Wednesday 11 August 2010

تفسير و تاويل

تفسير و تاويل

عربى زبان ميں سفورکے معنى بے پردگى کے ہيں يعنى کسى پوشےدہ چيزکو منظرعام پرلے آنا جس کى بناپر بے پردہ خواتين کوسافرات کہاجاتاہے جن کے بارے ميں روايات ميں وراد ہوا ہے کہ آخر زمانے ميں جو بدترين زمانہ ہوگا اےسى عورتيں برآمدہوں گى جوسافرات اور زينت کرنے والى ہوں گي، لباس پہن کر بھى برہنہ ہوں گي ،ديں سے خارج اورفتنوں ميں داخل ہونے والى ہوںگى اورآخرميں جہنم ميں ہميشہ رہنے والى ہوںگى ۔

تفسيراسى سفورسے عربى کے مخصوص قواعدکى بناپراخذ کيا گيا ہے جس کے معنى ہيں قرآن مجيدکے مخفى معاني کامنظرعام پرلے آنا اوراس سے يہ بات پہلے ہى مرحلہ پرواضح ہوجاتى ہے کہ الفاظ کے ظاہرى معانى کاتفسيرسے کوئي تعلق نہيں ہے اوراسى طرح معانى کاکسى خاص شئي پرانطباق بھى تفسيرنہيں کہاجاسکتا ہے ،تفسيرکاتعلق مخفى معانى کے اظہارسے ہوتاہے ۔تفسيرکاتعلق ظاہري معنى کے انطباق سے نہيں ہوتاہے ۔

تفسير ايک مخصوص طرےقہ ٴکارہے جوقرآن مجيد کے بارے ميں استعمال کياگياہے اوراس ميں کبھى اعتدال برقراررکھا گياہے اورکبھى ا فراط وتفرےط کاراستہ اختيارکياگياہے ۔

اختلاف مفسرين :

مفسرين کے درميان عام طورسے دومقامات پراختلاف پائے جاتے ہيں :

۱۔ معانى کى تطبےق ميں : کہ ا ےک مفسرنے اسى آےت کوايک شخص پرمنطبق کياہے ،اوردوسرے مفسرنے دوسرے شخص پر۔ جےساکہ آےت تطہےر،آےت مودت اورآےت صادقےن وغےرہ ميں دےکھاجاتاہے کہ ايک طبقہ ميں اہلبےت ،قربى اورصادقےن سے دوسرے افرادمرادہيں اوردوسرے طبقہ ميں دوسرے افراد۔

۲۔ متشابہات کے مفہوم ميں : کہ ان الفاظ سے وہى عرفى معني مرادہيں جن کے لئے لفظ عام طورسے استعمال ہوتاہے ياکوئى دوسرا معنى مرادہيں ۔ اس امرکى مختصروضاحت يہ ہے کہ قرآن مجيدعربي زبان ميں نازل ہواہے ۔ جو زبان نزول قرآن کے زمانے ميں عالم عربےت ميں رائج تھى اوراس نے کوئى نئى زبان اےجادنہيں کى ہے اورنہ کسى مخصوص لہجہ ميں گفتگو کى ہے ورنہ اس کے معجزہ ہونے کے کوئى معنى نہ ہوتے ۔اورکھلى ہوئى بات ہے کہ عربى ياکوئى زبان جب بھى اےجاد ہوئى ہے تواس کے اےجادکرنے والوں کے ذہن ميں يہى مفاہےم تھے جوعالم بشرےت ميں پائے جاتے ہيں اورانھيں کے افہام وتفہےم کے لئے الفاظ وضع کےے گئے ہيں اورزبان اےجادکى گئى ہے ۔ مثال کے طورپرجب لفظ ”فعل “ اےجادہوا جس کے معنى تھے کام کرنے کے ۔ تووا ضعےن لغت کے سامنے يہي انسان تھے جومختلف کام انجام دے رہے تھے اورجن کے افعال سے سب باخبربھى تھے اس کے بعدقرآن مجيدنے نازل ہوکر يہى لفظ پروردگارکے بارے ميں استعمال کرديا ۔تواب يہ سوال پےداہوتاہے کہ اس لفظ سے وہي معنى اوروہى اندازمراد ہے جوہمارے افعال کاہواکرتاہے يا کوئي مخصوص تصورہے جوپروردگار کى ذات سے وابستہ ہے اوراس کے افعال کاہمارے افعال سے کوئى تعلق نہيں ہے ۔

بعض مفسرين الفاظ کے ظاہرپر اعتماد کرکے پروردگارکے اعمال وافعال کوبھى وےساہى قراردےتے ہيں جےساکہ انسان کے افعال واعمال ہوکرتے ہيں اوربعض خالق ومخلوق کے فرق کو پےش نظررکھ کردوسرے معنى مراد لےتے ہيں اورپھرمراد ميں اختلاف شروع ہوجاتاہے کہ اس کے افعال کےسے ہيں اورجس کاجےساعقےدہ ہوتاہے اسي اعتبارسے الفاظ کے معنى طے کردےتاہے جب کہ اس کاالفاظ کے معنى سے کوئى تعلق نہيں ہوتاہے ۔ اس کاتعلق معنى کے ندازواسلوب سے ہوتاہے اوراس کالغت سے کوئى تعلق نہيں ہوتاہے۔ اس کاتعلق معانى کے اندازاوراسلوب سے ہوتاہے اوراس کالغت سے کوئى تعلق نہيں ہوتاہے ۔لےکن

بہرحال اس طرح کتب تفسيرميںاختلاف کاايک عظےم منظرنظرآجاتاہے چاہے اس کا تعلق تفسيرسے ہويانہ ہو، اوراسى لےے عربى کى قدےم عظےم ترين تفسير(تفسيرکبےر) کے بارے ميں مشہورہے کہ اس ميں تفسيرکے علاوہ ہرشے ہے ے۔يعني مباحث کاذکرتفسيرکى کتاب ميں کياگياہے لہذا اس کانام تفسيرہے لےکن ان مباحث کاتفسيرقرآن سے کوئى تعلق نہيں ہے ۔

سبب اختلاف :

ايک سوال يہ بھى ہے کہ مفسرين کے درميان مفاہےم قرآن طے کرنے ميں اختلاف کےوں ہے جب کہ سب کے سامنے ايک ہى قران ہے اورسب عربى زبان کے قواعدوقوانےن سے باخبرہيں ۔ لےکن اس کاجواب يہ ہے کہ مفسرين کے درميان اختلاف بظاہرتےن اسباب سے پےداہواہے ۔

۱۔ مفسرين مذہبى اعتبارسے کسى نہ کسى عقےدہ کے حامل تھے اورملکى اورقومى سطح پرکسى نہ کسى نظريہ کے مالک تھے ۔ انھوںنے انھيں نظريات اورعقائد کوتحت الشعورميںرکھ کرتفسيرقرآن کاکام شروع کيا اورجہاں کہيں بھى کوئي آےت ان کے مخصوص عقےدہ يا نظريہ کے خلاف دکھائى دي ۔ اس کے مفہوم ميں تغيرپيداکرديااوراپنے مقصدکے مطابق معنى معين کردئے ۔

۲۔ مفسرين کے سامنے ےونان کافلسفہ تھا جس نے سارى دنياکو متاثرکررکھاتھااوروہ خودبھى اس بڑى حدتک متاثرتھے اورانھيں خيال تھاکہ اگرقرآن مجيدکے مفاہےم اس فلسفہ سے متصادم ہوگئے تواسکى عظمت وقداست کابچانامشکل ہوجائے گا اس لےے وقت کى ضرورت کالحاظ کرکے اےسے معانى بيان کردےے جواس فلسفہ سے متصادم نہ ہونے پائيں تاکہ عظمت وعزت قرآن محفوظ رہ جائے جوکاروبارآجتک ہوتاچلآرہاہے کہ ہررائج الوقت نظريہ عقےدہ يارسم ورواج کالحازکرکے آےت کامفہوم بدل دياجاتاہے اوردردمنددل رکھنے والے مسلمان کوفريادکرناپڑتى ہے کہ ”خودبدلتے نہيںقرآن کوبدل دےتے ہيں ۔“

۳۔ مفسرين کے سامنے وہ اعتراضات تھے جومختلف زاوےوںسے قرآن مجيدکے بارے ميں بيان کےے جارہے تھے اورجن کى بناء پرقرآن مجيدميں تضاد تک ثابت کياجارہاتھا اوران کے پاس کوئى راستہ نہيں تھا جس سے ان اعتراضات کے جوابات دے سکتے۔ لہذا آسان ترين راستہ يہي نظريہ آياکہ الفاظ قران کے معانى بدل دےے جائيں تاکہ اعتراضات سے نجات حاصل کى جاسکے اورعزت قرآن کے بجائے اپنى عزت کاتحفظ کياجاسکے ۔

تفسيربالرائے :

يہ بات تومسلمات ميںہے کہ قرآن کى تفسيرکاجونہج بھى اختيارکياجائے تفسيربالرائے بہرحال حرام ہے اوراس کى مسلسل مذمت کى گئي ہے ۔ چنانچہ سرورکاردوعالم کے ارشادات کتب احادےث ميںمسلسل نظرآتے ہيں :

۱۔ من فسرالقرآن براٴيہ فلےتبواٴ مقعدہ من النار۔ صافى ،سنن ابن ماجہ داؤد وغےرہ

۲۔ من قال فى القرآن بغےرعلم جاء ےوم القيامةملجمابلجام النار ۔ صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى

۳ ۔ من تکلم فى القرآن برايہ فاصاب فاخطاٴ ۔صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى

۴۔ اکثرمااخاف على امتى من بعدى من رجل ےتناول القرآن ےضعہ على غےرمواضعہ صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى

۵۔ من فسرالقرآن براٴيہ ان اصاب لم ےوجروان اخطاٴ فھذا بعدمن السماء ۔تفسيرعياشى عن الامام الصادق

ان روايات سے صاف ظاہرہوتاہے کہ مرسل اعظم اورمعصومےن کى نگاہ ميں قرآن کى تفسيربالراى کرنے والے کامقام جہنم ہے وہ روزقيامت اس عالم ميں لاياجائے گا کہ اس کے منہ ميں آگ کى لگام لگى ہوگى ۔ وہ منزل تک پہونچ بھى جائے گا توخطاکارہوگا

رسول اکرم کوسب سے زيادہ خطرہ اس شخص سے تھا جوقرآمجيدکواس طرح استعمال کرے کہ اس کوجگہ سے منحرف کردے اوراس کے مفاہےم ميں تےدےلى پےداکردے ۔

تفسيربالراى کرنے والا صحيح کہے تواس کااجروثواب نہيں ہے اورغلط کہے تو آسمان سے زيادہ حقےقت سے دورترہوجاتاہے

يعنى تفسيربالراى اسلام کا عظےم ترين الميہ ہے جس کے ذرےعہ حقائق مذہب کومسخ کياجاتاہے اور الہى مقاصدميں تبدےلى پےداکردى جاتى ہے ۔

مسلمان صاحب نظرکافرےضہ ہے کہ قران کے واقعي معانى کى جستجو کرے ، اوراسى کے مطابق عمل کرے ،الہي مقاصد کے سلسلہ ميں اپنى رائے کودخےل نہ بنائے اوربندگي پروردگاکے بجائے نفس کى عبادت نہ کرے ۔

No comments:

Post a Comment