تعلیم پہلے بھی دی تھی اور انہی چیزوں کی تعلیم آج بھی دی۔ تفصیلات میں جو فرق نظر آتا ہے وہ لوگوں کے اپنے حالات بدلنے کی وجہ سے ہے۔ جو ں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی اسی لحاظ سے تعلیم کی تفصیلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن دین کی جو بنیادی تعلیم روز اول تھی وہ ہر زمانے میں ایک ہی رہی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ نے جتنی کتابیں اتاریں ان سب کو آپ ایک کتاب کہہ سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ ان کا مصنف ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، کہ لوگ اچھے انسان بن جائیں، آخرت میں ان کو فلاح حاصل ہو اور وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل ہو جائیں۔ یہی مقصد وحید تھا ان سب کتابوں کے اتارے جانے کا۔ ان میں سے ہر کتاب کا سبق یہ تھا کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑے، ایمان اختیار کرے، تقویٰ کا رویہ اپنائے، اور اعمال صالحہ پر کاربند ہو۔ اس اعتبار سے ان سب کتابوں کو ” ایک کتاب“ کہا جا سکتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک مصنف آج اردو میں ایک کتاب لکھتا ہے جس میں وہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے باشندے اچھے انسان کس طرح بنیں، اچھا اخلاق ان میں کیسے آجائے، کردار کی تعمیر کیسے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں دلائل دیئے جاتے ہیں، مثالیں دی جاتی ہیں اور تعمیر کردار کا پیغام دیا جاتا ہے۔ فرض کیجئے وہ کتاب بہت مقبول ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بیرون ملک مثلاً بنگلہ دیش کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کے لئے بھی تیار کر دیا جائے۔ اب یہ مصنف جو اتفاق سے بنگالی زبان بھی جانتا ہے اس کتاب کے مضامین کو بنگالی زبان میں بھی شائع کراتا ہے۔ لیکن بنگالی ایڈیشن میں وہ مصنف ان مقامی حوالوں اور مثالوں کو بدل دیتا ہے جن کا تعلق صرف پاکستانی معاشرہ سے تھا، اور پاکستانی لوگ ہی ان مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں مثلاً پاکستانی ایڈیشن میں کسی سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کا ذکر ہو سکتا ہے، لیکن بنگالی ایڈیشن میں اس سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کے بجائے فرخاڈیم کا حوالہ لکھا جاتا ہے، جس سے وہ لوگ نسبتاً زیادہ مانوس ہیں۔ یہاں بلوچستان کے حوالے سے اگر اونٹوں کا ذکر ہے تو بنگالی ایڈیشن میں کشتیوں کی مثال دی جائے گی۔ اسی طرح یہاں کی مشہور شخصیتوں کے حوالوں کی جگہ بنگلہ دیش کی شخصیتوں کا حوالہ دیا جائے گا جسے وہ لوگ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
اسی طرح اب یہ کتاب ترکی کے لوگوں کے علم میں آئی اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کیلئے بھی شائع کر دیا جائے، اب اس مصنف نے ترکی کے حوالے، شخصیتیں اور مقامات کا ذکر کرکے وہ کتاب ترکی کے لئے تیار کر دی۔ اب دیکھاجائے تو کتاب کا بنیادی پیغام کہ انسانوں کو کس طرح بہتر انسان بنایا جائے وہ تو ایک ہی ہے، خواہ وہ پاکستانی ہوں، بنگالی ہوں، یا ترکی ہوں۔ بنیادی اخلاقی تعلیمات سب کے لئے ایک ہی ہیں۔ صرف مثالیں، حوالے وغیرہ مختلف ہیں۔ اب چونکہ مصنف بھی ایک ہی ہے، کتاب بھی ایک ہی ہے، پیغام بھی ایک ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں اس لئے کہ وہ تین مختلف علاقوں اور تین مختلف زبانوں میں لکھی گئیں۔
قریب قریب یہی معاملہ بلا تشبیہ کتب سماویہ کا بھی سمجھنا چاہیے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید نے ان ساری کتابوں کو کتابیں بھی قرار دیا، اور ایک الکتاب بھی قرار دیا ہے۔ الکتاب وہ سب اس اعتبار سے ہیں کہ ان کا بھیجنے والا ایک، ان کا پہنچانے والا ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، اور ان سے بالآخر جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ایک، اسی طرح ان کو الگ الگ کتابیں بھی قرار دیا گیا، اس اعتبار سے کہ وہ مختلف انبیاء پر اتاری گئیں، مختلف زبانوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف علاقوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف اوقات میں ان کو اتارا گیا، ان اسباب کی بنیاد پر ان کو جداگانہ کتابیں بھی کہا جا سکتا ہے۔
اب آپ دیکھئے کہ قران مجید یہاں جب اپنے آپ کو الکتاب کہتا ہے تو وہ گویا دو باتیں کہتا ہے۔ ایک تو وہ اپنی ایک بنیادی صفت کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس وقت یہ اسی طرح کی الکتاب (دی بک) ہے جس طرح ایک زمانہ میں تورات الکتاب تھی یا انجیل الکتاب تھی۔ یعنی اللہ کی مرضی کی واحد ترجمان اور اس کے قانون اور نظام کا واحد اور قطعی ماخذ۔ دوسری بات جو اس پہلی بات سے آپ نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اب رہتی دنیا تک کے لئے یہی الکتاب ہے۔ اس لیے کہ اس کو لانے والا خاتم الانبیاء ہے اور جس امت پر یہ اتاری گئی و ہ خاتم الامم ہے،لہذا لا محالہ اس کو بھی خاتم الکتب ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ جہاں الکتب (کتابوں) کا ذکرکرتا ہے وہاں ایک تو اشارہ پچھلی کتابوں کی طرف ہے، قرآن ان سب کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کا سارا پیغام درست تھا۔ اس لیے کہ ہم ہی نے ان کو بھی اتار ا تھا، ہم اس پہلی بات کی آج تصدیق کرتے ہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ وہ صحیح بات تھی اورآج بھی وہی بات کہتے ہیں جو پہلے کہی تھی۔ گویا مصنف خود یہ کہہ رہا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اگلی صفت یہ بتائی کہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مہیمنا علیہ بھی ہے، یعنی یہ اس سابقہ کتاب(یا کتابوں) پر اس طرح حاوی ہے کہ اس کے جو بنیادی عناصر ہیں یہ ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور گویا اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔
عربی زبان میں بڑے جامع قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو مفہوم کو اس طرح اداکرتے ہیں کہ اور کسی زبان میں وہ مفہوم اس جامعیت کے ساتھاادا نہیں ہوتا۔ ”مہیمن“ کہتے ہیں اس طرح حاوی ہو جانے کو جس طرح وہ مرغی کہ جب کوئی چیل یا کوا اس کے بچوں پر جھپٹنے لگے تو وہ پر پھیلا کر اپنے سارے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر ایسے بیٹھ جاتی ہے کہ کوئی بچہ اس کا باہر نہیں رہتا، اور یوں وہ اپنے سب چوزوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے۔ اس کیفیت کو ”مہیمن“ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی قرآن میں ”مہیمن“ آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس طرح اپنے قبضہ اور حفاظت میں لیے ہوئے ہے کہ کوئی قوت ایسی نہیں ہے کہ اس کی کائنات میں دخل اندازی کر سکے یا خالق کائنات کے کام میں مداخلت کر سکے۔ قرآن پاک کیلئے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا صاف مفہوم یہ ہے کہ قرآن پاک پچھلی آسمانی کتابوں میں دی گئی تعلیمات کا اس طرح محافظ ہے اور ان کے عطر اور جوہر کو اس نے اس طرح اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے کہ کوئی اس میں دخل اندازی کرکے اس کو مٹا نہیں سکتا۔
لوگوں نے تورات کو مٹا دیا، انجیل کو مٹا دیا، دیگر کتابوں میں ملاوٹیں کر دیں۔ لیکن تورات میں کیا تھا آج ہمیں معلوم ہے، اس لیے کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کہا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔ زبور میں جو پیغام دیا گیا تھا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن مجید محفوظ ہے لہذا ساری کتابوں کی بنیادی تعلیم بھی محفوظ ہے اور یوں ہر نبی نے جو تعلیم دی وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی ہے۔
قرآن میں یہ جو باربار کہا گیا کہ فلاں نبی کا ذکر کرو، فلاں نبی کا ذکر کرو، یہ اس لیے نہیں ہے کہ بلاوجہ قصے سنانے مقصود ہیں۔ بلکہ یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ہر علاقہ میں، ہر زمانہ میں، ہر نبی نے یہی بنیادی تعلیم دی ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی طرح آخرت، رسالت اور مکارم اخلاق کے متعلق ایک جیسی تعلیم دی گئی۔ اس لیے الکتاب کا لفظ قرآن پاک کے لئے بھی استعمال ہوا اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ جس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کتاب وہ واحد کتا ب ہے جو پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان پرانی کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو کچھ ہے وہ اب اس کتاب میں موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب یہی واحد کتاب ہے جو ان ساری کتابوں کی قائم مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان کتابوں کے صرف نام اور حقیقت پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ اتاری گئی تھیں،تو وہ صحیح تھیں، اور جس زمانے کے لئے وہ اتاری تھیں اس وقت تک کے لئے صحیح تھیں۔ ان سب کی تعلیم اور خلاصہ کے طور پر اب اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہ ہے مفہوم الکتاب کا جو قرآن پاک کے نام کے طورپر کئی مقام پر آیا ہے۔
اس کتاب کا تیسرا اہم اور معنی خیز نام الفرقان ہے
سورة فرقان کا آغاز ہی اس اعلان سے ہوتا ہے کہ وہ ذات انتہائی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمائی۔ عربی زبان میں فرقان مصدر کا وزن ہے اور عربیت کے قاعدہ سے اگر مصدر کے وزن کو کسی صفت کے مفہوم میں استعمال کیا جائے تو اس میں دوام اور تسلسل کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے فارق اور فاروق سے مراد وہ چیز یا وہ فرد ہے جو کوئی سی دو چیزوں کے درمیان فرق کرتا ہو۔ فاروق میں مبالغہ کا مفہوم بھی موجود ہے اور اصطلاحاً فاروق سے مراد وہ ہستی یا شخصیت ہے جو حق وباطل کے درمیان فرق کردے۔ جو جھوٹے اور سچے کو الگ الگ کر دے، جو کھرے اور کھوٹے کو جداجدا کر دے۔ فرقا ن کا بھی یہی مفہوم ہے۔ لیکن اس میں مبالغہ کے ساتھ ساتھ دوام اور تسلسل کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ لہذا فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق وباطل میں دائمی طورپر تمیز کر سکے اور کھرے کھوٹے کو الگ الگ کرکے یہ بتا سکے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ گویا فرقان سے مراد وہ دائمی کسوٹی ہے جو پرکھ کر یہ بتا سکے کہ سونا کھرا ہے کہ کھوٹا۔
قرآن مجید نہ صرف فرقان ہے بلکہ ”الفرقان“ ہے، یعنی وہ واحد اور مخصوص کسوٹی جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ الفرقان کے آجانے کے بعد اب کسی فارق یا کسی اور فرقان کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق وباطل کی واحد کسوٹی یہی الفرقان ہے۔ اب یہی الفرقان وہ ”المیزان“ ہے جس پر تول کر دیکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا ہے اور کون ہلکا ثابت ہوتا ہے۔ اب جو کچھ اس دائمی کسوٹی کی پرکھ پر پورا اترتا ہے وہ صحیح اور قابل قبول ہے، اور جو پورا نہیں اترتا وہ غلط اور ناقابل قبول ہے۔ یہ ایک فولادی چوکھٹا ہے جس سے کسی بھی چیز کا صحیح اور مکمل ہونا جانچا جائے گا، جو جتنا پورا ہے اتنا مکمل ہے، اور جو جتنا جھوٹا ہے اتنا کھوٹا ہے۔ یہ سارے مفاہیم الفرقان کے لفظ میں شامل ہیں۔
اس کتاب کا چوتھا نام” الذکر“ ہے
ذکرکے معنی یاددہانی کے ہیں۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں قرآن مجید کو” الذکر“کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ سورة حجر کی آیت 9 میں جہاں قرآن پاک کی حفاظت کا ذکر ہے وہاں الذکر ہی کا نام استعمال فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِناّٰ لَہ‘ لَحَافِظُونَ۔
کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
یاد دہانی کالفظ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اگر آپ پہلی مرتبہ کسی کو کوئی خط لکھیں یا پہلی مرتبہ کسی سے کوئی سوال، مطالبہ یا درخواست کریں تو آپ اس کو یاددہانی کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے۔ یاددہانی اس صورت میں ہوتی ہے جب آپ وہ بات پہلے کہہ چکے ہوں۔ کوئی بات، تحریر یا خط اگر ایک بار بھیجا جا چکا ہو اور اس پر عمل نہ ہوا ہو، یا اس کو غلط سمجھا گیا ہو یا اس میں کسی نے ردوبدل کر دی ہو یا وہ سابقہ تحریر سرے سے گم ہو گئی ہو تو پھر یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
قرآن مجیداس اعتبار سے ایک یا ددہانی کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ پچھلی تمام کتابوں کی آخری، حتمی، قطعی اور مکمل یاد دہانی ہے۔ قرآن مجید چونکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور قرآنی وحی کو سابقہ کتابوں کی وحی کا ہی
تسلسل قرار دیتا ہے اس لیے اس کی نوعیت دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے ایک یاددہانی ہی کی ہونی چاہیے۔
پہلے کہا جا چکا ہے کہ قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے بنیادی اور اساسی پیغام پر حاوی ہے۔ قرآن کا یہ حاوی ہونا خود ایک مسلسل یاد دہانی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ذکر کے معنی یاد دہانی کے علاوہ کسی چیز کو زبانی یاد کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن مجید اس اعتبار سے بھی ”الذکر“ ہے کہ دیگر آسمانی کتابوں کے برعکس یہ واحد کتاب ہے جس کو حفاظت کی خاطر کروڑوں انسانوں نے کاغذی سفینوں کے ساتھ ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رکھا۔ قرآن مجید کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کو اس محبت، عقیدت، احترام، اہتمام اور انتظام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر کسی کتاب پر” الذکر“ کالقب صادق آسکتا ہے تو وہ یہی کتاب حکیم ہے۔
یہ چار تو وہ نام ہیں جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں اور اس کتاب کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے صفاتی نام بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً قرآن پاک میں استعمال ہوئے ہیں اور اس کتاب کی مختلف حیثیتوں کو اور مختلف صفتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ جن کا اندازہ سینکٹروں میں ہے۔ یہ ساری قرآن کی صفتیں ہیں یعنی یہ وہ کتاب ہے جو سراپا حکمت ودانائی ہے، جو عظیم الشان ہے، جو بزرگی اور برتری والی ہے۔ اس طرح دیگر صفات قرآن مجید کی مختلف حیثیتوں اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment