قرآن مجید پر اعتراضات کے جوابات
1۔ کیا قرآن مجید میں تحریف ھوئی ھے؟
شیعہ وسنی علماکے یھاں مشھور و معروف یھی ھے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے، اور مو جودہ قرآن کریم وھی قرآن ھے جو پیغمبر اکرم (ص)پر نازل ھوا ، اوراس میں ایک لفظ بھی کم و زیاد نھیں ھوا ھے۔
قدما اور متاخرین میں جن شیعہ علمانے اس حقیقت کی وضاحت کی ھے ان کے اسما درج ذیل ھیں:
۱۔ مرحوم شیخ طوسی(رہ) جو ”شیخ الطائفہ“ کے نام سے مشھور ھیں، موصوف نے اپنی مشھور و معروف کتاب ”تبیان“ میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے۔
۲۔ سید مرتضیٰ (رہ) ، جو چوتھی صدی کے عظیم الشان عالم ھیں۔
۳۔ رئیس المحدثین مرحوم شیخ صدوق محمد بن علی بن بابویہ (رہ) ، موصوف شیعہ عقیدہ بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ قرآن مجید میں کسی طرح کی کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے“۔
۴۔ جلیل القدر مفسرقرآن مرحوم علامہ طبرسی، جنھوں نے اپنی تفسیر (مجمع البیان) کے مقدمہ میں اس سلسلہ میں ایک واضح اور مفصل بحث کی ھے۔
۵۔ مرحوم کاشف الغطاء جو علمائے متاخرین میں عظیم مرتبہ رکھتے ھیں۔
۶۔ مرحوم محقق یزدی(رہ) نے اپنی کتاب عروة الوثقیٰ میں قرآن میں تحریف نہ ھونے کے اقوال کو اکثر شیعہ مجتھدین سے نقل کیا ھے ۔
۷۔ نیز بہت سے جید علماجیسے ”شیخ مفید(رہ)“ ، ”شیخ بھائی“، قاضی نور اللہ“ اور دوسرے شیعہ محققین نے اسی بات کو نقل کیا ھے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے۔
اھل سنت کے علمااور محققین کا بھی یھی عقیدہ ھے کہ قرآن کریم میں تحریف نھیں ھوئی ھے۔
اگرچہ بعض شیعہ اور سنی محدثین جو قرآن کریم کے بارے میں زیادہ معلومات نھیں رکھتے تھے، اس بات کے قائل ھوئے ھیں کہ قرآن کریم میں تحریف ھوئی ھے، لیکن دونوں مذھب کے عظیم علماکی روشن فکری کی بنا پر یہ عقیدہ باطل قرار دیا گیا اور اس کو بھُلادیا گیا ھے۔
یھاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ھیں: ”قرآن کریم کی نقلِ صحت اتنی واضح اور روشن ھے جیسے دنیا کے مشھور و معروف شھروں کے بارے میں ھمیں اطلاع ھے، یا تاریخ کے مشھور و معروف واقعات معلوم ھیں“۔
مثال کے طور پر کیا کوئی مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے مشھور و معروف شھروں کے وجود میں شک کرسکتا ھے؟ اگرچہ کسی انسان نے ان شھروں کو نزدیک سے نہ دیکھا ھو، یا انسان ایران پر مغلوں کے حملے ، یا فرانس کے عظیم انقلاب یا پھلی اور دوسری عالمی جنگ کا انکار کرسکتا ھے؟!
پس جیسے ان کا انکار اس لئے نھیںکر سکتے کہ یہ تمام واقعات تواتر کے ساتھ ھم نے سنے ھیں، توقرآن کریم کی آیات بھی اسی طرح ھیں ، جس کی تشریح ھم بعد میں بیان کریں گے۔
لہٰذا جو لو گ اپنے تعصب کے تحت شیعہ اھل سنت کے درمیان اختلاف پیدھا کرنے کے لئے تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتے ھیں تو وہ اس نظریہ کو باطل کرنے والے دلائل کیوں بیان نھیں کرتے جو خود شیعہ علماکی کتابوں میں موجود ھيں ؟!
کیا یہ بات جائے تعجب نھیں ھے کہ ”فخر الدین رازی“ جیسا شخص (جو ”شیعوں“ کی نسبت بہت زیادہ متعصب ھے) سورہ حجر کی آیت نمبر ۹ کے ذیل میں کہتا ھے کہ یہ :آیہ ٴ شریفہ <إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ> شیعوں کے عقیدہ کو باطل کرنے کے لئے کافی ھے ،جو قرآن مجید میں تحریف ( کمی یا زیادتی) کے قائل ھیں۔
تو ھم فخر رازی کے جواب میں کہتے ھیں: اگر ان کی مراد بزرگ شیعہ محققین ھیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسا عقیدہ نھیں رکھتا ھے، اور اگران کی مرادبعض علما ء کا ضعیف قول ھے تو اس طرح کا نظریہ تو اھل سنت کے یھاں بھی پایا جاتا ھے، جس پر نہ اھل سنت توجہ کرتے ھیں اور نہ ھی شیعہ علماتوجہ کرتے ھیں۔
چنا نچہ مشھور و معروف محقق ”کاشف الغطاء“ اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں فرماتے ھیں:
”لارَیبَ اٴنَّہُ (اٴی القرآن) محفوظٌ مِنَ النُّقْصَانِ بحفظِ الملک الدَّیان کما دَلَّ علَیہِ صَریحُ القُرآنِ وَإجمَاع العلماء فِی کُلِّ زمان ولا عبرة بنادر“[1]
”اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے، کیونکہ خداوندعالم اس کا محافظ ھے، جیسا کہ قرآن کریم اور ھر زمانہ کے علماکا اجماع اس بات کی وضاحت کرتا ھے اور شاذو نادر قول پر کوئی توجہ نھیں دی جاتی“۔
تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی غلط نسبتیں موجود ھیں جو صرف تعصب کی وجہ سے دی گئی ھیں جبکہ ھم جانتے ھیں کہ ان میں سے بہت سی نسبتوں کی علت اور وجہ صرف اور صرف دشمنی تھی، اور بعض لوگ اس طرح کی چیزوں کو بھانہ بنا کر کوشش کرتے تھے کہ مسلمانوںکے درمیان اختلاف کر ڈالیں۔
اورنوبت یھاں تک پھنچی کہ حجاز کا مشھور و معروف موٴلف ”عبد اللہ علی قصیمی “ اپنی کتاب ”الصراع“ میں شیعوں کی مذمت کرتے ھوئے کہتا ھے:
”شیعہ ھمیشہ سے مسجد کے دشمن رھے ھیں! اور یھی وجہ ھے کہ اگر کوئی شیعہ علاقے میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک دیکھے تو بہت ھی کم مسجدیں ملتی ھیں“ !![2]
ذرا دیکھے تو سھی ! کہ شیعہ علاقوں میں کس قدر مساجد موجود ھیں، شھر کی سڑکوں پر، گلیوں میں اوربازاروں میںبہت زیادہ مسجدیں ملتی ھیں، کھیں کھیں تو مسجدوں کی تعداد اتنی ھوتی ھے کہ بعض لوگ اعتراض کرنے لگتے ھیں کہ کافی ھے، ھمارے کانوں میں چاروں طرف سے اذانوں کی آوازیں آتی ھیں جن سے ھم پریشان ھیں، لیکن اس کے باوجود مذکورہ موٴلف اتنی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ رھے ھیں جس پرھمیں ھنسی آتی ھے چونکہ ھم شیعہ علاقوں میں رہ رھے ھیں، لہٰذا فخر الدین رازی جیسے افراد مذکورہ نسبت دینے لگیں تو ھمیں کوئی تعجب نھیں ھونا چاہئے۔[3]
2۔ قرآن کریم کس طرح معجزہ ھے؟
ھم پھلے قرآن کریم کی عظمت کے سلسلہ میں چند نامور افراد یھاں تک کہ ان لوگوں کے اقوال بھی نقل کریں گے کہ جن لوگوں پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ھے :
۱۔ ابو العلاء معرّی (جس پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ھے) کہتا ھے:
اس بات پر سبھی لو گ متفق ھیں (چاھے وہ مسلمان ھوں یا غیر مسلمان) کہ حضرت محمد (ص)پر نازل ھونے والی کتاب نے لوگوں کی عقلوں کو مغلوب اور مبھوت کردیا ھے، اور ھر ایک اس کی مثل و مانند لانے سے قاصر ھے، اس کتاب کا طرز ِبیان عرب ماحول کے کسی بھی طرز بیان سے ذرہ برابر بھی مشابہت نھیں رکھتا ، نہ شعر سے مشابہ ھے، نہ خطابت سے، اور نہ کاھنوں کے مسجع سے مشابہ ھے،اس کتاب کی کشش اور اس کا امتیاز اس قدرعالی ھے کہ اگر اس کی ایک آیت دوسرے کے کلام میں موجود ھو تو اندھیری رات میں چمکتے ھوئے ستاروں کی طرح روشن ھوگی!“۔
۲۔ ولید بن مغیرہ مخزومی، ( جو شخص عرب میں حسن تدبیر کے نام سے شھرت رکھتا تھا)اور دور جاھلیت میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کی فکر اور تدبیر سے استفادہ کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کو ”ریحانہ قریش“ (یعنی قریش کا سب سے بہترین پھول) کھا جاتا تھا، یہ شخص پیغمبر اکرم (ص)سے سورہ غافر کی چند آیتوں کو سننے کے بعد قبیلہ ”بنی مخزوم“ کی ایک نشست میں اس طرح کہتا ھے:
” خدا کی قسم میں نے محمد (ص) سے ایسا کلام سنا ھے جو نہ انسان کے کلام سے شباہت رکھتا ھے اور نہ پریوں کے کلام سے، ”إنَّ لَہُ لحلاوة، و إِنَّ علیہ لطلاوة و إنَّ اعلاہ لمُثمر و إنَّ اٴسفلہ لمغدِق، و اٴنَّہ یَعلو و لا یُعلی علیہ“ (اس کے کلام کی ایک مخصوص چاشنی ھے، اس میں مخصوص خوبصورتی پائی جاتی ھے، اس کی شاخیں پُر ثمر ھیں اور اس کی جڑیں مضبوط ھیں، یہ وہ کلام ھے جو تمام چیزوں پر غالب ھے اور کوئی چیز اس پر غالب نھیں ھے۔)[4]
۳۔ کارلائل۔ یہ انگلینڈ کا مورخ اور محقق ھے جو قرآن کے حوالہ سے کہتا ھے:
”اگر اس مقدس کتاب پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کے مضا مین بر جستہ حقائق اور موجودات کے اسراراس طرح موجزن ھیں جس سے قرآن مجید کی عظمت بہت زیادہ واضح ھوجاتی ھے، اور یہ خود ایک ایسی فضیلت ھے جو صرف اور صرف قرآن مجید سے مخصوص ھے، اور یہ چیز کسی دوسری علمی، سائنسی اور اقتصادی کتاب میں دیکھنے تک کو نھیں ملتی، اگرچہ بعض کتابوں کے پڑھنے سے انسان کے ذھن پر اثر ھوتا ھے لیکن قرآن کی تاثیر کا کوئی موازنہ نھیں ھے، لہٰذا ان باتوں کے پیش نظر یہ کھا جائے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت، پاکیزہ احساسات، برجستہ عنوانات اور اس کے اھم مسائل و مضامین میں سے ھے ھر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ھیں، وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اور سعادت بشری کا باعث ھیں اس میں ان کی انتھا ھے اور قرآن وضاحت کے ساتھ ان فضائل کی نشاندھی کرتا ھے۔[5]
۴۔ جان ڈیون پورٹ: یہ کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“ کا مصنف ھے، قرآن کے بارے میں کہتا ھے: ”قرآن نقائص سے اس قدر مبرا و منزہ ھے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نھیں ھے، ممکن ھے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھ لے اور ذرا بھی تھکان و افسردگی بھی محسوس نہ کرے“۔[6]
اس کے بعد مزید لکھتا ھے: سب اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلہ قریش کے لب و لہجہ میں نازل ھوا ھے اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیھات سے معمور ھے“۔[7]
۵۔ گوئٹے: جرمنی شاعر اور دانشور کہتا ھے:
”قرآن ایسی کتاب ھے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے روگردانی کرنے لگتا ھے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ھوجاتا ھے او ربے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ھوجاتا ھے“۔
یھی گوئٹے ایک اور جگہ لکھتا ھے:
”سالھا سال خدا سے نا آشنا پوپ ھمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمدکی عظمت سے دور رکھے رھے مگر علم و دانش کی شاھراہ پر جتنا ھم نے قدم آگے بڑھایاتو جھالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نھیں ھوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس نے دنیا کے علم و دانش پر گھرا اثر کیا ھے او رآخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی“۔
مزید لکھتا ھے: ”ھم ابتدا میں قرآن سے روگرداں تھے لیکن زیادہ وقت نھیں گزرا کہ اس کتاب نے ھماری توجہ اپنی طرف جذب کرلی اور ھمیں حیران کردیا یھاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ھم نے سرِتسلیم خم کردیا۔[8]
۶۔ول ڈیورانٹ: یہ ایک مشھور مورخ ھے ، لکھتا ھے:
”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس، عدالت اور تقویٰ پیدا کیا ھے جس کی مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نھیں ملتی“۔
۷۔ ژول لابوم: یہ ایک فرانسیسی مفکر ھے اپنی کتاب ”تفصیل الآیات“ میں کہتا ھے:
”دنیا نے علم و دانش مسلمانوں سے لیا ھے اور مسلمانوں نے یہ علوم قرآن سے لئے ھیں جو علم و دانش کا دریا ھے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نھریں جاری ھوتی ھیں“۔
۸۔ دینورٹ : یہ ایک اور مستشرق ھے، لکھتا ھے: ”ضروری ھے کہ ھم اس بات کا اعتراف کریں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رائج ھیں زیادہ تر قرآن کی برکت سے ھیں اور ھم مسلمانوں کے مقروض ھیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شھر ھے“۔[9]
۹۔ ڈاکٹر مسز لورا واکسیاگلیری: یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ھے، ”پیش رفت سریع اسلام“ میں لکھتی ھے: ”اسلام کی کتاب آسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ھے۔۔۔۔ قرآن ایک ایسی کتاب ھے جس کی نظیر پیش نھیں کی جاسکتی، قرآن کا طرز و اسلوب گزشتہ ادبیات میں نھیں پایا جاتا، اور یہ طرز روحِ انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتا ھے وہ اس کے امتیازات اور بلندیوں سے پیدا ھوتی ھے کس طرح ممکن ھے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب ،محمدکی خود ساختہ ھو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نھیں کی، ھمیں اس کتاب میں علوم کے خزانے اور ذخیرے نظر آتے ھیں جو نھایت ھوش مند اشخاص، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست مدارو اور قانون داں لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ھیں، اسی بنا پر قرآن کریم کسی تعلیم یافتہ مفکر اور عالم کا کلام نھیں ھوسکتا“۔[10]،[11]
قرآن مجید کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ھے کہ پورے قرآن میں کوئی تضاد اور اختلاف نھیں پایا جاتا، اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مطالب پر توجہ فرمائیں:
” انسانی خواھشات میں ھمیشہ تبدیلی آتی رہتی ھے، تکامل اور ترقی کا قانون عام حالات میں انسان کی فکر و نظر سے متاثر رہتا ھے، اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی رہتی ھے، اگر ھم غور کریں تو ایک موٴلف کی تحریر ایک جیسی نھیں ھوتی، بلکہ کتاب کے شروع اورآخر میں فرق ھوتاھے، خصوصاً اگر کوئی شخص ایسے مختلف حوادث سے گزرا ھو، جو ایک فکری ، اجتماعی اور اعتقادی انقلاب کے باعث ھوں، تو ایسے شخص کے کلام میں یکسوئی اور وحدت کا پایا جانا مشکل ھے، خصوصاً اگر اس نے تعلیم بھی حاصل نہ کی ھو، اور اس نے ایک پسماندہ علاقہ میں پرورش پائی ھو۔
لیکن قرآن کریم ۲۳ سال کی مدت میںاس وقت کے لوگوں کی تربیتی ضرورت کے مطابق نازل ھوا ھے، جبکہ اس وقت کے حالات مختلف تھے، لیکن یہ کتاب موضوعات کے بارے میں متنوع گفتگو کرتی ھے، اور معمولی کتابوں کی طرح صرف ایک اجتماعی یا سیاسی یا فلسفی یا حقوقی یا تاریخی بحث نھیں کرتی ، بلکہ کبھی توحید اور اسرار خلقت سے بحث کرتی ھے اور کبھی احکام و قوانین اور آداب و رسوم کی بحث کرتی ھے اور کبھی گزشتہ امتوں اور ان کے ھلا دینے والے واقعات کو بیان کرتی ھے ، ایک موقع پر وعظ و نصیحت ، عبادت اور انسان کے خدا سے رابطہ کے بارے میں گفتگو کرتی ھے۔
او رڈاکٹر ”گوسٹاولبن“ کے مطابق مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید صرف مذھبی تعلیمات اور احکام میں منحصر نھیں ھے بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور اجتماعی احکام بھی اس میں درج ھیں۔
عام طور پر ایسی کتاب میں متضاد باتیں، متناقض گفتگو اور بہت زیادہ اتار چڑھاؤپایا جاتاھے، لیکن اس کے باوجود بھی ھم دیکھتے ھیں کہ اس کی آیات ھر لحاظ سے ھم آھنگ او رھر قسم کی تناقض گوئی سے خالی ھيں، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ھے کہ یہ کتاب کسی انسان کا نتیجہٴ فکر نھیں ھے بلکہ خداوندعالم کی طرف سے ھے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس حقیقت کو بیان کیا ھے“۔[12] ،[13]
سورہ ھود کی آیت نمبر ۱۲سے ۱۴ تک ایک بار پھر قرآن مجید کے معجزہ ھونے کو بیان کررھی ھیں یہ ایک عام گفتگو نھیں ھے، اور کسی انسان کا نتیجہ فکر نھیں ھے، بلکہ یہ آسمانی وحی ھے جس کا سرچشمہ خداوندعالم کا لا محدود علم و قدرت ھے ،اور اسی وجہ سے چیلنج کرتی ھے اور تمام دنیا والوں کو مقابلہ کی دعوت دیتی ھے ، لیکن خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ کے لوگ بلکہ آج تک بھی، اس کی مثل لانے سے عاجز ھیں ، چنانچہ انھوں نےبہت سی مشکلات کو قبول کیا ھے لیکن قرآنی آیات سے مقابلہ نہ کیا، جس سے نتیجہ نکلتا ھے کہ نوع بشر اس کا جواب نھیںلا سکتا تو اگر یہ معجزہ نھیں ھے تو اور کیا ھے؟
قرآن کی یہ آواز اب بھی ھمارے کانوں میں گونج رھی ھے، اور یہ ھمیشہ باقی رھنے والا معجزہ اب بھی دنیا والوں کو اپنے مقابلہ کی دعوت دے رھا ھے اور دنیا کی تمام علمی محفلوں کو چیلنج کررھا ھے ، اور یھی نھیں کہ صرف فصاحت و بلاغت یعنی تحریر کی حلاوت،اس کی جذابیت اور واضح مفھوم کو چیلنج کیا ھے بلکہ مضامین کے لحاظ سے بھی چیلنج ھے ایسے علوم جو اس وقت کے لوگوں کے سامنے نھیں آئے تھے، ایسے قوانین و احکام جو انسان کی سعادت اور نجات کا باعث ھیں، ایسا بیان جو ھر طرح کے تناقض او رٹکراؤ سے خالی ھے، ایسی تاریخ جو ھر طرح کے خرافات اور بےھو دہ باتوں سے خالی ھو۔[14]
یھاں تک سید قطب اپنی تفسیر ”فی ظلال“ میں بیان کرتے ھیں کہ (سابق) روس کے مستشرقین نے ۱۹۵۴ء میں ایک کانفرس کی تو بہت سے مادیوں نے قرآن مجید میں عیب نکالنا چاھے
تو کھا:یہ کتاب ایک انسان (محمد) کا نتیجہ فکر نھیں ھوسکتی بلکہ ایک بڑے گروہ کی کاوشوں کا نتیجہ ھے! یھاں تک کہ اس کے بارے میں یہ بھی یقین نھیں کیا جاسکتا کہ یہ جزیرة العرب میں لکھی گئی ھے بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ اس کا کچھ حصہ جزیرة العرب سے باھر لکھا گیا ھے!![15]
چونکہ یہ لوگ خدا اور وحی کا انکار کرتے ھیں ،دوسری طرف قرآن مجید کو جزیرة العرب کے انسانی افکار کا نتیجہ نہ مان سکے، لہٰذا انھوں نے ایک مضحکہ خیز بات کھی اور اس کو عرب اور غیر عرب لوگوں کا نتیجہ فکر قرار دے دیا، جبکہ تاریخ اس بات کا بالکل انکار کرتی ھے۔[16]
3۔ کیا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت میں منحصرھے؟
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ قرآن مجید کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت اور شیریں بیانی سے مخصوص نھیں ھے (جیسا کہ بعض قدیم مفسرین کا نظریہ ھے) بلکہ اس کے علاوہ دینی تعلیمات ، اور ایسے علوم کے لحاظ سے جو اس زمانہ تک پہچانے نھیں گئے تھے، احکام و قوانین، گزشتہ امتوں کی تاریخ ھے کہ جس میں کسی طرح کی غلط بیانی اور خرافات نھیں ھے، اور اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف اور تضاد نھیں ھے ، یہ تمام چیزیں اعجاز کا پھلو رکھتی ھیں۔
بلکہ بعض مفسرین کا تو یہ بھی کھنا ھے کہ قرآن مجید کے الفاظ اور کلمات کا مخصوص آھنگ اور لہجہ بھی اپنی قسم میں خود معجز نما ھے۔
اوراس موضوع کے لئے مختلف شواھد بیان کئے ھیں، منجملہ ان میں مشھور و معروف مفسر سید قطب کے لئے پیش آنے والے واقعات ھیں،موصوف کہتے ھیں:
میں دوسروںکے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں گفتگو نھیں کرتا بلکہ صرف اس واقعہ کو بیان کرتا ھوں جو میرے ساتھ پیش آیا، اور ۶ افراد اس واقعہ کے چشم دید گواہ ھیں ( خود میں اور پانچ دوسرے افراد )
ھم چھ مسلمان ایک مصری کشتی میں” بحراطلس“ میں نیویورک کی طرف سفر کر رھے تھے، کشتی میں ۱۲۰ عورت مرد سوار تھے، اور ھم لوگوں کے علاوہ کوئی مسلمان نھیں تھا، جمعہ کے دن ھم لوگوں کے ذھن میں یہ بات آئی کہ اس عظیم دریا میں ھی کشتی پر نماز جمعہ ادا کی جائے، ھم چاہتے تھے کہ اپنے مذھبی فرائض کو انجام دینے کے علاوہ ایک اسلامی جذبہ کا اظھار کریں، کیونکہ کشتی میں ایک عیسائی مبلغ بھی تھا جو اس سفر کے دوران عیسائیت کی تبلیغ کررھا تھا یھاں تک کہ وہ ھمیں بھی عیسائیت کی تبلیغ کرنا چاہتا تھا!۔
کشتی کا ”ناخدا “ایک انگریز تھا جس نے ھم کو کشتی میں نماز جماعت کی اجازت دیدی، اور کشتی کا تمام اسٹاف افریقی مسلمان تھا، ان کو بھی ھمارے ساتھ نماز جماعت پڑھنے کی اجازت دیدی ، اور وہ بھی اس بات سے بہت خوش ھوئے کیونکہ یہ پھلا موقع تھا کہ جب نماز جمعہ کشتی میں ھورھی تھی!
حقیر (سید قطب) نے نماز جمعہ کی امامت کی ، اور قابل توجہ بات یہ ھے کہ سبھی غیر مسلم مسافر ھمارے چاروں طرف کھڑے ھوئے اس اسلامی فریضہ کے ادائیگی کو غور سے دیکھ رھے تھے۔
نماز جمعہ تمام ھونے کے بعد بہت سے لوگ ھمارے پاس آئے اور اس کامیابی پر ھمیں مبارک باد پیش کی، جن میں ایک عورت بھی تھی جس کو ھم بعد میں سمجھے کہ وہ عیسائی ھے اور یوگو سلاویہ کی رھنے والی ھے اور ٹیٹو او رکمیونیزم کے جھنم سے بھاگی ھے!!
اس پر ھماری نماز کا بہت زیادہ اثر ھوایھاں تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ خود پر قابو نھیں پارھی تھی۔
وہ سادہ انگریزی میں گفتگو کررھی تھی اور بہت ھی زیادہ متاثر تھی ایک خاص خضوع و خشوع میں بول رھی تھی، چنانچہ اس نے سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ تمھارا پادری کس زبان میں پڑھ رھا تھا، ( وہ سوچ رھی تھی کہ نماز پڑھانے والا پادری کوئی روحانی ھونا چاہئے، جیسا کہ خود عیسائیوں کے یھاں ھوتا ھے ، لیکن ھم نے اس کو سمجھایا کہ اس اسلامی عبادت کو کوئی بھی باایمان مسلمان انجام دے سکتا ھے) آخر کار ھم نے اس سے کھا کہ ھم عربی زبان میں نماز پڑھ رھے تھے۔
اس نے کھا: میں اگرچہ ان الفاظ کے معنی کو نھیں سمجھ رھی تھی، لیکن یہ بات واضح ھے کہ ان الفاظ کا ایک عجیب آھنگ اور لہجہ ھے اور سب سے زیادہ قا بل تو جہ بات مجھے یہ محسوس ھو ئی کہ تمھارے امام کے خطبوں کے درمیان کچھ ایسے جملے تھے جو واقعاً دوسروں سے ممتاز تھے، وہ ایک غیر معمولی اور عمیق انداز کے محسوس ھورھے تھے، جس سے میرا بدن لرز رھاتھا، یقینا یہ کلمات کوئی دوسرے مطالب تھے، میرا نظریہ یہ ھے کہ جس وقت تمھارا امام ان کلمات کو اداکرتا تھا تو اس وقت ”روح القدس“ سے مملو ھوتا تھا!!
ھم نے کچھ غور و فکر کیا تو سمجھ گئے کہ یہ جملے وھی قرآنی آیات تھے جو خطبوں کے درمیان پڑھے گئے تھے واقعاً اس موضوع نے ھمیں ھلاکر رکھ دیا اور اس نکتہ کی طرف متوجہ ھوئے کہ قرآن مجید کا مخصوص لہجہ اتنا موٴثر ھے کہ اس نے اس عورت کو بھی متاثر کردیا جو ایک لفظ بھی نھیں سمجھ سکتی تھی لیکن پھر بھی اس پر بہت زیادہ اثر ھوا۔[17]([18])
4۔قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟
جیسا کہ ھم سورہ بقرہ میں پڑھتے ھیں:
< وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ ۔۔۔> ([19])
”اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کو ئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤ“۔
یھاں پر یہ سوال اٹھتا ھے کہ دشمنان اسلام قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟
اگر ھم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو اس سوال کا جواب آسانی سے روشن ھوجاتا ھے، کیونکہ اسلامی ممالک میں پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اور آپ کی وفات کے بعد خود مکہ اور مدینہ میں بہت ھی متعصب دشمن، یھود اور نصاریٰ رہتے تھے جو مسلمانوں کو کمزور بنانے کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے تھے، ان کے علاوہ خود مسلمانوں کے درمیان بعض ”مسلمان نما“ افراد موجود تھے جن کو قرآن کریم نے ”منافق“ کھا ھے، جو غیروں کے لئے ”جاسوسی“ کا رول ادا کررھے تھے ( جیسے ”ابوعامرراھب “ اور اس کے منافق ساتھی، جن کا رابطہ روم کے بادشاہ سے تھا اور تاریخ نے اس کو نقل کیا ھے یھاں تک کہ انھوں نے مدینہ میں ”مسجد ضرار“ بھی بنائی ، اور وہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کا اشارہ سورہ توبہ نے کیا ھے)۔
مسلّم طور پر منافقین کا یہ گروہ اور اسلام کے بعض دوسرے بڑے بڑے دشمن مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھے ھوئے تھے اور مسلمانوں کے ھو نے والے نقصان پر بہت خوش ھوا کرتے تھے، نیز مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت سے ان واقعات کو نشر کرتے تھے، یا کم از کم ان واقعات کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
لہٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ جن لوگوں نے ذرا بھی قرآن سے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ھے، تاریخ نے ان کانام نقل کیا ھے، چنانچہ ان میں درج ذیل افراد کا نام لیا جاتا ھے:
”عبد اللہ بن مقفع“ کا نام تاریخ نے بیان کیا ھے کہ اس نے ”الدرة الیتیمة“ نامی کتاب اسی وجہ سے لکھی ھے۔
جبکہ مذکورہ کتاب ھمارے یھاں موجود ھے اور کئی مرتبہ چھپ بھی چکی ھے لیکن اس کتاب میں اس طر ف ذرا بھی اشار ہ نھیں ھے، ھمیں نھیں معلوم کھکس طرح اس شخص کی طرف یہ نسبت دی گئی ھے؟
احمد بن حسین کوفی ”متنبی“ جو کہ کوفہ کا مشھور شاعر تھا اس کا نام بھی اسی سلسلہ میں بیان کیا ھے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ھے، جب کہ بہت سے قرائن اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ اس کی بلندپروازی، خاندانی پسماندگی اور جاہ و مقام کی آرزو اس میں سبب ھوئی ھے۔
ابو العلای معری پر بھی اسی چیز کا الزام ھے ، اگرچہ اس نے اسلام کے سلسلہ میں بہت سی نازیبا حرکتیں کی ھیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنے کا تصور اس کے ذھن میں نھیں تھا، بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے سلسلہ میں بہت سی باتیں کھی ھیں۔
لیکن ”مسیلمہ کذاب“ اھل یمامہ میں سے ایک ایسا شخص تھا جس نے قرآن کا مقابلہ کرتے ھوئے اس جیسی آیات بنانے کی ناکام کوشش کی ، جس میں تفریحی پھلو زیادہ پایا جاتا ھے، یھاں پر اس کے چند جملے نقل کرنا مناسب ھوگا:
۱۔ سورہ ”الذاریات“ کے مقابلہ میں یہ جملے پیش کئے:
”وَالمُبذراتِ بذراً والحاصداتِ حَصداً والذَّاریات قَمحاً والطاحناتِ طحناً والعاجناتِ عَجناً والخَابِزاتِ خُبزاً والثارداتِ ثَرداً واللاقماتِ لَقماً إھالة وسَمناً“[20]
”یعنی قسم ھے کسانوں کی، قسم ھے بیج ڈالنے والوں کی، قسم ھے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اورقسم ھے گندم کو گھاس سے جدا کرنے والوں کی، قسم ھے آٹا گوندھنے والیوں کی اور قسم ھے روٹی پکانے والیوں کی اور قسم ھے تر اور نرم لقمہ اٹھانے والوں کی“!!
۲۔یا ضفدع بنت ضفدع، نقيّ ما تنقین، نِصفک فی الماء و نِصفک فِي الطین لا الماء تکدّرین ولا الشارب تمنعین“[21] ([22])
” اے مینڈک بنت مینڈک! جو تو چاھے آواز دے! تیرا آدھا حصہ پانی میں اور آدھا کیچڑ میں ھے، تو نہ پانی کوخراب کرتی ھے اور نہ کسی کو پانی پینے سے روکتی ھے“۔
5۔ قرآن کے حروف مقطّعات سے کیامرادھے؟
قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں، اور جیسا کہ ان کے نام سے ظاھر ھے کہ یہ الگ الگ حروف ھیں اور ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتے ھیں، جس سے کسی لفظ کا مفھوم نھیں نکلتا۔
قرآن مجید کے حروف مقطّعات، ھمیشہ قرآن کے اسرار آمیز الفاظ شمار ھوئے ھیں، اور مفسرین نے اس سلسلہ میں متعدد تفسیریں بیان کی ھیں، آج کل کے دانشوروں کی جدید تحقیقات کے مد نظر ان کے معنی مزید واضح ھوجاتے ھیں۔
یہ بات قابل توجہ ھے کہ کسی بھی تاریخ نے بیان نھیں کیا ھے کہ دورِ جاھلیت کے عرب یا مشرکین نے قرآن کے بہت سے سوروں میں حروف مقطّعات پر کوئی اعتراض کیا ھو، یا ان کامذاق اڑایاھو، جو خود اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ وہ لوگ حروف مقطّعات کے اسرار سے بالکل بے خبر نھیں تھے۔
بھر حال مفسرین کی بیان کردہ چند تفسیریں موجود ھیں، سب سے زیادہ معتبراوراس سلسلہ میں کی گئی تحقیقات سے ھم آھنگ دکھائی دینے والی تفاسیرکی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔ یہ حروف اس بات کی طرف اشارہ ھیں کہ یہ عظیم الشان آسمانی کتاب کہ جس نے تمام عرب اور عجم کے دانشوروں کو تعجب میں ڈال دیا ھے اور بڑے بڑے سخنور اس کے مقابلہ سے عاجز ھوچکے ھیں، نمونہ کے طور پر یھی حروف مقطّعاتھیں جو سب کی نظروں کے سامنے موجود ھیں۔
جبکہ قرآن مجید انھیں الفابیٹ اور معمولی الفاظ سے مرکب ھے، لیکن اس کے الفاظ اتنے مناسب اور اتنے عظیم معنی لئے ھوئے ھے جو انسان کے دل و جان میں اثر کرتے ھیں، روح پر ایک گھرے اثر ڈالتے ھیں ، جن کے سامنے افکار اور عقول تعظیم کرتی ھوئی نظر آتی ھیں، اس کے جملے عظمت کے بلند درجہ پر فائز ھیں اور اپنے اندر معنی کا گویا ایک سمندر لئے ھوٴئے ھیں جس کی کوئی مثل و نظیر نھیں ملتی۔
حروف مقطّعات کے سلسلے میں اس بات کی تا ئید یوں بھی ھوتی ھے کہ قرآن مجید کے جھاں سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں ان میں سے ۲۴ مقامات پر قرآن کی عظمت بیان کی گئی ھے، جو اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ ان دونوں (عظمت قرآن اور حروف مقطّعہ) میں ایک خاص تعلق ھے۔
ھم یھاں پر چند نمونے پیش کرتے ھیں:
۱۔ <اٰلٰرٰ. کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیر>[23]
الرٰیہ وہ کتاب ھے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ھیں اور ایک صاحب علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھیں“۔
۲۔ <طٰس. تِلْکَ آیَاتُ الْقُرْآنِ وَکِتَابٍ مُبِینٍ >[24]
”طٰس ،یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ھیں“۔
۳۔ <اٰلٰم۔تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیمِ >[25]
” الم ، یہ حکمت سے بھری ھوئی کتاب کی آیتیں ھیں“۔
۴۔ <اٰلٰمص. کِتَابٌ اٴُنزِلَ إِلَیْکَ>[26]
”المص، یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ھے“۔
ان تمام مقامات اور قرآن مجید کے دوسرے سوروں کے شروع میں حروف مقطّعہ ذکر ھونے کے بعد قرآن اور اس کی عظمت کی گفتگو ھوئی ھے۔[27]
۲۔ ممکن ھے قرآن کریم میں حروف مقطّعات بیان کرنے کا دوسرا مقصد یہ ھو کہ سننے والے متوجہ ھوجائیں اور مکمل خاموشی کے ساتھ سنےں، کیونکہ گفتگو کے شروع میں اس طرح کے جملے عربوں کے درمیان عجیب و غریب تھے، جس سے ان کی تو جہ مزید مبذول ھو جا تی تھی، اور مکمل طور سے سنتے تھے، اور یہ بھی اتفاق ھے کہ جن سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں وہ سب مکی سورے ھیں، اور ھم جانتے ھیں کہ وھاں پر مسلمان اقلیت میں تھے، اور پیغمبر اکرم (ص)کے دشمن تھے، آپ کی باتوں کو سننے کے لئے بھی تیار نھیں تھے، کبھی کبھی اتنا شور و غل کیا کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی آواز تک سنائی نھیں دیتی تھی، جیسا کہ قرآن مجید کی بعض آیات (جیسے سورہ فصلت ، آیت نمبر ۲۶) اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ھیں۔
۳۔ اھل بیت علیھم السلام کی بیان شدہ بعض روایات میں پڑھتے ھیں کہ یہ حروف مقطّعات، اسماء خدا کی طرف اشارہ ھیں جیسے سورہ اعراف میں ”المص“ ، ”انا الله المقتدر الصادق“ (میں صاحب قدرت اور سچا خدا ھوں) اس لحاظ سے چاروں حرف خداوندعالم کے ناموں کی طرف اشارہ ھیں۔
مختصر شکل ( یا کوڈ ورڈ) کو تفصیلی الفاظ کی جگہ قرار دینا قدیم زمانہ سے رائج ھے، اگرچہ دورحاضر میں یہ سلسلہ بہت زیادہ رائج ھے، اور بہت ھی بڑی بڑی عبارتوں یا اداروں اور انجمنوں کے نام کا ایک کلمہ میں خلاصہ ھوجا تا ھے۔
ھم اس نکتہ کا ذکرضروری سمجھتے ھیں کہ ”حروف مقطّعات“ کے سلسلہ میں یہ مختلف معنی آپس میں کسی طرح کا کوئی ٹکراؤ نھیں رکھتے، اور ممکن ھے کہ یہ تمام تفسیریں قرآن کے مختلف معنی کی طرف اشارہ ھوں۔[28]
۴۔ ممکن ھے کہ یہ تمام حروف یا کم از کم ان میں ایک خاص معنی اور مفھوم کا حامل ھو، بالکل اسی طرح جیسے دوسرے الفاظ معنی و مفھوم رکھتے ھیں۔
اتفاق کی بات یہ ھے کہ سورہ طٰہٰ اور سورہ یٰس کی تفسیر میں بہت سی روایات اور مفسرین کی گفتگو میں ملتا ھے کہ ”طٰہ“ کے معنی یا رجل (یعنی اے مرد) کے ھیں ، جیسا کہ بعض عرب شعرا کے شعر میں لفظ طٰہ آیاھے اور اے مرد کے مشابہ یا اس کے نزدیک معنی میں استعمال ھوا ھے ، جن میں سے بعض اشعار یا تو اسلام سے پھلے کے ھیں یا آغاز اسلام کے ۔[29]
یھاں تک کہ ایک صاحب نے ھم سے نقل کیا کہ مغربی ممالک میں اسلامی مسائل پر تحقیق کرنے والے دا نشوروں نے اس مطلب کو تمام حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا ھے اوراس بات کا اقرار کیا ھے کہ قرآن مجید کے سوروں کی ابتداء میں جو حروف مقطّعات بیان ھوئے ھیں وہ اپنے اندر خاص معنی لئے ھوئے ھیں جو گزشتہ زمانہ میں متروک رھے ھیں، اور صرف بعض ھم تک پھنچے ھیں، ورنہ تو یہ بات بعید ھے کہ عرب کے مشرکین حروف مقطّعات کو سنےں اور ان کے معنی کو نہ سمجھيں اور مقابلہ کے لئے نہ کھڑ ے ھوں، جبکہ کوئی بھی تاریخ یہ بیان نھیں کرتی کہ ان کم دماغ والے اور بھانہ باز لوگوں نے حروف مقطّعات کے سلسلہ میں کسی ردّ عمل کا اظھار کیا ھو۔
البتہ یہ نظریہ عام طور پر قرآن مجید کے تمام حروف مقطّعات کے سلسلے میں قبول کیا جانا مشکل ھے، لیکن بعض حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا جاسکتا ھے، کیونکہ اسلامی منابع ومصادر میں اس موضوع پر بحث کی گئی ھے۔
یہ مطلب بھی قابل توجہ ھے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ھوا ھے کہ ”طٰہ“ پیغمبر اکرم (ص)کا ایک نام ھے ،جس کے معنی ”یا طالب الحق، الھادی الیہ“ ( اے حق کے طالب اور حق کی طرف ھدایت کرنے والے)
اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ لفظ ”طٰہٰ “ دو اختصاری حرف سے مرکب ھے ایک ”طا“ جو ”طالب الحق“ کی طرف اشارہ ھے اور دوسرے ”ھا“ جو ”ھادی الیہ“ کی طرف اشارہ ھے۔
اس سلسلہ میں آخری بات یہ ھے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لفظ ”طٰہ“ ، لفظ ”یٰس“ کی طرح آھستہ آھستہ پیغمبر اکرم (ص)کے لئے ”اسم خاص“ کی شکل اختیار کرگیا ھے، جیسا کہ آل پیامبر (ص)کو ”آل طٰہ“ بھی کھا گیا، جیسا کہ دعائے ندبہ میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ ‘ کو ”یابن طٰہ“ کھا گیا ھے۔[30]
۵۔ علامہ طباطبائی ( علیہ الر حمہ) نے ایک دوسرا احتمال دیا ھے جس کو حروف مقطّعات کی ایک دوسری تفسیر شمار کیا جاسکتا ھے، اگرچہ موصوف نے اس کو ایک احتمال اور گمان کے عنوان سے بیان کیا ھے۔
ھم آپ کے سامنے موصوف کے احتمال کا خلاصہ پیش کررھے ھیں:
جس وقت ھم حروف مقطّعات سے شروع ھونے والے سوروں پر غور و فکر کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں کہ مختلف سوروں میں بیان ھو ئے حروف مقطّعات سورہ میں بیان شدہ مطالب میں مشترک ھیں مثال کے طور پر جو سورے ”حم“ سے شروع ھوتے ھیں اس کے فوراً بعد جملہ <تَنْزِیْلُ الکِتَابِ مِن الله> (سورہ زمر آیت۱) یا اسی مفھوم کا جملہ بیان ھوتا ھے اور جو سورے ”الر“ سے شروع ھوتے ھیں ان کے بعد <تِلْکَ آیاتُ الکتابِ> یا اس کے مانند جملے بیان ھوئے ھیں۔
اور جو سورے ”الم“ سے شروع ھوتے ھیں اس کے بعد <ذٰلک الکتابُ لاریبَ فِیْہ> یا اس سے ملتے جلتے کلمات بیان ھوئے ھیں۔
اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ حروف مقطّعات اور ان سوروں میں بیان ھوئے مطالب میں ایک خاص رابطہ ھے مثال کے طور پر سورہ اعراف جو ”اٴلمٰص“ سے شروع ھوتا ھے اس کا مضمون اور سورہ ”الم“ اور سورہ ”ص“ کا مضمون تقریباً ایک ھی ھے۔
البتہ ممکن ھے کہ یہ رابطہ بہت عمیق اور دقیق ھو، جس کو ایک عام انسان سمجھنے سے قاصر ھو۔
اور اگر ان سوروں کی آیات کو ایک جگہ رکھ کر آپس میں موازنہ کریں تو شاید ھمارے لئے ایک نیا مطلب کشف ھوجائے۔[31]([32])
6۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کے زمانہ میں مرتب ھوچکا تھا یا بعد میں ترتیب دیا گیا؟
جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن مجید کے پھلے سورے کا نام ”فاتحة الکتاب“ ھے ، ”فاتحة الکتاب“ یعنی کتاب (قرآن) کی ابتدااور پیغمبر اکرم (ص)سے منقول بہت سی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خود آنحضرت (ص)کے زمانہ میں اس سورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔
یھیں سے ایک دریچہ اسلام کے مسائل میں سے ایک اھم مسئلہ کی طرف وا ھوتا ھے اور وہ یہ کہ ایک گروہ کے درمیان یہ مشھور ھے کہ ( پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں قرآن پراکندہ تھا بعد میں حضرت ابوبکر یا عمر یا عثمان کے زمانہ میں مرتب ھوا ھے)، قرآن مجید خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اسی ترتیب سے موجود تھا جو آج ھمارے یھاں موجود ھے، اور جس کا سر آغاز یھی سورہ حمد تھا، ورنہ تو یہ پیغمبر اکرم (ص)پر نازل ھونے والاسب سے پھلا سورہ نھیں تھا اور نہ ھی کوئی دوسری دلیل تھی جس کی بناپر اسے ”فاتحة الکتاب“ کے نام سے یاد کیا جاتا۔
اس کے علاوہ اور بہت سے شواھد اس حقیقت کی تائید کرتے ھیں کہ قرآن کریم اسی موجودہ صورت میں پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں جمع ھوچکا تھا۔
”علی بن ابراھیم(رہ)“ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: قرآن کریم حریر کے کپڑوں ،کاغذ اور ان جیسی دوسری چیزوں پر متفرق ھے لہٰذا اس کو ایک جگہ جمع کرلو“ اس کے بعد مزید فرماتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس نشست سے اٹھے اور قرآن کو ایک زرد رنگ کے کپڑے پر جمع کیا اور اس پر مھر لگائی:
”وَانطلقَ عَليَّ (ع)فَجمعہُ فِي ثوبٍ اٴصفرٍ ثُمَّ خَتَم علَیْہِ“[33]
ایک دوسرا گواہ: ”خوارزمی“ اھل سنت کے مشھور و معروف موٴلف اپنی کتاب ”مناقب“ میں ”علی بن ریاح“ سے نقل کرتے ھیں کہ قرآن مجید کو حضرت علی بن ابی طالب اور ابیّ بن کعب نے پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ ھی میں جمع کردیا تھا۔
تیسرا گواہ: اھل سنت کے مشھور و معروف موٴلفحاکم نیشاپوری اپنی کتاب ”مستدرک“ میں زید بن ثابت سے نقل کرتے ھیں:
زید کہتے ھیں: ” ھم لوگ قرآن کے مختلف حصوں کو پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں جمع کرتے تھے اور آنحضرت (ص)کے فرمان کے مطابق اس کی مناسب جگہ قرار دیتے تھے، لیکن پھر بھی یہ لکھا ھوا قرآن متفرق تھا ،حضرت رسول خدا (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اس کو ایک جگہ جمع کردیں ، اور ھمیں اس کی حفا ظت کے لئے تا کید کیاکرتے تھے“۔
عظیم الشان شیعہ عالم دینسید مرتضیٰ کہتے ھیں:قرآن مجید پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اسی موجودہ صورت میں مرتب ھوچکا تھا“[34]
طبرانی اور ابن عساکر دونوں ”شعبی“ سے نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں انصار کے چھ افراد نے قرآن کو جمع کیا۔[35] اور قتادہ نقل کرتے ھیں کہ میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں کن لوگوں نے قرآن جمع کیا تھا؟ تو انھوں نے :ابیّ بن کعب، معاذ،زید بن ثابت اور ابوزید کا نام لیا جو سبھی انصار میںسے تھے[36] اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ھیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ اگر ھم ان سب کو بیان کریں تو ایک طولانی بحث ھوجائے گی۔
بھر حال شیعہ اور سنی کتب میں نقل ھونے والی روایات جن میں سورہ حمد کو ”فا تحة الکتاب“ کا نام دیا جانا، اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کافی ھے۔
سوال:
یھاں ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کس طرح اس بات پر یقین کیا جاسکتا ھے جبکہ بہت سے علماکے نزدیک یہ بات مشھور ھے کہ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (ص)کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا ھے (حضرت علی ﷼کے ذریعہ یا دوسرے لوگوں کے ذریعہ)
اس سوال کے جواب میںھم یہ کہتے ھیں : حضرت علی علیہ السلام کا جمع کیا ھوا قرآن خالی قرآن نھیں تھا بلکہ قرآن مجید کے ساتھ سا تھ اس کی تفسیر اورشان نزول بھی تھی۔
البتہ کچھ ایسے قرائن وشواھد بھی پا ئے جا تے ھیںجن سے پتہ چلتا ھے کہ حضرت عثمان نے قرائت کے اختلاف کودور کرنے کے لئے ایک قرآن لکھا جس میں قرائت اور نقطوں کا اضافہ کیا (چونکہ اس وقت تک نقطوں کا رواج نھیں تھا) بعض لوگوں کا یہ کھنا کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں کسی بھی صورت میں قرآن جمع نھیں کیا گیا تھا بلکہ یہ افتخار خلیفہ دوم یا حضرت عثمان کونصیب ھوا، تو یہ بات فضیلت سازی کا زیادہ پھلو رکھتی ھے لہٰذا اصحاب کی فضیلت بڑھا نے کے لئے نسبت دیتے ھیں اورروایت نقل کرتے ھیں۔
بھر حال اس بات پرکس طرح یقین کیا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)اتنے اھم کام پر کوئی توجہ نہ کریں جبکہ آنحضرت (ص)چھوٹے چھوٹے کاموں کو بہت اھمیت دیتے تھے،کیا قرآن کریم اسلام کے بنیادی قوانین کی کتاب نھیں ھے؟! کیا قرآن کریم تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب نھیں ھے؟! کیا قرآن کریم اعتقادات نیز اسلامی منصوبوں کی بنیادی کتاب نھیں ھے؟! کیا پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں قرآن کریم کے جمع نہ کرنے سے یہ خطرہ درپیش نہ تھا کہ اس کا کچھ حصہ نابود ھوجائے گایا مسلمانوں کے درمیان اختلاف ھوجائے گا؟!
اس کے علاوہ مشھور و معروف حدیث ”ثقلین“ جس کو شیعہ اور سنی دونوں فر یقوں نے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں :ایک کتاب خدا (قرآن) اور دوسرے میری عترت (اھل بیت (ع))۔۔۔“ اس حدیث سے بھی ظاھر ھوتا ھے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی شکل میں موجود تھا۔
اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ بعض روایات میں بیان ھوا ھے کہ خود آنحضرت (ص)کی زیرنگرانی بعض اصحاب نے قرآن جمع کیا ، اوروہ تعداد کے لحاظ سے مختلف ھيں تواس سے کوئی مشکل پیدا نھیں ھوتی، کیو نکہ ممکن ھے کہ ھر روایت ان میں سے کسی ایک کی نشاندھی کرتی ھو۔[37]
7۔قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ھے؟
جیسا کہ ھم سورہ آل عمران میں پڑھتے ھیں:
< ہُوَ الَّذِی اٴَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ اٴُمُّ الْکِتَابِ وَاٴُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ>[38]
”اس نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ھے جس میں سے کچھ آیتیں محکم ھیں جو اصل کتاب ھیں اور کچھ متشابہ ھیں“۔
یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ ”محکم“ اور ”متشابہ“ سے کیا مراد ھے؟
لفظ ”محکم“ کی اصل ”احکام“ ھے اسی وجہ سے مستحکم او رپائیدار موضوعات کو ”محکم“ کھا جاتا ھے، کیونکہ وہ خود سے نابودی کے اسباب کو دور کرتے ھیں، اور اسی طرح واضح و روشن گفتگوجس میں احتمال خلاف نہ پایا جاتا ھو اس کو ”محکم“ کھا جاتا ھے، اس بنا پر ”محکمات“ سے وہ آیتیں مراد ھیں جن کا مفھوم اور معنی اس قدر واضح اور روشن ھو کہ جس کے معنی میں بحث و گفتگو کی کوئی گنجائش نہ ھو، مثال کے طور پر درج ذیل آیات :
<قُلْ ھُوَ اللهُ اٴحدٌ > <لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیءٌ> <اللهخَالِقُ کُلّ شَیءٍ> <لِلذَکَرِ مِثْلُ حَظَّ الاٴنْثَیَینِ>
اور اس کی طرح دوسری ہزاروں آیات جو عقائد، احکام، وعظ و نصیحت اور تاریخ کے بارے میں موجود ھیں یہ سب آیات ”محکمات“ ھیں، ان محکم آیات کو قرآن کریم میں ”امّ الکتاب“ کانام دیا گیا ھے، یعنی یھی آیات اصل ،اور مرجع و مفسر ھیں اور یھی آیات دیگر آیات کی وضاحت کرتی ھیں۔
لفظ ”متشابہ“ کے لغوی معنی یہ ھیں کہ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے شبیہ اور مانند ھوں، اسی وجہ سے ایسے جملے جن کے معنی پیچیدہ ھوں اور جن کے بارے میں مختلف احتمالات دئے جاسکتے ھوں ان کو ”متشابہ“ کھا جاتا ھے، اور قرآن کریم میں بھی یھی معنی مراد ھیں، یعنی ایسی آیات جن کے معنی ابتدائی نظر میں پیچیدہ ھیں شروع میں کئی احتمالات دئے جاتے ھیں اگرچہ آیات ”محکمات“ پر توجہ کرنے سے اس کے معنی واضح اور روشن ھوجاتے ھیں۔
اگرچہ ”محکم“ اور ”متشابہ“ کے سلسلہ میں مفسرین نے بہت سے احتمالات دئے ھیں لیکن ھمارا پیش کردہ مذکورہ نظریہ ان الفاظ کے اصلی معنی کے لحاظ سے بھی مکمل طور پر ھم آھنگ ھے اور شان نزول سے بھی، آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں بیان ھونے والی روایات سے بھی،اورمحل بحث آیت سے بھی، کیونکہ مذکورہ آیت کے ذیل میں ھم پڑھتے ھیں کہ بعض خود غرض لوگ ”متشابہ“ آیات کو اپنی دلیل قرار دیتے تھے، یہ بات واضح ھے کہ وہ لوگ آیات سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہ متشابہ آیات سرسری نظر میں متعدد معنی کئے جانے کی صلاحیت رکھتی ھیںجس سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ ”متشابہ“ سے وھی معنی مراد ھیں جو ھم نے اوپر بیان کئے ھیں۔
”متشابہ“ وہ آیات ھیں جو خداوندعالم کے صفات اور معاد کی کیفیت کے بارے میں ھیں ھم یھاں پر چند آیات کو نمونہ کے طور پر بیان کرتے ھیں:<یَدُ اللهِ فُوقَ اَیْدِیْہِم> (خدا کا ھاتھ ان کے ھاتھوں کے اوپر ھے) جو خداوندعالم کی قدرت کے بارے میں ھے، اسی طرح <وَاللهُ سَمِیْعُ عَلِیْمُ> (خدا سننے والا اور عالم ھے) یہ آیت خداوندعالم کے علم کے بارے میں دلیل ھے، اسی طرح <وَنَضَعُ المَوَازِینَ القِسْطِ لِیَومِ القَیَامَةِ>( ھم روزِ قیامت عدالت کی ترازو قائم کریں گے) یہ آیت اعمال کے حساب کے بارے میں ھے۔یہ بات ظاھر ھے کہ نہ خداوندعالم کے ھاتھ ھيں اور نہ ھی وہ آنکھ اور کان رکھتا ھے، اور نہ ھی اعمال کے حساب و کتاب کے لئے ھمارے جیسی ترازو رکھتا ھے بلکہ یہ سب خداوندعالم کی قدرت اور اس کے علم کی طرف اشارہ ھیں۔
یھاں اس نکتہ کی یاد دھانی کرانا ضروری ھے کہ قرآن مجید میں محکم اور متشابہ دوسرے معنی میں بھی آئے ھیں جیسا کہ سورہ ھود کے شروع میں ارشاد ھوتا ھے: <کتاب احکمت آیاتہ>اس آیت میں تمام قرآنی آیات کو ”محکم“ قرار دیا ھے، جس کا مطلب یہ ھے کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ھیں ،اور سورہ زمر میں آیت نمبر ۲۳ میں ارشاد ھوتا ھے: <کتاباً متشابھاً۔۔۔>اس آیت میں قرآ ن کی تمام آیات کو متشابہ قراردیا گیا ھے کیو نکہ یھاں متشابہ کے معنی حقیقت ،صحیح اور درست ھونے کے لحاظ سے تمام آیات ایک دوسرے جیسی ھيں۔
لہٰذا محکم اور متشابہ کے حوالہ سے ھمارے بیان کئے ھو ئے مطالب کے پیش نظر معلوم ھوجاتا ھے ایک حقیقت پسند اور حق تلاش کرنے والے انسان کے لئے خداوندعالم کے کلام کو سمجھنے کا یھی ایک راستہ ھے کہ تمام آیات کو پیش نظر رکھے اور ان سے حقیقت تک پھنچ جائے ،چنانچہ اگر بعض آیات میں ابتدائی لحاظ سے کوئی ابھام اور پیچیدگی دیکھے تو دوسری آیات کے ذریعہ اس ابھام اور پیچیدگی کو دور کرکے اصل تک پھنچ جائے، درحقیقت ”آیات محکمات“ ایک شاھراہ کی طرح ھیں اور ”آیات متشابھات“ فرعی راستوں کی طرح ھیں ، کیونکہ یہ بات واضح ھے کہ اگر انسان فرعی راستوں میں بھٹک جائے تو کوشش کرتا ھے کہ اصلی راستہ پر پھنچ جائے، اور وھاں پھنچ کرصحیح راستہ کو معین کرلے۔
چنا نچہ آیات محکمات کو ”امّ الکتاب“ کھا جانا بھی اس حقیقت کی تاکید کرتا ھے، کیونکہ عربی میں لفظ ”امّ“ کے معنی ”اصل اور بنیاد“ کے ھیں، اور اگر ماں کو ”امّ“ کھا جاتا ھے تو اسی وجہ سے کہ بچوںکی اصل اور اپنی اولاد کی مختلف مشکلات اور حوادث میں پناہ گاہ ھوتی ھے، اسی طرح آیات محکمات دوسری آیات کی اصل اور ماں شمار ھوتی ھیں۔[39]
8۔کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ھیں؟
لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات کی وجہ کیا ھے؟ جبکہ قرآن مجید نور، روشنی، کلام حق اور واضح ھے نیزلوگوں کی ھدایت کے لئے نازل ھوا ھے تو پھر قرآن مجید میں اس طرح کی متشابہ آیات کیوں ھیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا مفھوم پیچیدہ کیوں ھے کہ بعض اوقات شرپسندوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا مو قع مل جا تا ھے ؟
یہ موضوع در حقیقت بہت اھم ھے جس پر بھر پورتوجہ کرنے کی ضرورت ھے، کلی طور پر درج ذیل چیزیں قرآن میںمتشابہ آیات کا راز اور وجہ ھو سکتی ھیں:
۱۔ انسان جو الفاظ اور جملے استعمال کرتا ھے وہ صرف روز مرّہ کی ضرورت کے تحت ھوتے ھیں ، اسی وجہ سے جب ھم انسان کی مادی حدود سے باھر نکلتے ھیں مثلاً خداوندعالم جو ھر لحاظ سے نامحدود ھے، اگر اس کے بارے میں گفتگو کر تے ھیںتو ھم واضح طور پر دیکھتے ھیں کہ ھمارے الفاظ ان معانی کے لئے کما حقہ پورے نھیں اترتے، لیکن مجبوراً ان کو استعمال کرتے ھیں ، کہ الفاظ کی یھی نارسائی قرآن مجید کی بہت سی متشابہ آیات کا سرچشمہ ھیں ، <یَدُ اللهِ فَوقَ اٴیدِیھم>[40] یا <الرَّحمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ استَویٰ>[41] یا <إلیٰ رَبِّہَا نَاظِرَةِ>[42] یہ آیات اس چیز کا نمونہ ھیں نیز ”سمیع“ اور ”بَصِیرٌ“ جیسے الفاظ بھی اسی طرح ھیں کہ آیات محکمات پر رجوع کرنے سے ان الفاظ اور آیات متشابھات کے معنی بخوبی واضح اور روشن ھوجاتے ھیں۔
۲۔ بہت سے حقائق دوسرے عالم یا ماورائے طبیعت سے متعلق ھوتے ھیں جن کو ھم سمجھنے سے قاصر ھیں، چونکہ ھم زمان و مکان میں مقید ھیں لہٰذا ان کی گھرائی کو سمجھنے سے قاصر ھیں، اورھمارے افکار کی نارسائی اور ان معانی کا بلند و بالا ھونا ان آیات کے تشابہ کا باعث ھے جیسا کہ قیامت وغیرہ سے متعلق بعض آیات موجود ھیں۔
یہ بالکل اسی طرح ھے کہ اگر کوئی شخص شکم مادر میں موجود بچہ کو اس دنیا کے مسائل کی تفصیل بتانا چاھے، تو بہت ھی اختصار اور مجمل طریقہ سے بیان کرنے ھوں گے کیونکہ اس میں صلاحیت اور استعداد نھیں ھے۔
۳۔ قرآن مجید میں متشابہ آیات کا ایک راز یہ ھو سکتا ھے کہ اس طرح کا کلام اس لئے پیش کیا گیا تاکہ لوگوں کی فکر و نظر میں اضافہ ھو ، اور یہ دقیق علمی اور پیچیدہ مسائل کی طرح ھیں تاکہ دانشوروں کے سامنے بیان کئے جائیںاور ان کے افکار پختہ ھوں اور مسائل کی مزید تحقیق کریں ۔
۴۔قرآن کریم میں متشابہ آیات کے سلسلہ میں ایک دوسرا نکتہ یہ ھے کہ جس کی تائید اھل بیت علیھم السلام کی احادیث سے بھی ھو تی ھے:قرآن مجید میں اس طرح کی آیات کا موجود ھونا انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی ضرورت کو واضح کرتا ھے تاکہ عوام الناس مشکل مسائل سمجھنے کے لئے ان حضرات کے پاس آئیں، اور ا ن کی رھبری و قیادت کو رسمی طور پر پہچانیں، اور ان کے تعلیم دئے ھوئے دوسرے احکام اور ان کی رھنمائی پر بھی عمل کریں ، اور یہ بالکل اس طرح ھے کہ تعلیمی کتابوں میں بعض مسائل کی وضاحت استاد کے اوپر چھوڑدی جا تی ھے تاکہ شاگرد استاد سے تعلق ختم نہ کرے اور اس ضرورت کے تحت دوسری چیزوں میں استاد کے افکار سے الھام حاصل کرے ، خلاصہ یہ کہ قرآن کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص)کی مشھور وصیت کے مصداق پر عمل کریں کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:
”إنِّي َتارکٌ فِیکُمُ الثَّقلین کتابَ اللهِ وَ اٴھلَ َبیتي وَ إنّھما لن یَفترقا حتّٰی یَرِدَا عَلیَّ الْحَوضِ“۔
” یقینامیں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں: ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اھل بیت، اور (دیکھو!) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوںگے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائيں“[43]([44])
9۔ کیا بسم اللہ تمام سوروںکا جز ھے؟
اس مسئلہ میں شیعہ علمااور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ھے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ھے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ھونا خود اس بات پر محکم دلیل ھے، کیونکہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نھیں ھوئی ھے، اور پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ سے آج تک ھر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ھوتا رھا ھے۔
لیکن اھل سنت علمامیں سے مشھور و معروف موٴلف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ھیں:
علماکے درمیان یہ بحث ھے کہ کیا ھر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ھے یا نھیں؟ مکہ کے قدیمعلما (فقھا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اھل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اھل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ھیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ھے، اسی طرح شیعہ علمااور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت ) علی﷼، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوھریرہ ، اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زھری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ھے۔
اس کے بعد مزید بیان کرتے ھیں کہ ان کی سب سے اھم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ھے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ھے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نھیں ھے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نھیں کیا ھے۔
اس کے بعد (امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ھے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ھر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ھوئی ھے۔
اور احمد (بن حنبل) (اھل سنت کے مشھور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ھیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،[45]
(قارئین کرام!)مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اھل سنت کے علماکی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ھے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ھے، ھم یھاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ھیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ ان تمام کا یھاں ذکر کرنا ھماری بحث سے خارج ھے، اور مکمل طور پر ایک فقھی بحث ھے)
۱۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاھنے والوں میں سے ھیں، کہتے ھیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں، میںنے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ھوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاھوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ھاں۔[46]
۲۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ھے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ھے۔[47]
۳۔ اھل سنت کے مشھور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ھیں:
”استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اٴعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“[48]
شیطان صفت لوگوںنے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ھے“ (اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نھیں پڑھتے)
اس کے علاوہ ھمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رھی ھے کہ ھر سورے کو شروع کرنے سے پھلے بسم اللہ پڑھتے ھیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)بھی ھر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ھے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ھو خود پیغمبر اکرم (ص)اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ھمیشہ پڑھا کریں؟!۔
لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ھے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ھے اور قرآن کا جز ھے مگر سوروں کا جز نھیں ھے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ھے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ھیں جس سے معلوم ھوتا ھے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ھے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رھیں اور کھیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ھے، جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نھیں ھے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ھیں کہ بعد میں شروع ھونے والی بحث کا سر آغاز ھے۔
صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ھے اور وہ یہ ھے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نھیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پھلی آیت شمار کیا جاتا ھے۔
اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نھیں ھے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پھلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں <بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ إِنَّا اٴعطینکَ الکَوْثَر> ایک آیت شمار ھو۔
بھر حال یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ھے کہ تاریخ نے لکھا ھے کہ معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ایک روز نماز جماعت میں بسم اللہ نھیں پڑھی، تو نماز کے فوراً بعد مھاجرین اور انصار نے مل کر فریاد بلند کی : ”اسرقت اٴم نسیت“ (اے معاویہ! تو نے بسم اللہ کی چوری کی ھے یا بھول گیا ھے؟)[49]([50])
[1] تفسیر آلاء الرحمن صفحہ ۳۵۔
[2] موصوف کی عربی عبارت یہ ھے: ”والشّیعة ھم اٴبداً اٴعدَاء المساجد ولھذا یقل اٴَن یشاھد الضارب فی طول بلادھم و عرضھا مسجداً (الصراع ، جلد ۲، صفحہ ۲۳، علامہ امینی (رہ) کی نقل کے مطابق الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۳۰۰)
[3] تفسیر نمونہ ، جلد۱۱، صفحہ ۱۸۔
[4] مجمع البیان ، جلد۱۰ ،سورہٴ مدثر ۔
[5] مقدمہ سازمانھای تمدن امپراطوری اسلام۔
[6] مقدمہ سازمانھای تمدن امپرا طوری اسلام، صفحہ ۱۱۱۔
[7] مقدمہ سازمانھای تمدن امپرطوری اسلام، صفحہ ۹۱۔
[8] کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“
[9] المعجزة الخالدہ،بنا بر نقل از قرآن بر فراز اعصار۔
[10] پیش رفت سریع اسلام، اعجاز قرآن کے سلسلہ میں مذکورہ بحث میں ”قرآن و آخرین پیامبر“ سے استفادہ کیا گیا ھے۔
[11] تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۵۔
[12] قرآن وآخرین پیغمبر صفحہ۳۰۹۔
[13] تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۔
[14] تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۴۲۔
[15] تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۲۔
[16] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۴۱۰۔
[17] تفسیر فی ضلال ، جلد ۴، صفحہ ۴۲۲۔
[18] تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۲۸۹
[19] سورہ بقرہ ، آیت ۲۳۔
[20] اعجاز القرآن رافعی۔
[21] قرآن و آخرین پیغمبر ۔
[22] تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۳۔
[23] سورہ ھود ، آیت ۱۔
[24] سورہٴ نمل ، آیت ا۔
[25] سورہٴ لقمان ، آیت ۱و۲۔
[26] سورہٴ اعراف ، آیت ۱و۲۔
[27] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۶۱۔
[28] تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۷۸۔
[29] تفسیر مجمع البیان ،سورہٴ طہ کی پھلی آیت کے ذیل میں۔
[30] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۵۷۔
[31] تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۵و۶۔
[32] تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۳۴۶۔
[33] تاریخ القرآن ، ابو عبداللہ زنجانی صفحہ ۲۴۔
[34] مجمع البیان ، جلد اول، صفحہ ۱۵۔
[35] منتخب کنز العمال ، جلد ۲، صفحہ ۵۲۔
[36] صحیح بخاری ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۲۔
[37] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۸۔
[38] سورہ آل عمران ، آیت ۷۔
[39] تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۰۔
[40] سورہ فتح۱۰.
[41] سورہ طٰہ۵.
[42] سورہ قیامت۲۳.
[43] مستدرک حاکم ، جلد ۳، صفحہ ۱۴۸۔
[44] تفسیر نمو نہ ، جلد ۲،صفحہ ۳۲۲۔
[45] تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰۔
[46] اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ ۳۱۲۔
[47] الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶۔
[48] بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰۔
[49] بیہقی نے جزء دوم کے صفحہ ۴۹ پر اور حاکم نے بھی مستدرک میں جزء اول کے صفحہ ۲۳۳ پر اس حدیث کو نقل کیا ھے اور اس حدیث کوصحیح جانا ھے۔
No comments:
Post a Comment