Wednesday, 11 August 2010

وحی کی حقیقت اور اہمیت

وحی کی حقیقت اور اہمیت

اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ

”سید حسنین عباس گردیزی“

وحی کا اصطلاحی مفہوم:

لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔

۱دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔

۲ دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیااس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔

لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔

چوتھی صدی ہجری کے اسلامی متکلم شیخ مفید نے بیان کیا ہے:

”واذا اُضیفَ (الوحی) الی اللہ تعالیٰ کان فیما یخص بہ الرسل خاصةً دون من سواہم علی عُرْفِ الاِسْلٰام و شریعة البنی“(۳)

جب وحی کا لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آئے تو اس سے مراد شریعت نبی اور اسلام کے عرف میں انبیاء کے ساتھ مخصوص وحی ہے دیگر معانی ہرگز مراد نہیں ہیں۔

تفسیر المنار کے موٴلف نے مذکورہ مطلب کو یوں بیان کیا:

للوحی معنی عام یطلق علی عدة صور من الاعلام الخفی الخاص الموافق لوضع اللغة ولہ معنی خاص ہو احد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی وغیرھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعدمن کلام اللہ تعالیٰ التشریعی(۴)

وحی کا عام معنی کا اطلاق مخفی طور پر آگاہ کرنے کی مختلف صورتوں پر ہوتا ہے اوراس کا ایک خاص معنی ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے تشریعی کلام کے سوا کسی اور معنی پر نہیں ہوتا۔

عصر حاضر کے مفسر علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:

وقد قرر الادب الدینی فی الاسلام ان لایطلق الوحی غیر ماعند الانبیاء والرسل من التکلیم الالہی(۵)

اسلام میں ادب دینی کا تقاضاہے کہ خدا اور انبیاء کے درمیان گفتگو کے علاوہ کسی اور چیز پر وحی کا اطلاق نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر حسن ضیاء الدین عتر، وحی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

”اقول ومن ھنا نلحظ ان معنی الوحی فی الشرع اخص منہ فی اللغة من جھة مصدرہ وھو اللہ تعالیٰ و من جھة الموحی الیہ و ھم الرسل“(۶)

ہم کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وحی کا شرعی معنی اپنے مصدر یعنی اللہ تعالیٰ اور جن کی طرف یہ وحی کی جاتی ہے یعنی رسولوں کے لحاظ سے اپنے لغوی معنی سے اخص ہے۔

مولانا تقی عثمانی کہتے ہیں:

لفظ’ ’وحی“ اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے(۷)

رائج لطفی نے بیان کیاہے:

کذلک یذکر اللغویون لکلمة الوحی معانی کثیرة ثم غلب استعمال الوحی علی مایلقی الی الانبیاء من عنداللہ(۸)

اس طرح اہل لغت نے لفظ وحی کے بہت سے معنی ذکر کیے ہیں پھراس کااستعمال ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر القاء کیے جانے والے کلام کے لیے غالب ہو گیا۔

معاصر محقق محمد باقر سعید ی وحی کے خاص معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

درنتیجہ واژہ وحی درحوزہ اصطلاح علم کلام و بلکہ فلسفہ دین در قلمر و ادیان توحیدی‘اخص از مفہوم لغوی آن است(۹)

نتیجے کے طور پر علم کلام بلکہ ادیان توحیدی کے افق پر فلسفہ دین میں وحی کا مفہوم اس کے لغوی معنی سے اخص ہے۔ اسی مطلب کو اردو دائرة المعارف اور سعید اکبر آبادی نے ذکرکیا ہے :

وحی کا استعمال اس معنی خاص میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ منقول شرعی بن گیا ہے۔ (۱۰)

یہ لفظ اس معنی خاص میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ یہ ایک شرعی نوعیت اختیار کر گیاہے۔ (۱۱)

اسلامی مفکرین کے علاوہ مستشرقین نے بھی وحی کے خصوصی معنی کو بیان کیا ہے: رچرڈبل مقدمہ قرآن میں لکھتے ہیں:

The verb "awha"and the noun "wahy" have become the technical terms in moslem theology-(12)

یعنی فعل ” اوحی“ اور مصدر ”وحی “ اسلام کے اندر اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے-

منٹگمری واٹ کہتے ہیں:

The verb here translated "reveal"is"awha"which in much of the Quran is a technical expression for this experience of Mohammad-(31)

اس کے مطابق فعل ” اوحی “ اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا ہے بالخصوص قرآن میں یہ لفظ ”وحی محمدی “کے لیے زیادہ آیا ہے وحی کا یہ خاص او ر اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ اس بارے میں علوم اسلامی کے ماہرین نے جو تعاریف کی ہیں ان کی رو سے وحی کے مفہوم کے لیے تین تعبیریں بیان کی گئی ہیں۔

۱ کلام الہی: صحیح بخاری کے شارحین بدر الدین عینی اور کرمانی نے بیان کیا ہے:

واما بحسب اصلطاح المتشرعة: فھو کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ(۱۴)

شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہی کلام ہے جو اس کے انبیاء میں سے کسی پر نازل ہوا ہو۔

راغب اصفہانی کا قول ہے:

ویقال للکلمة الالھیة التی تلقی الی انبیائہ (۱۵)

وحی کے معنوں میں سے ایک وہ کلام الہی ہے جو اس کے انبیاء کی طرف القاء کیا گیا ہے۔

تفسیر المنار کے موٴلف نے وحی کے خاص معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

ولہ (الوحی) معنی خاص ھواحد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی

وغیر ھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعد من کلام اللہ تعالیٰ التشریحی(۱۶)

اس میں انہوں نے وحی کا خاص معنی کلام الہی بیان کیا ہے البتہ تشریعی ہونے کی قید لگائی ہے۔

ڈاکٹر حسن ضیاء نے بھی اصطلاحی مفہوم کی اسی تعبیر کاذکر کیا ہے:

وزبدة القول ان الوحی شرعاً القاء اللہ کلام اوالمعنی فی نفس الرسول بخفاء وسرعة (۱۷)

اس میں انہوں نے اصطلاحی معنی میں تھوڑی سی وسعت پیدا کرتے ہوئے کلام الہی کے علاوہ القاء مفہوم اور معنی کو بھی وحی کا شرعی معنی بتایا ہے:

عصر حاضر کے علماء میں تقی عثمانی اور ذوقی نے اصطلاحی مفہوم کو بالترتیب یوں بیان کیا ہے:

”کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ “

”اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے کسی نبی پر نازل ہو“(۱۸)

” وحی کلام الہی ہے جو عالم غیب سے عالم شہادت کی جانب بذریعہ ایک مقرب فرشتہ کے جنہیں جبرئیل کہتے ہیں رسولوں کے پاس پہنچایا جاتا ہے۔ “(۱۹)

۲ علم و آگاہی اور اس کی تعلیم: مصر کے معروف مفکر محمد عبدہ وحی کے اصطلاحی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وقدعرَ فوہ شرعاَ‘ انہ اعلام اللہ تعالیٰ لنبی من انبیائہ بحکم شرعی و نحوہ(۲۰)

شرعی لحاظ سے وحی کی تعریف یوں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء میں سے کسی کو حکم شرعی اور اس طرح کے دیگر احکام سے آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے۔

علوم قرآن کے ماہر محمد عظیم زرقانی نے وحی کی نہایت جامع تعریف کی ہے۔

علم و ہدایت بلکہ ہر قسم کی آگاہی جو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دینا چاہے شریعت میں اسے وحی کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خارق العادت اور مخفی ذریعے سے ہوتا ہے۔ (۲۱)

المنار کے موئف بھی وحی کو ” انبیاء سے مخصوص علم“ سے تعبیر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔

انبیاء کی جانب وحی الہی انبیاء سے مخصوص علم ہے جو تلاش و کو شش اور کسی غیر کی تعلیم کے بغیر انبیاء کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس علم میں انبیاء کے تفکر اور سوچ و بچار کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ (۲۲)

ایک اور مصری دانشور رائج لطفی اپنے رائے بیان کرتے ہیں:

علی الاصطلاح الشرعی اعلام اللہ تعالیٰ انبیائہ اما بکتاب اوبر سالةِ ملکٍ فی منام او الہام“(۲۳)

” اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کو آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے اس کے مختلف ذرائع ہیں مکتوب شکل میں‘فرشتے کے ذریعے خواب میں یا دل میں بات ڈالنے سے“

برصغیر کے عالم اسلم جیراجپوری بھی وحی کو علوم الہیہ کا نام دیتے ہیں:

اصطلاح شرع میں وحی ان علوم الہیہ کا نام ہے جو ملاء اعلیٰ سے نبی کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں(۲۴)

غلام احمد پرویز کے بقول وحی کااصطلاحی مفہوم علم الہی ہے:وہ لکھتے ہیں:

” وحی کے اصطلاحی معنی ہیں وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا ہے قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی ہیں” خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم“(۲۵)

انہوں نے اصطلاحی معنی کو بہت ہی محدود کر دیاہے ان کی نظر میں فقط وہی علم وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست دیا جائے اس سے فرشتے کے ذریعے سے ملنے والی آگاہی وحی کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے کہ باقی آراء کے خلاف بات ہےکیونکہ اکثر محققین نے وحی کے تینوں ذرائع جو سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں بیان ہوئے ہیں‘ کو اصطلاحی معنی میں وحی کا نام دیاہے۔

برصغیر کے ایک اور دانشور نے وحی کو علم الہی کا نام دیا ہے وہ کہتے ہیں:

” شریعت اسلام کی اصطلاح میں وحی خاص اس ذریعہ غیبی کا نام ہے جس کے ذریعہ غوروفکر کسب و نظر اور تجربہ و استدلال کے بغیر خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل و لطف خاص سے کسی نبی کو کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔ “(۲۶)

ایران کے معاصر محقق ڈاکٹر صالحی کرمانی لکھتے ہیں:

تعلیمی کہ خدا ونداز راھہای کہ بربشر پنہاں است و بطور سریع یعنی برکنار از مقدمات و روش آگاہی ھای بشری بہ پیا مبرمی دھد“ (۲۷)

ان کے بقول وحی وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ مخفی ذریعے سے تیزی کے ساتھ اپنے پیغمبر کو دیتا ہے یہ تعلیم دیگر انسانی ذرائع تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔

ایران کے ایک اور محقق سعیدی روشن بیان کرتے ہیں: ”بنا بر این معنای اصطلاحی وحی در علم کلام عبارت است:

از تفہیم یک سلسلہ حقائق و معارف از طرف خدا وندبہ انسا نہای بر گذیدہ پیا مبران برای ہدایت مردم‘ از راہ ھای دیگری غیراز راھہای عمومی و شناخة شدہ معرفت ہمچون حس و تجربہ وعقل و حدس و شہود عرفانی ‘ تااینکہ آنہاپس از دریافت ‘آن معارف ربہ مردم ابلاغ کنند“(۲۸)

ان کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے حقائق اور علوم کی تفہیم کا نام ہے یہ تفہیم اور تعلیم جانے پہچانے انسانی ذرائع علم (جیسے حواس خمسہ، تجربہ، عقل، گمان، عرفانی مشاہدات،) سے ماوراء ذریعے سے ہوتی ہے اور ان حقائق اور معارف کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہے۔

پاکستان کے محقق شمس الحق افغانی وحی کا اصطلاحی مفہوم یہ ذکر کرتے ہیں:

” وحی کا شرعی معنی الاعلام بالشرع ‘یعنی صرف شرعی احکام بتلانے کا نام وحی ہے“(۲۹)یہ وحی انبیاء علیہم الاسلام سے مختص ہے“(۳۰)

برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:

Most commentators and translators treat most of instances of the words in the Quran as technical(31. ہت سے مفسرین اور مترجمین نے قرآن میں اس لفظ کے استعمالات سے اصطلاحی مفہوم مراد لیاہے۔

اصلاحی مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

The verb here translated "reveal" is "awha" which in mhich of the Quran in a technical expressin for this experience of Muhammad(32)

یعنی وحی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجربے (نبوت)کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کے لیے فقط نہیں آیا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی کے لیے استعمال ہوتا ہے(۳۳)

۳ پیغام الہی: ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:

” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“(۳۴)

انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔

اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔ (۳۵)یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔

بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(۳۶)

یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔

انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔ (۳۷)

جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔ (۳۸)

اور یہ تفاوت بھی وحی کے اسمی اور مصدری معنی کی وجہ سے ہے اور چونکہ اہل لغت نے وحی کے دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ (۳۹)

اس لیے جن علماء کے پیش نظر وحی کا اسمی معنی تھا انہوں نے اس کا اصطلاحی مفہوم ”کلام الہی“ اور”علم و معارف“ بیان کیا اور جن کے سامنے اس کا مصدری معنی تھا انہوں نے اس کا مفہوم ”کلام کرنا“اور ”تعلیم دینا“بتایا ہے پس اصطلاحی مفہوم میں دونوں جہتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

تعبیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے کلام یاکلام کرنے کی تعبیر استعمال کی ہے انہوں نے خود قرآن کے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو وحی کے لیے سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱میں استعمال ہوئے ہیں۔ (۴۰)جبکہ دوسروں نے واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علم،حقائق اور تعلیم کے الفاظ استعمال کیے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے برگذیدہ بندوں سے کلام کرنا انہیں تعلیم دینا ہی ہے انہیں کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ کرنا ہے انہیں آداب زندگی سکھانا ہی ہے اس لیے میری رائے میں تعابیر کا اختلاف مفہوم میں کسی جوہری اور اصلی اختلاف کا باعث نہیں بنتا دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتاہےالبتہ علم اور تعلیم دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔

اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اصطلاح میں:

”وحی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہ مخصوص ،غیر معمولی اور مافوق العادت رابطہ ہے جو بشر کے لیے تمام ذرائع علم(تجربہ،حواس،عقل) سے ماوراء ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت اور ارتقاء کے علوم و معارف اور احکام و قوانین کی تعلیم دینا ہے۔ “

اس مقالے میں وحی کا یہی اصطلاحی مفہوم اور وحی کا مصدری معنی ہی موضوع تحقیق ہے۔

حوالہ جات:

۱ اس تحریر کی گذشتہ قسط کی بحث کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔

۲ العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:

” فاوحت الینا و الانا مل رسلھار و شدھا بالراسیات الثبت

العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:

حتی نحاھم جدنا و الناحی

لقدر کان وحاہ الواحی

(دیوان عجاج،ص۴۳۹)

لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:

وفمدا فع الریان عری رسمھا

خلقا کما ضمن الوحی سلا مھا

۳ مفیدمحمد بن نعمان الشیخ المفید(۵)تصحیح الاعتقاد،المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید،۱۴۱۳ھص۱۲۰

۴ رشید رضا:تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

۵ طباطبائی محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن:ج۱۲ص۳۱۲

۶ ضیاالدین عترحسن ڈاکٹر:وحی اللہ،دعوة الحق مکہ مکرمہ رجب۱۴۰۴ہجریص۵۲

۷ عثمانی محمدتقی:علوم القرآن،مکتبہ دارالعلوم کراچی۱۴۰۸ھ،ص۲۹

۸ جمعہ رائج لطفی:القرآن والمستشرقون،قاہرہ۱۳۹۳ھ

۹ سعیدی روشن محمدباقر:تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت“،موٴسسہ فرہنگی اندیشہ ۱۳۷۵ھ شص۱۷

۱۰ اکبر آبادی سعید احمد:وحی الہی،مکتبہ عالیہ لاہورص۲۵

۱۱ اردو دائرةالمعارف الاسلامیہ:دانشگاہ پنجابلاہورج۱۶ص۳۲۱

۱۲Bell,Richard: Introduction to the Quran;p-32Edinburg 1953-

۱۳Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World; p-13 Edinburg 1969-

۱۴ عینی بدرالدین ابی محمد محمود بن احمد(م۸۵۵) عمدةالقاری لشرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۸کرمانی صحیح البخاری بشرح الکرمانی ،موسسہ المطبوعات الاسلامیہ قاہرہ،الجزالاول :ص۱۴

۱۵ راغب اصفہانی:” معجم المفردات الفاظ القرآن“ص۵۱۵

۱۶ تفسیر المنارج،ج۱۱،۱۷۹

۱۷ وحی اللہ،ص۵۲

۱۸ علوم القرآن،ص۲۹

۱۹ شاہ ذوقی مولانا:القاء الہام اور وحی،اقبال اکیڈیمیلاہورص۱۳

۲۰ عبدہ محمد: رسالة التوحید،مصر۱۳۸۵،ص۱۱۱

۲۱ زرقانی محمد عظیم:مناھل العرفان فی العلوم القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ص۵۶

۲۲ تفسیر المنار، ج۱ص۲۳۰

۲۳ القرآن والمستشر قون، ص قاہرہ۱۳۹۳ھ

۲۴ جیرا جپوری اسلم:تاریخ القرآن ،آواز اشاعت گھر،لاہور ص۱۲

۲۵ پرویز غلام احمد:ختم نبوت اور تحریک احمدیت طلوع اسلام ٹرسٹلاہور۱۹۹۶ءص۲۴

۲۶ وحی الہی ،ص۲۵

۲۷ صالحی کرمانی،محمد رضا ڈاکٹر:درآمدی برعلوم قرآنی،انتشارات جہاد دانشگاہی دانشگاہ تہران،۱۳۶۹ھ،شص۲۵۲

۲۸ تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۷۱۸

۲۹۳۰ افغانی شمس الحق ،علوم القرآن مکتبہ الحسن لاہور،ص۹۶،ص۹۸

۳۱۳۲ Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World-p13&14-Edinburg1969

۳۳ مندرجہ ذیل آیات میں یہ لفظ دیگر انبیاء کی وحی کے لیے آیاہے نساء۱۶۳:اعراف۱۱۷،۱۶۰یونس۲،۸۷:طہٰ۷۷،مومنون۲۷:شعراء۵۲،۶۳:یوسف۱۰۹:نحل۴۳انبیاء۷،۲۵ شوریٰ۳،۵۱:ھود۳۷،۳۶زمر۶۵

۳۴ ۔ حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ء،ص۱۹۱

۳۵ عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج۱،ص۱۸راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص۵۱۵وحی اللہ ص۵۲علوم القرآن ص۲۹القاء الہام اور وحی ص۱۳

۳۶ تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

۳۷ تفسیر المنار،ج۱ص۱۲تاریخ القرآن،ص۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص۲۴ وحی الہی ص۲۵

۳۸ رسالة التوحید،ص۱۱۱، مناھل العرفان فی العلوم القرآن،ص۵۶، القرآن والمستشرقون، درآمدی برعلوم قرآنی،ص۲۵۲، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۷،۱۸۔

۳۹ الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة،تحقیق احمد عبدالغفور عطارج۶،ص۲۵۱۹،داراعلم للملابین،بیروت معجم مقائیس اللغة ج۶۹۳لسان العرب ج۱۵،ص۳۷۹

۴۰ وَمٰا کٰانَ لِبَشَرٍ ان یُکَلَّمَہُ اللّٰہ اِلّٰا وَحْیاً اَوَمِنْ وَرٰاء حِجٰابٍ اَوْیُرْسِلْ رَسُولًا فَیُوحی بِاِذْنِہِ مٰایَشاٰءُ اَنَّہ عَلیٰ حَکِیمٍ

فصل سوم: وحی قرآن میں:

قرآن میں لفظ وحی اور اس کے مشتقات ۷۸ بار استعمال ہوئے ہیں یہ لفظ اسم اور فعل دونوں میں آیا ہے،اسم (وحی)۶مرتبہ استعمال ہوا ہے اورفعل (اُوحی،اَوْحینا،اُوحی،یُوحی)۷۲ مرتبہ آیا ہےقرآن مجید میں یہ لفظ صرف اصطلاحی مفہوم تک محدود نہیں ہے بلکہ لغت کے اعتبار سے وسیع معنی میں بروئے کار لایا گیاہے اصطلاحی مفہوم میں یہ لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے اپنے موارد استعمال میں سے ۶۶ مقامات پر یہ لفظ اپنے شرعی اوراصطلاحی معنی میں آیا ہے اس کے علاوہ یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے ذیل میں اس امر کا جائزہ لیا جاتا ہے

جیش تفلیسی نے لکھا ہے کہ قرآن میں وحی دس معنوں میں آیا ہے:۱۔ خفیہ بات کرنا۲۔ نیچے بھیجنا۳۔ پیغام دینا۴۔ خط لکھنا ۵۔ اشارہ کرنا ۶۔ آگاہ کرنا ۷۔ الہام ۸۔ فرمانبرداربنانا ۹۔ امر کرنا

۱۰۔ وسوسہ شیطان

فخر الدین رازی نے بیان کیا ہے:

”واما الایجاء فقد ورد الکتاب بہ علی معان مختلفة یجمھا تعریف الموحی الیہ بامر خفی من اشارة اوکتابة او غیر ھما و بہذا الفسیر یعد الالھام وحیا“ (۲)

معاصر محققین میں سے جعفر سبحانی نے قرآن میں وحی کے پانچ معانی ذکر کیے ہیں اور ہر ایک کے لیے آیات قرانی پیش کی ہیں انہوں نے ان معانی کا ذکر کیا ہے:

۱۔ ہدایت تکوینی(فصلت۱۲زلزلزلة۵۴)

۲۔ ادراک غریزی (نحل۶۸)

۳۔ القاء برروح (قصص۷،مائدہ۱۱۱،یوسف۱۵،انفال۱۲،انعام۱۲۱،انعام۱۱۲

۴۔ امدادھای غیبی(انبیاء ۷۳)

۵۔ وحی تشریعی جو انبیاء اور رسولوں سے مخصوص ہے (یونس۲،رعد۳۰،انعام۳۰،انعام۱۹،اسراء۳۹،۷۳،۸۶،طہٰ ۷۷،انبیاء اور دیگر بہت سی آیات) (۳)

ہادی معرفت کے بقول ”قرآن“ نے اس لفظ کو چار معنوں میں استعمال کیا ہے:

۱۔ نفس المعنی اللغوی:الایماء ة الخفیہیعنی خود لغوی معنی جو کہ خفیہ اشارہ ہے

۲۔ ترکیز غریزی فطرییعنی جبلت کو ودیعت کرنا

۳۔ الہام نفسی: دل میں بات ڈالنا

۴۔ انبیاء اور رسل کی طرف اللہ تعالیٰ کا القاء(۴)

ڈاکٹر محمود رامیار لکھتے ہیں:

قرآن مجید میں وحی اورایحاء مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ بعض موقعوں پر لغوی معنی سے بہت فرق نظر آتا ہے قرآن میں اس کے لغوی معنی ”مخفی اشارہ“ کا ذکر ہے جیسے سورہ مریم کی آیت خدا اور انسان کے درمیان رابطے کے تین طریقوں کے لیے لفظ وحی کا استعمال ہوا ہےکبھی وحی” جبلت اور فطری شعورباطنی“ ہوتی ہے جیسے سورہ نحل کی آیت۶۸ میں شہد کی مکھی کو وحی کی گئی ہے

یہی وحی جبلت و آسمانوں کے امر میں استعمال ہوا ہے مثلاً سورہ فصلت آیت۱۲اس کو تسخیر بھی کہتے ہیں خدا اور فرشتوں کے رابطے کو بھی وحی کہا جاتا ہےجیسے سورہ انفال آیت۱۲

شیطان کے وسوسے کو بھی بطور خاص وحی کہا گیا ہے سورہ انعام آیت۱۱۲،۱۲۱اور آگے بڑھیں تو برگذیدہ افراد کو بھی وحی ہوتی ہے جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو وحی ہوئی سورہ قصص،آیت۸اور حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو بھی حضرت عیسیٰ کے واسطے سے وحی کا ” اعلان“ہوا(۵)

ان آراء کے بارے میں تجزیے کے طور پر یہ نکات سامنے آتے ہیں

۱۔ تفلیسی نے وحی کے مفہوم اور اس کے مصداق میں فرق نہیں کیا بلکہ مصادیق کو بھی وحی کے مفہوم میں شامل کر دیا ہےجیسے نیچے بھیجنا،فرمانبردار بنانا اور وسوسہ شیطان

۲۔ فخرالدین رازی نے صرف اشارے اور کتابت کوبیان کیا ہے باقی طرق وحی کو ذکر نہیں کیا البتہ الہام کو بھی وحی شمار کیا ہے

۳۔ سبحانی نے بھی زیادہ تر مصادیق وحی کو بیان کیا ہے اور انہیں مفہوم وحی میں شامل کیا ہے جیسے ہدایت،تکونی،ادراک غریزی،امدادھای غیبی

۴۔ ہادی معرفت نے لغوی معانی کے استعمالات کو اچھے طریقے سے بیان کیا ہے

۵۔ ڈاکٹر محمود رامیار کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ” قرآن میں بعض موقعوں پر لغوی معنی سے بہت فرق نظر آتا ہے “ کیونکہ فصل میں وحی کا جو مفہوم متعین ہوا ہے اس کی قدر مشترک ان تمام موارد میں موجود ہے اور لفظ وحی اپنے استعمالات کے تمام موارد میں اپنے لغوی مفہوم سے ہم اہنگ ہے

مزیدیہ کہ انہوں نے بھی زیادہ تر وحی کے مصادیق بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے

جب ہم قرآن میں وحی کے استعمال کا تجزیہ کرتے ہیں تو سب سے زیادہ یہ اپنے اصطلاحی مفہوم میں بروئے کار لایا گیا ہے ان موارد کی تعداد۶۶ہے ایک محقق کے مطابق ان موارد کی تعداد ۷۰ سے بھی زیادہ بتائی ہے

۶۔ شرعی اور اصطلاحی مفہوم میں وحی کا استعمال تمام انبیاء کے لیے ہوا ہے لیکن ان میں اکثریت ایسے مقامات کی ہے جہاں یہ لفظ آنحضرت محمد اور قرآن کے لیے استعمال ہوا ہے

۷۔ قرآن کی وہ آیات جن میں یہ لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوامجموعی طور پر ان کی تعداد ۱۲ہے ذیل میں ہم ان آیات کا جدا جائزہ لیتے ہیں

(۱) فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیہم ان سبحوا بکرة و عشیا

۸۔ پس وہ اپنی محراب سے لوگوں کی طرف نکلااور انہیں اشارے سے کہا صبح و شام خدا کی تسبیح کیا کرواس آیت میں” اوحی“ کا کیا مفہوم ہے اس بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں:

۱۔ بمعنی ”اشارہ کیا“

۲۔ بمعنی ”لکھا“

راغب اصفہانی نے اس آیت میں اوحی کا مفہوم اشادہ کرنا بیان کیا ہے

۹۔ علامہ طبرسی نے بھی”اشارہ کرنا“ معنی کیا ہے البتہ انہوں نے ”قیل“ کے لفظ کے ساتھ دوسرے معنی کو بھی بیان کیا ہے

۱۰۔ ایک اور مقام پر انہوں نے صرف پہلا معنی ہی ذکر کیا ہے

۱۱۔ پس ان کی رائے میں یہاں” اشارہ کرنا“ ہی اوحی کا معنی ہےزمخثری نے الکشاف میں دو مقامات پر اس آیت کا ذکر کرتے ہوئے”اوحی“ کے معنی کو بیان کیا ہے(۱)اوحی:اشارعن مجاھد ویشھدلہ الارمزا وعن ابن عباس کتب لہم علی الارض

۱۲۔ اس مقام پر انہوں نے دونوں معنی ذکر کیے ہیں جبکہ دوسرے مقام پر انہوں نے صرف پہلا معنی ہی ذکر کیا

۱۳۔ اور اولالذکر مقام پر انہوں نے ” اشارہ کرنا“ کے حق میں رائے بھی دی ہے اور اس کی دلیل آیت کا سیاق بیان کیاہےشیخ طوسی نے بھی اوحی کا معنی ”اشارہ کرنا“متعین کیا ہے

۱۵۔ صحیح البخاری بشرح الکرمانی میں امام عبداللہ الیتمی الاصفہانی کا قول نقل کیاگیا ہے اس کے مطابق یہاں اوحی بمعنی” لکھنے“ کے آیاہے

۱۶۔ علامہ طبری نے اپنی تفسیر میں کہا ہے(فاوحی الہیم ان سبحو) بمعنی فالقی ذلک الیھم ایماء والاصل فیہ ماوصفت من القاء ذلک الیھم وقدیکون القاؤہ ذلک الیھم ایماء ویکون بکتاب

۱۷۔ یعنی انہوں نے بھی پہلے معنی کو ہی اوحی کا مفہوم بیان کیاہے

معاصر محققین میں سے تفسیر المنار اور تفسیر المیزان کے مصنفین نے مذکورہ آیت میں اوحی کا معنی ”اشارہ کرنا“ ہی بیان کیا ہے

۱۸۔ ہماری تحقیق کے مطابق اس آیت میں لفظ وحی اپنے لغوی معنی ”اشارہ کرنا“ میں استعمال ہوا ہے اور اپنے لغوی معنی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہےاس کی دلیل آیت کا یہ سباق ہے:

حضرت زکریا نے کہا:میرے پروردگار میرے لیے کوئی نشانی قرار دے ’فرمایا:تو صحیح و سالم ہوتے ہوئے تین رات(دن)لوگوں سے بات نہیں کر پائے گا

۱۹۔ بالکل اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا: زکریا نے عرض کیا پروردگار!میرے لیے کوئی نشانی قرار دےفرمایا‘الاتکلم الناس ثلاثة ایام الارمزا “تو”رمز“ کے علاوہ تینوں لوگوں سے تین دن تک بات نہیں کر سکے گا

۲۰۔ یہ لفظ ”رمز“دلالت کرتا ہے کہ حضرت زکریا نے اپنی قوم کو اشارہ کرکے اپنا مقصد بیان کیا

واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا و من الشجرو مما یعرشون ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللا

۲۱۔ تیرے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں،درختوں میں اور جو عرشے لوگ بناتے ہیں ان میں گھر بنائے پھر تمام پھلوں میں سے کھائے اور جو راستے تیرے پروردگار نے معین کیے ہیں ان میں راحت سے چلے پھرے

اس آیت میں شہد کی مکھی کو کی جانے والی وحی اپنے کس مفہوم میں ہےاس بارے میں علامہ طبری کا قول ہے:

(واوحی ربک الی النحل) بمعنی القی ذالک الیھا فا لھمھا

۲۲۔ یعنی آیت میں مذکو ر پیغام اس کی طرف القاء کیا گیا پس اسے الہام کیا گیا

صاحب الکشاف نے بیان کیا ہے

الایحاء الی النحل: الھاماً والقذف فی قلوبھاو تعلیمھا علیٰ وجہ ھواعلم بہ لاسبیل لاحدالی الوقوف علیہ

۲۳۔ شہد کی مکھی کی طرف وحی کا معنی الہام ،اس کے دل میں ڈالنا اسے ایسے طریقے سے تعلیم دینا ہے جو صرف وہی جانتا ہے

علامہ طبرسی نے کہا

اوحی ربک الی النحل،ای الھمھا الھاما عن الحسن وابن عباس و مجاھد و قیل جعل ذالک فی غرائز ھا بما یخفی مثلہ عن غیرھا

۲۴۔ انہوں نے حسن ابن عباس اور مجاہد سے نقل کیا ہے کہ اوحی کا معنی الہام ہے جبکہ ایک اور قول کا بھی ذکر کیا ہے

ایک اور مقام پر انہوں نے اس معنی”الھام“ متعین کر دیا ہے

۲۵۔ اسی طرح قدماء میں سے ابن قیم جوزی(۲۶)صحیح بخاری(۲۷)اور فخر الدین رازی(۲۸)نے مذکورہ آیت میں وحی کا معنی الہام بیان کیا ہے

المنار کے مصنف مذکورہ آیت میں وحی کا معنی کرتے ہوئے کہتے ہیں:

الوحی فی اللغة یطلقوعلیٰ مایکون غریزة دائمة و منہ قولہ تعالیٰ(۱۶۶۸)

۲۹۔ لغت میں وحی کا اطلاق دائمی عزیزہ پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے

علامہ طباطبائی اسے یوں بیان کرتے ہیں

” واوحی ربک الی النحل“ ای الھمہ من طریق غریزتہ التی اودعہافی بینة

۳۰۔ اوحی بمعنی الہام ہے جبلت کے ذریعے سے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی سرشت میں ودیعت کیا ہے

ایک اور مقام پر وہ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:

فالالہام بالقاء المعنی فی فہم الحیوان من طریق الغریزة من الوحی

۳۱۔ پس الہام یعنی حیوان کی سمجھ میں جبلی طور پر کسی معنی کا ڈالنا یا القاء کرنا وحی ہے”ہادی معرفت قرآن میں وحی کے معانی بیان کرتے ہوئے دوسرا معنی یہ ذکر کرتے ہیں

ترکیز غریزی فطری و ھو تکوین طبیعی مجعول فی جبلة الاشیاء استعارہ من اعلام قولی لا علام ذاتی بجامع الخفاء فی کیفیة الالقاء والتلقی فبما ان الوحی اعلام سری ناسب استعارتہ لک شعور باطنی فطری و منہ قولہ تعالیٰ (النحل۶۸)

۳۲۔ ان کے مطابق یہاں”اوحی“ شہد کی مکھی کی جبلت میں ان امور کو قرار دینے کے معنی میں آیا ہے جن کا آیت میں ذکر ہےچونکہ وحی کا لغوی معنی بات کا پہنچانا ہےیہاں ذاتی خصوصیت کا پہنچانا ہے البتہ ان دونوں میں قدر مشترک ”القاء کا مخفی ہونا موجود ہے اس لیے یہاں لفظ وحی بطور استعارہ استعمال ہوا ہے یعنی اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوا

پیر محمد کرم شاہ نے یہاں وحی کا معنی تسخیر بتایا ہے پھر تسخیر کا یہ معنی کیا ہے:وحی بذریعہ تسخیر یعنی اس چیز کی فطرت اور طبعیت میں کوئی بات ڈال دی گئی ہے جس کی بجا آوری پروہ چیز طبعاً مجبور ہے جیسے شہد کی مکھی

۳۳۔ محمود حجازی (من علماء الازھر)(۳۴)اور محمد عزة دروزة(۳۵) نے مذکورہ آیت میں وحی بمعنی الہام بیان کیا ہےسید شمس الحسن افغانی نے اسے وحی فطری قرار دیا ہے(۳۶)اسی طرح ڈاکٹر رمیار(۳۷)اور جعفر سبحانی(۳۸)نے یہاں وحی کا معنی بالترتیب ”جبلت فطری ”شعور باطنی“ اور ”ادراک غریزی“ قرار دیا ہے

ایک اور معاصر محقق سعیدی روشن نے اسے” حیوان کی جبلت کی تدبیر“ کا نام دیا ہےوہ لکھتے ہیں کہ شہد کی مکھی کے تمام کام تفہیم خاص الہی ہیں جو اس ذات میں ودیعت کر دیئے گئے ہیں اور چونکہ یہ جبلت کا القاء ایک طرح سے اللہ کی طرف سے خفیہ پیام رسانی ہے اس لیے اس پر وحی کے عنوان کا اطلاق ہوا ہے(۳۹)مذکورہ بالا اقوال سے یہ نتیجہ حاصل ہوا ہے کہ اس آیت میں وحی کے دو معنی ہیں

۱۔ جبلت اور فطرت کا قرار دینا۲۔ شہد کی مکھی کے شعور اور فہم میں بات ڈالنا

پہلے معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا استعمال مجازی ہے اور دوسرے معنی کی بناء پر وحی اپنے حقیقی اور لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور زیادہ تر محققین نے اسی کو انتخاب کیا ہے اور”حقیقت مجاز سے اولی ہے“ کے اصول کی بناء پر اس آیت میں وحی کا حقیقی معنی القاء اور الہام ہے

۳۔ اذاو حینا الی امک مایوحیان قذفیہ فی التابوت فاقذ فیہ فی الیم(آیت ۴۰)

اس وقت جب ہم نے تیری ماں کو وہ وحی کی تھی جس کی اسے ضرورت تھی کہ تم اسے صندوق میں ڈال دو اور اس صندوق کو دریا میں بہادو

۴۔ واوحینا الی ام موسی ان ضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم و لا تخافی ولا تحزنی انا رادوہ الیک و جاعلوہ من المرسلین

(۴۱)ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلائے جب تجھے اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور ڈرنا نہیں،نہ ہی غمگین ہونا کیونکہ ہم اسے تیرے پاس لوٹا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے قرار دیں گے

مذکورہ دو آیات میں لفظ وحی اپنے حقیقی اور لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے البتہ اس کے لیے محققین نے تعابیر مختلف استعمال کی ہیںاس بارے میں ہادی معرفت بیان کرتے ہیں:

قرآن میں وحی کا تیسرا معنی”الہام نفسی“ استعمال ہوا یہالہام نفسی وہ باطنی شعورہے جسے انسان اپنے اندر محسوس کرتا ہے لیکن اس کا سرچشمے اورمنبع سے وہ بے خبر ہوتا ہےکبھی یہ الہام اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے اور کبھی غیر اللہ کی طرف سے اور رحمانی الہام کی مثال حضرت موسیٰ کی والدہ کو ہونے والی وحی ہے(قصص آیت۷)(۴۲)

الکشاف میں آیا ہے کہ

اما علی طریق الوحی و ھوالالہام و القذف فی القلب اوالمنام کما اوحی الی ام موسی

۴۳۔ اس میں تین تعابیر استعمال ہوئی ہیں جن میں پہلی دو ایک معنی کو واضح کرتی ہیں جبکہ تیسری تعبیر بھی اس کے لغوی معنی سے سازگار ہے

ابن قیم جوزی نے بیان کیا ہے

فالتحدیث الہام خاص وھوالوحی الی غیر الانبیاء اما من المکلفین کقولہ تعالیٰ(واو حینا الی ام موسی)

۴۴۔ انہوں نے بھی وحی کا معنی”الہام“ ذکر کیا ہے البتہ اس کے لیے ان کی اپنی اصلاح تحدیث ہےمحمد رشید رضا نے اس آیت میں وحی کامفہوم ” الاعلام فی الخفاء“ یعنی مخفی طور پر آگاہ کرنا بیان کیا ہے

۴۵۔ پیرکرم شاہ نے اسے ”الہام“قرارد یا ہے

۴۶۔ جعفر سبحانی نے مورد نظر آیت میں وحی کا معنی القاء برروح کر کے اس کی دو اقسام بتائی ہیں جس میں”الہام“ کے ضمن میں مذکورہ آیت(قصص۷) کا ذکر کیا ہے

۴۷۔ ڈاکٹر رامیار نے تمام احتمالات کا ذکر کر دیا ہےوہ لکھتے ہیں:(قصص۷)(ایسی وحی کوالہام ،قلب میں القاء یادل میں ڈالنا،آگاہ کرنارویاء یا وہ کلام جو سنایا گیا کہا گیا ہے

۴۸۔ ان تمام معانی میں جوان اقوال میں مذکور ہوئے ہیں کوئی ایسا معنی نہیں ہے جو وحی کے لغوی معانی سے ہم آہنگ نہ ہوپس تعبیر کوئی بھی ہو اصلی مفہوم ایک ہے اور اس کے لیے جامع تعبیر”الہام“ہی ہے(۵)واذاو حیت الی الحوار یین ان آمنوابی و برسولی قالوا آمنا و اشھد باننا مسلمون

۴۹۔ اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے بھیجے ہوئے پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیںاس آیت میں ابن فارس نے ”اذا اوحیت الی الحواریین“ میں وحی کے معنی”لکھے ہوئے حکم“ کے بیان کیے ہیں

۵۰۔ صاحب التاج نے اس آیت میں حواریوں کی طرف وحی کرنے کے معنی ” امر اور حکم دینے“ کے کیے ہیں

۵۱۔ راغب نے کہا ہے کہ یہ وحی حضرت عیسیٰ کی وساطت سے حواریوں کو ملی تھی(۵۲)امام طبری نے قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے”اہل تفسیر ” اذاوحیت“ کی تفسیر میں اختلاف کیا ہے اگرچہ اس کا معنی متفق علیہ ہےبعض نے کہا ہے مجھے محمد حسین نے بیان کیااور اس نے کہاکہ سدی نے کہا ہے کہ ”اذواحیت“ یعنیقذومت فی قلوبھم“جبکہ بعض دوسروں نے اس کا معنی:الھمتہم کیا ہے

۵۳امام طبری نے اس وحی کے دو معنی بتائے ہیں صاحب الکشاف نیاس وحی کا معنی رسولوں کی زبانی ”انہیں حکم دینا“کیا ہے(۵۴)ابن قیم جوزی(۵۵)جعفر سبحانی(۵۶)اور محمود حجازی(۵۷)نے مذکورہ آیت میں وحی ے معنی الہام بیان کیے ہیںڈاکٹر رامیار نے اسے ”حضرت عیسیٰ کے واسطے سے آگاہ کرنا“کے معنی متعین کیا ہے(۵۸)امین احسن اصلاحی نے کہا ہے:وحی کا لفظ یہاں اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ لغوی معنی میں ہےیعنی دل میں کوئی ارادہ ڈالنا(۵۹)سعیدی روشن نے بھی اس کا مفہوم الہام اور دل میں القاء بیان کیا ہے(۶۰)امر کرنا،مکتوب کے ذریعے بات پہنچانا،دل میں بات یا ارادہ ڈالنااور آگاہ کرنا سب وحی کے لغوی مفاہیم ہیںپس اس آیت میں بھی وحی اپنے حقیقی اور لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے

۶۔ وان الشیاطین لیوحون الی اولیائھم لیجادلوکم(۶۱)اور شیاطین اپنے دوستوں کو مخفی طور پر کچھ مطالب القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ آپ سے مجادلہ اور جھگڑے کے لیے کھڑے ہو جائیں

۷۔ وکذلک جعلنا لکل نبی عدواشیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا(۶۲)اور اس طرح ہم نے ہر نبی کے مقابلے میں شیاطین جن وانس میں کچھ دشمن قرار دیے ہیں کہ جو پر فریب اور بے بنیادباتیں مخفی طور پر ایک دوسرے سے کہتے ہیںان دو(۲) آیات میں شیطانی وسوسوں کے لیے وحی کی تعبیر استعمال کی گئی ہےجیسا کہ طبری نے کہا ہے:

وان الشیاطین لیوحون الی اولیائھم یلقون الیھم ذلک وسوسة“ یعنی شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں باتیں بطوروسوسہ ڈالتے ہیں(۶۳)طبرسی نے اس وحی کی تفسیر ”اشارے کرنا“سے کی ہے اس کے بعد انہوں انے ابن کا قول نقل کیا یہ کہ شیاطین انسانوں میں سے اپنے اولیاء کو وحی کرتے ہیں اور وحی کسی نفس میں معنی مخفی طریقے سے ڈالنا ہے اور شیاطین اہل شرک کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں(۶۴)ایک دوسرے مقام پر انہوں نے خود ابن کا قول اختیار کیا ہے(۶۵)زمخثری نے بھی اس کا معنی وسوسے ڈالنا کیا ہے(۶۶)فخر الدین رازی نے اسے الہام سے تعبیر کیا ہے(۶۷)جسے جعفر سبحانی نے وسواس شیطانی سے تعبیر کیا ہے او رکلی طور پر اسے القاء بر ورح کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے(۶۸)ان کے علاوہ طباطبائی(۶۹)ہادی معرفت(۷۰)اور پیر کرم شاہ(۷۱)نے اس وحی کو وسواس شیطانی سے تعبیر کیا ہےسعیدی روشن نے وسوسہ شیطانی سے تعبیر کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے”کیونکہ یہ القاء ت خفیہ اور چوری چھپے ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے وحی کی تعبیر استعمال ہوئی ہے“(۷۲)پس معلوم ہواکہ چونکہ شیطان مخفی طور پر ایک دوسرے یاانسانوں تک بات یا خبر پہنچاتے ہیں اور یہ وحی کے لغوی معنی کا ایک مصداق ہے لہذایہاں بھی وحی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہےرہی یہ بات کہ اسے وسوسہ شیطانی سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خود قرآن نے اس چیز کے لیے یہ تعبیر استعمال کی ہے سورہ الناس میں آیاہے

قل اعوذ برب الناس ملک الناس الہ الناس من شر الوسواس الخناس الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنة والناس(۷۳)کہ دیجئے میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے مالک و حاکم کی لوگوں کے معبود کی خناس کے وسوسوں کے شر ،جو انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہےجنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے

۸۔ فقضھین سبع سموات فی یومین واوحی فی کل سماء امرھا(۷۴)پس انہیں سات آسمانوں کی صورت میں دو دنوں میں پیدا کیا اور ہر آسمان میں اس نے وحی کی

۹۔ یومئذ تحدث اخبار ھابان ربک اوحی لھا(۷۵)اس دن زمین اپنی تمام خبروں کو بیان کردے گی کیونکہ تیرے پروردگار نے اسے وحی کیاہےتفسیر درمنشور میں دوسری آیت کی تفسیر میں ایک حدیث میں’‘اوحی لھا“ کا معنی ”امرھا“ کیا گیا ہے(۷۶)علامہ طباطبائی نے پہلی آیت کے ذیل میں ”اوحی“ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے قدرے تفصیل سے بحث کی ہے:مختلف اقوال نقل کرنے اور انہیں رد کرنے کے بعد وہ بیان کرتے ہیں

فتحصل بمامر ان معنی قولہ” واوحی فی کل سماء امرھا“اوحی فی کل سماء الی اھلھا من الملائکة الامرالالہییعنی جوکچھ کہا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ آیت کا معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہرآسمان میں اس سے مربوط اور متعلق اپنے امر کو اس کے رہنے والے یا اہل یعنی ملائکہ کو وحی کردیا(۷۷)ان کی نظر میں یہ وحی آسمان کی بجائے اس کے اہل یعنی فرشتوں کو ہےعظیم مفسر علامہ آلوسی نے اس آیت میں اوحی کے مفہوم میں دواحتمال ذکر کیے ہیں

۱۔ وحی بمعنی خلقت وایجاد

۲۔ اللہ تعالیٰ کی طرف آسمانوں کے رہنے والوں یعنی فرشتوں کو ان کے فرائض کا سونپا جانایہاں وحی اپنے معروف معنی میں ہے

۷۸۔ اسی طرح شیخ طوسی نے کہا ہے کہ المراد با مرھا ماارادہ اللہ منھا(۷۹)اس سے آلوسی کی دونوں جہات مراد لی جاسکتی ہیںجعفر سبحانی اپنی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں

یہاں پر دوباتیں کہی جاسکتی ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں

۱۔ آسمانوں میں وحی سے مراد قوانین اور سنن کا ایجاد کرنا ہے جس کی بنیاد پر وہ خود بخود اپنے امور کو انجام دیتے رہیںاس کی دلیل آیت کا آخری حصہ”ذلک تقدیر العزیز العلیم“ ہے قرآن نے اس مقام پر لفظ وحی کو مفہوم کا نیا جامعہ پہنایا ہے اس نے اس مورد کو ہمارے لیے کشف کیا ہے کہ ہ بھی وحی کے استعمال کا مصداق ہے

۲۔ یہاں ایک اور رائے بھی پیش جاسکتی ہے جومندرجہ بالا سے بالا تر ہے وہ یہ ہے کہ یہ عالم محسوسات بطور مطلق آگاہ بصیر اور سمیع ہے یہ ہم ہیں کہ اسے بے جان اور بے شعور سمجھتے ہیں قرآن فرماتا ہے:وان من شی الا یسبح بحمدہ ولکن لاتفقھون تسبیحم “ یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد و تقدیس نہ کررہی ہو لیکن تم اس کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہواس بناء پر یہ باشعور بصیر اور سمیع عالم کائنات نے مخفی اور سریع تعلیم کے ذریعے اپنے فرائض منصبی کو لیا ہے اور اسے انجام دے رہا ہے

دوسری آیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں:

اگر یہ آیت کے ظاہری معنی کو محفوظ رکھیں تو یہ مذکورہ بالا دوسری بات سے زیادہ سازگارہے اور نظام قوانین و سنن کے ایجاد اور خلق کرنے سے ذرا بھی مطابقت اور ربط نہیں رکھتازمین کے اللہ تعالیٰ کے خصوصی تعلیم کے ذریعے ممکن ہوا اور اس میں لفظ وحی کے استعمال کے لیے اس امر کا مخفی اور سریع ہونا جواز کا باعث ہے(۸۰)ان کی رائے میں اگر آسمانوں اور زمین کا صاحب شعور ہونا ثابت ہو جائے تو وحی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے پہلی صورت میں لفظ وحی جو خلق و ایجاد کے معنی میں استعمال ہوا بطور مجاز استعمال ہوا ہےڈاکٹر رامیار(۸۱)اور حادی معرفت(۸۲)نے ان دونوں آیات میں بالترتیب تقدیر یا تسخیر اور ترکیز غریزی فطری وحی کا مفہوم قرار دیاہے حالانکہ یہ وحی کے مصادیق میں شمار ہوتے ہیں خود وحی مخفیانہ طریقے سے پیغام رسانی اور حکم کرنا ہے

پرویز نے پہلی آیت کے حوالے سے بیان کیا ہے:

اس آیت میں امر وحی (یاوحی امر)کے معنی مامور کرنے کے ہیں یعنی وہ قانون خداوندی جس کی رو سے خارجی کائنات کی ہر شے اپنے اپنے فرائض مفوضہ کی تکمیل میں سرگرداں ہےاسی کو سورہ نور میں اس طرح بیان کیا گیاہے”کائنات کی ہر شے اپنی صلاة اور تسبیح کوجانتی ہے“ یہی وہ وحی ہے جو ان میں جاری و ساری ہے یعنی امر خداوندی ،خدا کا قانون اسی کے متعلق سورہ زلزال کی آیت ”بان ربک اوحی لھا“ ہے کائنات میں ہر شئی خدا کے امر(حکم) کے مطابق سرگرم عمل ہےیہ خداکی وہ وہی ہے جو ہر شے میں از خود ودیعت کر دی گئی ہے اسی کو قانون فطرت کہتے ہیں(۸۳)سعیدی روشن نے اس بارے میں اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

قوانین اور ایک نظام کو جہان خلقت میں اس طرح سے ایجاد اور خلق کرنا کہ ہر ایک اپنی مقررہ مدت تک اپنے خصوصی کردار ادا کرتا رہے یہ چیز خالق کائنات کی طرف سے ان کی ہستی میں رکھ دی گئی ہے گویا اسے خفیانہ صورت میں ودیعت کیا ہے اور یہ وحی ہے اوراس مثآل میں استعارے کے لیے لفظ وحی کے مفہوم سے اتنی مماثلت کا فی ہے

ظاہری طور پر سورہ زلزال کی آیت”بان ربک اوحی لھا“ میں بھی وحی مذکورہ معنی یعنی تقدیر و تدبیر کائنات میں استعمال ہوا ہے

۸۴۔ مذکورہ اقوال کے نتیجے میں پہلی آیت میں دو معانی اور دوسری آیت میں وحی کا ایک معنی سامنے آیا ہے

۱۔ ہدایت تکوینیٰ تقدیر و تدبیر نظام ہستی ،تسخیر(یہ سب ایک مفہوم کی مختلف تعبیریں ہیں) اگر یہ معنی مراد ہو تو لفظ وحی یہاں بطور استعارہ استعمال ہوا ہے

۲۔ آسمانوں میں وحی سے مراد اس میں رہنے والے فرشتوں کو وحی ہےاگر یہ معنی ہوتو پھر لفظ وحی اپنے حقیقی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہےمگر اس لفظ ”اہل“ کو تقدیر میں لینا پڑے گا جس کے لیے کوئی ٹھوس دلیل ہمارے پاس نہیں ہے لہذا ان آیات میں وحی کا پہلا معنی ہی آیا ہے

۱۰۔ اذیوحی ربک الی الملائکة انی معکم فثبتو الذین آمنو

۸۵۔ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں جو لوگ ایمان لائے انہیں ثابت قدم رکھو اس آیت میں پروردگار عالم کی طرف سے فرشتوں کو وحی کی گئی ہے ملائکہ باشعور مخلوق ہیں لہذاان کی طرف کسی بات کا خاص اور مخفی طریقے سے پہنچانا وحی کا لغوی مفہوم ہےاس لیے یہاں یہ وحی اپنے حقیقی مفہوم میں ہےجعفر سبحانی نے اسے”القاء برروح“ میں ذکر کیا ہے

۸۶۔ ۱۱۔ واوحینا الیہ لتنبئنھم بامرھم ھذا و ھم لایشعرون(۸۷)اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کی کہ تو انہیں آئیندہ ان کے اس کام سے باخبر کرے گا جبکہ وہ نہیں جانیں گےاس آیت میں بعض محققین نے ”اوحینا“ کو وحی تشریعی قرار دیا ہے اور بعض محققین نے القاء برروح اور الہام کا معنی مقرر کیا ہے

طبرسی لکھتے ہیں:

واوحینا الیہ یعنی الی یوسف قال الحسن اعطاہ اللہ النبوة وھو فی الجب والبشارة بالنجاة و الملک کان الوحی الیہ کالوحی الی سائر الانبیاء و قال مجاہد و قتادہ اوحی اللہ الیہ ونباہ و ھوافی الجب(۸۸)حسن کے بقول حضرت یوسف کو ہونے والے وحی دوسرے انبیاء کی وحی کی طرح ہے جبکہ مجاہد اور قتادہ نے اسے باخبر دینے اور آگاہ کرنے کے معنی میں لیاہے

علامہ طباطبائی نے بھی اسے وحی نبوی قرار دیا ہے(۸۹)جبکہ جعفر سبحانی نے اسے الہام رحمانی کے معنی میں لیا ہے(۹۰)جنہوں نے الہام کے معنی میں لیاہے ان کی نظر میں چونکہ اس وقت حضرت یوسف کو نبوت نہیں ملی تھی اس لیے یہ وحی وحی اصطلاحی نہیں ہے بلکہ یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوئی ہےچنانچہ دونوں صورتوں میں یہ لفظ اپنی حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے

مجموعی طور پر ان آیات میں دومقام کے سوا دیگر موارد میں لفظ وحی اپنے لغوی اور حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہےان آیات سے یہ بھی نتیجہ نکلا ہے کہ تین مقامات حضرت زکریا کی اپنی قوم کی وحی شیاطین کی آپس میں وحی اور اپنے دوستوں کو وحی کے علاوہ باقی تمام موارد میں وحی کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے

دوسری طرف وحی کو لینے والے آسمان زمین شہد کی مکھی صالح انسان فرشتے اور انبیاء ہیں

گذشتہ تمام مطالب کی روشنی مین ہم یہ کہتے ہیں کہ وحی کا ایک ہی معنی ہے اور قرآن میں بھی وہی ایک معنی استعمال ہوا ہے البتہ وحی کے متعلقات اور مصادیق مختلف ہیںان مصادیق میں وحی کے استعمال کا ایک معیار اور قدر مشترک ہے اور وہ ”سریع “مخفی القاء اور تفہیم ہے

حوالہ جات:

۱۔ تفلیسی ابوالفضل ابو حیش بن ابراہیم وجوہ القرآن انتشارات حکمت قم،ص۳۰۵

۲۔ فخرالدین رازی محمد بن عمر بن حسن،مفاتیح الغیب فی تفسیر القرآن المعروف بالتفسیر الکبیر،دارالحیاء التراث العربی ،بیروت ج۸،ص۴۸

۳۔ سبحانی جعفر منشور جاوید،ج۱۰،ص۷۹۹۵،انتشارات توحیدقم ج۱۰ص۷۹۹۵

۴۔ معرفت محمد ہادی التمہید فی علوم القرآن:موئسسہ النثر الاسلامی ج۱،ص۲۷۲۹

۵۔ رامیارمحمود ڈاکٹر،تاریخ قرآن:مصباح قرآن ٹرسٹ،لاہورص۸۹۹۰

۶۔ معرفت محمد ہادی التمہید فی علوم القرآن موئسسہ النثر الاسلامی ج۱ص۲۹،۳۰ ،وہ لکھتے ہیں:الوحی الرسالی معنی رابع استعملہ القرآن فی اکثر من سبعین موضعاً

۷۔ مصباح یزدی محمدتقی قرآنی معارف،سازمان تبلیغات اسلامی،تہرانج۱،ص۶۵وہ لکھتے ہیں کلمہ وحی اور اس کے مشتقات نزول قرآن سے متعلق تقریباً چالیس موارد میں استعمال ہوئے ہیںمثال کے طور پر شوریٰ ۷،بنی اسرائیل۳۹

۸۔ سورہ مریم آیت۱۱

۹۔ راغب الاصفہانی:معجم المفردات الفاظ القرآن ،دارالفکر للطباعہ دارلنثر والتوزیع،بیروت ص۵۱۵

۱۰۔ الطبرسی ابوعلی الفضل بن الحسن،مجمع البیان فی تفسیر القرآن مکتبہ العلمیہ الاسلامیہ،ج۳،ص۳۷۱

۱۱۔ الطبرسی ابو علی الفضل بن الحسن،مجمع البیان فی تفسیر القرآن،مکتبہ العلمیہ الاسلامیہ،ج۳،ص۵۰۵

۱۲۔ الزمحشری محمود بن عمر ،الکشاف:دارالکتاب العربی بیروت ج۳،ص۷

۱۳۔ الزمحشری محمود بن عمر،الکشاف:دارالکتاب العربی بیروت ج۲،ص۵۰۵

۱۴۔ الطّوسی،ابو جعفر محمد بن الحسن:التبیان فی تفسیر القرآن

۱۵۔ ابن منظور محمد بن مکرم جمال الدین ابو الفضل:لسان العرب،مادہ وحی،نشر ادب الحوزة قم

۱۶۔ صحیح البخاری بشرح الکرمانی،الجزء الاول،ص۱۴

۱۷۔ الطبری ابو جعفر محمدبن جریر،جامع البیان عن تاویل آی القرآن :دارلمعارف مصر،ج۶،ص۴۰۵،۴۰۶

۱۸۔ (۱)۔ رشید رضا محمد:تفسیر المنار دارالمعرفة بیروت،ج۶،ص۶۷،۶۸

(۲)۔ طباطبائی محمد حسن المیزان فی تفسیر القرآن :دارالکتب الاسلامیہ تہران،ج۱۲،ص۳۱۲

۱۹۔ سورہ مریم آیت۱۰

۲۰۔ سورہ آل عمران،آیت۴۱

۲۱۔ سورہ نحل،آیت۶۸۔ ۶۹

۲۲۔ الطبری،ابو جعفر محمد بن جریر:جامع البیان عن التاویل آی القرآن:ج۶ص۴۰۵،۴۰۶

۲۳۔ الکشاف،ج۲،ص۵۰۵

۲۴۔ الطبرسی ابو علی الفضل بن الحسن،مجمع البیان ج۳،ص۳۷۱

۲۵۔ الطبرسی ابو علی الفضل بن الحسن:مجمع البیان ج۶،ص۵۷۳

۲۶۔ ابن قیم جوزی ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن ایوب:مدارج السالکین :الجزاء الاول،دارالکتاب الولی،بیروت ،ص۴۵

۲۷۔ صحیح البخاری بشرح الکرمانی،الجزاء الاول ص۱۴

۲۸۔ الدین رازی محمد بن عمربن حسن:التفسیر الکبیر،ج۸،ص۴۸

۲۹۔ رشید رضا محمد:تفسیر المنار،ج۶،ص۶۷،۶۸

۳۰۔ طباطبائی،محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن،ج۱۲ص۳۱۲

۳۱۔ طباطبائی،محمدحسین :المیزان فی تفسیر القرآن،ج۱۲،ص۲۹۲

۳۲۔ معرفت،محمد ہادی! التمہید فی علوم القرآن ،ج۱،ص۲۷

۳۳۔ شاہ محمد کرم ضیاء القرآن ،ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہورج۴،ص۳۹۲،۳۹۳

۳۴۔ محمود حجازی محمد :التفسیر الواضح :الجزاء ۱۴،مطبقہ الاستقلال الکبریٰ مصر،ص۴۷،ج۲

۳۵۔ عزة دروزة محمد،التفسیر الحدیث السور مرتبة حسب النزول:داراحیاء الکتب العربیة،ج۶،ص۸۰

۳۶۔ افغانی،شمس الحق،علوم القرآن مکتبہ الحسنلاہور

۳۷۔ رامیار،محمود ڈاکٹر،تاریخ قرآن ترجمہ انوار بلگرامی،مصباح القرآن ٹرسٹلاہور،ص۸۹،۹۰

۳۸۔ جعفر سبحانی،منشور جاوید:موسسہ امام صادق۱۳۷۰ھ ش،ج۱۰،ص۸۶

۳۹۔ سعیدی روشن محمد باقر،تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام ومسیحیتموسسہ فرہنگی اندیشہص۱۳

۴۰۔ سورہ طہٰآیات ۳۸۳۹

۴۱۔ قصص،آیت۷

۴۲۔ معرفت،محمد ہادی التمہید فی علوم القرآن ج۱،ص۲۹

۴۳۔ انرمخثری محمود بن عمر،الکشاف

۴۴۔ ابن قیم جوزی ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن ایوب ،مدارج السالکین،الجزالاول،ص۴۵

۴۵۔ { OL 5 }رشید رضا محمد،تفسیر المنار:ج۶،ص۶۷۶۸

۴۶۔ شاہ محمد کرم ،ضیاالقرآن،ج۴،ص۳۹۲،۳۹۳

۴۷۔ جعفر سبحانی ،منشور جاوید،ج۱۰،ص۸۹

۴۸۔ رامیار،محمود ڈاکٹر،تاریخ قرآن،ص۹۰

۴۹۔ سورہ مائدہ،آیت۱۱۱

۵۰۔ حوالہ: پرویز غلام احمد،لغات القرآن“ ادارہ طلوع اسلام ،لاہور،ص۱۶۹۱

۵۱۔ حوالہ: پرویز غلام احمد: لغات القرآن“ ادارہ طلوع اسلام،لاہور،ص۱۶۹۱

۵۲۔ راغب الاصفہانی،معجم مفردات الفاظ القرآن،ص۵۵۶

۵۳۔ جامع البیان من تاویل آی القرآن،ج۹،ص۲۱۷۲۱۸

۵۴۔ الکشاف ج،ص

۵۵۔ مدارج السالکین،الجزالاول ص۴۵

۵۶۔ منشور جاوید،ج۱۰،ص۸۹

۵۷۔ التفسیر الواضح ،ج،ص۲۸

۵۸۔ تاریخ قرآن ص۹۰

۵۹۔ اصلاحی امین احسن:تدبر قرآن،دارالاشاعة الاسلامیہ،لاہور،ج۲،ص۳۷۹

۶۰۔ تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت،۱۴

۶۱۔ انعام ۱۲۱

۶۲۔ انعام ۱۱۲

۶۳۔ جامع البیان عن تاویل آی القرآن: ج۶،ص۴۰۵،۴۰۶

۶۴۔ مجمع البیان،ج۲،ص۳۵۸

۶۵۔ مجمع البیان،ج۲،ص۵۴۵

۶۶۔ الکشاف،ج۲،۴۷

۶۷۔ التفسیر الکبیر:ج۸:ص۴۸

۶۸۔ منشور جاوید:ج۱۰،ص۹۰،۹۱

۶۹۔ تفسیر المیزان،ج۱۲،ص۳۱۲

۷۰۔ التمہیدفی علوم القرآن،ج۱

۷۱۔ ضیاء القرآن ،ج۴،ص۳۹۲،۳۹۳

۷۲۔ تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۴

۷۳۔ سورہ الناس

۷۴۔ حٰم سجدہ،آیت۱۲

۷۵۔ سورہ زلزال آیات،۴۵

۷۶۔ السیوطی جلال الدین عبدالرحمن ابن ابی بکر:” الدر المنشور فی التفسیر بالماثور“ج۶،ص۳۸۰

۷۷۔ تفسیر المیزان،ج۱۷،ص۳۹۱۳۹۲

۷۸۔ آلوسی ،ابوالفضل شہاب الدین السید محمود: روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی،دارالاحیاء التراث العربی،بیروت،ج۲۴،ص۱۰۳

۷۹۔ التبیان فی تفسیر القرآن:ج۹،ص۱۱۰

۸۰۔ منشور جاوید،ج۱۰،ص۸۳،۸۵

۸۱۔ تاریخ قرآن: ص۸۹،۹۰

۸۲۔ التمہید فی علوم القرآن:ج۱،ص۲۷،۲۸

۸۳۔ پرویز غلام احمد لغات القرآن،ادارہ طلوع اسلاماپریل ۱۹۶۱لاہور،ص۱۶۹۲

۸۴۔ تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۲

۸۵۔ انفال۱۲

۸۶۔ منشور جاوید:ج ۱۰ص۹۰

۸۷۔ یوسف،۱۵

۸۸۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن : ج۵،ص۳۳۲

۸۹۔ المیزان فی تفسیر القرآن : ج۱۱،ص۱۰۰

۹۰۔ منشور جاوید :ج۱۰،ص۹۰

باب دوم

وحی کی ضرورت

ضرورت وحی:

وحی نبی نوع انسان کے لیے مبداہستی اور خالق کائنات کی ہدایت کا ایک ذریعہ اور علم معرفت کا ایک اہم ترین منبع ہے وحی کا عقیدہ اور تصور انبیاء کے حوالے سے قدیم الایام سے انسانی معاشروں میں موجود رہا ہے وحی اور نبوت کا آپس میں گہرا ربط ہے اور یہ دونوں مفاہیم آپس میں لازم و ملزوم ہیں وحی کے حاملین کو انبیاء کہا جاتا ہے خود لفظ نبی میں وحی کے ساتھ اس کا تلازم موجود ہے کیونکہ نبی کا لفظی معنی ”خبر دینے والا“ ہے (۱)اور یہاں خبر دینے سے مراد حواس انسانی سے ماوراء دنیا سے اس دنیا کی خبر دینا یہ اسے ہی ایک خاص پیرائے میں وحی کہتے ہیں

وحی کا عقیدہ کلی طور پر تمام آسمانی ادیان میں قدر میں مشترک ہے(۲)البتہ اس کے مفہوم اور حدود وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا ہے وحی پر ایمان کے اس تاریخی سفر میں ایک دور یہ آیا کہ مغربی مفکرین کے ایک گروہ نے وحی کا انکار کر دیا یہ وہ دور تھا جب مغرب میں سائنسی علوم کی ابتداء ہو رہی تھیاور ہر چیز کو تجربہ کی کسوٹی پرپر کھا جانے لگا اس بارے میں دائرة المعارف القرآن الربع عشر کے مصنف لکھتے ہیں

”کا ان الغر بیون الی القرن السادس عشر کجمیع الامم المتدینة یقولون بالوحی لان کتبھم مشحونة باخبار الانبیاء فلما جاء العلم الجدید بشکوکہ ومادیا تہ ذھبت الفلسفة الغربیة الی ان مسالة الوحی من بقایا الخرافات القدیمہ ،وتفالت حتی انکرت الخالق والروح معاو عللت ماورد عن الوحی فی الکتب القدیمہ بانہ اما اختلاق من المتنباة انقسھم لجذب الناس الیھم،وتسخیر ھم لمشیئتھم ،واما الی ھذیان مرصی یعتری بعض العصبیین فیخیل الیھم انہم یرون اشبا حاتکلہم وھم لایرون فی الواقع شیئاً(۳)

مغربی مفکرین دیگر اقوام کی طرح سولہویں صدی تک وحی پر ایمان رکھتے تھے کیونکہ اس کی کتب انبیاء کے واقعات اور خبروں سے بھی پڑی تھیں جب علوم جدید اور سائنس کی ابتداء ہوئی اور تمام مسائل کو مادی نگاہ سے دیکھا جانے لگاتو مغرب کے فلاسفہ نے وحی کا سرے سے ہی انکار کر دیااور اسے خرافات اور پرانی داستانوں سے تعبیر کیا اور اس کے نتیجے میں خدا،روح،عالم ماوراء مادہ کے بھی منکر ہو گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ وحی پر اگندہ خیالات کا مجموعہ یا اعصابی بیماری کا حاصل تھی وہ یہ گمان کرتے کہ کچھ شکلیں ان سے گفتگو کر رہی ہے حالانکہ حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا تھا

اس سے ہمارے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم وحی کی ضرورت پر تفصیل سے بحث کریں اس مقام پر یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ضرورت وحی پر ہم عقلی دلائل کے روشنی میں بحث کریں کیونکہ نقلی دلائل سے بحث کرنا بے سود اور نامعقول ہے کیونکہ جس چیز کو ثابت کرنا چاہتے ہیں اسے اسی ذریعے ثابت کیا جائے تو یہ محال ہے منطق کی اصطلاح میں اسے دور کہتے ہیں اور یہ محال ہوتا ہے

دلیل اول:

وجود خدا کے بعد مذہب کا دوسرا اہم عقیدہ وحی نبوت ہے توحید پر ایمان ،باقی عقائد کی بنیاد اور اس اساس ہے اسلامی آئیدلوجی کا مرکزی نقطہ اور اصلی محور توحید ہے اس مطلب کا امیر المومنین علی بن ابی طالب نے یوں بیان فرمایا ہے

اول الدین معرفتہ(۱)

دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے

لہذاو حی کی ضرورت پر ادلہ پیش کرتے ہوئے اپنی اس دلیل کا پائیہ توحید اور خدا شناسی کو قرار دیتے ہیںوحی کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے خدا پر ایمان اور اس کی معرفت ہی ہمارے استد لال کی بنیا د ہے توحید پر ایمان لانے کا ایک لازمی نتیجہ وحی و نبوت پر ایمان ہے اپنے اس دعویٰ کے ثبو ت کے لیے مکتب اسلام کی عظیم ہستی علی بن ابی طالب کا قول نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے حسن بن علی کو مخاطب کر کے کہا تھا

واعلم یا نبی انہ کا ن لربک شریک لا تتک رسلہ ولرایت آثار ملکہ و سلطانہ ولعرفت افعالہ وصفاتہ ولکنہ الہ واحد کم وصف نفسہ لا یضادہ فی ملکہ احد(۲) ”اے میرے بیٹے جان لو کہ اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کی طرف سے بھی رسول آتے تم اس کی حکومت سلطنت اور افعال کا مشاہدہ کرتے لیکن وہ تو یکتا ویگانہ معبود ہے جیسا کہ اس نے خود اپنی توصیف کی ہے کہ ملک صرف اسی کا ہے اور کی سلطنت میں اس کا مد مقابل کوئی نہیں ہے

ہمارے مورد نظر پہلا جملہ ہے جس میں رسولوں کو نہ بھیجنے کو خدا کی واحدنیت کی دلیل قرار دیا گیا اس کے برعکس اگر دیکھیں تو یہ ثابت ہو تا ہے کہ وجود خدا کا لازمہ سلسلہ نبو ت ہے

منطق ی اصطلاح میں اسے قیاس استثنای کہتے ہیں جس میں مقدم اور تالی میں تلازم برقرار ہوتا ہے اور تالی کی نفی سے مقدم کی نفی ثابت ہو جاتی ہے اس میں ملازمہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو وہ اپنے رسول بھیجتا اور وحی نازل کرتا یعنی وحی اور ارسال پیامبران اور انسانی ہدایت کے لیے مخصوص افراد کو مبعوث کرنا وجود خدا اور اس کی خدائی کا لازمہ ہے

دوسری صدی ہجری کے عظیم دانشور اور بلند پایہ فقہی امام جعفر صادق نے وحی و نبوت کی ضرورت پر مذکورہ استدلالی روش اختیار کی ہے ان کے ایک شاگرد ہشام بن حکم بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک زندیق نے امام سے سوال کیا کہ آپ انبیاء اور رسل کو کس دلیل سے ثابت کرتے ہیں

انہوں نے جواب میں فرمایا

ان لما اثبتنا ان خالقا صا نعا متعالیا عنا وعن جمیع ماخلق وکان ذلک الصانع حکیما متعالیا لم یجزان یشاھدہ خلقہ ،ولایلا مسوہ فیباشرھم ویبا شروہ ویحا جھم ویحاجوہ ثبت ان لہ سفراء فی خلقہ یعبرون عنہ الی خلقہ و عبادہ ویدلونھم علی مصالھم ومنا فعھم ومابہ بقاوھم فثبت الامرون والناھون عن الحکیم العلیم فی خلقہ والمعبرون عنہ عزو جل و ھم الانبیاء وصفوتہ من خلقہ الخ(۳)

وحی و نبوت کے اثبات کے لیے ایک عقلی استدل ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم نے ثابت کر دیا کہ ہمارا خالق اور صانع ہے جو ہم سے اور دیگر تمام مخلوقات سے عالی و برتر ہے اور یہ صانع صاحب حکمت اور بلند بالا ہے اس کی مخلوق اسے مشاہدہ نہیں کر سکتی اور ہم ان حواس و ادراکات کے ذریعے اس سے رابطہ نہیں کر سکتے پس ضروری ہے کہ اس کی مخلوق میں اس کے نمائندے اور سفیر ہونے چاہیں جو انسانوں کے منافع اور مصالح کی طرف ان کی راہنمائی کریں اور جس میں انسانوں کی بقاء ہے اور جس میں ان کی ہلاکت ہے اس سے وہ آگا کریںچونکہ وہ حکیم اور علیم ہے وہ ہماری احتیاج اور ہدایت وراہنمائی کی ضرورت کو جانتا ہے لہذا لازم ہے کہ وہ اپنے نمائندگان یعنی انبیاء اور رسل کو ومبعوث کرے اگر ایسا نہ ہو تو یہ اس کی حکمت و دانائی کے خلاف ہے

اس دلیل سے جہاں انبیاء کی بعثت ثابت ہوتی ہے وہاں انبیاء کی عظمت اور بزرگی بھی ثابت ہوتی ہے انبیاء خداوند متعال کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں اور دوسری جہت میں وہ انسانوں سے رابطہ رکھتے ہیں ان کا خدا سے بذریعہ وحی ارتباط ہوتا ہے پس خدا اور اس کے بندوں کے درمیان وحی کا رابطہ ضروری اور لازمی ہے

گیارہویں صدی ہجری کے بلند پایہ فیلسوف ملا عبدالرزاق لاھچی نے مذکورہ روایت کے ذریعے وحی و نبوت کی ضرورت پر دلیل قائم کی ہے اور آخر میں اپنی رائے کا یوں اظہار کیا ہے

”باید دانست کہ این کلام شریف بااین وجازت،مشتمل است بر خلاصہ افکار و انظار حکمای سابقین و علما لا حقین،بلکہ اشارہ است بہ حقایقی کہ غایت فکرو نظر اکثر متکلمین بہ آن نرسیدہ و اگر فلا سفہ اقدمین رااستماع این کلام مقدس ممکن می شد ھر آینہ اقرار می نمودندنہ معجزبودن این کلام قدسی نظام کہ جان تشنہ داند قیمت آب(۴)

معلوم ہونا چاہیے کہ مذکورہ کلام مختصر ہونے کے باوجود فلاسفہ سابقین اور علماء لاحقین کے افکار ونظریات کا نچوڑ ہے بلکہ اس میں ان حقائق کی طرف اشارہ ہے جن پر اکثر متکلمین کی فکرو نظر نہیں پہنچ سکی اگر قدیمی ترین فلاسفہ کے لیے یہ کلام سننا ممکن ہوتا تو وہ ضرور اس بیان کے معجز ہونے کا اقرار کرتے کیونکہ پانی کی قدر پیاساہی جانتا ہے

قدماء کے علاوہ معاصر علماء نے بھی اس موضوع پر قلم فرسائی کی ہے ،مفکر اسلامی مرتضیٰ مطہری نے توحید کو بنیاد بنا کر وحی پراس طرح دلیل پیش کی ہے

”ہر چیزی نقطہ شروع و پایہ و اساسی دارد و ہنگامی بہ صورت سازمانی محکم وپابرجا و مفید درمی آید کہ ازھمان نقطہ آغاز شدہ باشد و برروی ہمان پایہ قرار گرفتہ باشد دین ہم کہ سازمانی وسیع فکری و اعتقادی واخلاقی و عملی است یک نقطہ شروع و یک رکن اساسی دارد کہ اگراز نقطہ آغاز شورد وبرروی آن اساس بنا شود ،محکم وپابر جا و مفید خواہدشد،آن نقطہ شروع و آن پایہ اساسی ،معرفت ذات اقدس الہ و شناساسی حضرت احدیث است مثلا عقیدہ اصل نبوت وعقیدہ اصل معاداز جملہ عقائد اصلی و ضروری دین است،این دو اصل بہ منزلہ شاخہ ھای ہستند کہ بروری این تنہ قرار گرفتہ اند،یعنی چون اصل توحید اصلی است ثابت،وچون ”جہان راصاحبی باشد خدانام“ وآن صاحب جہان راتد بیرمی کند و موجودات را بہ سوی کمالاتشان سوق می دھد و ہدایت می کند واز طرفی بشر در زندگی فردی و اجتماعی خود احیتاج داردیہ یک نوع ہدایت و راہنمائی مخصوص کہ آن را”ہدیت وحی والہام“ می نامیم،پس در مجموع زندگانی بشر نقطہ ھا وروز نہ ھا و دریچہ ھا بشر ہدایت و راہنمائی می شود،آن روزنہ ھاو دریچہ ھا عبارت است از روحھای مستعد وقلبھای منزہ و صافی یک عدہ از افراد بشر کہ بہ نام”انبیاء“ و ”پیغمبران“نامیدہ می شود(۵)

ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک نقطہ آغاز اور اساس ہوتی ہے وہ چیز اس وقت مستحکم،مضبوط اور مفید نظام کی صورت میں آتی ہے جب وہ اس اساس پر قائم ہوا اور اپنے بنیادی نقطے سے شروع ہواسی طرح دین جو کہ ایک وسیع نظریاتی ،فکری،اخلاقی اور عملی نظام پر مشتمل ہے اس کا بھی نقطہ آغاز اور بنیادی ستون ہے اور وہ توحیدہے دین میں وحی و نبوت اور قیامت دو اہم اصول ہیں یہ دونوں اصول توحید کے بنیادی ستون پر استوار ہیں(اصل استدلا ل یہاں سے شروع ہوتا ہے )

چونکہ توحید دین کی اساس ہے اور اس جہان کاخالق خدا ہے وہی اس جہان کی تدبیر کرتا اور چلاتاہے اور موجودات عالم کو ان کے کمالات کی طرف روانہ کرتا ہے ان کی ہدایت و راہنمائی کرتا ہے دوسری جانب خود انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک خاص ہدایت کا محتاج ہے اس مخصوص ہدایت کو ”وحی والہام“کا نام دیا جاتاہےپس اسے اس جہان کے تدبیر کرنے والے یعنی رب کی طرف سے ہدایت اور راہنمائی ملنی چاہیے اس کا انتظام خود پروردگار عالم کی طرف سے ہونا چاہیے

عصر حاضر کے ایک اور جیدعالم مفتی محمد شفیع نے اپنی تفسیر معارف القرآن کے مقدمے میں وحی کی ضرورت پر گفتگو کی ہے اور انہوں نے بھی اپنے استدلال کوتوحید کی بنیاد پر استوار کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں

جو شخص (معاذاللہ)خدا کے وجود ہی کا قائل نہ ہو اس سے تووحی کے مسئلے پر بات کرنا بالکل بے سود ہے،لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت کا ملہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے وحی کی عقلی ضرورت اس کے امکا ن اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیںکہ یہ کائنات ایک قادر مطلق نے پیدا کی ہے وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمت بالغہ سے چلا رہا ہے ،اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کوپیدا کرنے کے بعد اسے بالکل اندھیرے میں چھوڑدیا ہواور اسے یہ تک نہ بتایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیامیں آیا ہے؟یہاں اس کے ذمے کیا فرائض ہیں؟اس کی منزل مقصود کیا ہے؟اور وہ کس طرح اپنے مقصد زندگی کو حاصل کر سکتا ہے؟کیاکوئی شخص جس کے ہوش وحواس سلامت ہوں ایسا کرسکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو ایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیج دے اور اسے نہ چلتے وقت سفر کا مقصد بتائے اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعہ اس پر یہ واضع کرے کہ اسے کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہو گی؟جب ایک معمولی عقل کا انسان بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا تو آخر اس خداوند قدوس کے بارے میں یہ تصور کیسے کیاجاسکتا ہے جس کی حکمت بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے ؟یہ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند،سورج،آسمان زمین،ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیرالقول نظام پیدا کیا ہو ہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا انتظام بھی نہ کر سکے جس کے ذریعے انسانوں کو ان کے مقصد زند گی سے متعلق ہدایات دی جاسکیں؟اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقاعدہ نظام ضرور بنایاہے بس راہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی رسالت ہے

اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا انکار ہے (۶)

ایک مغربی دانشور ایڈنگٹن اس موضوع پر اظہار نظر کرتا ہے

اصل سوال خدا کی ہستی کا نہیں بلکہ اس امر کا یقین ہے کہ خدا بذریعہ وحی انسانوں کی راہنمائی کرتاہے(۷)

اس بات کی ہم یوں تشریح کرتے ہیں غور سے دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری زندگی سے اس سوال کا تعلق کیا ہے خدا ہے یا نہیں؟خدا کے ہونے یا نہ ہونے میں کیا فرق ہے البتہ یہ بات اپنے مقام پر سچ ہے کہ خدا کی ہستی کا اقرار کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور صداقت کا اقرار ہے لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اقرار کا فائدہ کیا ہے ؟جب تک یہ اقرار انسان کی ہدایت کے لیے خدا کی ہستی کو سرچشمہ قرار نہ دے اس کا چنداں فائدہ نہیںجب یہ ہماری راہنمائی اس طرف کرے کہ انسان کی ہدایت کا سرچشمہ ذات الہی ہے تو یہ مفید ہے کیوں کہ اصل سوال انسان کی ہدایت کا ہے لہذا خدا کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد ہدایت و راہنمائی کا سرچشمہ بھی اسی ذات اقدس کا قرار دینا ہو گا اسی ہدایت کو وحی کہا جاتا ہے

ایک معاصر دانشور ایڈنگٹن کی تائید میں لکھتے ہیں

ایڈنگٹن ٹھیک کہتا ہے کہ اصل سوال خدا کی ہستی کا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے راہنمائی ملنے کا ہے اگر ایک شخص خدا کی ہستی کا قائل ہے (جیسے کہ مغرب کے بہت سے مفکر قائل ہیں)لیکن انسانی زندگی میں اگر کوئی خدا کی راہنمائی کا قائل نہیں تواس کا خدا پر ایمان کچھ معنی نہیں رکھتاخدا پر ایمان اس کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی پر ایمان ہے (۸)

مجموعی طور پر مذکورہ استدلال پر ایک اعتراض ہو سکتا ہے کہ وجود باری تعالیٰ پر ایمان لانے سے سلسلہ وحی پر ایمان لانا لازم نہیں آتا کیوں کہ ممکن ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہوں لیکن وحی ونبوت کے سلسلے کی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتے ہوں بلکہ ہدایت کے لیے عقل،ضمیر،وجدان اور فطرت کی راہنمائی کو کافی سمجھتے ہوں اور جبکہ یہ تمام ذرائع بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں

اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ہم ایک اور سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا عقل اس قابل ہے کہ وہ زندگی کے تمام میدانوں میں بالخصوص اخلاقی اور روحانی لحاظ سے انسان کی راہنمائی کر سکے

انسان کی معرفت اور شناخت کانہایت اہم ذریعہ عقل ہے اور اسی جوہر عقل کی بنا پر انسان اشرف المخلوقات ٹھہرا ہے انسان کے لیے علم کا پہلا ذریعہ حواس خمسہ ہیں جن کے ذریعے سے انسان بیرونی دنیا سے مربوط رہتا ہے اور انہی حواس کے ذریعے معلومات حاصل کرتاہےحواس کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات جزئی ہوتی ہیںعقل انسانی ان معلومات کا تجزیہ وتحلیل کرتی ہے اور ان سے کلی اصول اخذ کرتی ہے انسانی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء میں انسانی فکرو عقل کا کردار نہایت اہم ہے اور دنیا آج جس مقام تک آن پہنچی ہے وہ اسی فکرو عقل کی بدولت ہےلیکن ان تمام تر خوبیوں کے باوجود اس کا دائرہ محدود ہے بعض مسائل ایسے ہیں جو اس کی قلمر و قدرت سے باہر ہیں

فکر جدید نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ عقل انسانی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک کر سکے یا حقیقت کے متعلق صحیح علم دے سکے

برگسان(BERGSON)اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتا ہے

ہماری فکر اس قابل نہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت کو ہمارے سامنے لا سکے یا زندگی کی ارتقائی حرکت کا صحیح اور پورا پورا مفہوم پیش کر سکے(۹)

آگے چل کر برگسان کہتا ہے

انسانی فکر کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ زندگی کا احاطہ کرنے کے لیے فطری طور پر ناقابل ہے (۱۰)

عقل انسانی کسی معاملے کے متعلق بھی آخری دلیل،مکمل شہادت اور منطقی یقین بہم نہیں پہنچا سکتیانسانی عقل قطعی یقین تک پہنچانے کے لیے ناقابل ہے(۱۱)

عقل کی محدودیت کے متعلق یہ ایک انتہائی درجے کی رائے ہے ہماری رائے یہ ہے کہ عقل یقین کے درجے تک پہنچ سکتی ہے مگر وحی کی روشنی میںجس طرح انسانی آنکھ خارجی روشنی کی محتاج ہے اس کے بغیر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی س طرح انسانی عقل وحی کی روشنی کے بغیر یقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی مغربی فلاسفر شین(Sheen)اس حقیقت کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں

Just as our senses work better when perfected by reason,so too our reason works better when perfected by faith A man temporarily devoid of reason as a drunkard,has the same senses that he had before,but they do not function as they did when he was under rational direction agovernment,what the senses are without reason,reason is with out faith

”جس طرح ہمارے حواس اس وقت بہتر کام کرتے ہیں جب ان کی تکمیل عقل کے ذریعے سے ہو جائےاسی طرح ہماری عقل اس وقت بہتر کام کرسکتی ہے جب اس کی تکمیل ایمان(وحی) کے ذریعے ہو جائےجو آدمی عارضی طور پر عقل سے عاری ہو جائے جیسے شرابی،اس کے حواس وہی ہوتے ہیں جو پہلے تھے لیکن اس وقت وہ کبھی اپنے فرائض کی اس طرح سرانجام دے سکتے جس طرح عقل وہوش کی حالت میں سرانجام دیتے ہیں،جو حالت عقل کے بغیر حواس کی ہوتی ہے وہی کیفیت ایمان(وحی) کے بغیر عقل کی ہوتی ہے“

اس بیان سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تنہا عقل ہماری راہنمائی نہیں کرسکتی مغرب کے دانشور برگسان(BERGSON) یہاں تک کہتا ہے کہ عقل تنہا ہمیں کسی اور سمت لے جاتی ہے اس لیے کہ عقل کامنصب انسان کو اس کی منزل انسانیت تک پہنچانا نہیں اس کا فریضہ انسانی زندگی کا تحفظ ہے خواہ وہ کسی طریق سے ہو چنانچہ وہ کہتا ہے

انسان تنہا عقل کی روشنی میں صحیح راہ پر چل نہیں سکتاعقل اسے کسی دوسرے راستے پر ڈال دے گی عقل ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے جب ہم اس مقصد سے بلند مقاصد کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو وہ اس بلند سطح کے متعلق ممکنات کا سراغ دے سکے تو شاید ورنہ وہ حقیقت کا پتہ تو کسی صورت میں دے ہی نہیں سکتی(۱۳)

بیسوی صدی کے عظیم سائنسدان اور دانشور پروفیسر آئن سٹائن نے ایک کتاب لکھی ہےجس کانام(Out of my later years) ہے اس کے باب (SCIENCE AND RELIGION) میں وہ لکھتے ہیں

for science can only ascertain what is,but not what should be, and out side of its domain value judgments of all kinds remin necessary Religion ,no the other hand deals only with evaluations of human thought and action

on the other hand representative of science have often made an attempt to arrive at fundamental judgments with respect to values and ends on the basis of scientific method,and in this way have set themselves in opposition to religion (14)

سائنس صرف یہ بتا سکتی ہے کہ ”کیا ہے“ لیکن کیا ہونا چاہیے وہ یہ نہیں بتاتیاس لیے اقدار کی قیمت متعین کرنا اس کے دائرے سے باہر ہے اس کے برعکس مذہب کاکام یہ ہے کہ وہ انسانی فکر وعمل کی قیمت متعین کرے سائنس کے علمبرداروں نے اکثر اوقات اس امرکی کوشش کی ہے کہ وہ سائنس کی رو سے اقدار کے متعلق قطعی فیصلہ نافذ کر دیںاس طرح وہ مذہب کے خلاف محاذ قائم کر کے بیٹھ جاتے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سائنس کا اپنادائرہ عمل ہے اور وہ محدود ہے انسانی فکروعمل کی راہیں متعین کرنا مذہب کا کام ہے جو وحی کے راستے سے اس علم کو حاصل کرتا ہے عقل کے حوالے سے ایک اور بات اہم ہے کہ عقل کا طریقہ تجرباتی ہوتاہے عقلی طریق یہ ہے کہ انسان ایک چیز کو اختیار کرتا ہے اس پر مدتوں محنت کرتا ہے اور آخرالامر دیکھتاہے اس کا تجربہ ناکام رہا ہے وہ اسے چھوڑدیتا ہے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے اورایک مدت تا اس راہ پر چلتا ہے اسے اس وقت کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ راستہ اسے منزل مقصود کی طرف لے جائے گا یاہلاکت کے غاروں میں دھکیل دے گا اس راستے کے آخری نقطہ تک پہنچنے سے پہلے اس حقیقت کا معلوم کرلینا اس کے بس کی بات نہیں لہذا وہ ہر اس راستے پر جو اس کے سامنے آتا ہے چل نکلتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ راستہ اسے صحیح مقام تک لے جاتا ہے لیکن اکثر ہوتا ہے کہ اتنے لمبے سفر کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستہ تو کسی اور طرف جارہا ہے یہ ہیں وہ مقامات جہاں انسانی عقل تھک کر بیٹھ جاتی ہے

اب سوال یہ ہے کہ کیاانسانی فکر کو اس تجرباتی طریق پر چھوڑ دیا جائے یا اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ بھی ہے جس سے انسانیت اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتی ہے ہاں انسان کی راہنمائی کے لیے ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ وحی کا راستہ ہے

ایک مغربی دانشور کی بات کا یہ مفہوم ہے کہ مذہب کی بنیاد صرف وحی پر ہو سکتی ہے وہ لکھتا ہے

اگر وحی کا تصور نہ ہو تو مذہب ہی باقی نہیں رہتااور مذہب میں کوئی نہ کوئی عنصر توایسا ضرور ہوتا ہے جو عام فکر انسانی کے احاطہ علم سے باہر ہوتا ہے اس لیے اگر یہ کوشش کی جائے کہ جن باتوں کو انسانی عقل اچھا سمجھتی ہے انہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے اس مجموعہ کا نام مذہب رکھ لیا جائے تو اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گاایسی کوششوں کا نتیجہ مذہب نہیں بلکہ ایک فلسفہ زبوں ہو گا(۱۵)

اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے عقل کا فی نہیں ہے اس کی حدود متعین ہیں جب طبیعات میں عقل مکمل راہنمائی نہیں کرتی تو ظاہر ہے کہ مابعد الطبیعات میں وہ کیسے ہماری راہنما بن سکتی ہے اور چونکہ فضائل اخلاق روحانی کمالات کا تعلق ایک بڑی حدتک حقائق مابعد الطبیعات کے تصور سے ہے اس لیے عقل اس راہ میں ہماری کامیاب اور مکمل راہنما اور ہادی ثابت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہم کلی طور پر اس پر اعتماد کر سکتے ہیں

لہذا ہمیں ایک اور منبع وہدایت کی ضرورت ہے جو وحی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا

یہ امر اپنے مقام پر انتہائی اہم ہے اور اسے ضرور ملحوظ رکھا جائے کہ جو علم وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے وہ خلاف عقل نہیں ہوتاوحی کے ذریعے حاصل شدہ علم عقل سے ماوراء ہے اور خلاف عقل ہونے اور ماورائے عقل ہونے میں بہت بڑا فرق ہے جو وحی صحیح علم و بصیرت کے خلاف ہو وہ وحی نہیں ہوسکتی اس بارے میں ہمارے دور کے اسلامی مفکر جوادی آملی یہ اظہار نظر کرتے ہیں

تعارض”عقل قطعی“با”وحی قطعی“ ممکن نیست وبر فرض وقوع آن علاج پذیر نخواہد بود یعنی ہما نطوری کہ تعارض بین دو دلیل قطعی ممکن نیست و بر فرض تحقق درمان نا پذیر است و ہمچنین تعارض بین دو وحی قطعی ناممکن بودہ و بر فرض وقوع آن علاج ندارد تعارض بین دلیل”عقلی قطعی“و”وحی قطعی“نیز محال بودہ است وبر فرض آن ‘درمان معارضہ ممتنع خواہد بود،چون باز گشت تعارض ہریک از دلیلھای قطعی باخودش معارض باشد زیرا مبنی ھمہ ادلہ قطعی ہمان اصل امتناع جمع دو نقیض است(۱۶)

ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل اور وحی کی تعلیمات اور احکامات میں تعارض اور تضاد نہیں پایاجاتا بالفرض اگر ایسا ہو تو پھر اس مشکل کا کو ئی حل پیش نہیں کیا جاسکتااور دونوں کو رد کرنا پڑے گا اور اس امر پر دلیل علم منطق کا وہ بنیادی اصول ہے کہ ”اجماع نقیضین محال ہے“

مغربی مفکرین میں سے عقل کے بارے میں برگسان کی یہ رائے کہ:

”عقل کسی صورت میں حقیقت کا پتہ نہیں دے سکتی “(۱۷)

اور اسی طرح پروفیسر کیسیریر(Cassier) کے یہ الفاظ کہ ”عقل اس قابل ہی نہیں کہ وہ صداقت ،حکمت اور وضاحت کی طرف راہنمائی کرے“(۱۸)

ہمارے نقطہ نظر کے مطابق درست نہیں ہے کیونکہ عقل بھی بہت سے حقائق کے ادراک کی صلاحیت رکھتی ہے اور انسان کے لیے علم ومعرفت کاایک ذریعہ ہے کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ذات باری تعالیٰ کا وجود ہے وہ اسی عقل کے ذریعے ثابت ہوا ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی صحیح او رحقیقی معرفت تو بذریعہ وحی ہی حاصل ہوتی ہے اسی طرح خود”وحی کی ضرورت“بھی عقل کے ادراک سے پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے اگرہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو نقل یعنی وحی الہی یا انبیاء کے اقوال یا قرآن سے ثابت کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے کیونکہ وحی و نبوت کا مرتبہ توحید کے بعد ہے پہلے توحید ثابت ہو اور پھر وحی کی ضرورت بھی عقلی طورپرثابت ہو اس وقت وحی و نبوت کی حجت ثابت ہو گی اگر ہم نقلی دلائل سے توحید یا ضرورت وحی کا اثبات کرنا چاہیں تو منطقی کی اصطلاح میں اسے ”دور“کہتے ہیں اور وہ عقلاًمحال ہے

اب عقل کے بارے میں اسلامی طرز تفکر کیا ہے؟اس کا ہم جائزہ لیتے ہیں سب سے پہلے قرآن کی طرف رجو ع کرتے ہیںانسان کے علم ومعرفت کے منبع کے بارے میں قران مجید کی بہت سی تعبیرات ملتی ہیں جیسے:لب ،فواد،قلب،روح اور نفس وغیرہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جس طرح قرآن مجید نے انسانی عقل کو برو کار لانے اور انسانوں کو کائنات اور خود قرآن میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے کسی اور الہامی کتاب میں اس کی مثال نہیں ملتی اس سے دو چیزیں روشن ہوتی ہیں ایک یہ کہ قرآن انسانی عقل کواہمیت دیتا ہے اور معرفت کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے دوسرا یہ کہ قرآن کی باتیں اور احکامات خلاف عقل نہیں ہیں عقل ان تک پہنچ سکتی ہے اور ان کی حقانیت کا ادارک کسی سکتی ہے لہذا جب عقل قرآن میں غور و فکر اور تدبر کرے گی وہ قرآنی احکامات پر مہر تصدیق ہی ثبت کرے گی۔ نمونے کے طور پر قرآن کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔

(۱) کَذاَلِک یُبَیّن ُ اللہ ُ لَکم آیٰتہِ لَعلَّکمَ ُ تَعُقِلُونَ (۱۹)

اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنی عقلوں سے کام لو (اور غور و فکر کرو)

(۲) اِنَّ فی خَلق السَّمواتِ وَالارضِ وَاخُتِلافِ اللَّیلِ وَالنَّھارِ لَایٰتِ الا ولیِ الالُبابِ (۲۰)۔

یقینا آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کے آنے جانے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔ ایسی بہت سیی آیات ہیں جن میں اس کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی گئی اور خدا پر ایمان کو غور و فکر پر استوار کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں حق و صداقت سے انکار کرنے والوں کی پہچان قرآن اس چیز سے کراتاہے کہ یہ لوگ عقل و فہم سے کام نہیں لیتے۔

(۳) ومَثَل الَّذین کفرُوا کَمثلِ الَّذی ینَفُقُ بمَالَا یسع ُ الَادُعآء وبندآء صمَّ بُکم عُمی فَھم لاَ یعقِلون۔ (۲۱)

اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی مثل تو اس شخص جیسی ہے جو ایسے (جانور)کو حلق پھاڑ کے پکارے جو آواز پکار کے سوانہ سنتا ہو۔ بہرے گونگے اندھے ہیں یہ عقل و فکر سے کام نہیں لیتے۔

اسی طرح قرآن عقل و فکر کو استعمال نہ کرنے والوں کو بدترین خلائق قرار دیتا ہے۔

(۴) اِن شرً الدًوَآدب عِند اللہ ِ الصُّم البُکم الّذین لاَیعقلُون۔ (۲۲)

یقینا اللہ کے نزدیک بدترحیوان وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہو گئے ہیں وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں (غور و فکر ہی نہیں کرتے) اسلامی روایات میں عقل کا مقام:۔

اسلامی روایات میں عقل و خرد کو بلند مقام دیا گیا ہے اسے دین کی اساس ’عظیم نعمت بہترین دوست اور جزا کے حصول کے لیے میزان ، معیار کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس بارے میں ہم وسیوں روایات میں سے صرف چند کا انتخاب کر کے پیش کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

(۱) قوام المئر عقلہ ولادین لمن لا عقل لہ (۲۳)

انسانی وجود کی بنیاد اس کی عقل ہے جس کی عقل نہیں اس کا دین نہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

(۲) ماقسَم اللہ للعباد شئیا افضل من العقل۔ وما ادَی العبد فرائض اللہ حتیٰ عقل عنہ وما بلغ جمیع العابدین فی فضل عباد تھم مابلغ العاقل۔ (۲۴)۔

اللہ تعالیٰ نے بندوں میں عقل سے بڑھ کر کوئی چیز تقسیم نہیں کی۔

ایک اور حدیث میں آنحضرت نے فرمایا:

لکن شیء الة وعدہ والة المومن وعدتہ العقل وکل شیء مطیة ومطیة المرء العقل وکل شیء غایة العبادة العقل۔ (۲۵)

ہر چیز کے آلات و وسائل ہوتے ہیں اور مومن کے آلات و وسائل اس کی عقل ہے ہر چیز کی سواری ہوتی ہے اور انسان کی سواری عقل ہے اور ہر چیز کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہوتی ہے اور عبادت کی غرض و غایت عقل ہے۔

علی ابن ابی ظالب فرماتے ہیں:

لاغنی کا لعقل ولافقر کا لجھل (۲۶)

عقل سے بڑھ کر کوئی تو نگری اور جہالت سے بڑھ کر کوئی ناداری نہیں۔

احادیث وروایات کے علاوہ اسلامی فقہ میں عقل کیا مقام رکھتی ہے؟ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اسلام فقہ کے چار مصادر میں سے ایک قیاس ہے اور قیاس ایک عقلی دلیل ہے۔ پس عقل احکام اسلامی کے استنباط کے لیے منبع کے طور پر موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر اور عقل کا مقام و اہمیت کیا ہو گی۔

نتیجہ بحث:

مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ

قرآن اور اسلام عقل کا مخالف نہیں بلکہ عقل کو ایک بلند مقام عطا کرتا ہے اور یہ امر بھی مقام پر ثابت ہے کہ عقل کا اپنا دائرہ حدود ہے اور اس کی تمام فضیلت اور افادیت اسی دائرہ کے اندر ہے اس کی حدود سے آگے اس کے لیے وحی کی ہدایت کی ضرورت ہے۔ جس طرح آنکھ کی قوت بینائی کیلئے خارجی امداد یعنی روشنی کی ضرورت ہے اندھیرے میں آنکھ بالکل نہیں دیکھ سکتی تھوڑی سی روشنی قوت بصارت کو بڑھا دیتی ہے جوں جوں روشنی تیز ہوتی جاتی ہے حد نگاہ وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح قوت فکر عقل کی حدود بھی وحی کے نور سے وسیع ہوتی جاتی ہے عقل تنہا ظن و تخمین کی وادیون میں محو حیر ت و سرگرداں رہتی ہے لیکن وحی کی رودشنی میں وہ یقین کے درجے پر پہنچ جاتی ہے اسی بات کو علی بن ابی طالب نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا ہے:

فَبَعث فیھم رسلہ و واتر الیھم انبیاءَ ہ لیستادوھم میثاق فطرتہ ویذکر وھم منسی نعمتہ ویشیر وایھم دفائن العقول ویروھم الایات المقدرة (۲۷)۔

اللہ نے ان میں اپنے رسول معبوث کیے اور لگاتار اپنے انبیاء بھیجے تاکہ وہ ان (انسانوں) سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد لائیں۔ ۔ ۔ عقل کے دفینوں کو ظاہر و آشکار کریں اور انہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ صاحبان وحی کی بعثت کا ایک مقصد عقل کی تقویت اور اس کے چھپے ہوئے خزانوں کو آشکار کرنا ہے اور عقل کی حدود کو وسیع کرنا ہے۔ انبیاء الہیٰ ان امور کو وحی کی راہنمائی میں انجام دیتے تھے لہذا ثابت ہوا کہ عقل کو بھی وحی کی ہدایت اور راہنمائی کی ضرورت ہے۔

دلیل دوم:

اس دلیل کو بیان کرنے سے پہلے چند نکات کی وضاحت اور ا ثبات لازمی امرہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ استدلال ان نکات پر استوار ہے جب یہ مقدمات ثابت نہ ہوں تو استدلال اپنی افادیت اور حجیت کھو بیٹھتا ہے لہذا پہلے ان بنیادی نکات کو بیان کیا جاتا ہے۔

(۱) اس کائنات اور اس کی تمام اشیاء کا بغور مطالعہ کرنے سے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کا ایک مقصد اور ہدف ہے اس کائنات کا ہر جز اپنی حیات کی غرض و غایت لیے ہوئے اپنی پیدائش سے اس خاص غرض کی طرف رواں دواں ہے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیے نزدیک ترین اور مناسب ترین راہ کی تلاش میں میں ہے مثلاً گندم کا پودا اپنی پیدائش کے پلے دن سے ہی جب وہ مٹی سے اپنی سر سبز اور ہری بھری پتی کے ساتھ دانے سے باہر نکلتا ہے تو وہ اپنی فطر ت کی متوجہ ہوتا ہے یعنی یہ کہ وہ ایک ایسا پودا ہے جس کے کئی کوشے ہیں او ر وہ اپنی فطری طاقت کے ساتھ عنصری اجزاء کو زمین اور ہوا سے خاص نسبت سے حاصل کرتا ہے اور انہیں اپنے وجود کا حصہ بناتے ہوئے دن بدن بڑھا اور پھیلتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک کامل پودا بن جاتا ہے جس کی متعدد شاخیں اور خوشے ہوتے ہیں پھر اس حالت کو پہنچ کر اپنی ترقی کو روک لیتا ہے اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو چکا ہوتا ہے۔

ایک آم کے درخت کا بھی اگر بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ بھی اپنی پیدائش کے دن سے ایک خاص مقصد اور ہدف کی طرف متوجہ یعنی وہ ایک بڑا اور تنو مند آم کا درخت ہے لہذا مقصد تک پہنچنے کے لیے اپنے خاص اور مناسب طریقے سے زندگی کی راہ کو طے کرتا ہے اور اسی طرح اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرتا ہوا اپنے انتہائی مقصد کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچ کر پھل دینا شروع کردیتا ہے یہ درخت گندم کے پورے کا راستہ اختیار نہیں کرتا، جیسا کہ گندم کا پودا آم کا درخت نہیں بنتا تمام کائنات اور مخلوقات اسی قانون کے تحت عمل کرتی ہیں اور کوئی وجہ نہین کہ نوع انسان اس قانون اور قاعدے سے مستشنیٰ ہو لہذا انسان کی زندگی کا بھی ہدف اور مقصد ہے زندگی کا بہترین اور دائمی طریقہ وہ ہے جس کی طرف انسانی فطرت راہنمائی کرئے اس کی سعادت اسی مقصد کو پانے میں ہے، اس بات کی تائید اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے ہوتی ہے:

قال رَبُّنا اَلّذی اَعطیٰ کُلَّ شَیِ خَلقَہُ ثُمَّ ھَدیٰ (۲۸)

اس نے کہا ہمارا پرودگار وہ ہے جس نے ہر چیز اور ہر مخلوق کو ایک خاص صورت عطا فرمائی پھر اس کی راہنمائی کی پھر فرمایا:

اَلذِی خَلقَ فَسَوّی ٰ والّذِی قَدَّر فَھَدیٰ (۲۹)

وہ جس نے پیدا کیا اور موزوں کیا اور وہ جس نے مقدار مقرر کی پھر ہدایت دی۔

پس معلوم ہوا کہ نوع انسانی بھی عمومی ہدایت کے اس قانون سے مستشنیٰ نہیں ہے اس کی زندگی کا بھی ایک مقصد ہے فطری طور پر اس ہدف کی طرف انسان کی راہنمائی کی گئی ہے اور اسے وسائل اور ضروری قواسے لیس بھی کیا گیا ہے اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی اس کی سعادت و کمال ہے جبکہ اس کے حصول سے مایوسی بدبختی اور شقاوت ہے اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے:

اَنَّ خلَقنَا الانُساَ نَ مِن نطفَِة اَمشاجِ نَبتَلیِہِ فَجعلناہُ سمیعاً بَصِیرا اَنّا ھدَینَہُ السَّیل اِمَا شَاکِراوامِّا کفوراً (۳۰)

(۲) جاندار موجودات کو بے جان موجودات پر جو امتیاز اور برتری حاصل ہے وہ یہ ہے کہ جاندار اپنے کاموں کو ادارک اور شعور سے انجام دیتے ہیں۔ اس امتیاز میں انسان دوسرے جانداروں کے ساتھ شریک ہے تاہم اسے ایک اور امتیاز عقل و خرد کے زیور سے آراستہ ہونا بھی ہے حاصل ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہر مکان پذیر عمل کو یونہی دیتا بلکہ اسے نفع و نقصان کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ وہ جو کام بھی کرتا ہے اس میں اپنی تشخیص کے مطابق عقل کے حکم کی پیروی کرتا ہے (البتہ عقل کے حکم سے ہماری مراد یہ ہے کہ عقل اس فعل کی انجام دہی یا اس کے ترک کرنے کی ضرورت کا ادراک کرئے) لیکن اس کے کرنے یا ترک کرنے پر مائل کرنا درحقیقت ان جذبات و احساسات کا کام ہے جن کی بنیاد پر عقل ادراک کو انجام دیتی ہے اور کسی عمل کے خالص نفع کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

(۳) اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ایک معاشرتی موجود ہے وہ معاشرے میں رہتا اور معاشرے کے تمام افراد اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہین لیکن سوال یہ ہے کہ یا انسان اپنی طبع اولیٰ کے تحت ایسا کرتا ہے اور ابتدا ہی سے اپنے کاموں کو اجتماعی طور پر انجام دینے پر مائل ہے؟

جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان کی ذاتی طیبعت کچھ ضروریات اور احتیاجات رکھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات اور احساسات بھی ہوتے ہین وہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوتوں اور وسائل کو بروئے کار لاتا ہے اس مرحلے پر وہ دوسرے انسانوں کی ضروریات اور خواہشات سے بے خبر ہوتا ہے۔

انسان اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہر چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے زمین اس کے مرکبات و عناصر درختوں پھلوں اور مختلف قسم کے حیوانات سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور ان حاصل شدہ فوائد کو اپنی ضروریات برطرف کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے یہ انسان جو ہر چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے جب اپنے ہم نوع افراد سے روبرو ہوتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان کے احترام کے پیش نظر خلوص دل سے ان کی طرف دست تعاون دراز کرکے ان کے مفادات کی خاطر اپنے مفادات کے کچھ حصے سے دست بردار ہو جائے؟ ہر گز نہیں! انسان ایک طرف سے وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ دوسرے انسان بھی اس کی مانند قوتیں اور خواہشات رکھتے ہیں کود اس کی طرح وہ بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کرتے یہی وہ مقام ہے جہاں وہ خود کو معاشرتی تعاون پر مجبور پاتا ہے وہ اپنی محنت اور کام کی کچھ مقدار دوسروں کو دے دیتا ہے اور اس کے بدلے میں اپنی ضروریات کے مطابق دوسروں کے کام کے نتائج سے مستفید ہونا ہے۔

پس واضح ہو گیا کہ انسان اپنی طبیعت اولیٰ کی روسے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے۔ اس کا معاشرتی تعاون پر آمادہ ہونا اس کی مجبوری ہے۔ اس دعویٰ کی ایک اور دلیل یہ ہے ک عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو شخص دوسروں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے وہ لامحالہ معاشرتی تعاون پر نظر انداز کر کے دوسروں سے کام لیتا ہے اور ان کی محنت کا پھل بغیر کسی معاوضہ کے ہتھیا لیتا ہے۔ ہماا معاشرہ ایسی مثالوں سے بھر ا پڑا ہے۔

(۴) اگرچہ انسان دوسروے انسانوں کے معاملات میں مجبوراً معاشرتی تعاون کو اپنانے پر تیار ہوا ہے اور یوں درحقیقت اس نے اپنی آزادی عمل کا کچھ حصہ باقی ماندہ کے لیے قربان کردیا لیکن افراد کی روحی اور جسمانی قوتوں کے واضح اختلاف کی وجہ سے صرف معاشرتی تعاون کسی دروکا علاج نہیں کر سکتا جب مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو یہی معاشرہ جو اختلافات برطرف کرنے اور اصلاح احوال کی خاطر قائم ہوا تھا فساد و اختلاف کا بنیادی سبب بن جاتا ہے۔

اس مقام پر ایسے مشترک قوانین کی ضرورت پورے طور پر محسوس ہوتی ہے جو معاشرے کے تمام افراد کی نظر میں قابل قبول اور محترم ہوں اس لیے کہ جب تک لین دین کے ایک چھوٹے معاملے میں بھی ایسے قوانین موجود نہ ہوں جو خرید نے اور بیچنے والے کی نظر مین یکساں محترم ہون تو وہ معاملہ انجام نہیں پاسکتا۔

پس ضروری ہے کہ معاشرے میں ایسے قوانین نافذ ہوں جو معاشرے کو پراگندہ ہونے سے اور افراد کے مفادات کو ضائع ہونے سے بچائیں اور نظام خلقت جو کہ تمام انواع کو ان کے مقصد اور کمال تک پہنچنے میں ان کی راہنمائی کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو بھی ایسے قوانین کی طرف راہنمائی کرئے جو انسانی معاشرے کی سعادت کے ضامن ہوں۔

(۵) اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی ہدایت اور مذکورہ قوانین کی طرف راہنمائی کس کے ذمے ہے؟ اس کا جواب پہلے نکتے میں موجود ہے کہ اس کی ذمہ داری نظام خلقت پر ہے جو دیگر تمام موجودات کی راہنمائی کرتا ہے انسان کی ہدایت بھی اسی کے سپرد ہے کیونکہ انسان بھی اسی کائنات کا جزو ہے۔

اب ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ کیا انسان کی عقل اس ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہو سکتی ؟ عقل کی نارسائی کو ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں یہاں پر قانون سازی میں عقل کی عدم کفایت پر بات کر تے ہیں۔

عقل ان اختلافات کو بر طرف کرنے کے لیے ضروری قانون کی طرف راہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتی اس لیے کہ یہ عقل ہی تو ہے جو اختلاف کی دعوت دیتی ہے، یہ عقل ہی تو ہے جو انسان کو اس بات پر اکستاتی ہے کہ دوسروں سے خدمت لے اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے بے قیدو شرط اور مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرے اگر یہ معاشرتی توازن کو قبول کرتی ہے تو اس کی وجہ وہ مجبوری ہے جو مفادات ٹکراؤ کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور یہ بات مالکل واضح ہے کہ ایک عاملہ دو متضاد افعال یعنی ایجاد اختلاف اور رفع اختلاف کی ھامل نہیں ہو سکتی۔ معاشرے پر حاکم قوانین کی بکثرت خلاف ورزی جو ہم روزانہ دیکھتے ہیں جسے جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے، انہیں لوگوں سے سر زد ہوتی ہے۔ جو عقل رکھتے ہیں ، ورنہ اسے جرم یا گناہ نہ سمجھا جاتا۔ اگر عقل اختلافات کو زائل کودینے والے قوانین کی طرف راہنمائی کر سکتی اور قانون شکنی کی جبلت سے پاک ہوتی تو ہر گز اس قانون شکنی کی اجازت نہ دیتی بلکہ اس کی ممانعت کرتی۔

عقل کے ہوتے ہوئے خلاف قانون کاموں کی بنیادی کاموں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عقل نے معاشرتی توازن اور معاشرتی انصاف کے ضامن قوانین کے لیے قبول کیا ہے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ وہ دیکھتی ہے کہ اگر ایسا نہ کرے تو کود اس کے مفادات کے حصول مین رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اگر یہ راکاوٹیں موجود نہ ہوتیں تو وہ کبھی معاشرتی تعوان اور عدل و انصاف کا حکم صادر نہ کرتی۔

جو لوگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ یا تو ایسے لوگ ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں یا پھر وہ قوہ مجریہ کی دستریں سے باہر ہوتے ہیں چاہے اس کی وجہ فاصلے کی دوری یا پناگاہوں کی مضبوطی یا ان اداروں کی غفلت ہو۔ یا پھر وہ ایسے طریقوں سے واردات کرتے ہیں کہ اپنی قانون شکنی کو قانون کے عین مطابق ظاہر کرتے ہیں پھر وہ مظلوم اور پسے ہوئے افراد کی بیکسی اور بے چارگی سے ناجئز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بہر حال وجہ جو بھی ہوا صل بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور اگر ہوبھی تو کمذور اور بے اثر ہوتی ہے ظاہر ہے ایسی صورت میں کوئی حکم موجود نہیں ہوتا وہ اس مکمل آزادی سے باز نہیں رکھتی اور دوسروں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی جبلت کو کھلی چھٹی دے دیتی ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ عقل ایسے معاشرتی قانون کا طرف راہنمائی نہیں کر سکتی جو معاشرے میں توازن اور اعتدال کو برقرار رکھے اور معاشرے کے تمام افراد کے مفادات کی عادلانہ طور پر حفاظت بھی کرے مندرجہ بالا نکلا کو واضح کرنے کے بع اب اصل دلیل پیش کی جاتی ہے۔

گذشتہ بحث سے معلوم ہوا کہ دیگر تمام انواع کی طرح انسان بھی اپنی زندگی میں ایک اعلیٰ ہدف رکھتا ہے چونکہ اس کی ساخت و بناوٹ اور اس کی طبیعی ضروریات کی تکمیل کا تقاضا ہے کہ وہ معاشرتی زندگی اختیار کرئے لہذا اس کی سعادت اور بدبختی معاشرے کی سعادت اوربدبختی سے وابستہ ہےوہ مجبور ہے کہ کسی معاشرے میں رہے اور اپنی ذاتی سعادت اور حسن عاقبت کو معاشرے کی سعادت میں تلاش کرے اور اس بات کو بھی ہم نے ثابت کیا کہ ایک مشترک قانون ہی اس قابل ہے کہ وہ براہ راست کسی معاشرے کی اور بالواسطہ فرد کی سعادت کی ضمانت دے

یہ بھی ثابت کیا کہ کہ دوسری تمام مخلوقات کی طرح ضروری ہے کہ سعادت اور اس کے لوازم کی طرف انسان کی ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوچونکہ انسان کی سعادت معاشرتی سعادت سے وابستہ ہے لہذا ایک مشترک قانون کی طرف ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوعلاوہ برایں انسانی عقل بھی راہنمائة کے لیے کافی نہیں ہے اس لیے کہ وہ تمام حالات میں معاشرتی عدالت اور عمومی تعاون کا حکم نہیں دیتی

پس اس گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نوع انسانی میں عقلی ادراک کے علاوہ ادراک کی ایک اور قسم ہونی چاہیے جس کے ذریعے وہ مذکورہ ہدایت حاصل کر سکے ادراک کی یہ دوسری قسم جو نوع انسانی میں پائی جاتی ہے وہی ہے جسے انبیاء الہی نے وحی کا نام دیا ہے اور اپنے دعویٰ کے حق میں دلائل دیے ہیں

دلیل سوم: جید عالم سعید احمد اکبر آبادی کی ضرورت پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا زیور علم و عقل سے آراستہ کیا اور اس نے انسان کے جسمانی نشوونما اور اس کی مادی زندگی کی ترقی و فلاح کے لیے کارگاہ ہست وبود کو رنگ رنگ کے نقش ونگار سے سجایااور ابن آدم کی تربیت و کامرانی کے لیے ایک مخصوص نظام کے ماتحت قطعی و حتمی وسائل معیشت پیدا کیےچنانچہ وہ پانی پیتا ہے،ہوا میں سانس لیتا ہے بادلوں سے بارش ہوتی ہے جو اس کے کھیتوں اور باغوں کو سرسبزو شاداب کر دیتی ہے اور جس سے اناج اور پھل پیدا ہوتے ہیںآگ سے وہ اپنی غذا تیار کرتا ہےآفتاب کی دھوپ سے حرارت پیدا ہوتی ہےیہ سب چیزیں جن کی تخلیق میں انسان کی صنعت و حرفت کی کوئی دخل نہیں ان پر ہی حیات انسانی کے قیام و بقا کا دارومدار ہے یہ تمام اشیاء وہ ہیں جن کو مادی زندگی کے قدرتی وسائل وذرائع کہا جاتا ہےلیکن اس مادی زندگی سے بڑھ کر انسان کی ایک اور زندگی ہے جس کو اخلاقی اور روحانی زندگی کہتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ہی وہ اصل حیات ہے جس پر انسان کی اجتماعی زندگی کا صالح اور درست نظام قائم رہ سکتا ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان کی تمام ترقیات،عمرانی ایجادات و اختراعات اور عقلی تحقیقات و اکتشافات انسانیت کی تعمیر میں مفید ثابت ہونے کی بجائے خود اس کے لیے سم قاتل بن جائیں اور اس کی سوسائٹیاں و حشیوں اور درندوں کے مہیب ریوڑ کی شکل میں تبدیل ہو کر رہ جائیںجس طرح پورے نظام شمسی کے قیام وبقا کا دارومدار اجرام فلکی کے باہمی جذب و انجذاب پر ہے ٹھیک ہے اسی طرح انسانی سوسائٹی کے نظم و نسق اور اس کی فلاح و نجاح کا انحصار حاسئہ اخلاقی یا روحانی اعمال و ضوابط پر ہےاس بنا پر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ رب العالمین جس نے انسان کی مادی و جسمانی زندگی کے قرار و قیام کا خود کو مکفل کیا اس کے لیے ایسے قدرتی وسائل و ذرائع پیدا کیے جن کی صنعت و تخلیق میں انسانی کے اپنے دست ایجاد کو مطلقاد خل نہیں ہے وہ ہمیں اخلاقی اور روحانی زندگی کے ایسے قدرتی اصول و آئین نہ بتاتا جو صالح و تمدن کی اساس و بنیاد بنیں اور جو قطعی و حتمی ہونے کی وجہ سے ہر ملک اور ہرزمانہ میں ہر شخض کے لیے لائق عمل اور درخود قبول و پذیرائی ہوں اور ان میں کسی کے لیے اختلاف کی گنجائش نہ ہو(۳۱)

اس دلیل اور دوسری دلیل میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسانی کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے جبکہ سابقہ دلیل میں انسان کو معاشرتی زندگی کے لیے مشترک قانون کی ضرورت کو بنیاد بنایا گیا تھااس استدلال میں ایک اور بات موجود ہے کہ اس کی بازگشت پھر خدا کی ذات اور صفات کی طرف ہوتی ہے آپ نے ملاحظہ کیا کہ مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اس بنا پر یہ کیسے ہو سکتا تھ کہ وہ رب العالمین جس نے انسان کی مادی و جسمانی زندگی کے قرارو قیام کا خود کو مکفل کیا“

وہ ہمیں اخلاقی اور روحانی زندگی کے ایسے قدرتی اصول و آئین نہ بتاتا جو صالح تمدن کی اساس بنیںگویاخدا شناسی اور معرفت تو حید ہمیں اس کی طرف سے ہدایت ور اہنمائی ملنے کی ضرورت پر آگاہ کرتی ہے

مذکورہ بیان کے بعد موصوف یہ سوال اٹھا تے ہیں:

کہ جاسکتا ہے اس طرح کے اصول و ضبط کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ وہ خدا کے بنائے ہوئے ہوں اور اس نے ہی انسان کو ان کی تلقین کی ہو جس طرح انسانی اپنے رہنے کے لیے مکانات بناتا ہے گرمی سردی سے محفوظ رہنے کی غرض سے اپنے لیے کپڑے بنتا ہے اور اسی طرح کی ہزاروں صنعتیں اس نے اپنے نفع کے لیے ایجاد کر رکھی ہیں وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ اپنے لیے اخلاقی ضوابط و قواعد بنائے اور اپنی روحانی تشنگی کو فرد کرنے کے لیے خود ہی کوئی نسخہ کیمیا تجویز کرلے عقل جس طرح مادی ترقی کی راہ میں راہنمائی کرتی ہے اخلاق اور روحانیت کے میدان میں بھی وہ اسی طرح شمع ہدایت بن سکتی ہے

سوال کاجواب ہم اگرچہ پہلے دے چکے ہیں او ر انسانی ہدایت و راہنمائی کے لیے عقل کی نارسائی کو ثابت کر چکے ہیں لیکن موصوف نے اپنے اسلوب میں ایک اور پہلو سے اس سوال کا جواب دیا ہے لہذا ان کے جواب کو نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے وہ جواب دیتے ہیں:

کسی انسان کی عقل کتنی ہی کامل و مکمل ہو نقص سے مبرا نہیں ہو سکتی انسان خود اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے ناقص و غیر مکمل ہے اس بنا پر اس کی کوئی قوت بھی خواہ ظاہری ہو یاباطنی ،مادی ہو یا روحانی من کل الوجوہ کامل نہیں ہےہر معاملہ میں صحت کے ساتھ خطا،کمال کے ساتھ نقص اور تذکر کے ساتھ سہوونسیان کا خدشہ لگا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو ،امکان و حدوث کی ظلمت کے ساتھ کمال بے خطا کا نور جمع کس طرح ہو سکتا ہے جس طرح انسان رنگ اور شکل میں ایک دوسرے سے متبائن ہیں ٹھیک اسی طرح اپنے قوائے فکریہ و باطنیہ کے لحاظ سے بھی وہ مختلف اور ایک دوسرے سے جدا ہیںیہ ہو سکتا ہے کہ کوئی خوش نصیب عقل حقیقت کے بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زنی کر کے صداقت و حقانیت کے چند آبدار موتی حاصل کر سکے لیکن اس کے پاس وہ قوت کہاں ہے جس سے وہ تمام دنیا کو اس صداقت کا معترف بنا سکے کوئی انسانی اختراع و ایجاد خواہ کتنی ہی حقیقت سے قریب ہو،اختلاف کی گنجائش سے خالی نہیں ہو سکتی یہی وجہ ہے کہ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا ہےآج تک دنیا کی ممتاز عقلیں بھی کسی ایک مسئلہ پر متفق الرائے نہ ہو سکیںفلسفہ یونان کے جو بنیادی نظریے تھے اور جو قرنہاقرن تک عالم میں قبول ورائج رہےآخر آج موجودہ فلسفہ یورپ نے ان کو پرزہ پرزہ کر کے فضا میں منتشر کر دیا ہے لیکن کون کہ سکتا ہے کہ آج فلسفہ حال کی عمارت جس بنیاد پر کھڑی ہے مستقبل میں کوئی قوم اپنے جدید نظریات و افکار کی قوت سے اسے پاش پاش نہیں کر دیگی اور اس عمارت کے کھنڈروں پر ایک نئے نظام فکرو عمل کی دنیا نہیں بسائے گی قرنوں اور صدیوں کے بعد جوکچھ ہو گا اسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہےلیکن اتنا تو اب بھی دیکھا جارہا ہے کہ فلسفہ جدیدہ کی شاندار عمارت کو ارتیاب و شک کا گھن ابھی سے لگنا شروع ہو گیا ہےمولانا عبدالباری ندوی استاد فلسفہ جدیدہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن ”مہم انسانی“ کے مقدمہ میں اس راز سbربستہ کا افشا اس طرح کرتے ہیں:

اور سچ یہ ہے کہ اس کے بعد فلسفہ کی تاریخ زیادہ تر نام بدل بدل کر کھلے یا چھپے اقرار جہل کی تاریخ بن کررہ گئی ”لاک“ کے یہاں یہ اقرار حسیت کے نقاب میں ہے اور”برکلے“ کے ہاں ادعائے تصوریت کے ،مگر اتنی باریک اور شفاف کہ روپوشی سے زیادہ رونمائی کی زینت ہے آخر برکلے کے بعد ہی ” ڈیوڈ ہیوم“ نے اس رونما نقاب کو بھی تار تار کر دیا اور نہ صرف جہل وارتیاہیت کا کھل کر اقرار کیا بلکہ اپنے آپ کو ارتیابی ہی کہلانا پسند کیا

اس کے بعد موصوف متعدددلائل دینے کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

پس یہ ثابت ہوگیا کہ اصل صداقت و حقانیت اور کامل اطمینان و سکون کا سراغ صرف وحی الہی کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے اور انسانی کی روحانی تشنگی صرف اسی سر چشمہ ہدایت کے آب زلال سے بجھ سکتی ہے

دلیل چہارم: ایک اور اسلامی دانشور وحید الدین خان نے وحی کی ضرورت پر یوں استدلال کیا ہے:

وحی کی ضرورت کاسب سے بڑا ثبو ت یہ ہے کہ رسول آدمی کو جس چیز سے باخبر کرتا ہے وہ آدمی کی شدید ترین ضرورت ہے مگر وہ خود اپنی کوشش سے اسے حاصل نہیں کرسکتا ہزاروں برس سے انسان حقیقت کی تلاش میں ہے،وہ سمجھنا چاہتا ہے کہ یہ کائنات کیا ہے،انسان کا آغاز و انجام کیا ہے،خیر کیا ہے اور شر کیا ہے،انسان کو کیسے قابو میں لایا جائے،زندگی کو کیسے منظم کیا جائے کہ انسانیت کے سارے تقاضے اپنے صحیح مقام کو پاتے ہوئے متوازن ترقی کر سکیں،مگر ابھی تک اس تلاش میں کامیابی نہیں ہوئی،تھوڑی مدت کی تلاش و جستجو کے بعد ہم نے لوہے اور پٹرول کی سائنس بالکل ٹھیک ٹھیک جان لی ہے اور اس طرح طبیعی دنیا کی سینکڑوں سائنسوں کے بارے میں صحیح ترین واقفیت حاصل کرلی،مگر انسانی کی سائنس ابھی تک دریافت نہیں ہوئی طویل ترین مدت کے درمیان بہترین دماغوں کی لاتعداد کو ششوں کے باوجود یہ سائنس ابھی تک اپنے موضوع کی ابتدائیات کو بھی متعین نہ کرسکی ،اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں ہمیں خدا کی مدد کی ضرورت ہے ،اس کے بغیر ہم اپنا”دین“معلوم نہیں کر سکتے

یہ بات انسان جدید کو تسلیم ہے کہ زندگی کا راز ابھی تک اس کو معلوم نہ ہو سکا،مگر اسی کے ساتھ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس راز کو معلوم کر لے گا،سائنس اور صنعت کے پیدا کیے ہوئے ماحول کے انسان کے لیے سازگار نہ ہوتا اسی وجہ سے ہے کہ اگر ایک طرف جامد مادے کے علوم کو وسیع پیمانے پر ترقی ہوئی ہے تو دوسری طرف جاندار ہستیوں کے علوم بالکل ابتدائی حالت پر باقی ہیں،اس دوسرے شعبہ پر جس لوگوں نے کام کیا وہ حقیقت کو نہ پاسکے اور اپنے تخیلات کی دنیا میں بھٹک رہے ہیںنوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ایکس کیرل کے الفاظ میں:

فرانسیسی انقلاب کے اصول اور مارکس اورلینن کے نظریے محض ذہنی اور قیاسی انسانوں پر منطبق ہو سکتے ہیں،اس بات کو صاف طور پر محسوس کرنا چاہیے کہ انسانی تعلقات کے قوانین(LAW OF HUMAN RELATION)اب تک معلوم نہیں ہو سکے ہیںسماجیات اور اقتصا دیات کے علوم محض قیاسی ہیں اور ناقابل ثبوت ہیں،،

(ALEXIS CARREL,MAN THE UNKNOWN,P-37)

بلاشبہ موجودہ زمانے میں علوم نے بہت ترقی کی ہے مگر ان ترقیات نے مسئلہ اور الجھادیا ہے اس نے کبھی بھی درجہ میں اس کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں کی جے ڈبلیو،این سولیون لکھتا ہے:

سائنس نے موجودہ زمانے میں جس کائنات کو دریافت کیا ہے،وہ تمام فکری تاریخ کے مقابلے میں بہت زیادہ راسرار ہے اگرچہ فطرت کے بارے میں ہماری معلومات ایک اعتبار سے بہت کم تشفی بخش ہیںکیونکہ ہر سمت میں ایہام (AMBIGUTIES)تضاد (CONTRADICTIONS)سے دوچار ہو رہے ہیں“

(J.W.N SULLIVAN,LIMITATIONS OF SCIENCE,P1)

زندگی کے راز کو مادی علوم میں تلاش کرنے کا یہ عبرت ناک انجام بتاتا ہے کہ زندگی کا راز انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے(تفصیل کے لیے ڈاکٹر الیکیس کیرل کی کتاب صفحات 19-16)ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ زندگی کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے اس کے بغیر ہم کوئی عمل نہیں کرسکتے،ہمارے بہترین جذبات اسے جاننا چاہتے ہیں،ہماری ہستی کا اعلیٰ ترین جزو جس کو ہم فکرو ذہن کہتے ہیں وہ اس کے بغیر مطمئن ہونے کے لیے کسی طرح راضی نہیں،ہماری زندگی کا سارا نظام اس کے بغیر ابتر اور لایخل معمہ بنا ہوا ہے ،دوسرے لفظوں میں یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے مگر یہی سب سے بڑی ضرورت ہم خود سے پوری نہیں کر سکتے کیا یہ صورتحال اس بات کی کافی دلیل نہیں ہے کہ انسان” وحی “ کا محتاج ہے ،زندگی کی حقیقت کا انتہائی ضروری ہونے کے باوجود انسان کے لیے ناقابل دریافت ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اس کا انتظام اسی طرح خارج سے کیا جانا چاہیے،جیسے روشنی اور حرارت انسان کے لیے ناگریز ہونے کے باوجود اس کے اپنے بس سے ظاہر ہے(۳۲)

اس دلیل میں خود انسان اور اس کی شناخت کو موضوع سخن قرار دیا گیا ہے ایک طرف تو زندگی کی حقیقت کو جاننا ضروری قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف اس راز اور حقیقت کو معلوم کرنے کا انسان کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں پایا جاتا سوائے اس کے کہ خارج سے اسے یہ راہنمائی حاصل ہواور اس کی یہ ضرورت خارج سے پوری ہو اور اس کے لیے وحی کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا

اس استدلال میں دوسرا پایہ انسان کی معرفت کے حوالے سے انسانی علم و عقل کی محدودیت کو قرار دیا ہے جسے ہم پہلے ثابت کر چکے ہیںتقریباً اسی طرح کا استدلال مفتی اعظم محمد شفیع نے بھی بیان فرمایا ہے ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے:

ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجاہے اور اس کے ذمہ کچھ فرائض عائد کر کے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے اب دنیامیں انسان کے لیے وہ کام ناگریز ہیں ایک کائنات کی تمام ا

شیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لینا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کے احکام کو مدنظر رکھنا اور اس کی مرضی کے خلاف کو ئی کام کرنا ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو ”علم “ کی ضرورت

ہے اس لیے کہ جب تک اس کائنات ک حقیقت اور اس کی اشیاء کے خواص معلوم نہ ہوں وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا نیز جب تک اسے یہ علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے؟وہ کون سے کاموں کو پسند اور ناپسند فرماتاہے؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ناممکن نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جس کے ذریعے اسے مذکورہ باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے ایک انسان کے حواص،دوسری عقل،تیسری وحی

علم کے تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی خاص حد اور مخصوص دائرہ کار رہے چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں ان کا علم نرمی عقل سے نہیں ہو سکتا،مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل کی مدد سے اسے دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے،اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں غرض جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے لیکن اس عقل کی راہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعہ اس کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے(۳۳)

اس دلیل میں جن دو باتوں کو بنیاد بنایا گیا ہے ایک یہ کہ انسان کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے ذمے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرائض عائد ہیں ان دو باتوں کو انسان کی عقل ادراک نہیں کرتی اور ان کی ضرورت کو احساس نہیں کرتی لہذا مذکورہ دلیل عقلی نہیں بن سکتی لامحالہ ان دو باتوں کا اثبات بذریعہ وحی ہو سکتا ہے لیکن اس مقام پر تو ہم خود وحی کی ضرورت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں پس اس دلیل کے ذریعے عقلی طور پر ہم وحی کی ضرورت کو ثابت نہیں کر سکتے البتہ مذکورہ دو باتوں کو انسانی عقل ادراک کر لے تو پھر ہم اسے وحی کی ضرورت پر عقلی دلیل کے طور پر پیش کر سکتے ہیں

مصادر

۱۔ ابن منظور ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم،لسان العرب،نشر ادب الحوزة ایران۱۴۰۵ھ،ج۵،ص۳۰۲

۲۔ The concept of revelation is a fundamental one in every religion that in any way traces its origion to God or a divinity.Eliade,Mircea,The Encyclopedia of religion,Macmillan publising company NewYork 1987,Volume 12,p_356

۳۔ وجدی محمد فرید دائرةالمعارف القرآن الرابع عشر العثرین ، وزارة المعارف العمومیة والجامعة الازھرایة مجالس المدیرات،الطبعہ الرابعہ 1967ء ج۱۰،ص۷۱۳۷۱۲

۴۔ ابن ابی الحدید عزالدین عبدالحمید بغدادی المدائنی،شرح نہج البلاغہ تحقیق ابوالفضل ابراہیم دارالاحیاء التراث العربی بیروت ۱۹۶۵،ج۱،خطبہ۱،ص۷۲

۵۔ شرح نہج البلاغہ،ج۱۶،مکتوب ۳۱،ص۷۷

۶۔ کلینی ابی جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق اصول کافی دارالکتب طہران،۱۳۶۵ہجری،شمسی،ج۱،ص۱۶۸

۷۔ فیاض لاھچی،ملا عبدالرزاق گوہر مراد،تصحیح و تحقیق زین العابدین لاھچی،وزارت فرہنگ ارشاد اسلامی تہران ۱۳۷۲ ہجری شمسی،ص۳۷۵

۸۔ مطہری مرتضیٰ حکمتھا واندر زھا،انتشارات صدراتہران،ص۱۷۱۸

۹۔ شفیع مفتی محمد معارف القرآن ادارة المعارف کراچی،اکتوبر۱۹۹۴ء،ج۱،ص۲۲

۱۰۔ Eddington,science and the huseeri world,1929,p-44

۱۱۔ پرویز غلام احمد ”انسان نے کیا سوچا“ طلوع اسلام ٹرسٹ لاہور،۱۹۹۱ ء،ص۴۰۷

۱۲۔ Bergson,Henri,Creative Evolution,px.

۱۳۔ Bergson,Henri,Creative Evolution,p-174

۱۴۔ Brightman,Edgaro,s A philosophy of Religion cobesbury press 1930,p-113

۱۵۔ Sheen,Fulion,J,Philosophy of Religion,Appleton,century crofts Inc NewYork may 7,1948,p-341.

۱۶۔ Bergson Henri,Two sources of molarity and Religion, Henry Holt & company 1935,p-201 .

۱۷۔ Einstein,Albert,Out of my latter years,philosophical Library NewYork 1950,p-25-26.

۱۸۔ Ouspensky P.D,A new Model of the universe p-34.

۱۹۔ جوادی آملی عبداللہ وحی و رہبری ،۱۴۰۹ہجری،ص۲۷۴

۲۰۔ Bergson Henri,Creative Evolution p.x.

۲۱۔ پرویز غلام احمد نقل ازCassier,Ari Essay on Man انسان نے سوچا،طلوع اسلام ٹرسٹص۴۱۱

۲۲۔ القرآن۲:۲۴۲

۲۳۔ القرآن۳:۱۹۰

۲۴۔ القرآن۲:۱۷۱

۲۵۔ القرآن۸:۲۲

۲۶۔ مجلسی محمد باقر بحارالانوار الجامعہ لدرراخبارالائمہ الاطھار،موسسہ الوفاء،بیروت۹۸۶،ج۱،ص۹۴،ج۱۹

۲۷۔ اصول کافی،ج۱،ص۱۲،ج۱۱

۲۸۔ بحارالانوار،ج۱،ص۹۵،۳۴۲

۲۹۔ حسین مفتی جعفر،ترجمہ نہج البلاغہ امامیہ پبلیکشنز لاہور،کلمات قصار،جملہ۵۴

۳۰۔ نہج البلاغہ ،خطبہ۱،ص۷۸

۳۱۔ القرآن:۲۰:۵۲

۳۲۔ القرآن:۸۲:۲،۳

۳۳۔ القرآن:۷۲:۲،۳

۳۴۔ اکبر آبادی مولانا سعید احمد وحی الہی مکتبہ عالیہ لاہور،۱۹۸۷ء ص۷‘۸

۳۵۔ خان وحید الدین،مذہب اور جدید چیلنج دارالاصلاح لاوہر ۱۹۹۴ء ص۱۳۲،۱۳۰

۳۶۔ معارف القرآن ،ج۱،ص۲۱،۲۲

No comments:

Post a Comment