Wednesday, 11 August 2010

قرآن نہج اللاغہ کے آئينے ميں

قرآن نہج اللاغہ کے آئينے ميں

مؤلف محمدفولادي

ترجمه

(يہ مقالہ حضرت آية اللہ مصباح يزدي کي کتاب ”قرآن اورآئينہ نہج البلاغہ“ سے ايک انتخاب ہے)

الف : قرآن کريم کي اہميت وموقعيت :

۱۔ اس وقت فقط قرآن کريم ہي ايک آسماني کتاب ہے جوانسان کي دسترس ميں ہے۔

نہج البلاغہ ميں بيس سے زيادہ خطبات ہيں جن ميں قرآن مجيدکاتعارف اور اس کي اہميت وموقعيت بيان ہوئي ہے بعض اوقات آدھے سے زيادہ خطبے ميں قرآن کريم کي اہميت،مسلمانوں کي زندگي ميں اس کي موقعيت اوراس کے مقابل مسلمانوں کے فرائض بيان ہوئے ہيں۔ يہاں ہم صرف بعض جملوں کوتوضيح وتشريح پہ اکتفا کريں گے۔

اميرالمومنين(عليہ السلام) خطبہ ۱۳۳ميں ارشادفرماتے ہيں ”وکتاب اللہ بين اظہرکم ناطق لايعيي لسانہ“۔

ترجمہ : اوراللہ کي کتاب تمہاري دسترس ميں ہے جوقوت گويائي رکھتي ہے اور اس کي زبان گنگ نہيں ۔

قرآن آسماني کتابوں تورات وانجيل ووزبورکے برخلاف تمہاري دسترس ميں ہے۔ يہ بات توجہ طلب ہے کہ تورات گذشتہ امتوں امتوں خصوصا يہوداوربني اسرائيل کے عوام کے پاس نہ تھي بلکہ اس کے کچھ نسخے علمائے يہودکے پاس تھے يعني عامة الناس کے لئے تورات کي طرف رجوع کرنے کاامکان نہ تھا۔انجيل کے بارے ميں تووضيعت اس سے زيادہ پريشان کنندہ ہے کيونکہ وہ انجيل جوآج عيسائيوں کے پاس ہے يہ وہ انجيل نہيں جوحضرت عيسي عليہ السلام پرنازل ہوئي تھي بلکہ مختلف افرادکے جمع شدہ مطالب ہيں اور چار اناجيل کے طورپرمعروف ہيں۔ پس گذشتہ امتيں آسماني کتابوں تک دسترسي نہ رکھتي تھيں۔

ليکن قرآن کريم کوخداوندمتعال نے ايسے نازل فرمايااورپيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسے انسانوں تک ايسے پہنچاياکہ آج لوگ بڑي آساني سے اسے سيکھ اورحفظ کرسکتے ہيں۔

اس آسماني کتاب کي ايک دوسري خصوصيت يہ ہے کہ خداوندمتعال نے امت مسلمہ پريہ احسان فرماياہے کہ اس کي حفاظت کي ذمہ داري خوداپنے ذمہ لي ہے کہ يہ کتاب ہرطرح کے انحراف يامقابلہ آرائي سے محفوظ رہے۔ خودآنحضرت (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اس کے سيکھنے اوراس کي آيات کے حفظ کرنے کي مسلمانوں کواس قدرتاکيدفرمائي کہ بہت سارے مسلمان آپ کے زمانے ميں ہي حافظ قرآن تھے جوآيات تدريجانازل ہوتي تھيں توحضرت(ص) مسلمانوں کے لئے بيان فرماتے تھے اس طرح مسلمان ان کوحفظ کرتے،لکھتے،اوران کوآگے بيان کرتے۔ اس طريقے سے قرآن پوري دنياميں پھيلتاگيا۔ مولائے کائنات فرماتے ہيں : اللہ کي کتاب تمہارے درميان اورتمہارے اختيارميں ہے۔ ضرورت ہے کہ اس جملے ميں ہم زيادہ غورکريں ”ناطق لايعيي لسانہ“ يہ کتاب بولنے والي ہے اوراس کي زبان کبھي گنگ ياکندنہيں ہوئي۔ يہ بولنے سے خستگي کااحساس نہيں کرتي اورنہ کبھي اس ميں لکنت پيداہوئي ہے اس کے بعدآپ ارشادفرماتے ہيں ”وبيت لاتھدم ارکانہ وعزلاتھزم اعوانہ“ يہ ايساگھرہے جس کے ستون کبھي منہدم ہونے والے نہيں ہيں اورايسي عزت وسربلندي ہے جس کے يار و انصار کبھي شکست نہيں کھاتے۔

۲۔ يہ کتاب ناطق بھي ہے اورصامت بھي۔

حضرت (ع) ايک طرف توفرماتے ہيں کہ يہ کتاب ناطق ہے جب کہ دوسرے مقام پر فرماتے ہيں يہ کتاب صامت ہے ناطق نہيں اس کوبولنے پہ آمادہ کرناچاہئے اوريہ ميں ہوں جو قرآن کوتمہارے لئے بيان کرتاہوں۔ خطبہ ۱۴۷ميں يہ تعبير استعمال ہوئي ہے ”صامت ناطق“ يعني قرآن ساکت وخاموش ہے درآن حاليکہ ناطق وگفتگوکرنے والاہے پس اس کا کيا معني ہوا؟

غالباقرآن حکيم کے بارے ميں يہ دونکتہ نظرہيں۔ ايک يہ کہ قرآن ايک مقدس کتاب ہے ليکن خاموش، گوشہ نشين ،جس کاکسي سے کوئي رابطہ نہيں اورنہ ہي يہ کتاب کسي سے ہم کلام ہوتي ہے۔ اس کے مقابل دوسرازاويہ نگاہ ہے جس کے مطابق يہ کتاب ناطق وگوياہے جوسب انسانوں سے مخاطب ہے اوراپني پيروي واتباع کاحکم ديتي ہے اپنے ماننے والوں کوخوشبختي اورسعادت کاپيغام ديتي ہے۔

پس اگراس کتاب کوہم فقط مقدس تصورکريں تواس کامطلب يہ ہے کہ ايک ايسي کتاب ہے جس کے کلمات،جملے اورآيات صفحہ قرطاس پرنقش باندھے ہوئے ہيں جن کا مسلمان بہت احترام کرتے ہيں۔ ا سکوبوسے ديتے ہيں اورگھرميں انتہائي بہترين جگہ پر اس کورکھتے ہيں۔ بعض اوقات اپني مجالس ومحافل ميں اس کي حقيقت ومعاني پر غور و فکرتامل کئے بغيرتلاوت کرتے ہيں ايک ايسي خاموش کتاب ہے جوکسي محسوس و ملموس آوازسے گفتگونہيں کرتي جواس نظرئيے کاقائل ہے وہ ہرگزقرآن کريم سے ہم کلام نہيں ہوسکتا،قرآن کي آوازکونہيں سن سکتااورقرآن مجيدبھي اس کي کسي مشکل کوحل نہيں فرماتا۔

بنابراين ہمارافريضہ ہے کہ ہم قرآن کوکي کتاب سمجھيں اورخداوندعالم کے حضور انتہائي خشوع وخضوع اورجذبہ تسليم ورضاکے ساتھ اس کتاب سے کلام سننے کے لئے اپنے آپ کوآمادہ کريں۔ يہ کتاب سراسرآئين زندگي ہے۔ اس صورت ميں يہ کتاب ناطق بھي ہے قوت گويائي بھي رکھتي ہے انسانوں سے ہم کلام بھي ہوتي ہے اورزندگي کے تمام شعبوں ميں رہنمائي بھي کرتي ہے۔

ان دونکتہ ہائے نظرکے علاوہ قرآن کے صامت وناطق ہونے کاايک تيسرامعني بھي ہے جواس سے زيادہ گہرااورعميق ہے اورحضرت کامنظورنظربھي يہي معني ہے وہ معني يہ ہے کہ قرآن ساکت وصامت ہے اس کوگفتگوپہ آمادہ کرناچاہئے اوريہ ميں ہوں جو قرآن کوتمہارے لئے بيان کرتاہوں گويااکرچہ قرآن کريم خداوندمتعال کاکلام ہے اوراس کلام الہي کے صدورنزول کي حقيقيت اس طرح ہے کہ ہم انسانوں کے لئے قابل شناخت نہيں جبکہ دوسري طرف نزول قرآن کاہدف انسانوں کي ہدايت ہے تويہ کلام کلمات، جملوں اورآيات کي صورت ميں اس طرح سے نازل ہواکہ بشرکے لئے پڑھنے اورسننے کے قابل ہوجائے اس کے باوجودايسانہيں ہے کہ تمام ترآيات کے مضامين ومفاہيم عام انسانوں کے لئے قابل فہم ہوں۔ پس لوگ بھي پيغمبراسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)، آئمہ ہدي،(عليہم السلام) اورراسخون في العلم کي تفسيروتشريح کے بغيرآيات کے مقاصدکونہيں پاسکتے۔

۳۔ مفسرين وحي الہي کي ضرورت :

پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي ايک ذمہ داري امت مسلمہ کے لئے آيات الہي کي تفسيروتشريح ہے جيساکہ ارشادہوتاہے :

”وانزلنااليک الذکرلتبين للناس مانزل اليہم“نحل۴۴۔

ترجمہ : ہم نے آپ کي طرف قرآن نازل کياتاکہ آپ لوگوں کے لئے جوکچھ نازل ہواہے بيان کريں۔ پس قرآن کريم کے عظيم معارف کے بيان کي ذمہ داري پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پرہے کيونکہ اس کے معارف ا س قدرعميق اورگہرے ہيں کہ تمام لوگ اس کاادارک نہيں کرسکتے۔

حضرت خطبہ ۱۵۸ميں ارشادفرماتے ہيں :

”ذلک القرآن فاستنطقوہ ولن ينطق ولکن اخبرکم عنہ الاان فيہ علم ماياتي والحديث عن الماضي ودواء دائکم ونظم مابينکم“۔

ترجمہ : اس قرآن سے چاہوکہ تم سے کلام کرے اوريہ ہرگزتم سے ہم کلام نہيں ہوگا ليکن ميں تمہيں اس سے آگاہ کروں گايادرکھويقينااس ميں مستقبل کے علوم اور ماضي کے حالات ہيں اورتمہاري امراض کي دواہے اورجوکچھ تمہارے مابين ہے اس کے بارے ميں نظم وضبط کي راہنمائي پائي جاتي ہے۔

پس معصومين (عليہم السلام) کي زبان مبارک سے اس کے بارے ميں آشنائي حاصل کرني چاہئے۔ علوم قرآن کوان سے حاصل کرناچاہئے۔ قرآن کريم الہي معارف کاسمندرہے اس بحربيکراں ميں غوطہ زني اورانسان سازي کے ناياب گوہروں کي تلاش کرناان ہستيوں کے بس کي بات ہے جوعالم غيب سے دائمي طورپرپرارتباط ميں ہيں۔ خداوند قدوس نے بھي يہي چاہاہے کہ ان ہستيوں سے رابطہ اورتوسل کے ذريعہ اوران کي راہنمائي کے توسط سے قرآني علوم ومعارف سے راہنمائي حاصل کرو۔

ب : قرآن کريم کامعاشرتي زندگي ميں اہم کردار:

۱۔ قرآن کريم ہر درد کي دواہے :

حضرت تمام مشکلات کے حل کے لئے قرآن کريم کاتعارف فرماتے ہيں۔ قرآن ہي وہ شفابخش دواہے جوتمام دردوں کادرمان اورپريشانيوں کے لئے مرحم ہے۔ البتہ يہ واضح ہے کہ دردکي شناخت اوراحساس کے بغيرعلاج يادرمان کي بات کرنابے فائدہ ہے ۔ پس ابتدائي طورپرضروري ہے کہ قرآن کريم کي آيات ميں گہرے غوروفکرکے ساتھ انفرادي اورمعاشرتي دردوں کي شناخت اورمطالعہ کياجائے اسکے بعد اس شفابخش نسخہ کيمياپہ عمل کياجائے۔

خطبہ ۱۹۸۔ ميں فرماتے ہيں : ”ودواء ليس بعدہ داء“ يعني قرآن مجيدايسي دواہے کہ جس کے بعدکوئي درد،رہ نہيں جاتايہ دوابھي يقينااس وقت اپنااثر دکھائے گي جب حضرت (ع) کے اس فرمان اورقرآن حکيم کے شفابخش ہونے پرايمان ہوباالفاظ ديگرہميں اپنے پورے وجودکے ساتھ باورکرناچاہئے کہ ہماراتمام تر انفرادي واجتماعي دردوں اورمشکلات کاحقيقي علاج قرآن حکيم ميں ہے۔ شايدہمارے معاشرے کي سب سے بڑي مشکل يہي ايمان کي کمزوري ہے کہ ابھي تک بہت ساري مشکلات باقي ہيں۔

۲۔ معاشرتي مشکلات کابہترين حل :

اس سلسلے ميں حضرت(ع) پيغمبرگرامي اسلام کاقول نقل فرماتے ہيں کہ آ پنے فرمايا: ”اذاالتبست عليکم الفتن کقطع الليل المظلم فعليکم بالقرآن“ (بحارالانوار ج۹۲ص۱۷)۔

ترجمہ : جب کبھي سياہ رات کي مانندتمہيں فتنے گھيرليں توقرآن کادامن تھامنا۔

پس اضطراب،پريشان،مشکلات،ناہم آہنگياں اوربے سروسامانياں تمہارے معاشرے پرجب سياہ رات کي مانندسايہ افگن ہوں توان کے حل کے لئے کہيں اورنہ جانابلکہ قرآن سے رجوع کرنااس کي نجات بخش راہنمائي کومعياروکسوٹي قراردينا۔ قرآن کے اميد بخش فرامين مشکلات پرقابوپاتے اوردلوں ميں خوشبختي وسعادت کي اميدکوزندہ کرتے ہيں۔ البتہ يہ واضح ہے کہ ہرکاميابي کے پيچھے انساني کوشش اورجدوجہدکابنيادي کردارہے۔ پس اگرہم چاہتے ہيں کہ اپني آزادي اوراستقلال کي حفاظت کريں اورخدائے ذوالجلال کے سايہ رحمت وپناہ ميں ہرسازش سے محفوظ رہيں توچارہ ہي نہيں کہ اپنے خالق اورقرآن کريم کے نجات بخش احکام کي طرف لوٹ جائيں اس سلسلے ميں آج تک جس ناشکري اوربي احترامي کے مرتکب ہوئے ہيں اس پہ توبہ وندامت کي راہ ليں۔

۳۔ معاشرتي امورميں نظم وضبط :

حضرت فرماتے ہيں: نظم مابينکم“ يعني مسلمانوں کے مابين روابط اورنظم و ضبط کوسروساماني بخشنے والا قرآن حکيم ہے ہرسياسي نظم وضبط ميں بڑاہدف معاشرتي نظم وضبط اورامن وامان کاقائم کرناہوتاہے اوريہ بات قطعا قابل انکارنہيں ہے۔ البتہ سماجي ومعاشرتي زندگي ميں ہدف کي اہميت بھي اساسي ہے کيونکہ يہي ہدف ہے جوخاص طرح کے اعمال وکردارکاتقاضاکرتاہے۔ ہرمعاشرے کے افراداپنے اعمال وکردارسے اسي ہدف کوپاناچاہتے ہيں۔يہ امربھي نہايت روشن ہے کہ ہدف کاسرچشمہ اس معاشرے کے تمدن،ثقافت،تاريخ اورلوگوں کے عقائدہوتے ہيں۔ يہي سبب ہے کہ استعماري قوتيں ملتوں کے اصلي اورحقيقي ثقافت وتمدن کوچھين کر يا کھوکھلا کرکے ان کواپنے اہداف واغراض اورمفادات کي طرف دھکيل ديتي ہيں۔

ديني ثقافت ياتمدن کاسرچشمہ قرآن حکيم اورتوحيدي نظريہ کائنات ہے يہ تمدن ايک ايسے نظم اورسياست کاتقاضاکرتاہے جس ميں خلقت کے ہدف کاحصول اورانسان کي دنياوآخرت ميں سعادت وخوشبختي کارفرماہو۔

باعث افسوس ہے کہ بعض مغرب زدہ روشن فکرمسلمان معاشرتي نظم کوفقط مغربي جمہوريت ميں ديکھتے ہيں جب کہ اس کي بنيادلادينيت کاعقيدہ ہے۔ پس ديني اور قرآني تمدن ميں انسان کي نہ فقط مادي رفاہ اورفلاح شامل بلکہ اخروي سعادت و تکامل بھي موردتوجہ واہميت ہے اس امرکي طرف توجہ بہت ضروري ہے کہ قرآن کريم اس صورت ميں شفابخش ہے جب اس کي ہدايت اورفرامين کومحض اخلاقي نصيحتيں تصور نہ کياجائے بلکہ تمام ترمعاشرے اورحکومت کي کلي سياست، عمل اورپروگراموں ميں قرآن کريم کي ہدايات کونافذالعمل کياجائے۔

۴۔ قرآن کريم سے وابستگي بے نيازي کاباعث ہے۔

اسي خطبے ميں حضرت(ع) ارشادفرماتے ہيں: ”يقين کروقرآن ايسانصيحت کرنے والا اورموعظہ کرنے والاہے جواپنے پيروکاروں سے خيانت نہيں کرتا ايساہادي ہے جوگمراہ نہيں کرتاايساکلام کرنے والاہے جوجھوٹ نہيں بولتااورجوکوئي بھي قرآن کاہم نشين ہو اور اس ميں تدبروتفکرکرے توجب اٹھے گاتواس کي ہدايت وسعادت ميں اضافہ ہوجب کہ کہ اسکي گمراہي ميں کمي واقع ہوگي“۔

اس کے بعدارشادفرماتے ہيں :

”واعملواانہ ليس علي احدبعدالقرآن من فاقة ولالاحدقبل القرآن من غني فاستشفوہ من ادوائکم واستعينوابہ علي لاوائکم فان فيہ شفاء من اکبرالداء وہوالکفروالنفاق والغي والضلال“۔

ترجمہ : يقين کے ساتھ جان لوکہ کوئي بھي قرآن کے بعد فاقہ کشي نہيں اور اس سے قبل کوئي بھي غني نہيں پس اپنے امراض کي شفااس سے طلب کرو اور اپنے ٹھکانوں اورپناہ گاہوں کے لئے اس سے مددطلب کروپس يقينااس ميں سب سے بڑے امراض کي شفاہے اوروہ کفر،نفاق،جہالت،اورضلالت وگمراہي ہے۔ معاشرے ميں قرآن کي حاکميت کے ہوتے ہوئے انسان کي کوئي ايسي ضرورت نہيں جوپوري نہ ہو کيونکہ خداوندمتعال نے توحيدپرستوں کي دنياوآخرت ميں سعادت کي ضمانت دي ہے۔ پس قرآن کونمونہ عمل قراردينے سے اسلامي معاشرہ ہرچيزاورہرکس وناکس سے بے نيازہوجائے گا۔

اس کے ساتھ ہي ساتھ حضرت(ع) ايک سنجيدہ مطلب کي طرف اشارہ فرماتے ہيں: ”ولالاحدقبل القران من غني“ يعني کوئي بھي قرآن کے بغيربے نيازنہيں ہوسکتا۔ مطلب يہ ہے کہ اگرانسان کے علوم وتجربے ميں جتنابھي اضافہ ہوجائے معاشرتي مشکلات اورکمياں دورکرنے کے جتنے بھي فارمولے تيارکرلے، عدل وانصاف کے تقاضوں کوجتنابھي پوراکرلے اوراخلاقي وانساني اقدارکورائج کرے ليکن قرآن کے بغيران امورسے عہدہ برآنہيں ہوسکتايعني يہ کہ انسان قرآن سے بے نيازنہيں ہوسکتاہرعاقل اس کااقرارکرتاہے کہ انسان کي تمام ترعلمي ترقي اس کے مجہولات کے سمندرکے مقابلے ميں قطرے سے زيادہ نہيں۔

۵۔ قرآن کريم آفتاب کي طرح عالمتاب ہے :

خطبہ ۱۹۸ميں اسلام اورپيغمبراسلام(ص) کے اوصاف بيان فرمانے کے بعدفرماتے ہيں :

”ثم انزل عليہ الکتاب نورالاتطفاء مصابيہ وسراجالايخبوتوقدہ وبحرالايدرک قعرہ“

ترجمہ : پروردگارنے قرآن کواس صورت ميں اپنے حبيب پرنازل فرماياکہ يہ ايک نورہے جس کے چراغ ہرگزبجھنے والے نہيں،ايساآفتاب ہے جس کي روشني کبھي ختم ہونے والي نہيں اورايک ايساگہراسمندرجس کي گہرائي کوکوئي پانہيں سکتا۔

اس خطبے ميں قرآن کريم کے لئے آپ نے تين تشبيہات استعمال فرمائي ہيں سب سے پہلے توقرآن کي عظمت سے مسلمانوں کے قلوب کوآشنافرماتے ہيں پھراس عظيم سرمايہ الہي کي طرف متوجہ فرماتے ہيں جومسلمانوں کے پاس ہے فرماتے ہيں درحاليکہ قرآن نورہے اللہ تعالي نے پيغمبر(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)پرنازل فرماياليکن يہ نور باقي انوارسے مختلف ہے اس خصوصيت کے ساتھ کہ اس کے نورپھيلانے والے چراغ ہرگزنہ بجھيں گے۔ اس کي تابش کبھي ختم نہ ہوگي جوانسانوں کو،انساني سماج، سعادت کے متلاشيوں کوخوشبختي کے راہيوں کومنحرف راستوں،سقوط ہولناک دروں سے نجات دلائے گي۔ پس راہ حق ہميشہ کے لئے مستقيم اورروشن ہے ۔ ايک اورمقام پر حضرت ارشادفرماتے ہيں کہ تاريکي اس کے مقابلے ميں ٹہرنہيں سکتي کيونکہ اس کے چراغ ہميشہ راہ سعادت وہدايت کوروشن رکھتے ہيں يہ چراغ اورمفسران وحي الہي آئمہ اطہار(عليہم السلام) ہيں۔

۶۔ قرآني آئينے اورچراغ :

حديث ثقلين کي روشني ميں ”قرآن اورعترت“ ايسے دوالہي عطيے ہيں جوايک دوسرے کي تکميل کرنے والے ہيں۔

حکمت وروش الہي اس طرح قرارپائي ہے کہ لوگ اہل بيت(عليہم السلام) کے ذريعہ سے معارف قرآن سے آشناہوں۔ بنابراين اللہ تعالي نے طالبان سعادت کے لئے امامت کاايک دائمي راستہ مقررفرمايا۔ قرآني معارف اس قدرگہرے وسيع وعميق ہيں انسان جس قدراہل بيت(ع) کے علوم ميں تفکروتدبر کرے اتناہي قرآن کي عظمت اورمعرفت وعرفان کے چشمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہيں۔

توحيد کے اس بحرزخارسے جتناپيتے جائيں توسيراب ہونے کي بجائے انسان تشنہ ترہوتاجاتاہے۔

۷۔ قرآن کريم کے پيروکارکے لئے اصلاح وسعادت :

يہ زندگي چونکہ آخرت کي کھيتي ہے۔ لہذاانسان کاتمام ہم وغم آخرت کي سعادت ہوناچاہئے۔ بس اگرانسان اپنے اعمال وکردارکوقرآن کريم اوراہل بيت عليہم السلام کے معارف وعلوم کے مطابق بنائے تودنياوآخرت کي عزت سربلندي حاصل کر سکتاہے۔

امام عليہ السلام خطبہ ۱۷۶ميں ارشادفرماتے ہيں :

”فاسالوااللہ بہ وتوجھوااليہ بحبہ ولاتسالوابہ خلقہ انہ ماتوجہ العبادالي اللہ بمثلہ واعلمواانہ شافع مشفع وقائل مصدق وانہ من شفع لہ القرآن يوم القيامةشفع فيہ ومن محل بہ القرآن يوم القيامة صدق عليہ“۔

ترجمہ : اللہ تعالي سے قرآن کے ذريعے سوال کرواورپروردگارکي طرف اس کي محبت کے ذريعے سے متوجہ ہوجاؤاورمخلوق خداسے مانگنے کے لئے قرآن کوذريعہ قرار نہ دوکيونکہ انسان بھي اپنے اورخداکے مابين قرآن جيساواسطہ نہيں رکھتے۔يقين کے ساتھ جان لوکہ قرآن ايساشفاعت کرنے والاہے جس کي شفاعت قبول شدہ ہے يہ ايسابولنے والاہے جس کي تصديق کي جاتي ہے۔ قيامت کے دن جس کي شفاعت قرآن نے کي تويہ شفاعت اس کے حق ميں قبول کي جائے گي اورقيامت کے دن جس کي مذمت قرآن نے کي تومعاملہ اس کے نقصان ميں ہوگا۔

۸۔ قرآن خيرخواہ اورنصيحت کرنے والاہے :

امام عليہ السلام فرماتے ہيں :

”فکونوامن حرثتہ واتباعہ واستدلوہ علي ربکم“۔

لوگو! قرآن کے جمع کرنے والوں اورپيروکاروں ميں سے ہوجاؤاوراس کواپنے پروردگارکے لئے دليل قراردو۔

اللہ کواس کے کلام سے پہچانو۔ پروردگارکے اوصاف کوقرآن کے ذريعے پہچانوقرآن ايسا راہنما ہے جوتمہيں اللہ کي طرف راہنمائي کرتاہے۔

اس راہنمائي کے ذريعے اس کے بھيجنے ہوئے رسول کي معرفت حاصل کرواوراس اللہ پرايمان لے آؤجس کاتعارف قرآن کرتاہے۔

”واستنصحواعلي انفسکم“

قرآن کواپناناصح قراردواوراس کي خيرخواہانہ نصيحتوں پرعمل کروکيونکہ تم انسان ايک دل سوز،خيرخواہ کے محتاج ہوجوتمہيں ضروري مقامات پرنصيحت کرے۔ پس قرآن وہ پرسوزدل سوزناصح ہے جوتم سے کبھي خيانت نہيں کرتااورتمہيں انتہائي بہترين انداز سے صراط مستقيم کي ہدايت کرتاہے۔

”ان ھذاالقرآن يھدللتي ہي اقوم ويبشرالمومنين الذين يعملون الصالحات ان لھم اجراکبيرا“۔

ترجمہ:بے شک يہ قرآن تمہيں انتہائي مستحکم وپائيدارراستے کي طرف راہنمائي کرتاہے اورجومومنين اعمال صالح بجالاتے ہيں ان کوبشارت ديدوکہ ان کے لئے يقينا بہت بڑا اجرہے۔

يہاں سب سے اہم نکتہ اس آية مبارکہ کے مضمون پرقلبي اعتقادہے کيونکہ جب تک انسان يہ عقيدہ نہ رکھتاہو،اپنے آپ کومکمل طورپرخداکے حوالے نہ کردے اور خود کو خواہشات نفساني سے پاک نہ کرے توہروقت يہ خطرہ موجودہے کہ شيطاني وسوسوں کا شکارہوجائے۔ قرآن کريم کاکوئي بھي حکم انساني حيواني ونفساني خواہشات سے سازگارنہيں ہے جوشخص اپني ہي خواہشات کومدنظررکھتاہے اس کي خواہش ہوتي ہے کہ قرآن بھي اس کے رجحانات،خواہشات کے مطابق کلام کرے اورجيسے ہي کوئي آيت اس کي خواہشات وترغيبات کے مطابق نظرآئے تواس کابھرپوراستقبال کرتاہے پس عقل کاتقاضاہے کہ انسان خالي الذہن اورخالي دامن ہوکرفقط عشق الہي کاجذبہ لے کرقرآن کي بارگاہ ميں حاضري دے۔

ج : قرآن کريم کي شناخت اس کے مخالفين کي شناخت ميں مضمرہے :

گذشتہ گفتگوکي روشني ميں يہ سوال اٹھتاہے کہ کياقرآن کريم سے استفادہ کاطريقہ کاريہي ہے کہ ہم فقط مذکورہ بالافرامين برعمل کريں؟

اس سوال کے جواب ميں اگرہم قرآن مجيدکووسيع نظرسے ديکھيں تواس کے مقابلے ميں منحرف افکارنظرآئيں گے۔ ان منحرف افکارنے ہميشہ سے انسان کوگمراہي اورباطل کي طرف دھکيلاہے۔ پس قرآني تمدن کونافذکرنے اورمعاشرے ميں ديني عقائد و اقدار کو رائج کرنے کے لئے ضروري ہے کہ مخالفين قرآن کے افکاراوران کي سازشوں سے معرفت حاصل کي جائے جب کہ يہ نکتہ غالباغفلت کاباعث ہوجاتاہے حق وباطل چونکہ ہميشہ ايک دوسرے کے بالمقابل رہے ہيں لہذاہميں حق کي شناخت ومعرفت کے ساتھ ساتھ باطل کي بھي پہچان کرني چاہئے اس چيزکے پيش نظرامام (ع)فرماتے ہيں:

”واعلمواانکم لن تعرفواالرشدحتي تعرفواالذي ترکہ ولن تاخذواميثاق الکتاب حتي تعرفواالذي نقضہ“۔

ترجمہ : يقين کے ساتھ جان لوکہ تم راہ ہدايت کوہرگزنہيں پہچان سکتے جب تک تم اس کونہ پہچانوجس نے ہدايت کوترک کردياہے اورتم ہرگزپيمان الہي(قرآن) پہ عمل پيرانہيں ہوسکتے جب تک تم پيمان شکن عہدشکن کونہ پہچان لو۔

يعني يہ کہ تم قرآن کے حقيقي پيروکاراس وقت تک نہيں بن سکتے جب تک تم قرآن کي طرف پشت کرنے والوں کي معرفت حاصل نہ کرلو۔ حضرت(ع) کے اس فرمان ميں بڑے واضح طورپردشمن شناسي پرزوردياگياہے۔ اس سے علمائے علم دين کافريضہ بہت زيادہ سنجيدہ ہوجاتاہے بالخصوص ايسے حالات ميں جب کہ انحرافي افکار اور ملحدين کے شبہات اعوام خصوصانوجوانوں کوانحرافات کاشکارکررہے۔

حضرت امام علي کي پيشين گوئي اورتنبيہ

اگرچہ حضرت کاموردخطاب عامة الناس ہيں ليکن بہت سارے مواردميں معاشرے کے خاص افرادياخاص گرہوں کوموردخطاب قرارديتے ہيں کيونکہ يہي لوگ ہيں جومعاشرے کي تہذيب وثقافت پراثراندازہوتے ہيں۔ وہ لوگ ہيں جواپنے دنياوي اہداف واغراض کي خاطرخدااوراس کے رسول کي طرف جھوٹ اوردروغ گوئي کي نسبت ديتے ہيں۔ قرآن اوردين کي تفسيربالرائے کرتے ہيں اورلوگوں کوگمراہي کي طرف کھينچتے ہيں۔

عوام کے بارے فرماتے ہيں: ا س زمانے کے لوگ بھي ايسے ہي ہيں اگرقرآن کريم کي صحيح وحقيقي تفسيروتشريح ہوتوان کے نزديک سب سے زيادہ بے قيمت چيزہے ليکن اگران کي نفساني خواہشات کے مطابق ہوتوايسي تفسيرکے دلدادہ ہيں۔ ايسے زمانے ميں شہروں ميں ديني والہي اورغيرديني اقداران کے لئے محبوب ہوں گي اس خطبے کے آخرميں ارشادفرماتے ہيں:

”فاجتمع القوم علي الفرقة وافترقواعن الجماعة کانہم آئمة الکتاب وليس الکتاب امامہم“۔

ترجمہ:اس زمانے کے لوگوں نے افتراق واختلاف پراجتماع کرلياہے انہوں نے جماعت سے عليحدگي اختيارکرلي ہے يہ لوگ ايسے ہيں جيسے قرآن کے امام ورہبريہ ہوں جب کہ قرآن ان کاامام نہں ہے۔

گويا امام(عليہ السلام) کي مراديہ ہے کہ انہوں نے اجتماع کرلياہے کہ قرآن کريم کہ حقيقي مفسرپيداہي نہ ہوں يہ لوگ عالم نماجاہلوں کي پيروي کرتے ہيں جو خود کو قرآن کارہبرجانتے ہيں اورقرآن کي اپني خواہشات نفساني کے مطابق تفسيرکرتے ہيں انہوں نے حقيقي مسلمانوں ،علماء اورمفسرين سے جدائي اختيارکرلي ہے۔ يہ لوگ عملا قرآن کواپنارہبرنہيں مانتے بلکہ خودا سکے رہبرہيں۔


No comments:

Post a Comment