زبان قرآن کی شناخت
آیة اللہ محمد ہادی معرفت
قرآن میں قول
لغت میں ”قول“ وہ بات اور گفتار ہے جو ظاھراً تلفظ ہو یعنی زبان پر جاری ہونے والے کچھ الفاظ جیسے قَالَ، تکلّم، نَطَقَ۔ ”لسان العرب“ میں ہے :
القول:الکلام علیٰ الترتیب، وھوعند المحققین کلُّ لفظٍ قال بہ اللسان تاما کان او ناقصا
قول ترتیب (تالیف)شدہ کلام ہے اور محققین کے نزدیک زبان سے جاری ہونے والا ہر وہ لفظ ہے جو چاہے مکمل(مفید)ہو یا نامکمل (غیر مفید)سیبویہ کہتا ہے :
بسا اوقات اعتقاد اور رائے کو ”قول“کہاجاتا ہے جب کہ وہ مجازی مفہوم ہے اس لیے کہ عقائد اور رائے میں مخفی امر یا قول کی جگہ لینے والی چیز کو قول و لفظ کے ذریعے سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، گویا وہ مخفی رائے اور عقیدہ قول کا سبب ہے اور قول اس کی دلیل چنانچہ یہی تعلق (سبب ہونا اور مدلول پر دلالت کا سبب بننا)ہی عقیدے اور رائے پر قول کے اطلاق کا موجب بنتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ جس طرح قول کو عقیدہ سے” کنایة“اخذ کیا گیا ہے اسی طرح کلام کو بھی عقیدے کی علامت قرار دیا جاتا مگر کبھی بھی کلام کو قول کی جگہ عقیدے اور رائے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا گیا آخر کیوں؟
توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں۔
مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔
قالت لہ الطیّرتقدم راشداً انَّک لا ترجع الّٰا حامداً
ایک اور شاعر نے کہا:
قالت لہ العینان سمعاً وطاعة وحدرتا کالدر لما یثقب
ایک اورقول ہے:
اِمْتَلَاَءَ الحَوْضَ وقال قَطْنی
مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔
راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں)
۲.لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ
وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰہُ۔ (سورہ مجادلہآیت۸)
”اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا“
یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے
۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے
۴ مطلق دلالت:مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:
امتلاء الحوض وقال قطنی
یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے
۵ .کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے۔
۶ .اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
۷ . قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ:
قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّا اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّا اَنْ تَتَّخِذَ فِیْھِمْ حُسْنًا۔
سورہ کہف :آیت۸۶)
ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔
اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ
ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ۔ (سورہ مریم:آیت۳۴)
یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔
اس آیت میں عیسیٰ(۴)کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا
کَلِمَتُہ اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ۔ (سورہ نساء:آیت۱۷۱)
یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ
اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَ۔ (سورہ آل عمران :آیت۵۹)
قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے۔
ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْھًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ۔ (سورہ فصّلت:آیت ۱۱)
پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں۔
یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے؟
علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ
” بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔"
وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ:
”اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔
بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔
ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔
”یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ (سورہ ق:آیت۳۰)
اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟
یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں
” وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔
سورہ ھود:آیت۴۴)
”اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔"
اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اسی طرح یہ آیت ہے کہ:
”قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰہِیْمَ۔ (سورہ الانبیاء:آیت۶۹)
یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا
اسی طرح
” اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ۔ (سورہ بقرہ :آیت۲۴۳)
”کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔"
اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور
”قال لھم موتوا“
ان سے کہا مر جاو۔
اور ”واحیاھم“(اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ
” اما تھم ثم احیاھم“
یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔
یا پھر یہ کہ
”قال لھم موتوا ثم قال لھم احیوا
یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔
بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے۔
قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو
چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :
”قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہ وَھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ۔ (سورہ نمل:آیت۱۸)
”ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔"
ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی
یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ:
” فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍo اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ o وَجَدْ تُّھَا وَقَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ۔
(سورہ نمل :آیت۲۲تا ۲۴)
”پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔"
کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ:
” وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ۔ (سورہ نمل:آیت۱۶)
”اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے۔"
یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیں ایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔
ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے۔
انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے۔
مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے۔
اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو)
خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں
”کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (سورہ حشر:آیت۱۶)
کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی۔
قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔
”وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۔
سورہ ابراہیم:آیت۲۲)
”اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔"
یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا
” بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَةٌo وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہ۔
سورہ قیامت:آیات۱۳تا۱۴)
بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے۔
اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :
”وَاِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌْ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ۔"(سورہ انفال:آیت۴۸)
”اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔"
یہاں یہ جملہ کہ :وقال:لاٰ غالب لکم درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔
لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔
مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں۔
زبان قرآن کی شناخت
آیة اللہ محمد ہادی معرفت
قرآن میں قول
لغت میں ”قول“ وہ بات اور گفتار ہے جو ظاھراً تلفظ ہو یعنی زبان پر جاری ہونے والے کچھ الفاظ جیسے قَالَ، تکلّم، نَطَقَ۔ ”لسان العرب“ میں ہے :
القول:الکلام علیٰ الترتیب، وھوعند المحققین کلُّ لفظٍ قال بہ اللسان تاما کان او ناقصا
قول ترتیب (تالیف)شدہ کلام ہے اور محققین کے نزدیک زبان سے جاری ہونے والا ہر وہ لفظ ہے جو چاہے مکمل(مفید)ہو یا نامکمل (غیر مفید)سیبویہ کہتا ہے :
بسا اوقات اعتقاد اور رائے کو ”قول“کہاجاتا ہے جب کہ وہ مجازی مفہوم ہے اس لیے کہ عقائد اور رائے میں مخفی امر یا قول کی جگہ لینے والی چیز کو قول و لفظ کے ذریعے سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، گویا وہ مخفی رائے اور عقیدہ قول کا سبب ہے اور قول اس کی دلیل چنانچہ یہی تعلق (سبب ہونا اور مدلول پر دلالت کا سبب بننا)ہی عقیدے اور رائے پر قول کے اطلاق کا موجب بنتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ جس طرح قول کو عقیدہ سے” کنایة“اخذ کیا گیا ہے اسی طرح کلام کو بھی عقیدے کی علامت قرار دیا جاتا مگر کبھی بھی کلام کو قول کی جگہ عقیدے اور رائے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا گیا آخر کیوں؟
توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں۔
مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔
قالت لہ الطیّرتقدم راشداً انَّک لا ترجع الّٰا حامداً
ایک اور شاعر نے کہا:
قالت لہ العینان سمعاً وطاعة وحدرتا کالدر لما یثقب
ایک اورقول ہے:
اِمْتَلَاَءَ الحَوْضَ وقال قَطْنی
مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔
راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں)
۲.لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ
وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰہُ۔ (سورہ مجادلہآیت۸)
”اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا“
یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے
۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے
۴ مطلق دلالت:مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:
امتلاء الحوض وقال قطنی
یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے
۵ .کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے۔
۶ .اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
۷ . قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ:
قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّا اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّا اَنْ تَتَّخِذَ فِیْھِمْ حُسْنًا۔
سورہ کہف :آیت۸۶)
ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔
اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ
ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ۔ (سورہ مریم:آیت۳۴)
یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔
اس آیت میں عیسیٰ(۴)کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا
کَلِمَتُہ اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ۔ (سورہ نساء:آیت۱۷۱)
یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ
اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَ۔ (سورہ آل عمران :آیت۵۹)
قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے۔
ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْھًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ۔ (سورہ فصّلت:آیت ۱۱)
پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں۔
یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے؟
علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ
” بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔"
وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ:
”اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔
بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔
ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔
”یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ (سورہ ق:آیت۳۰)
اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟
یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں
” وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔
سورہ ھود:آیت۴۴)
”اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔"
اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اسی طرح یہ آیت ہے کہ:
”قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰہِیْمَ۔ (سورہ الانبیاء:آیت۶۹)
یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا
اسی طرح
” اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ۔ (سورہ بقرہ :آیت۲۴۳)
”کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔"
اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور
”قال لھم موتوا“
ان سے کہا مر جاو۔
اور ”واحیاھم“(اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ
” اما تھم ثم احیاھم“
یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔
یا پھر یہ کہ
”قال لھم موتوا ثم قال لھم احیوا
یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔
بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے۔
قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو
چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :
”قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہ وَھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ۔ (سورہ نمل:آیت۱۸)
”ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔"
ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی
یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ:
” فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍo اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ o وَجَدْ تُّھَا وَقَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ۔
(سورہ نمل :آیت۲۲تا ۲۴)
”پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔"
کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ:
” وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ۔ (سورہ نمل:آیت۱۶)
”اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے۔"
یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیں ایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔
ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے۔
انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے۔
مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے۔
اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو)
خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں
”کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (سورہ حشر:آیت۱۶)
کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی۔
قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔
”وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۔
سورہ ابراہیم:آیت۲۲)
”اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔"
یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا
” بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَةٌo وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہ۔
سورہ قیامت:آیات۱۳تا۱۴)
بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے۔
اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :
”وَاِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌْ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ۔"(سورہ انفال:آیت۴۸)
”اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔"
یہاں یہ جملہ کہ :وقال:لاٰ غالب لکم درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔
لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔
مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment