Tuesday 28 April 2009

تفسیرسوره حمد قرآن کریم

تفسیر قرآن کریم

تالیف: محسن علی نجفی

تفسیر سوره حمد

بسم الله الرحمن الرحيم(1)


الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (7)


تفسیر سوره حمد

یہ سورہ قرآن کریم کا افتتاحیہ اور دیباچہ ھے۔ اہل تحقیق کے نزدیک قرآنی سورتوں کے نام توقیفی ھیں یعنی خود رسول کریم (ص) نے بحکم خدا ان کے نام متعین فرمائے ھیں ۔اس سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ قرآن عہد رسالت مآب (ص) میںھی کتابی شکل میں مدون ھو چکا تھا، جس کا افتتاحیہ سوره فاتحہ تھا۔ چنانچہ حدیث کے مطابق اس سورے کو فَاتِحَةُ الْکِتَابِ ” کتاب کا افتتاحیہ “ کھا جاتا ھے۔

مقام نزول

سوره حجرمیں ارشاد ھوتا ھے :

وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ۔ [1]

اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دھرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ھے۔

سبع مثانی سے مراد بالاتفاق سوره حمد ھے اور اس بات پر بھی تمام مفسرین متفق ھیں کہ سوره حجر مکی ھے۔ بنابریں سورہٴ حمد بھی مکی ھے۔ البتہ بعض کے نزدیک یہ سورہ مدینہ میں نازل ھوا۔

تعداد آیات

تقریبا تمام مفسرین کا اتفا ق ھے کہ سوره حمد سات آیات پر مشتمل ھے لیکن اس بات میں اختلا ف ھے کہ سو رہ حمد کا جزوھے یا نھیں؟بسم اللّٰہکو سورے کاجزو سمجھنے والوںکے نزدیک صراط الذینسے آخر تک ایک آیت شمار ھوتی ھے اورجو لوگ اسے جزونھیں سمجھتے وہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کو ایک الگ آیت قراردیتے ھیں۔

مکتب اہل بیت علیہم السلام میں بسم الله الرحمن الرحيم سوره توبہ کے علاوہ تمام سورتوں کا جزو ھے۔

فضیلت

سورہٴ فاتحہ کی فضیلت کے لیے یھی بات کافی ھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پورے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ھے۔

مروی ھے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے آباء طاھرین کے ذریعے سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ آپ (ع)نے فرمایا:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فاتحة الکتاب کی آیات میں شامل ھے اور یہ سورہ سات آیات پر مشتمل ھے جو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے مکمل ھوتا ھے۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے سنا ھے:

اِنَّ اللّٰہَ عز و جل قَالَ لِیْ: یَا مُحَمد! ” وَ لَقَد آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ“ فَاٴفْرَدَ الْاِمْتِنَانَ عَلَیَّ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَ جَعَلَھَا بِاِزَاءِ الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَ إنَّ فَاتِحَةَ الْکِتَابِ اَشْرَفُ مَا فِیْ کُنُوْزِ الْعَرْشِ[2]

اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد(ص) ! بتحقیق ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ھے۔ پس اللہ نے مجھے فاتحة الکتاب عنایت کرنے کے احسان کا علیحدہ ذکر فرمایا اور اسے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا۔ بے شک فاتحة الکتاب عرش کے خزانوں کی سب سے انمول چیزھے۔

آیت

آیت سے مراد ” نشانی“ ھے۔ قرآن مجید کی ھر آیت مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ھے۔ اسی لیے اسے آیت کھا گیا ھے ۔

آیات کی حد بندی توقیفی ھے،یعنی رسول خدا (ص) کے فرمان سے ہمیں معلوم ھوتا ھے کہ ایک مکمل آیت کتنے الفاظ اورکن عبارا ت پرمشتمل ھے۔ چنانچہ حروف مقطعات مثلاً کھیعصایک آیت ھے، جب کہ اس کے برابر حروف پر مشتمل حمعسق دو آیتیں شمار ھوتی ھیں۔

قرآن مجید کی کل آیات چھ ہزار چھ سو (۶۶۰۰) ھیں[3] قرآن مجید کے کل حروف تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو اکہتر( ۳۲۳۶۷۱) ھیں،جب کہ طبرانی کی روایت کے مطابق حضرت عمر سے مروی ھے : القرآن الف الف حرف یعنی قرآن دس لاکھ (۱۰۰۰۰۰۰) حروف پر مشتمل ھے۔ [4] بنا بریںموجودہ قرآن سے چھ لاکھ چھہتر ہزار تین سو انتیس (۶۷۶۳۲۹) حروف غائب ھیں۔

حق تو یہ تھا کہ اس روایت کو خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیا جاتا، مگر علامہ سیوطی فرماتے ھیں:

وَ قَدْ حُمِلَ ذَلِکَ عَلَی مَا نُسِخَ رَسْمُہ مِنَ الْقُرْآنِ ایضاً اِذ الْمُْوجُوْدُ اَلْآنَ لاَ یَبْلُغُ ھَذَا الْعَدَدَ ۔[5]

روایت کو اس بات پر محمول کیا گیا ھے کہ یہ حصہ قرآن سے منسوخ الرسم ھوگیا ھے کیونکہ موجودہ قرآن میں اس مقدار کے حروف موجود نھیں ھیں ۔

کتناغیرمعقول موٴقف ھے کہ قرآن کا دو تھائی منسوخ الرسم ھو جائے اور صرف ایک تھائی باقی رہ جائے؟!

سورہ

قرآن جس طرح اپنے اسلوب بیان میں منفرد ھے، اسی طرح اپنی اصطلاحات میں بھی منفرد ھے۔ قرآن جس ماحول میں نازل ھو اتھا،اس میں دیوان، قصیدہ، بیت اور قافیے جیسی اصطلاحات عام تھیں، لیکن قرآن ایک ہمہ گیر انقلابی دستور ھونے کے ناطے اپنی خصوصی اصطلاحات کاحامل ھے۔قرآنی ابواب کو ”سورہ“ کا نام دیا گیا، جس کا معنی ھے” بلند منزلت “ ،کیونکہ ھر قرآنی باب نھایت بلند پایہ مضامین پر مشتمل ھے۔

سورہ کا ایک اور معنی فصیل شھر ھے۔ گویا قرآنی مضامین، ھر قسم کے تحریفی خطرات سے محفوظ ایک شھر پناہ کے احاطے میں ھیں۔

۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ بنام خدائے رحمن و رحیم

تاریخی حیثیت

ایسا معلوم ھوتاھے کہ اللہ کے مبارک نام سے ھرکام کا آغاز و افتتاح الٰھی سنت اور آداب خداوندی میں شامل رھا ھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے علم الاسماء سے نوازا گیا۔ حدیث کے مطابق اللہ کی ذات پر دلالت کرنے والے تکوینی اسماء یھی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ھیں۔

حضرت نوح (ع) نے کشتی میں سوار ھوتے وقت فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ مَجْریها وَ مُرْسٰھا [6] حضرت سلیمان(ع) نے ملکہ سبا کے نام اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے کی: اِنَّہ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ [7]حضرت خاتم الانبیاء (ص) پرجب پہلی بار وحی نازل ھوئی تو اسم خدا سے آغازکرنے کاحکم ھوا : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ-[8]

یہ الٰھی اصول ھر قوم اور ھر امت میں رائج ھے:

وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَامَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ .[9]

اور ھر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ھے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں عطا کیے ھیں۔

وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا۔ [10]

اور زیبا ترین نام اللہ ھی کے لیے ھیں پس تم اسے انھی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو ۔

وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَّ اَصِیْلاً۔[11]

اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں۔

قرآنی حیثیت

اس بات پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ھے کہ جزو سورہ ھے۔ مکہ اور کوفہ کے فقھاء اور امام شافعی کا نظریہ بھی یھی ھے۔ عہد رسالت میں بتواتر ھر سورہ کے ساتھ بسم اللّہ کی تلاوت ھوتی رھی اور سب مسلمانوںکی سیرت یہ رھی ھے کہ سوره برائت کے علاوہ باقی تمام سورتوں کی ابتدا میں وہ بِسْمِ اللّٰہ کی تلاوت کرتے آئے ھیں۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بِسْمِ اللّٰہ درج تھی، حالانکہ وہ اپنے مصاحف میں غیر قرآنی کلمات درج کرنے میں اتنی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ قرآنی حروف پر نقطے لگانے سے بھی اجتناب کرتے تھے ۔

عصر معاویہ تک یہ سیرت تواترسے جاری رھی۔ معاویہ نے ایک بار مدینے میں بِسْمِ اللّٰہ کے بغیر نماز پڑھائی تو مھاجرین و انصار نے احتجاج کیا :

یا معاویہ اٴسرقت الصلاة اٴم نسیت اَیْنَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ ۔[12]

اے معاویہ! تو نے نماز چوری کی ھے یا بھول گئے ھو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ کھاں گئی؟

معاویہ اوراموی حکام نے قرآن سے بِسْمِ اللّٰہ کو حذف کیا، لیکن ان کے مصلحت کوش پیروکاروں نے اسے ترک تو نھیں کیا، مگر آہستہ ضرور پڑھا، حالانکہ قرآن کی تمام سورتوںمیں بِسْمِ اللّٰہ کے ایک الگ آیت شمار ھونے پر متعدد احادیث موجو د ھیں:

۱۔ عن طلحہ بن عبید الله قال: قال رسول الله (ص): مَنْ تَرَکَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم فَقَدْ تَرَکَ آیَةً مِنْ کتٰابِ الله [13]

طلحہ بن عبید اللہ راوی ھیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:جس نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ترک کیا، اس نے قرآن کی ایک آیت ترک کی۔

۲۔ حضرت انس راوی ھیںکہ رسول اللہ(ص) ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپ(ص) پر غشی کی سی کیفیت طاری ھوگئی پھر مسکراتے ھوئے سر اٹھایا۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ (ص) آپ (ص)کس بات پرمسکرا رھے ھیں؟ فرمایا :

اُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفَاً سُوْرَةٌ فَقَرَاٴَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔[14]

ابھی ابھی مجھ پر ایک سورہ نازل ھوا ھے۔ پھر پڑھا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر۔

۳۔ ابن عمر راوی ھیں کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ھر سورہ کے ساتھ نازل ھوئی ھے۔ [15]

۴۔حضرت ابن عباس کہتے ھیں :

جب رسول اللہ (ص) کے پاس جبرائیل بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لے کر نازل ھوتے توآپ(ص) کو معلوم ھوجاتاتھاکہ جدید سورہ نازل ھونے والا ھے۔[16]

لیکن بااین ہمہ امام ابوحنیفہ بسم اللہ کو سورہٴ حمد سمیت کسی بھی قرآنی سورے کا جزو نھیں سمجھتے۔ مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ھو القرآن الکریم و روایات المدرستین از علامہ مرتضیٰ عسکری۔

بسم اللہ سوره حمد کی ایک آیت ھے

اس بارے میں متعدد روایات موجود ھیں۔ جن کے راوی درج ذیل جلیل القدرا صحاب ھیں:

۱۔ ابن عباس کہتے ھیں :

رسو ل اللہ(ص) سورہٴ حمد کی ابتدا بسم اللہ سے کرتے تھے۔[17]

حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی مشھور ھے:

شیطان نے لوگوں سے قرآن کی سب سے بڑی آیت چرا لی ھے ۔[18]

۲۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ھیں :

رسول اللہ (ص) سوره حمد میں بسم اللہ پڑھتے تھے ۔[19]

۳۔جابر [20]

۴۔ نافع [21]

۵۔ ابوھریرہ

۶۔ انس بن مالک [22]

بسم اللہ کا بالجھر (آواز سے ) پڑھنا

اس بات پر بھی کبار اصحاب کی متعدد روایا ت موجود ھیں کہ رسول اللہ(ص) بسم اللہ کو آوازکے ساتھ پڑھتے تھے۔

۱۔ ابو ھریرہ راوی ھیں :

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ: ثم عَلَّمَنِی جِبْرائِیْلُ الصَّلَوةَ فَقَامَ فَکَبَّرَ لنا.

رسول اللہ (ص ) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے نماز سکھائی۔پس وہ کھڑے ھوئے،

ثمَّ قَرَاٴَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِیْمَا یُجْھَرُ بِہِ فِی کُلِّ رَکْعَةٍ [23]

تکبیر کھی تاکہ اقتداء کی جائے، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ھر رکعت میں بالجھر پڑھی۔

۲۔ حضرت عائشہ فرماتی ھیں :

رسو ل اللہ(ص) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو بالجھر پڑھتے تھے۔ [24]

۳۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ھے :

رسول اللہ (ص)دونوں سورتوں میں کو بالجھر پڑھتے تھے۔[25]

۴۔ ابو ھریرہ کہتے ھیں :

رسول اللہ(ص) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو بالجھرپڑھتے تھے مگر لوگوں نے اسے ترک کر دیا۔ [26]

۵۔ ابو طفیل امام علی بن ابی طالب (ع)سے روایت کرتے ھیں :

رسو ل اللہ (ص) بسم اللہ کو واجب نمازوں میں بالجھر پڑھتے تھے۔[27]

۶۔ انس بن مالک کہتے ھیں :

میں نے سنا کہ رسول اللہ بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھتے تھے۔ [28]

۷۔ ابن عمر راوی ھیں :

میں نے نبی(ص)،ابوبکر اور عمر کے پیچھے نمازیں پڑھیں ۔وہ سب بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھتے تھے۔[29]

۸۔ انس راوی ھیں:

میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور علی علیہ السلام کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ سب نے بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھا۔ [30]

اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھنے اور اس کے ضروری ھونے پرخصوصی کتب تالیف کی ھیں مثلاً:

۱۔ کتاب البسملة۔ تالیف :ابن خزیمہ متوفی ۳۱۱ ھ

۲۔ کتاب الجھر بالبسملة۔ تالیف : خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ ھ

۳۔ کتاب الجھر بالبسملة۔ تالیف:ابو سعید بو شیخی متوفی ۵۳۶ ھ

۴۔کتاب الجھر بالبسملة۔ تالیف:جلال الدین محلی شافعی متوفی۸۶۴ھ

ملاحظہ ھو: القرآن و روایات المدرستین

تشریح کلمات

اسم : ( س م و) یہ لفظ اگرسمو سے مشتق ھو تواس کا معنی ”بلندی“ ھے کیونکہ ا سم اپنے معنی کو پردئہ خفا سے منصہ شھود پر لاتا ھے اور اگر و س م سے مشتق ھو تو ”علامت “ کے معنی میں ھے۔

اللّٰہ : ( ا ل ہ ) اَ لَہَ یعنی عَبَدَ ۔ الٰہ سے مراد ھے معبود۔ حذف ہمزہ کے بعد ا ل معرفہ داخل کرنے سے اللہ بن گیا ۔یہ اسم ذات ھے جواللہ کی مقدس ذات سے مخصوص ھے۔ ھَلْ تَعْلَمُ لَہ سَمِیًّا [31]کیا اس کا کوئی ہم نام تیرے علم میں ھے۔ “

اَلرَّحْمٰن: ( ر ح م ) رحمت سے صیغہٴ مبالغہ ھے یعنی نھایت رحم کرنے والا ” مھربان “، جس کی رحمت ھرچیز کو شامل ھو۔یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا خصوصی لقب ھے۔

الرَحِیْم: صفت رحم سے متصف ذات جس کی رحمت کثیر ھو۔ یہ ” شریف “ اور ” کریم “ کے وزن پر ھے اور یہ وزن ایسی صفت بیان کرنے کے لیے آتا ھے جو کسی ذات کے لاینفک لوازم میں سے ھو ۔

تفسیر آیات

بِسْمِ اللّٰہِ

بسم اللہ میں باء ” استعانت “کے معنی میں ھے یعنی میں سھارا اور مدد لیتاھوں اللہ کے نام سے ۔

اولاً تو لفظ اللّٰہ ھی اسم اعظم ھونے کے اعتبار سے بہت بڑا سھارا ھے۔ ثانیاً اسم سے مراد مسمی ھوتا ھے۔ جیسے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ [32] میں نام خدا کی نھیں بلکہ ذات خدا کی تسبیح مراد ھے ۔

قرآن کا ھر سورہ انسانیت کے لیے صحیفہٴ نجات ھے۔ اس لیے ھر سورے کی ابتدا بسم اللہ سے ھوتی ھے۔ ”اسم“ ذات کی ترجمانی کرتا ھے،کیونکہ اسم اگر قراردادی اور اعتباری ھو تو اس کے لیے مخصوص الفاظ منتخب کیے جاتے ھیں اور اگر تکوینی ھو تو اس مقصد کے لیے مخصوص ذات کا انتخاب کیا جاتا ھے۔ الفاظ کی شکل میں اسم اعظم بسم اللّٰہ ھے اور ذات کی شکل میں اسم اعظم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی تشریعی و تدوینی کتاب قرآن کو بسم اللّٰہ سے شروع کیا، اسی طرح اپنی تکوینی کتاب ”کائنات“ کی ابتدا ذات محمد(ص) سے کی اور تمام مخلوقات سے پہلے نور محمدی (ص) خلق فرمایا:

اِبْتَدَاٴَ اللّٰہُ کِتَابَہ التَّدْوِیْنِی بِذِکْرِ اِسْمِہِ کَمَا اِبْتَدَاٴَ فی کِتَابَہُ التَّکْوِینِِی بِاِسْمِہِ الْاتَمْ فَخَلَقَ الْحَقِیقَةَ الْمُحَمَّدِیَّةَ وَ نُوْرَ النَّبِیِّ الْاَکْرَمِ قَبْلَ سَائِرِ الْمَخْلُوقِیْنَ [33]

اللہ تعالیٰ نے اپنی تدوینی کتاب کی ابتدا اپنے نام سے کی جیساکہ اس نے اپنی تکوینی کتاب کی ابتدا اپنے کامل اسم سے کی۔ چنانچہ تمام مخلوقات سے پہلے حقیقت اور نور محمدی (ص) کو خلق کیا۔

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

۱۔ قرآن کی ابتدا ذکر رحمت سے ھو رھی ھے۔ خود قرآن بھی اللہ کی عظیم رحمت ھے :

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَاءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ [34]

اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ھیں جو موٴمنین کے لیے تو شفا اور رحمت ھے ۔

خود رسول کریم (ص) بھی اللہ کی عظیم رحمت ھیں:

وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ[35]

اور (اے محمد) ہم نے آپ کو عالمین کے لیے بس رحمت بنا کر ھی بھیجا ھے۔

رحمت کی اس غیر معمولی اهمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ھے کہ خداوند عالم نے رحمت کو اپنی ذات پر لازم قرار دے رکھا ھے:

کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ۔ [36]

تمھارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ھے۔

۲۔رحمٰن ۔بے پایاں رحم کرنے والا۔ مگر یہ نھیں بتایا گیا کہ وہ کس پررحم کرنے والا ھے ۔اس کا راز یہ ھے کہ اگر اس کا ذکر کر دیا جاتا تو خدا کی رحمانیت اسی کے ساتھ مخصوص ھو جاتی جب کہ ذکر نہ کرنے سے اللہ کی رحمانیت کا دائرہ وسیع رہتا ھے۔ لفظ الرحمٰن ہمیشہ کسی قید و تخصیص کے بغیر استعمال ھوتاھے یعنی رحمٰن بالمؤمنین نھیں کھا جاتاکیونکہ خدا فقط موٴمنین پر ھی رحم کرنے والا نھیں ھے :

فَاِنَّ کَلِمَةَ الرَّحْمٰن فیِ جمیع موارد استعمالھا مَحْذُوْفَةُ الْمُتَعَلَّقِ فَیُسْتَفَادُ مِنْھا الْعُمُوْمُ وَ اٴَنَّ رَحْمَتَہُ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ۔[37]

لفظ رحمٰن جھاں بھی استعمال ھوا ھے اس کا متعلق محذوف ھے، اسی لیے اس سے عمومےت کا استفادہ ھوتا ھے کہ اللہ کی رحمت ھر شے کو گھیرے ھوئے ھے۔

۳۔رحمن اور رحیم کو بِسْمِ اللّٰہ جیسی اهم ترین آیت میں باهم ذکر کرنے سے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آجاتی ھے کیونکہ رحمن سے رحم کی عمومیت و وسعت وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ[38]اور میری رحمت ھرچیز کو شامل ھے“ اور رَحیم سے رحم کا لازمہٴ ذات ھونامراد ھے کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ۔[39] چنانچہ اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ھیں۔

۴۔ رحمٰن اور رََحیم ، رحمسے مشتق ھیں،جو احتیاج، ضرورتمندی اور محرومی کے موارد میں استعمال ھوتاھے۔ کیونکہ کسی شے کے فقدان کی صورت میں احتیاج، ضرورت اور پھر رحم کا سوال پیدا ھوتا ھے اور رحم کرنے والا اس چیز کا مالک ھوتا ھے جس سے دوسرا شخص (جس پررحم کیاجاتا ھے) محروم ھوتا ھے۔

بعض علما ء کے نزدیک رحمٰن اسم ذات ھے، کیونکہ قرآن میں بہت سے مقامات پراس لفظ سے ذات کی طرف اشارہ کیا گیاھے :

قُلْ اِنْ کَانَ لِلرحمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ [40]

کہدیجیے : اگر رحمن کی کوئی اولاد ھوتی تو سب سے پہلے میں (اس کی) عبادت کرنے والا ھوں ۔

اس لیے اس لفظ کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز نھیں ھے۔

اللّٰہ تعالیٰ ھر کمال اور طاقت کا سرچشمہ ھے، جب کہ انسان اور دیگر مخلوقات محتاج ا و ر ضرورتمند ھیں۔ کائنات کا مالک اپنے محتاج بندوںکو یہ باور کرا رھا ھے کہ وہ سب سے پہلے رحمٰن و رَحیم ھے، کیونکہ وھی ھر فقدان کا جبران، ھر احتیاج کو پورا اور ھرکمی کو دور کرتا ھے اور اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ھے۔

۵۔ نمازمیں بسم اللہ کو بالجھر (آواز کے ساتھ) پڑھنا مستحب ھے۔ حدیث کے مطابق یہ مومن کی علامت ھے۔

احادیث

امام حعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار (ع)سے روایت فرماتے ھیں:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اٴَقْرَبُ اِلَی اسْمِ اللّٰہِ الاٴَعظَمِ مِن نَاظِرِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِھَا۔[41]

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ کے اسم اعظم سے ایسے نزدیک ھے جیسے آنکھ کا قرینہ سفیدی سے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ھے :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقْرَبُ اِلَی اِسْمِ اللّٰہِ الْاَعْظَمِ مِنْ سَوَادِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِھَ[42]

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم سے اتنی نزدیک ھے جتنی آنکھ کی سیاھی اس کی سفیدی سے قریب ھے ۔

اهم نکات

۱۔ ھر کام کی ابتدا میں اپنے مھربان معبود یعنی اللہ کانام لیناآداب بندگی میں سے ھے۔

۲۔ ھر کام کو نام خدا سے شروع کرنے سے انسان کے کائناتی موٴقف اور تصور حیات کا تعین ھوتا ھے کہ کائنات پر اسی کی حاکمیت ھے۔ لَاْ مُوٴَثِّرَ فِی الْوُجُوْدِ اِلَّا اللّٰہ ھر کام اور ھر چیز میں صرف اسی کا دخل ھو سکتا ھے۔ چنانچہ حدیث میں ھے : کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَاٴْ بِبِسْمِ اللّٰہِ فَھُوَ اَبْتَرٌ[43] یعنی ھر وہ اهم کام جسے اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے اپنے مطلوبہ انجام تک نھیں پہنچتا۔ چونکہ اس کائنات میں اللہ ھی سب کا مطلوب و مقصود ھے اور اس کے بغیر ھرکام ادھورا اور ابتر رہتا ھے، لہٰذا حصول مرام کے لیے اس کے نام سے ابتدا کرناضروری ھے۔

۳ رحمن سے رحمت کی عمومیت اور رحیم سے رحمت کا لازمہٴ ذات ھونا، رحمن کے صیغہٴ مبالغہ ھونے اور رحیم کے صفت مشبہ ھونے سے ظاھر ھے۔

۴۔ اللہ کے اوصاف میں رحمن و رحیم کو سب سے زیادہ اهمیت حاصل ھے۔

۵۔ الله کی رحمانیت سب کو شامل ھے جب کہ اس کی رحیمیت صرف موٴمنین کے لیے ھے۔

تحقیق مزید

الوسائل ۶ : ۵۹ باب ان البسملة آیة الوسائل ۶ : ۱۱۹ ۔ ۷:۱۱۹ ۔ ۷ ۔ ۱۶۹ ۔ مستدرک الوسائل ۴:۱۶۶ ۔ ۴: ۱۸۷۔ ۴: ۱۸۹۔ عوالی اللآلی ۴ : ۱۰۲

الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۲۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ھے جو سارے جھانوں کا پروردگار ھے۔

تشریح کلمات

الحمد: ( ح م د ) ثنائے کامل ۔ اختیاری خوبیوں کی تعریف کرنے کو حمد کہتے ھیں۔ اَلْ کلمہ استغراق ھے۔ یعنی ساری حمد ، کوئی بھی حمد ھو ۔ اس لیے ہم نے اَلْ کا ترجمہ کاملسے کیا ھے ۔

رب : ( ر ب ب )کسی شے کو تدریجاً ارتقائی درجات کی طرف لے جانے والا۔ رب اس مالک کو کہتے ھیں جس کے ھاتھ میں تدبیرامور ھو۔ المالک الذی بیدہ تدبیر الامور۔ العین میں مذکورھے :و من ملک شیئاً فھو ربہ۔جو کسی چیز کا مالک بنے وہ اس کا رب کہلائے گا۔ لسان العرب میں ھے: فَلَان رَبُّ ہَذَا الشیء اَیْ مِلْکُہُ لَہُ فلاں اس چیز کا رب یعنی مالک ھے۔ بادل کورباب کہتے ھیں،کیونکہ اس سے برسنے والے پانی سے نباتات کی نشو و نما ھوتی ھے۔

جو شخص ربکی طرف منسوب ھوا، اسے ربانی کہتے ھیں۔ ارشا د قدرت ھے :

کُوْنُوْا رَبَّانِیّنَ [44]

اللہ والے بن جاؤ ۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ (ع)نے فرمایا :

اَنَا رَبَّانِیُّ ھٰذِہِ الْاُمَّة[45]

میں اس امت کا ربانی ھوں۔

تفسیر آیات

الْحَمْدُ للّهِ

الحمد دو لفظوں اَل اور حمدسے مرکب ھے۔اَل عمومیت کا معنی دیتاھے اورحمد ثنائے کامل کو کہتے ھیں ۔ار دو زبان کی گنجائش کے مطابق اس کا مفھوم یہ بنتا ھے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ھے۔ یعنی اگرغیر خداکے لیے بظاھر کوئی جزوی ثنا اور حمد دکھائی دےتی بھی ھے تو اس کا حقیقی سرچشمہ بھی ذات خداوندی ھے۔ بالفاظ دیگر مخلوقات کی حمد و ثنا کی بازگشت ان کے خالق کی طرف ھوتی ھے :

رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھََدٰی [46]

ہمارا رب وہ ھے جس نے ھر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ۔

تمام موجودات معلول ھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے علت العلل ھے۔ لہٰذا معلول کے تمام اوصافعلت کے مرھون منت ھوتے ھیں۔ یھاںتک کہ ان کا وجود جو ایک کمال ھے، وہ بھی اللہ کی طرف سے ھے۔اسی لیے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ھے کہ آپ (ع) نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنے کے بعد فرمایا:

فَمَا مِنْ حَمْدِ اِلّا وَ ھُوَ دَاخِلٌ فِیْمَا قُلْتُ [47] یعنی ھر قسم کی حمدو ثنا اس جملے اَلْحَمْدُ للّٰہ میںداخل ھے جو میں نے کھاھے۔

رَبِّ الْعَالَمِينَ

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ھے:

شُکْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ تَمَامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.[48]

حرام سے اجتناب کرنا نعمت کا شکر ھے اور الحمد للّٰہ رب العالمینکہنے سے شکر کی تکمیل ھوتی ھے۔

توحید رب تمام انبیاء (ع) کی تبلیغ کا محور و مرکز رھی ھے ، ورنہ توحید خالق کے تو مشرکین بھی قائل تھے ۔ ملاحظہ ھو سورة عنکبوت : ۶۳تا ۶۱۔ سورہ زخرف ۹،۸۷ ۔ لقمان: ۲۵

تربیت یعنی کسی شے کوبتدریج ارتقائی منازل کی طرف لے جانا۔ جب لفظ رب کو بلا اضافت استعمال کیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ھوتا ھے:

قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ .[49]

کہدیجیے: کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا رب بناؤں؟حالانکہ وہ ھر چیز کا رب ھے ۔

البتہ غیر خدا کے لیے اضافت ضروری ھے جیسے رب البیت، رب السفینة وغیرہ۔

لفظ رب اس مالک کے معنی میں استعمال ھوتا ھے، جس کے ھاتھ میں مملوک کے امور کی تدبیر ھو ۔ اسلامی تعلیمات کا مرکزی نکتہ خالق و مدبر کی وحدت ھے کہ جس نے خلق کیا ھے اسی کے ھاتھ میں تدبیر امور ھے : یدبّر الامر من السمآء الی الارض۔

انسانی تکامل و ارتقا کا مربی خدا ھے اور حقیقی مالک بھی وھی ھے اس لیے لفظ رب کومقام دعا میں بہت اهمیت حاصل ھے۔ تمام انبیاء (ع)کی یہ سیرت رھی ھے کہ انھوں نے اپنی دعاؤں کی ابتدا لفظرب سے کی اور اللہ کو ہمیشہ اسی لفظ سے پکارا : رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً [50] رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَ[51] رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ [52]

عالمین:اسم جمع ھے۔موجودات کی ایک صنف پر اس کا اطلاق ھوتا ھے جیسےعالم الانس، عالم الارواح وغیرہ۔ اللہ کے سوا پوری کائنات پر بھی اس کا اطلاق ھوتا ھے ۔

ممکن ھے عَالَمِین سے یھاںپہلا معنی مراد ھو۔ بنابریں رَبِ الْعَالَمِیْنکا معنی یہ ھوا کہ تمام عالمینکا مربی اور ان کی ارتقا کا سرچشمہ فقط اللّٰہ ھے۔ اس جامع اور وسیع نظریہ توحید سے وہ فرسودہ توہمات بھی باطل ھوجاتے ھیں، جن کے مطابق مشرکین تربیت و فیض کا سرچشمہ ایک ذات کی بجائے متعدد ذوات کو قرار دیتے اور ایک رب کی بجائے بہت سے ارباب کو پکارتے تھے

اهم نکات

۱۔ ھر حمد و ثنا ء کی بازگشت اللہ تعالیٰ کی طرف ھے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ

۲۔ تمام کائنات کا مالک اور ھر ارتقا کا سرچشمہ اللہ تعا لیٰ ھے ۔ رَبِّ الْعَالَمِیْن

۳۔ کائنات پر صرف ایک رب کی حاکمیت ھے۔

۴۔ ربو بیت کا تقا ضا یہ ھے کہ مربو ب اپنے رب کی تعریف کرے۔

۵۔ مربی کے بغیرار تقا ئی مرا حل طے نھیں ھو سکتے۔

۶۔ تربیت یعنی حقیقی منزل کی طر ف رہنما ئی سب سے اهم کام ھے۔

۷۔ لفظ عا لمین سے ظا ھر ھے کہ تر بیت کا دائرہ نھا یت وسیع ھے۔

۸۔ وحدت مر بی نظا م کا ئنا ت میںہم آہنگی اور وحد ت ہدف کی ضا من ھے۔

(۳) الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ ۳۔جو رحمٰن و رحیم ھے۔

تفسیر کلمات

وہ اللّٰہ جو لائق حمد و ثنا ، سرچشمہٴ تربیت و ارتقا اور صفت رحمانیت و رحیمیت سے متصف ھے،عالمین کا مالک اور قادر و قھار ھونے کے باوصف رحمن و رحیم بھی ھے ۔

مخفی نہ رھے کہ بِسْمِ اللّٰہ میں رَحْمٰن و رَحِیْم کے ذکرکے بعد اس مقام پر دوبارہ تذکرہ بے جا تکرار نھیں بلکہ بسم اللّٰہ میں اس کا ذکر مقام الوھیت میں ھوا تھا، جب کہ یھاں مقام ربوبیت میں رَحْمٰن و رَحِیْم کا تذکرہ ھو رھا ھے۔

اللہ کی رحمت سے وہ لوگ بھرہ مند ھو سکتے ھیں جو اس کے بندوں پر رحم کرتے ھیں۔ اِرْحَمْ تُرْحَمْ ۔

اهم نکات

۱۔ اللہ تعالیٰ الوھیت کے ساتھ ساتھ ربوبیت میں بھی رَحْمٰن و رَحِیْم ھے۔

۲۔ دوسروں پر رحم کر کے ھی رحمت خداوندی کا اہل بنا جا سکتا ھے۔

4- مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۴۔ روز جزا کا مالک ھے۔

تشریح کلمات

دین: ( د ی ن )جزا اور اطاعت کے معنی میںاستعمال ھوتاھے۔ شریعت کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ھوا ھے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ ھی کائنات کا حقیقی سرپرست، روز جزا و سزا کا مالک اور صاحب اختیار ھے۔ وہ اپنی ملکیت میںجس طرح چاھے تصرف کر سکتا ھے۔ مجرم کوبخش دینا یا اسے سزا دینا اس کے اختیا ر میں ھے۔ وہ روز جزا کا قاضی ھی نھیں بلکہ مالک و صاحب اختیار بھی ھے۔

یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتاھے کہ جب اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ھے تو پھر صرف روزجزا سے اس مالکیت کی تخصیص کیوں کی گئی ؟

اس کا جواب یہ ھے :

اولاً : دنیا میں مجازی مالک بھی ھوتے ھیں جب کہ بروزقیامت کوئی مجازی مالک نہ ھو گا:

یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَ الْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِِّلّٰہِ۔[53]

اس دن کسی کو کسی کے لیے کچھ (کرنے کا) اختیا ر نھیں ھو گا اور اس دن صرف اللہ کا حکم چلے گا۔

ثانیاً: دنیا میں تو اس مالک حقیقی کے منکر بھی موجود ھوتے ھیں، لیکن روز جزا توکوئی لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ[54] کا جواب دینے والانہ ھوگا۔

ثالثاً:دنیا میں اللہ کا صرف تکوینی حکم نافذ تھا،جب کہ تشریعی احکام کی نافرمانی بھی ھوتی تھی، لیکن بروز قیامت ا س کے تمام احکام نافذ ھوں گے، کوئی نافرمانی کی جراٴت نھیں کر سکے گا۔

رابعاً: دنیا میدان عمل اور دار الامتحان ھے، اس لیے بندے کو کچھ اختیارات دیے گئے ھیں، لیکن قیامت،نتیجے اورجزائے عمل کا دن ھے،لہٰذا اس دن فقط اللہ کی حاکمیت ھو گی بندوں کو کوئی اختیار نھیںدیا جائے گا ۔

روز جزا کا تصور انسانی زندگی پر گھرے اثرات مرتب کرتا ھے۔کیونکہ اس عقیدے سے دنیاوی زندگی کو قدر و قیمت ملتی ھے اور اس میں پیش آنے والی سختیوں کی توجیہ میسر آتی ھے۔ زندگی سکون و اطمینان اور صبر و استقامت سے گزرتی ھے اور انسان ناانصافیوں کو دیکھ کر مایوس نھیں ھوتا۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ھے:

لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اٴَنْ یَکُونَ الْقُرْآنُ مَعِی وَ کَانَ ع اِذَا قَرَاٴَ ” مٰالِکِ یَوْمِ الدِّینِ “ یُکَرِّرُھَا حَتَّی کَادَ اٴَنْ یَمُوتَ۔[55]

اگر مشرق و مغرب کے درمیان سب لوگ مر جائیں تو میں وحشت زدہ نہ ھوں گا اگر قرآن میرے ساتھ ھے ۔ جب مالک یوم الدین کی تلاوت فرماتے تو اس کی اتنی تکرار کرتے کہ لگتا تھا جیسے جان جھاں آفریں کے سپرد ھو رھی ھے ۔

اهم نکات

۱۔ قیامت کے دن مالکیت و حاکمیت صرف اللہ کی ھو گی۔

۲۔ انسانی و اخلاقی اقدار کا تعلق روز جزا سے ھے۔

۳۔ اللہ کے ھاں اخروی احتساب کا عقیدہ انسان کو دنیا میں خود احتسابی پر آمادہ کر تا ھے۔

5- إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

۵۔ہم صرف تیری عبادت کرتے ھیں اور تجھ ھی سے مدد مانگتے ھیں۔

تفسیر آیا ت

إِيَّاكَ نَعْبُدُ

کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ھو سکتے ھیں۔ کمال ، احسان، احتیاج اور خوف۔ اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ھیں۔

کمال:اگر کسی کمال کے سامنے ھی سر تعظیم و تسلیم خم ھونا چاھیے تواس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ھی کمال مطلق ھے،جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نھیں۔ تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ اسی کی ذات ھے۔ آسمانوں اورزمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ھیں:

اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا[56]

جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ھے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ھو گا ۔

احسان: اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ھے تویھاںبھی اللہ کی ذات ھی لائق عبادت ھے،کیونکہ وھی ارحم الراحمین ھے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ھے:

کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ[57]

تمھارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دیا ھے ۔

احتیاج: عبادت کا سبب اگر احتیاج ھے تو یھا ں بھی معبود حقیقی اللہ ھی ھے،کیونکہ وہ ھر لحاظ سے بے نیا ز ھے اور کائنات کی ھر چیز اس کی محتاج ھے۔ وہ علت العلل ھے اور باقی سب موجودات معلول ھیںاور ظاھر ھے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ھوتا ھے:

یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ۔[58]

اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ھو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستا ئش ھے۔

خوف:اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ھے توخداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مؤاخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ھے۔ وہ جانتا ھے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ھو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ھو گا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفْسِہ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْھَا ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ۔[59]

جونیکی کرتا ھے وہ اپنے لیے کرتا ھے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ھے اس کا وبال اسی پر ھے،پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

رحمن و رحیم، رب العالمین اور روز جزاء کے مالک پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ عبادت صرف اسی کی ھو،کیونکہ سابقہ آیات میں عبادت کے تمام عوامل بیان ھو چکے ھیں ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ سے کمال خداوندی کی نشاندھی ھوتی ھے یعنی خداوند عالم کمال کی اس منزل پر ھے کہ تمام حمدو ثنا صرف اسی کے شایان شان ھے۔

رَبِّ الْعَالَمِیْن سے عبادت کا دوسرا عامل ” احتیاج “ سمجھ میں آتا ھے۔ یعنی خدا ساری کائنات کا مالک، مربی اور پالنھار ھے باقی سب اس کی تربیت کے محتاج ھیں۔

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمسے تیسرا عامل ” احسان “ آشکارھوتا ھے۔ یعنی خدا کا احسان عام ھے اور ھر چیز کو شامل ھے۔

مٰالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے ضمن میں چوتھا عامل ” خوف “ بیان کیا گیا ھے۔ یعنی قیامت کا یقین اللہ کے عدل سے خوف کا باعث بنتاھے ورنہ ذاتِ الٰھی سے خوف کا کوئی معنی نھیں۔ وہ تو رحیم و غفور ھے۔ بنابریں ھر اعتبار سے عبادت صر ف ا سی کی ھو سکتی ھے :

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوآ اِلآّ اِیَّاہُ۔ [60]

اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ھے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔

عبادت کی تعریف

عبادت کی تعریف اور مفھوم کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ھے اور عبادت کی یہ تعریف کرتے ھیں۔

کسی کے تقرب اور اس کی شفاعت کے حصول کے لیے قلبی تعلق قائم کرن [61]

اس تعریف میں قلبی تعلق اور تعظیم کو عبادت قرار دیا گیا ھے اور اس غلط تعریف کی بنیاد پر یہ لوگ اکثر مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ھیں، جب کہ قرآن میں غیر خدا سے قلبی تعلق اور تعظیم کرنے کی ترغیب موجود ھے :

وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔[62]

جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ھے تو یہ دلوں کا تقویٰ ھے۔

والدین کے بارے میں فرمایا:

وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ۔ [63]

اور مھر و محبت کے ساتھ ان (والدین) کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔

عبادت کی صحیح تعریف قرآنی شواہد کی روشنی میں اس طرح ھے:

کسی کو خالق یا رَب تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا۔

خود لفظ ” عبادت “ سے اس کی تعریف نکل آتی ھے: چنانچہ عبد مملوک کو کہتے ھیں۔ العین میں آیا ھے: العبد المملوک ۔اور مملوک اسے کہتے ھیں جس کا کوئی مالک ھو۔ چنانچہ رَب مالک کو کہتے ھیں۔ العین میں آیا ھے:

و من ملک شیئا فھو ربّہ، لا یقال بغیر الاضافة الا للّٰہ عز و جل ۔

جو کوئی کسی چیز کا مالک بنتا ھے وہ اس کا رَب کہلائے گا اور بغیر اضافہ کے مطلق رب صرف اللہ تعالیٰ کو کھا جاتا ھے ۔

لہذا عبادت رب کی ھوتی ھے، اگر کوئی رب نھیں ھے توکوئی اس کا عبدبھی نھیں ھو گا اور جب عبد نھیں ھے تو عبادت بھی نھیں ھوگی۔ اس مطلب کو اس آیت میں بیان فرمایا ھے :

اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ[64]

اللہ میرا رب اور تمھارا بھی رب ھے، پس تم اس کی عبادت کرو، یھی سیدھا راستہ ھے۔

مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ھو سورہٴ مریم آیت ۶۵، سورہٴ حج آیت ۷۷ ، سورہٴ انبیاء آیت ۹۲۔ ان آیات میں فرمایا ھے کہ چونکہ اللّٰہ ھی تمھارا رَب ھے لہذا تم اسی کی عبادت کرو۔ ان سب آیات سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ عبادت رَب کی ھوتی ھے ۔

چنانچہ بت پرست اپنے بتوں کو رب مانتے تھے پھر ان کی پرستش کرتے تھے، اس لیے مشرک قرار پائے۔ اسی طرح کسی کو اپنا خالق تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا بھی عبادت ھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے:

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج لَآ اِلٰہَ اَلَّا ہُوَ ج خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ[65]

یھی اللہ تمھارا رب ھے، اس کے سوا کوئی معبود نھیں، وہ ھر چیز کا خالق ھے، لہٰذا اس کی عبادت کرو۔

وَ اِیَاکَ نَسْتَعِیْن چونکہ کائنات کا مالک وھی ھے او ر ھر چیز پر اسی کی حاکمیت ھے :

لَہ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ.[66]

آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ھیں۔

لہٰذا جب مومن طاقت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ھوتا ھے تو تمام دیگر طاقتوں سے بے نیاز ھوجاتا ھے اور کسی دوسری طاقت سے مدد لینے کی ضرورت ھی محسو س نھیںکرتا۔

غیر اللہ سے استمداد کا مطلب یہ ھوگا کہ سلسلہٴ استمداد اللہ تعالیٰ پرمنتھی نہ ھو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ھو۔ لیکن اگریہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر منتھی ھوتا ھو تو یہ اللہ سے براہ راست استمداد کے منافی نھیں۔ کیونکہ مخلوقات جس طرح اپنے وجود میںخالق حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نھیں، اسی طرح اپنے افعال میںبھی مستقل نھیں ھیں۔ ان کا ھر عمل فیض الٰھی کا کرشمہ ھوتا ھے۔ بنا بریں اگر خدا نے اپنے خاص بندوں کو وسیلہ بننے کی اجازت دے رکھی ھے تو ان سے استمداد درحقیقت خدا سے استمداد ھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ھے:

وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَاءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُ وا اللّٰہَ تَوَّاباً رَّحِیْمًا.[67]

اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ھو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔

یعنی اللہ سے طلب مغفرت کے لیے رسول (ص) کے دربار میں حاضر ھو کر انھیں وسیلہ بنانا(جاؤک ) اور وسیلہ بن کر رسول کا(ص) ان کے لیے استغفار کرنا ہمارے مدعا کے ثبوت کے لیے کافی ھے ۔

نیز فرمایا :

وَ لَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ وَ رَسُوْلُہ۔ [68]

اور کیا ھی اچھا ھوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انھیں دیاھے اگر وہ اس پر راضی ھوجاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ھے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی۔

نیز فرمایا:

وَ مَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَ

اور انھیں صرف اس بات پر غصہ ھے

رَسُوْلُہ مِنْ فَضْلِہ ۔ [69]

کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں) کو دولت سے مالا مال کر دیا ھے ۔

” بہت کچھ عنایت کرنے“ اور ” دولت سے مالا مال کرنے“ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس بات کا واضح ثبوت ھے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسول(ص) کا اس طرح ذکر کرناکہ ”اللہ اور رسول(ص) نے بہت کچھ دیا ھے“ اور ” اللہ اور رسول(ص) نے دولت سے مالا مال کردیا “ ، شرک نھیں ھے، کیونکہ یہ عطا و بخشش اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر نھیں ھے کہ شرک کے زمرے میں چلی جائے بلکہ یہ تو مِنْ فَضْلِہکے ذیل میں آتی ھے۔

لہٰذا قرآنی تصریحات کے مطابق جب یہ کہنا درست ثابت ھوگیا کہ ”اللہ اور اس کے رسول(ص) نے دولت سے مالامال کردیا “ تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ھوگا کہ ” اے رسول خدا (ص)! ہمیں دولت سے مالا مال فرمادیں۔ “

لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ سے حصول فیض میںوسائل اور وسائط کار فرما ھوتے ھیں، اسی طرح اللہ سے طلب فیض کے لیے بھی اس کے مجاز وسائل اور واسطوں کا ھوناثابت ھے ۔

یھاں ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جب مخلوق سے مدد طلب کرنا شرعاًجائز ھے جیساکہ قرآن نے فرمایا ھے: فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ [70] تم طاقت کے ساتھ میری مدد کرو، نیز فرمایا : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی [71] نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو ، تو صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب کیا ھوا؟

اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ھے کہ مدد سے مراد توفیق ھے اور توفیق کسی فعل کے انجام دینے کے لیے تمام اسباب کی فراهمی کو کہتے ھیں اور صرف اللہ تمام اسباب فراهم کر سکتا ھے۔ اس لیے ھر مدد کو توفیق نھیں کہتے، بلکہ ھر توفیق مدد ھے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ھے کہ مدد سے مراد بدنی طاقت ھے جو صرف اللہ سے حاصل ھوتی ھے۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ھے کہ جو مدد غیر خدا سے لی جاتی ھے وہ درحقیقت اللہ سے ھے، چونکہ وہ اللہ کی مخلوق ھے اور اس نے جو کچھ مدد دی ھے وہ اللہ کی طرف سے ھے۔ چوتھا جواب یہ دیا گیا ھے کہ مدد دینے والا خود اپنے ذات، اپنے وجود، اپنے افعال میں اللہ کا محتاج ھے، لَا حَول وَ لَا قُوة اِلاَّ بِاللّٰہ کا یھی مفھوم ھے ، لہٰذا اس سے مدد لینا خود اللہ سے مدد ھے ۔

اهم نکات

۱۔ جس کی بندگی کی جاتی ھے، مدد بھی اسی سے طلب کی جاتی ھے ۔( نَعْبد۔ نَسْتَعین )

۲۔ استعانت الٰھی کے بغیر عبادت بھی ممکن نھیںھے ۔

۳۔ عبادت اور استعانت کا حقیقی محور صرف ایک ھی کامل ذات ھے۔

۴۔ حر ف خطا ب ” ک “ سے یہ ظاھر ھو تا ھے کہ عبادت و استعانت کے وقت بندہ خود کو بارگا ہ خدا میں حا ضر دیکھے۔

۵۔ نَعْبُدُ سے اجتما عی عبا دت کا تصو ر ملتا ھے۔

۶۔ نَسْتَعِینسے پہلے نَعْبُدُ کے ذکر سے یہ ظاھر ھو تا ھے کہ بندے کو استعانت سے پہلے عبودیت کی منزل پر فائزھونا چاھیے۔

۶۔ استعا نت دلیل احتیا ج ھے۔

6- اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں سیدھے راستے کی هدایت فرم

تشریح کلمات

ہدایت: ( ھ د ی) مھرو محبت سے رہنمائی کرنا۔ اسی لیے بلامعاوضہ اور خلوص و محبت سے دیا جانے والا تحفہ ہدیہ کہلاتا ھے ۔

صراط: ( ص ر ط )اس کا لغوی معنی ” نگلنا “ ھے۔ صحیح راہ پر چلنے والا منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد اس کاحصہ بن جاتا ھے۔ یہ راستہ قوت جاذبہ و ھاضمہ کی طرح سالکین کو اپنی طرف جذب کر کے انھیں اپنا جزو بنا لیتا ھے۔ اسی لیے صحیح راستے کو صراط کھاگیا ھے۔

تفسیر آیات

اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، اس کی ربوبیت اور روز جزاء کے اعتراف اور عبادت و استعانت کا صحیح تصور قائم کرنے کے بعد انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ھوتی ھے، وہ ہدایت و رہنمائی ھے۔ کیونکہ انسان عبث نھیں،بلکہ ایک اعلیٰ و ارفع ہدف کے لیے خلق ھوا ھے۔ اب خا لق پر لازم ھے کہ اس اعلیٰ ہد ف کی طرف اس کی رہنمائی بھی کرے ۔بنا بر ایں خالق کائنات نے خلقت سے پہلے ہدایت کا انتظام فرمایا:

لَوْ لَاکَ لَمَاْ خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ [72]

اے محمد(ص) ! اے پیکر ہدایت!اگر میں نے انسانوں کی رہنمائی و ہدایت کے لیے تجھے نہ چنا ھوتا تو میں افلاک کو پیدا ھی نہ کرتا۔

صراط سے بھی حرکت اور روانی کا تصور قائم ھو جاتا ھے۔ یعنی مومن قدم بہ قدم منزل کی طرف بڑھ رھا ھے:

یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ.[73]

اے انسان! تو مشقت اٹھا کر یقینا اپنے رب کی طرف جانے والاھے پھر اس سے ملنے وا لا ھے۔

مستقیم سے اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ھوتاھے کہ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ھے،کیونکہ” صراط مستقیم“ کے مقابلے میں ” صراط منحرف“ ھے جس سے بچنے کے لیے ہدایت،راہنمائی اور جہد مسلسل کی ضرورت ھوتی ھے۔ چنانچہ اگلی آیت سے یہ بات واضح ھو گی کہمغضوب علیہم اور ضالین کے راستوں سے بچ کر صراط مستقیم کی تلاش اور پھر اس کی حفاظت اور اس پر پابند رہنا کوئی آسان کام نھیں۔

اَوَّلُ مٰا خَلَق اللّٰہُ نُوری۔[74] ا س کائنات میں اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی (ص) کو خلق فرمایا تاکہ راہ ارتقا کے متلاشی اس نور کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکیں۔

اعتراض: ہدایت کی طلب اور خواہش سے تو گمان ھوتا ھے کہ بندہ ابھی ہدایت یافتہ نھیںھوا۔

جواب: اللہ تعالیٰ کی ذات سرچشمہٴ فیض ھے۔ اس کی عنایات غیر منقطع ھوتی ھیں: عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ [75]

وھاں منقطع نہ ھونے والی بخشش ھو گی

اور اللہ کی جانب سے فیض کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ھے جو کبھی منقطع نھیں ھوتا: لَا اِنْقِطَاعَ فِی الفَیْضِ۔ دوسری طرف سے بندہ سراپا محتاج ھے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سرچشمہٴ فیض سے بے نیاز نھیں رہ سکتا۔ ہدایت، رہنمائی اور توفیق اس کے فیوضات ھیں، جو ہمیشہ جاری و ساری رہتے ھیں اور بندہ ھر آن جن کا محتاج ھے۔ ہدایت ایسی چیز نھیںجو خدا کی طرف سے اگر ایک بار مل جائے تو پھر بندہ بے نیاز ھو جاتا ھے، بلکہ وہ ھر آن، ھر لمحہ ہدایت الٰھی کا محتاج رہتا ھے۔

بندے کا ھر آن ھر لمحہ اللہ کی رحمت و ہدایت کا محتاج ھونا اس دعائیہ جملے سے واضح ھو جاتا ھے جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اھل بیت علیہم السلام اپنی دعاؤں میں نھایت اہتمام کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔ رَبِّ لَا تَکِلْنِیْ الیٰ نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَدًا۔[76] میرے مالک! مجھے کبھی بھی چشم زدن کے لیے اپنے حال پر نہ چھوڑ۔بھلاجس سے اللہ نے ھاتھ اٹھایا ھو اسے کون ہدایت دے سکتا ھے:فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ۔[77] یعنی پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نھیں کرتے؟

روایت ھے کہ حضرت علی علیہ السلام اسی آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ھیں:

اَدِمْ لَنَا تَوفِیقَکَ الَّذِی بِہِ اَطَعْنَاکَ فِی مَاضِیِّ اَیَامِنَا حَتَّی نُطِیْعَکَ کَذَلِکَ فِی مُسْتَقْبِلِ اَعْمَارِنَا[78]

خداوندا ! اپنی عطا کردہ توفیق کو برقرار رکھ، جس کی بدولت ہم نے ماضی میں تیری اطاعت کی ھے، تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رھیں۔

دوسرا جواب یہ دیا گیا ھے کہ ہدایت کے درجات ھوتے ھیں اور ھر درجے پر فائز مسلمان بالاتر درجہٴ ہدایت کے لیے دعا کر سکتا ھے ، جیساکہ ارشاد ھے:

وَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمْ تَقْوٰہُمْ [79]

جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کیا۔

اهم نکات

۱۔ بندے کواللہ تعالیٰ کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت، ہدایت کے مسئلے میں ھوتی ھے۔

۲۔ مومن کا تصور حیات ، راہ مستقیم کی رہنمائی کے لیے دعا کرنے سے ھی متعین ھوتا ھے۔

۳۔ مومن انسان اپنی زندگی کی ایک منزل مقصود رکھتا ھے جس تک پہنچنے کے لیے ہدایت اور رہنمائی ضروری ھے۔

۴۔ انسان مومن، متحرک اور رواں دواں ھوتا ھے، اس لیے اسے ھر آن رہنمائی کی ضرورت ھوتی ھے،کیو نکہ اگر انسان جمود و سکوت کی حالت میںھو تو اس کے لیے کسی رہنمائی کی ضرورت پیش ھی نھیں آتی۔

7- صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ.

۷۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا،جن پر نہ تیرا غضب ھوا اور نہ وہ گمراہ ھوئے۔

تشریح کلمات

مغضوب: (غ ض ب )خون قلب کا جوش مارنا۔ ارادہٴ انتقام۔ غضب الٰھی سے مراد صرف انتقام ھے۔

ضالین: (ض ل ل) ضلال، ہدایت کی ضد ھے۔ یعنی سیدھے راستے سے ہٹنا۔ ضال اسم فاعل ھے جس کی جمع ضالین ھے۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں اسوہ کا ذکر ھے، جسے نمونہ عمل بنانا ھے اور دو انحرافی راستوں کا ذکر بھی ھے، جن سے برائت اختیار کرنا ھے۔

گویا تولیٰ اور تبریٰ کے بغیر کوئی نظریہ قائم نھیں ھو سکتا اور نہ ھی جاذبہ و دافعہ کے بغیر کوئی نظام برقرار رہ سکتا ھے۔ لہٰذا ہدایت و نجات کے لیےمنعم علیھم” جن پر خدا کی نعمتیں نازل ھوئیں“سے محبت اور مغضوب علیہم اور ضالین سے نفرت ضروری ھے۔ جن سے محبت کرنا اور اسوہ بنانا مقصودھے، وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ھیں اور یھی معیار اطاعت ھیں۔

چنانچہ ارشاد الٰھی ھے :

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَ الصّٰالِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا[80]

اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ھو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ھے اوریہ لوگ کیا ھی اچھے رفیق ھیں۔

مغضوب علیھم سے نفرت اور برائت اختیار کرنے کے بارے میں ارشاد ھواھے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ [81]

اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ غضبناک ھوا ھے۔

اور ضالین کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّہٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ [82]

اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ھی مایوس ھوتے ھیں۔

واضح رھے کہ غَیْر کے مجرور ھونے کی ایک صورت تو یہ ھے کہ ھم کا بدل ھے جو عَلَیْہِمْ میں ھے۔ یعنی غَیْرِ الْمَغْضُوب وھی لوگ ھیں جو اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ھیں۔ دوسری صورت یہ ھے کہ غَیْر، اَلَّذِیْن کا بدل ھے ۔ تیسری صورت یہ ھے کہ غَیْر ، اَلَّذِیْن کی صفت ھے ۔[83] تینوں صورتوں میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ھے وھی صحیح ھے ۔

اهم نکات

۱۔ ہدایت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ھے۔ صِرَا طَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔

۲۔ اللہ کی نعمت سے محر وم لوگ مغضوب یا ضالین (مورد غضب خداوندی یا گمراہ) ھوتے ھیں۔

۳۔ تولی و تبرّیٰ ایما ن کا اهم حصہ ھیں۔

۴۔ تولاّ و تبرّیٰ سے مراد نیکوں کی روش اپنانااور برے لوگوں کی پیروی سے اجتناب برتناھے۔

(اقتباس از: الکوثر فی تفسیر القرآن (جلد اول) (از ۲۰۹ تا ص ۲۳۲) تالیف: محسن علی نجفی)

حواله جات


[1] حجر:۸۷

[2] البیان للامام الخوئی اردو ترجمہ ص ۴۱۸۔ امالی للصدوق ص ۱۷۵ ۔ عیون اخبار الرضا ج ۱ ص ۳۰۲ ۔

[3] الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ۱:۱۳۴

[4] حوا لہ سابق

[5] حوالہ سابق ۱: ۱۴۱

[6] ۱۱ ھود : ۴۱

[7] ۲۷ نمل : ۳۰

[8] علق: ۱

[9] حج : ۳۴

[10] اعراف : ۱۸۰

[11] دھر: ۲۵

[12] مصنف عبد الرزاق ۲: ۹۲۔کتاب الام للشافعی میں مذکورہ عبارت تھوڑے فرق کے ساتھ موجود ھے۔

[13] الدر المنثور۱ : ۲۷ ۔ تذکرة الحفاظ ۹۰ ۔ تقریب التہذیب ۱ : ۳۷۹

[14] صحیح مسلم کتا ب الصلوٰة ۱: ۳۰۰ ۔ سنن ابی داوٴد کتاب الصلوٰة ۱ : ۲۰۸ حدیث ۷۸۴ ۔ سنن بیہقی ۱ : ۴۳

[15] الدر المنثور ۱: ۲۶

[16] مستدرک الحاکم ۱: ۲۳۱

[17] سنن الترمذی ۲:۴۴

[18] سنن بیہقی ۲ : ۵۰

[19] مستدرک الحاکم ۲ :۲۳۲

[20] الدر المنثور ۱: ۸

[21] سنن بیہقی ۲ :۴۷ (۷) حوالہ سابق

[22] صحیح بخاری باب فضائل القرآن

[23] سنن الدار قطنی ۱ : ۳۰۷۔ اسد الغابہ ۲ :۲۲ تقریب التھذیب ۲ :۳۰۳

[24] الدر المنثور ۱ : ۲۸ ۔ سنن الدار قطنی ۱ : ۳۱۱

[25] حوالہ سابق

[26] حوالہ سابق

[27] حوالہ سابق ۱ : ۲۸

[28] حوالہ سابق ۔ مستدرک الحاکم ۱:۲۳۳

[29] الدر المنثور ۱: ۲۸

[30] مستدرک الحاکم ۱ : ۲۳۴

[31] مریم : ۶۵

[32] اعلیٰ : ۱

[33] البیان اردو ترجمہ ص ۴۳۴

[34] اسراء: ۸۲

[35] انبیاء : ۱۰۷

[36] انعام: ۵۴

[37] البیان :

[38] اعراف:۱۵۶

[39] انعام : ۵۴

[40] زخرف : ۸۱

[41] التہذیب باب کیفیة الصلوة ص ۲۸۹

[42] بحار الانوار ۷۵ :۳۷۱ باب ۲۹ خ ۶۱۔ کشف الغمہ ۲ : ۴۳۰ ۔ التھذیب باب ۱۵ ص ۲۸۹ سَوَادِ کی بجائے نَاظِرِ ھے۔

[43] وسائل الشیعة ۷ : ۱۷۰۔ لم یبداٴ کی بجائے لم یذکر ھے ۔

[44] آل عمران : ۷۹

[45] مفردات راغب مادہ ” رب “۔ قال النبی (ص) علیَ رَبَّانِیَّ ھٰذِہِ الٴُامَّة ۔ المناقب ج ۲ ص ۴۵

[46] ۲۰ طہ : ۵۰

[47] کشف الغمة ج ۲ ص ۱۱۸

[48] الکافی ۲: ۹۵ باب الشکر۔ بحار الانوار ۶۸ : ۴۰ باب الشکر

[49] انعام: ۱۶۴

[50] بقرہ ۲ : ۲۰۱

[51] آل عمران ۳ : ۸

[52] بقرہ ۲ : ۱۲۹

تحقیق مزید

مجموعہ ورام ۲ : ۱۰۷۔ الکافی ۶ : ۲۲۳۔ الاستبصار ۱: ۳۱۱

[53] انفطار : ۱۹

[54] المؤمن :۱۶

[55] اصول الکافی ۲ : ۶۰۲۔ کتاب فضل القرآن

[56] مریم :۹۳

[57] انعام: ۵۴

[58] فاطر : ۱۵

[59] جاثیہ :۱۵

[60] اسراء : ۲۳

[61] محمد بن عبد الوھاب ۔ کشف الشبھات

[62] حج : ۳۲

[63] بنی اسرائیل ۲۴

[64] آل عمران:۵۱

[65] انعام : ۱۰۳

[66] زمر : ۶۳

[67] نساء : ۶۴

[68] توبہ : ۵۹

[69] توبہ :۷۴

[70] کہف : ۹۵

[71] مائدہ : ۲

[72] تاویل الآیات الظاھرہ ص ۴۳۰

[73] انشقاق : ۶

[74] بحار الانوار ۱ : ۹۷ و ۱۵ : ۲۴۔ عوالی اللآلی ۴ : ۹۹

[75] ھود ۱۱ : ۱۰۸

[76] اصول الکافی ج ۲ ص ۵۸۱

[77] جاثیہ : ۲۳

[78] بحارالانوار ۲۴ :۹۔ اٴیْ اٴدِمْ لنا توفیقک الذی بہ اطعناک تفسیر امام حسن عسکری (ع) ص ۴۴

[79] محمد : ۱۷

[80] نساء : ۶۹

[81] ممتحنہ:۱۳

[82] حجر : ۵۶

[83] مجمع البیان، ذیل آیت.

تمام شد