Wednesday, 11 August 2010

تفسيربالراٴى کے معنى

تفسيربالراٴى کے معنى

اس بات کے مسلم ہوجانے کے بعد کہ اسلام ميں تفسيربالرائي کى کوئى جگہ نہيں ہے اور يہ عمل قطعاحرام اورناجائزہے ۔ علماء اسلام کے درميان اس رواےت کى تشرےح ميں اختلاف شروع ہوگياکہ تفسيربالراى کے معنى کياہيں اورقرآن کى کس طرح کى تفسيرجائزنہيں ہے ۔

علامہ سےوطى نے اتقان ميں حسب ذيل احتمالات کاتذکرہ کيا ہے :

۱۔ قرآن مجيدکو سمجنے کے لئے جن پندرہ علوم کى ضرورت ہے ،جن سے مزاج عربےت ،اسلوب ادبےت اورآہنگ قرآن کااندازہ کياجاسکتاہے ۔ ان سب ميں مہارت پےداکئے بغےرقرآن مجيدکى ايات کے معنى بيان کرنا۔

۲۔ قرآن مجيدميںمتشابہات کے مفاہےم کامقررکرنا۔

۳۔ فاسد مذاہب اورعقائدکوبنياد بناکران کى روشنى ميں قرآن مجيدکي آيات کے معانى مقررکرنا۔

۴۔ اس اندازسے تفسيرکرنا کہ ےقےنا يہى مراد پروردگارہے جب کہ اس کاعلم راسخون فى العلم کے علاوہ کسى کونہيں ہے ۔

۵۔ اپنى ذاتي پسنداورخواہش کوبنياد بناکرآيات قرآن کى تفسيرکرنا۔

۶۔ مشکلات قرآن کى تفسيرصحابہ اورتابعےن کے اقوال سے مددلئے بغےربيان کردےنا ۔

۷۔ کسى آےت کے اےسے معنى بيان کرنا جس کے بارے ميں معلوہوکہ حق ےقےنا اس معنى کے خلاف ہے ۔

۸۔ ظواہرقرآن پرعمل کرنا ۔ اس عقےدہ کى بنيادپرکہ اس کاظہور ہے ليکن اس کاسمجھنا معصوم کے بغےرممکن نہيںہے ۔

ان تمام اقول سے صاف واضح ہوجاتاہے کہ ان ميں تفسيربالراي کى واقعےت کى تحليل نہيں کى گئى ہے بلکہ اس کے طرےق کارپربحث کى گئى ہے کہ تفسيربالراى کرنے والا کياکياوسائل اختيارکرتاہے ۔ خصوصےت کے سا تھ صحابہ اورتابعےن کى امدادکے بغےرتفسيرکوتفسيربالراى قراردےنے کامطلب يہ ہے کہ صحابہ اورتابعےن کوہرطرح کى تفسيرکرنے کاحق ہے صرف ان کے بعدوالوں کى تفسيربالراي کرنے کاحق نہيں ہے اورانھےں صحابہ کرام ياتابعےن سے مدد لےناپڑے گى جب کہ روايات ميںاس طرح کاکوئى اشارہ نہيں ہے اورنہ قانونا يہ بات صحيح ہے ۔ مرادالہى کى غلط تفسيرکرنابہرحال حرام ہے چاہے صحابہٴ کرام کرےں ياکوئى اوربزرگ ۔ اس لئے کہ ان سب کوخداکى طرف سے کوئى الہامى علم نہيںدياگياہے ۔ ائمہ اہليبيت اس قانون سے اس لئے مستثنى ہيں کہ انھےں پروردگارکى طرف سے علم قرآن دے کر دنياميں بھےجاگياہے جس کے بے شمارشواہد تاريخ اورسےرت کى کتابوںميںموجودہيں ۔

تفسيربالراى کى حقيقت کوسمجھنے کے لئے اس نکتہ کونظرميں رکھنابے حدضرورى ہے کہ مذکورہ روا يات ميںتفسيربالراى جرم نہيںہے بلکہ راى کى اضافت ضميرکى طرف ہے يعنى اپنى رائے سے تفسيرکرنا ۔ جس کامطلب يہ ہے کہ مقام تفسيرميںرائے اوراجتھاد کااستعمال کرنامضرنہيںہے ۔مضريہ ہے کہ مرادالہى کوطے کرنے ميں اپنى ذاتى رائے کوداخےل بناياجائے اوراسى بنيادپربعض علماء نے وضاحت کى ہے کہ تفسيرکاکام رائے اوراجتہادکے بغےرممکن نہيں ہے ليکن اس رائے کوشخصى نہيںہوناچاہئےے بالکہ قانوني ہوناچاہےٴے ۔اورقانى اورشخصى کافرق يہ ہے کہ جس تفسيرميں دےگرآيات کے مزاج کوپےش نظررکھاجاتاہے اورآيات ميں اجتہادى نظرکے بعدمعنى طے کئے جاتے ہيں وہ تفسيربالراي نہيں ہے اورجس مفسرميں تمام آيات سے قطع نظرکرکے اپنى ذات اوراپنى فکراورخواہش کوحکم بناياجاتاہے وہ تفسيربالراى ہے ۔ دوسرے لفظوںميں يوں کہاجائے کہ دنياکے ہرکلام کى تفسيروتشرےح اسى کلام کے الفاظ وعبارات کى روشنى

ميںہوتى ہے اورقرآن مجيدکى تفسيروتشرےح کے لئے جملہ آ يات کے مزاج پرنگاہ رکھنے کى ضرروت ہوتى ہے اوراس کے بغےرصحيح تفسيرنہيں ہوسکتى ہے۔ اس لئے با

ربار تدبرفى القرآن کى دعوت دى گئى ہے کہ انسان پورے قرآن پرنظررکھے اوراسى کى روشنى ميں ہرآےت کامفہوم طے کرے ۔

الرايٴ اورراٴيہ کے فرق کونگاہ ميں رکھنے کے بعد يہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ آيات قرآن کى تفسير ميں استقلالى رائے مضرہے اوراس کااستعمال جرم ہے ليکن وہ رائے جومطالعہٴ قران سے حاصل ہوئى ہے اورجس کے حصول ميںتفکراورتدبرفى القرآن سے کام ليا گياہے اس کے ذرےعہ تفسيرقرآن ميںکوئى مضائقہ نہيں ہے اوروہى تفسيرقرآن کاواحدذرےعہ ہے ، جس کے چنددلائل اس مقام پردرج کئے جارہے ہيں ۔

۱۔ روايات نے تفسيربالراى ميں دونوں احتمالات کاذکرکياہے ۔ يہ بھى ممکن ہے کہ انسان واقعى مرادکوحاصل کرلے اوريہ بھى ممکن ہے کہ غلطى کرجائے ۔ يہ اوربات ہے کہ واقع کے ادراک ميں بھى ثواب سے محروم رہے گا اوريہ اس بات کي علامت ہے کہ ذاتى رائے کااستعمال مضرہے اگرچہ اس کے منزل تک پہونچانے کاامکان بھى ہے ليکن اس طرےقہء کارکى اجازت نہيں دي جاسکتى ہے ،بلکہ صحيح طرےقہٴ کاروہى ہے کہ تمام آيات کے مراجعہ کے بعد آيات کامخفى مفہوم منظرعام پرلاياجائے ۔

۲۔ تفسيربالراى کى روايات عام طورپرسرکاردوعالم سے نقل ہوئى ہيں اورآپ نے اس کى شدت سے ممانعت کى ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ يہ وہ طرےقہٴ کارہے جس کاامکان سرکارکے زمانے ميں بھى تھا بلکہ کچھ زيادہ ہى تھا اوراسى لئے آپ نے شدت سے منع کياہے اورشاےد اس کارازيہ تھا کہ اس دورميںقرآن مجيد مکمل شکل ميں امت کے ہاتھوں ميںموجودنہ تھا اوراس طرح ہرشخص کے لئے تمام آيات کى طرف مراجعہ کرنااوران کے اسلوب وآہنگ سے استفادہ کرناممکن نہيں تھااوريہ خطرہ شدےدتھا کہ ہرشخص اپنى ذاتي پسندياخواہش سے آيات کامفہوم طے کردے ۔اس لئے آپ نے شدت سے ممانعت فرمادى کہ يہ راستہ نہ کھلنے پائے ورنہ قرآن کے مفاہےم تباہ وبربادہوکررہ جائےں گے ۔

۳۔ اگرہرمسئلہ ميںروا يات ہى کى طرف رجوع کياجائے گا اورآيات کى کوئى تفسيرروايات کے بغےرممکن نہ ہوگى توتدبرفى القرآن کے کوئى معنى نہ رہ جائےںگے اوران روايات کابھى کوئى مقصدنہ رہ جائے گا جن ميں روايات کى صحت وخطاکامعيارقرآن مجيدکوقراردياگياہے اوريہ کہاگياہے کہ ہمارى طرف سے آنے والى روايات کوکتاب خداپرپےش کرواوردےکھوکہ موافق ہيں يانہيں ۔ اگرموافق ہيں تولے لو ورنہ دےوارپرماردو ۔ ظاہرہے کہ اگرروايات کے بغےرقرآن مجيدپرعمل کرناممکن نہ ہوگا تواس کا کوئى مفہوم ہى متعےن نہ ہوسکے گا ،اورجب مفہوم متعےن نہ ہوگا توکس چےزپرروايات کوپےش کياجائے گا اورکس کى مطابقت اورعدم مطابقت کوحق وباطل کامعياربناياجائے گا ۔

اس کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکى آيات کے پوشےدہ معانى کاانکشاف کرنے کے لئے قرآن مجيدہى کے اسلوب ا ورآہنگ کومعياربناياجائے گا اوراس ميںکسى شخص کي ذاتى رائے ياخواہش کادخل نہ ہوگا ۔

تفسيربالراى کى ايک مختصرمثال يہ ہے کہ قرآن مجيدنے بيان کياکہ ”ان من شئي الاعندناخزائنہ الخ“(ہمارے پاس ہرشے کے خزانے ہيں)۔ اس آےت کودےکھنے کے بعدمفسرن اندازہ کياکہ آسمان پرکوئى عظےم خزانہ ہے جہاں کائنات کى ہرشے کاذخيرہ موجودہے ۔اس کے بعد دوسرى آيت پرنظرڈالى ”وماانزل اللہ من السماء من رزق فاحيابہ الارض بعد موتھا“(خدانے آسمان سے رزق نازل کياہے اوراس کے ذرےعہ مردہ زمےن کوزندہ بنا ديا ہے ) ۔ اوراس سے اندازہ ہواکہ بارش کوبھى رزق کہاجاتاہے اوراس کابھى خزانہ آسمان پرہے ۔ پھراپنى ذاتى فکرکا اضافہ کياکہ انسان اورحےوان آسمان سے نازل نہيں ہوتے ،لہذا خزانہ سے مرادآسمانى اشياء ہيں ،زمےن کى چيزيں نہيں ہيں ۔ حالانکہ اس تخصےص کااسے حق نہيںتھا اس لئے کہ اسے نہ آسمان کى حقےقت معلوم ہے اورنہ نزول کے طرےقہ کاعلم ہے اورقرآن مجيد سے ان حقائق کاادراک کئے بغيران کے بارے ميں اظہاررائے کاکوئي حق نہيں ہے اوراس کوتفسيربالراى ياقول بلاعلم کانام دياجائے گا ۔

رہ گياسےوطى کايہ بيان کہ صحابہٴ کرام کى تفسيرسے قطع نظرکرکے تفسيرکرنے کوتفسيربالراي کہاجاتاہے اورجس کى دلےل يہ دى گئى ہے کہ وہ

عصرپےغمبرميںموجودتھے اورانھےںحقائق قرآن کاعلم تھااوران سے سترہزارروايات نقل ہوئى ہيں لہذا ان سے الگ ہوکرنا خلاف اسلام ہے ۔

تواس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ قرآن مجيدکادعوي ہے کہ وہ ہرشے کاتبيان ہے اس کے متشابہات محکمات کے ذريعہ واضح ہوجاتے ہيںلہذا اسے اصحاب کے فکرکي کوئى ضرورت نہيں ہے پھراس کى تحدى کے مخاطب کفارومشرکےن ہيں اوروہ اصحاب کے فہم کے محتاج ہوگئے توتحدى اورچےلنج کے کوئي معنى نہ رہ جائےں گے ۔

دوسرى لفظوں ميں يوں کہاجائے کہ اصحاب کاقول ظاہرکلام کے مطابق ہے توظہور خودہى کافى ہے کسى قول کى ضرورت نہيں ہے اورخلاف ظاہرقرآن ہے توتحدى بےکارہے اوراس کاکوئى مفہوم نہيں ہے اس لئے کہ جس کلام کے معنى معلوم نہ ہوں اوروہ خود غےرواضح ہواس کامقابلہ اورجواب لانے لانے کاسوال ہى نہيںپےداہوتاہے ۔

رہ گئے احکام کے تفصےلات توان کے لئے مرسل اعظم اورمعصومےن کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت ہے اوريہ بھى مطابق حکم قرآن ہے کہ جورسول دےدے اس لے لو،اورجس چےزسے منع کردے اس سے رک جاؤ ۔ گويآےت کامفہوم عربى زبان کے قواعدکے اعتبارسے واضح ہے اوراس پرعمل کرنے کے لئے مرسل اعظم کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت ہے جےساکہ خودمرسل اعظم نے قرآن مجيد سے تمسک کرنے کاحکم دياہے اورکھلى ہوئي بات ہے کہ اس کلام سے تمسک کرناممکن نہيں ہے جس کامفہوم واضح نہ ہو اورجس کے بارے ميں کسى طرح کى تحقيق اورتفتيش تفسيربالراي قرارپاجائے ۔

اس مقام پريہ سوال ضرورپےداہوسکتاہے کہ رسول اکرم نے قرآن اوراہلبيت دونوںسے تمسک کرنے کاحکم دياہے اوريہ فرمادياہے کہ يہ دونوں جدانہيں ہوسکتے ہيں تواس کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکے معانى کااخذکرنا عترت واہليبيت کى توضےح کے بغےرممکن نہيں ہے ۔ ليکن اس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ قرآن اورعترت دونوںسے تمسک کرنے کاحکم دےنااس بات کى علامت ہے کہ دونوںاپنے اپنے مقام پرحجت ہيں کہ اگرحکم قرآن ميںموجودہے اوراہليبيت کى زندگى سامنے نہيں بھى ہے تووہ بھى واجب العمل ہے ۔ اوراگراہليبيت نے فرماديا ہے اورقرآن مجيدميںنہيں بھى مل رہاہے توبھى واجب العمل ہے فرق صرف يہ ہے کہ قرآن ظاہرالفاظ کے معانى معےن کرتاہے اوراہلےبت مقاصدکى وضاحت کرتے ہيں جس طرح کہ قرآن مجيد نے اجمال سے کام لياہے اورسرکاردوعالم نے اپنے اقوال واعمال سے اس اجمال کى وضاحت کى ہے اوراس کابہترےن ثبوت يہ ہے کہ خود اہليبيت نے بھى آيات قرآن سے استدلال کياہے اوراس کے ظہورکاحوالہ دے کرامت کومتوجہ کياہے کہ اس کے الفاظ وآيات سے کس طرح استنباط کياجاتاہے ۔

محاسن ميں امام محمدباقرکايہ واضح ارشادموجودہے کہ ”جس شخص کاخيال يہ ہے کہ قرآن مجيدمبہم ہے وہ خودبھى ہلاک ہوگيااوراس نے دوسروںکوبھى ہلاک کرديا۔-“

خلاصہ کلام يہ ہے کہ قرآن کى تفسيرکاصحيح راستہ تفسيرقرآن بالقرآن ہے ۔ ارشادات معصومےن کا سہارالےنااس لئے ضرورى ہے کہ اس سے آيات قرآن کوجمع کرکے ايک نتےجہ اخذکرنے کاسلےقہ معلوم ہوتاہے اورمعصومےن عليہم السلام نے اسى اندازسے قوم کى تربےت بھى کى ہے ، چنانچہ امےرالمومنے کے دورميں جب دربارخلافت ميں اس عورت کامقدمہ پےش ہواجس کے يہاں چھ مہےنے ميںبچہ پےداہوگياتھا اورحاکم وقت نے حدجارى کرنے کاحکم دےديا توآپ نے فرماياکہ اس عورت پرحدجارى نہيں ہوسکتى ہے اس لئے کہ قرآن مجيدنے اقل مدت حمل چھ ماہ قراردى ہے اورجب قوم نے حےرت واستعجاب کامظاہرہ کيا توآپ نے دومختلف آيات کاحوالہ ديا ۔ ايک آےت ميںانسان کے حمل اوررضاعت کاکل زمانہ تےس ماہ بتاياگياہے اوردوسرى آےت ميںعورتوں کے دوسال دودھ پلانے کاتذکرہ کياگياہے ۔ اوردونوںکوجمع کرکے فرماياکہ دوسال مدت رضاعت نکالنے کے بعد حمل کازمانہ صرف چھ ماہ باقى رہ جاتاہے لہذانہ اس ولادت کوغلط کہاجاسکتاہے اورنہ اس عورت پرحدجارى کى جاسکتى ہے ۔ جس کامقصد يہ ہے کہ قرآن مجيدسے استنباط کرناہے توايک آےت سے ممکن نہيں ہے ،آيات کوباہم جمع کرناہوگا اورسب کے مجموعہ سے ايک نتےجہ اخذکرناہوگااوراسي کانام تفسيرقرآن بالقرآن ہے کہ انسان کوحمل کے بارے ميں قرآني نظريہ معلوم کرناہے توان دوآيات کوجمع کرلے ،قرآنى نظريہ خودبخود سامنے آجائے گا ۔

تفسير و تاويل

تفسير و تاويل

عربى زبان ميں سفورکے معنى بے پردگى کے ہيں يعنى کسى پوشےدہ چيزکو منظرعام پرلے آنا جس کى بناپر بے پردہ خواتين کوسافرات کہاجاتاہے جن کے بارے ميں روايات ميں وراد ہوا ہے کہ آخر زمانے ميں جو بدترين زمانہ ہوگا اےسى عورتيں برآمدہوں گى جوسافرات اور زينت کرنے والى ہوں گي، لباس پہن کر بھى برہنہ ہوں گي ،ديں سے خارج اورفتنوں ميں داخل ہونے والى ہوںگى اورآخرميں جہنم ميں ہميشہ رہنے والى ہوںگى ۔

تفسيراسى سفورسے عربى کے مخصوص قواعدکى بناپراخذ کيا گيا ہے جس کے معنى ہيں قرآن مجيدکے مخفى معاني کامنظرعام پرلے آنا اوراس سے يہ بات پہلے ہى مرحلہ پرواضح ہوجاتى ہے کہ الفاظ کے ظاہرى معانى کاتفسيرسے کوئي تعلق نہيں ہے اوراسى طرح معانى کاکسى خاص شئي پرانطباق بھى تفسيرنہيں کہاجاسکتا ہے ،تفسيرکاتعلق مخفى معانى کے اظہارسے ہوتاہے ۔تفسيرکاتعلق ظاہري معنى کے انطباق سے نہيں ہوتاہے ۔

تفسير ايک مخصوص طرےقہ ٴکارہے جوقرآن مجيد کے بارے ميں استعمال کياگياہے اوراس ميں کبھى اعتدال برقراررکھا گياہے اورکبھى ا فراط وتفرےط کاراستہ اختيارکياگياہے ۔

اختلاف مفسرين :

مفسرين کے درميان عام طورسے دومقامات پراختلاف پائے جاتے ہيں :

۱۔ معانى کى تطبےق ميں : کہ ا ےک مفسرنے اسى آےت کوايک شخص پرمنطبق کياہے ،اوردوسرے مفسرنے دوسرے شخص پر۔ جےساکہ آےت تطہےر،آےت مودت اورآےت صادقےن وغےرہ ميں دےکھاجاتاہے کہ ايک طبقہ ميں اہلبےت ،قربى اورصادقےن سے دوسرے افرادمرادہيں اوردوسرے طبقہ ميں دوسرے افراد۔

۲۔ متشابہات کے مفہوم ميں : کہ ان الفاظ سے وہى عرفى معني مرادہيں جن کے لئے لفظ عام طورسے استعمال ہوتاہے ياکوئى دوسرا معنى مرادہيں ۔ اس امرکى مختصروضاحت يہ ہے کہ قرآن مجيدعربي زبان ميں نازل ہواہے ۔ جو زبان نزول قرآن کے زمانے ميں عالم عربےت ميں رائج تھى اوراس نے کوئى نئى زبان اےجادنہيں کى ہے اورنہ کسى مخصوص لہجہ ميں گفتگو کى ہے ورنہ اس کے معجزہ ہونے کے کوئى معنى نہ ہوتے ۔اورکھلى ہوئى بات ہے کہ عربى ياکوئى زبان جب بھى اےجاد ہوئى ہے تواس کے اےجادکرنے والوں کے ذہن ميں يہى مفاہےم تھے جوعالم بشرےت ميں پائے جاتے ہيں اورانھيں کے افہام وتفہےم کے لئے الفاظ وضع کےے گئے ہيں اورزبان اےجادکى گئى ہے ۔ مثال کے طورپرجب لفظ ”فعل “ اےجادہوا جس کے معنى تھے کام کرنے کے ۔ تووا ضعےن لغت کے سامنے يہي انسان تھے جومختلف کام انجام دے رہے تھے اورجن کے افعال سے سب باخبربھى تھے اس کے بعدقرآن مجيدنے نازل ہوکر يہى لفظ پروردگارکے بارے ميں استعمال کرديا ۔تواب يہ سوال پےداہوتاہے کہ اس لفظ سے وہي معنى اوروہى اندازمراد ہے جوہمارے افعال کاہواکرتاہے يا کوئي مخصوص تصورہے جوپروردگار کى ذات سے وابستہ ہے اوراس کے افعال کاہمارے افعال سے کوئى تعلق نہيں ہے ۔

بعض مفسرين الفاظ کے ظاہرپر اعتماد کرکے پروردگارکے اعمال وافعال کوبھى وےساہى قراردےتے ہيں جےساکہ انسان کے افعال واعمال ہوکرتے ہيں اوربعض خالق ومخلوق کے فرق کو پےش نظررکھ کردوسرے معنى مراد لےتے ہيں اورپھرمراد ميں اختلاف شروع ہوجاتاہے کہ اس کے افعال کےسے ہيں اورجس کاجےساعقےدہ ہوتاہے اسي اعتبارسے الفاظ کے معنى طے کردےتاہے جب کہ اس کاالفاظ کے معنى سے کوئى تعلق نہيں ہوتاہے ۔ اس کاتعلق معنى کے ندازواسلوب سے ہوتاہے اوراس کالغت سے کوئى تعلق نہيں ہوتاہے۔ اس کاتعلق معانى کے اندازاوراسلوب سے ہوتاہے اوراس کالغت سے کوئى تعلق نہيں ہوتاہے ۔لےکن

بہرحال اس طرح کتب تفسيرميںاختلاف کاايک عظےم منظرنظرآجاتاہے چاہے اس کا تعلق تفسيرسے ہويانہ ہو، اوراسى لےے عربى کى قدےم عظےم ترين تفسير(تفسيرکبےر) کے بارے ميں مشہورہے کہ اس ميں تفسيرکے علاوہ ہرشے ہے ے۔يعني مباحث کاذکرتفسيرکى کتاب ميں کياگياہے لہذا اس کانام تفسيرہے لےکن ان مباحث کاتفسيرقرآن سے کوئى تعلق نہيں ہے ۔

سبب اختلاف :

ايک سوال يہ بھى ہے کہ مفسرين کے درميان مفاہےم قرآن طے کرنے ميں اختلاف کےوں ہے جب کہ سب کے سامنے ايک ہى قران ہے اورسب عربى زبان کے قواعدوقوانےن سے باخبرہيں ۔ لےکن اس کاجواب يہ ہے کہ مفسرين کے درميان اختلاف بظاہرتےن اسباب سے پےداہواہے ۔

۱۔ مفسرين مذہبى اعتبارسے کسى نہ کسى عقےدہ کے حامل تھے اورملکى اورقومى سطح پرکسى نہ کسى نظريہ کے مالک تھے ۔ انھوںنے انھيں نظريات اورعقائد کوتحت الشعورميںرکھ کرتفسيرقرآن کاکام شروع کيا اورجہاں کہيں بھى کوئي آےت ان کے مخصوص عقےدہ يا نظريہ کے خلاف دکھائى دي ۔ اس کے مفہوم ميں تغيرپيداکرديااوراپنے مقصدکے مطابق معنى معين کردئے ۔

۲۔ مفسرين کے سامنے ےونان کافلسفہ تھا جس نے سارى دنياکو متاثرکررکھاتھااوروہ خودبھى اس بڑى حدتک متاثرتھے اورانھيں خيال تھاکہ اگرقرآن مجيدکے مفاہےم اس فلسفہ سے متصادم ہوگئے تواسکى عظمت وقداست کابچانامشکل ہوجائے گا اس لےے وقت کى ضرورت کالحاظ کرکے اےسے معانى بيان کردےے جواس فلسفہ سے متصادم نہ ہونے پائيں تاکہ عظمت وعزت قرآن محفوظ رہ جائے جوکاروبارآجتک ہوتاچلآرہاہے کہ ہررائج الوقت نظريہ عقےدہ يارسم ورواج کالحازکرکے آےت کامفہوم بدل دياجاتاہے اوردردمنددل رکھنے والے مسلمان کوفريادکرناپڑتى ہے کہ ”خودبدلتے نہيںقرآن کوبدل دےتے ہيں ۔“

۳۔ مفسرين کے سامنے وہ اعتراضات تھے جومختلف زاوےوںسے قرآن مجيدکے بارے ميں بيان کےے جارہے تھے اورجن کى بناء پرقرآن مجيدميں تضاد تک ثابت کياجارہاتھا اوران کے پاس کوئى راستہ نہيں تھا جس سے ان اعتراضات کے جوابات دے سکتے۔ لہذا آسان ترين راستہ يہي نظريہ آياکہ الفاظ قران کے معانى بدل دےے جائيں تاکہ اعتراضات سے نجات حاصل کى جاسکے اورعزت قرآن کے بجائے اپنى عزت کاتحفظ کياجاسکے ۔

تفسيربالرائے :

يہ بات تومسلمات ميںہے کہ قرآن کى تفسيرکاجونہج بھى اختيارکياجائے تفسيربالرائے بہرحال حرام ہے اوراس کى مسلسل مذمت کى گئي ہے ۔ چنانچہ سرورکاردوعالم کے ارشادات کتب احادےث ميںمسلسل نظرآتے ہيں :

۱۔ من فسرالقرآن براٴيہ فلےتبواٴ مقعدہ من النار۔ صافى ،سنن ابن ماجہ داؤد وغےرہ

۲۔ من قال فى القرآن بغےرعلم جاء ےوم القيامةملجمابلجام النار ۔ صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى

۳ ۔ من تکلم فى القرآن برايہ فاصاب فاخطاٴ ۔صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى

۴۔ اکثرمااخاف على امتى من بعدى من رجل ےتناول القرآن ےضعہ على غےرمواضعہ صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى

۵۔ من فسرالقرآن براٴيہ ان اصاب لم ےوجروان اخطاٴ فھذا بعدمن السماء ۔تفسيرعياشى عن الامام الصادق

ان روايات سے صاف ظاہرہوتاہے کہ مرسل اعظم اورمعصومےن کى نگاہ ميں قرآن کى تفسيربالراى کرنے والے کامقام جہنم ہے وہ روزقيامت اس عالم ميں لاياجائے گا کہ اس کے منہ ميں آگ کى لگام لگى ہوگى ۔ وہ منزل تک پہونچ بھى جائے گا توخطاکارہوگا

رسول اکرم کوسب سے زيادہ خطرہ اس شخص سے تھا جوقرآمجيدکواس طرح استعمال کرے کہ اس کوجگہ سے منحرف کردے اوراس کے مفاہےم ميں تےدےلى پےداکردے ۔

تفسيربالراى کرنے والا صحيح کہے تواس کااجروثواب نہيں ہے اورغلط کہے تو آسمان سے زيادہ حقےقت سے دورترہوجاتاہے

يعنى تفسيربالراى اسلام کا عظےم ترين الميہ ہے جس کے ذرےعہ حقائق مذہب کومسخ کياجاتاہے اور الہى مقاصدميں تبدےلى پےداکردى جاتى ہے ۔

مسلمان صاحب نظرکافرےضہ ہے کہ قران کے واقعي معانى کى جستجو کرے ، اوراسى کے مطابق عمل کرے ،الہي مقاصد کے سلسلہ ميں اپنى رائے کودخےل نہ بنائے اوربندگي پروردگاکے بجائے نفس کى عبادت نہ کرے ۔

محکم ومتشابہ

محکم ومتشابہ

تفسيروتاويل کى بحث کى تکميل کے لئے يہ ضرورى ہے کہ محکم اورمتشابہ کے معانى کى وضاحت بھى کردى جائے اس لئے کہ قرآن مجيدنے سارے فتنہ کي جڑتاوےل ہى کوقراردياہے اوراسى خطرہ کى طرف ہرمردمسلمان کومتوجہ کياہے ۔

واضح رہے کہ قرآن مجيد ميں ان دونوںالفاظ کودوطرح سے استعمال کياگياہے ۔

بعض مقامات پرپورے قرآن کومحکم يامتشابہ کہاگياہے ،جيسے” کتاب احکمت آيتہ ثم فصلت من لدن حکيم خبير“(ھود) اس کتاب کى تمام آيات کومحکم بناکرخدائے حکيم وخبيرکى طرف سے تفصيل کے ساتھ بيان کياگياہے ۔

”اللہ نزل احسن الحديث کتابامتشابھا مثاني تقشعرمنہ جلودالذےن ےخشون ربھم “(زمرد۲۳)۔اس کتاب کى شکل ميں نازل کيا جس کى آےتےں آپس ميں ملتى جلتى ہيں اوربارباردہرائي گئى ہيں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہيں ۔

اوربعض مقامات پربعض آيات کومحکم اوربعض کومتشابہ قراردياگياہے ۔ مثال کے طورپر : ”منہ آيات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشابہات ۔“ اس قرآن ميں بعض آيات محکمات ہيں جواصل کتاب ہيں اوربعض متشابہات ہيں ۔

ليکن اس تقسےم کامقصدقرآن ميں تضاداوراختلاف کاوجودنہيں ہے بلکہ دونوں مقامات پراحکام اورتشابہ الگ الگ معانى ميں استعمال ہواہے ۔پہلى قسم ميں کل قرآن کے محکم ہونے کے معنى يہ ہيں کہ اس کى آيات لوح محفوظ ميں بالکل محکم تھےں ۔ اس کے بعدوقت نزول تشابہ يعنى ےک رنگ بناکرنازل کياگياہے اوريہى اس کے تشابہ کے معنى ہيں ۔ يعنى تشابہ کے بعدبھى آيات سب محکمات ہيں کہ تشابہ کاتعلق معانى سے نہيں ہے ۔ آيات کى يکسانيت اوريک رنگى سے ہے کہ اس قدرمفصل ہونے کے بعدبھى کلام ميں اجنبيت ،بے ربطى اوراختلاف کااحساس نہيں ہوسکتاہے۔

اوردوسرى قسم ميں احکام سے مرادظاہرى معنى ہيں جوبعض آيات ميں پائے جاتے ہيں اورتشابہ سے مراد مشتبہ معانى ہيں جودوسرى آيات ميں پائے جاتے ہيں اورانھےں کى تاوےل ميں فتنہ گرى کااندےشہ پاياجاتاہے اورانھےں کے لئے محکمات کومرجع اوراصل کتاب قراردياگياہے کہ فتنہ گروں کى فتنہ گرى ميں انسان اصل کتاب کى طرف رجوع کرے اوران کى تاوےل پربھروسہ کرنے کے بجائے خودقرآن مجيدکے بيانات پربھروسہ کرے اورتفسےرقرآن بالقرآن کے نہج پرمعانى کاتعےن کرے ۔

اس طرےقہ کارکااندازہ کرلياجائے تويہ کہنا سوفےصدى صحےح ہوگا کہ قرآن مجيدکل کاکل محکمات ميں ہے ۔ بعض آےتےں ظاہرى طورپرظاہرالمعنى اورمحکم ہيں اوربعض آےتےں ان محکمات کے سہارے محکم بن جاتى ہيں اوران کا تشابہ خودبخود ختم ہوجاتاہے اورجس راہ سے فتنہ کے داخل ہونے کاامکان ہوتاہے اس کاسدباب کردياجاتاہے ۔

اسباب تشابہ :

يہ سوال ضروررہ جاتاہے کہ آيات کے متشابہ ہونے کى ضرورت ہى کياتھى کہ ان کے تشابہ کومحکمات سے حل کياجائے اورفتنہ پردازى کاموقع مل جائے تواس کے چنداسباب بيان کئے گئے ہيں :

۱۔ زبان ولغت کى اےجادانسانوںنے انسانى ضروريات کے تحت کى ہے اورہرلفظ کے داخل مين ايک بشرى کيفيت کارفرماہے جس سے کوئى لفظ بے نياز نہيں ہوسکتاہے ، اس لئے کہ اس کى وضع ہى بشرى خصوصيات وکيفيات کوپيش نظررکھ کرکى گئى ہے اوراس کالازمى نتيجہ يہ ہوگا کہ اس کااستعمال جب ماوراء مادہ يا مافوق بشريت کے لئے کياجائے گاتومعانى ميں خودبخود تشابہ پےداہوجائے گا اورانسان کويہ اختيارپےداہوجائے گا کہ وہ سےدھے سےدھے لغوى معنى اوراس کے خصوصيات کومرادلے لے اوران تمام خصوصيات کونظراندازکردے جواس ذات ياہستى ميں پائى جاتى ہيں جن کے لئے لفظ استعمال کياگياہے ۔

مثال کے طورپرلغت ميں محبت کے معنى ميلان نفس اوررحمت کے معنى رقت کے قلب کے بيان کئے گئے ہيں اوردونوںمقامات پر نفس اورقلب کالفظ استعمال ہواہے ،جس کامحبت اوررحمت سے کوئى تعلق نہيں ہے ۔ ليکن چونکہ الفاظ کى وضع عالم بشرےت کے لئے ہوئى ہے اورعالم بشرےت ميں محبت نفس کے ذرےعہ ہوتي ہے اوررحمت کامظاہرہ قلب کے ذرےعہ ہوتاہے اس لئے اسے بھى معني لغوى ميں شامل کرلياگياہے ۔ ا ب اس کے بعد جب رب العالمےن کے لئے يہ لفظ استعمال ہوگا اوراسے محبت کرنے والا يارحمن ورحےم کہاجائے گا تويہ اشتباہ ضرورپےدہوگا کہ اس کے پاس نفس اورقلب ہے يانہيں ،اس کى محبت ورحمت کاتعلق نفس وقلب سے ہے ياکسى اوراندازوطرےقہ کارسے ہے اوراہل فتنہ کواپناکاروبارآگے بڑھانے کاموقع مل جائے گا ۔

اس مسئلہ کاايک ہى حل تھا کہ قرآن مجيدکسي آسمانى زبان ميں نازل ہوتا اوراسکے الفاظ کى وضع بلندترےن غےرمادى حقائق کے لئے ہوتى ۔ ليکن ظاہرہے کہ اس طرح اس کانزول صرف ملائکہ کے لئے ہوتا اورعالم بشرےت سے کوئى تعلق نہ ہوتا اس لئے کہ بشرسرتاپااس کے معنى ہو کر رہ جاتے ۔

۲۔ خودقرآن مجيدکى تنزےل بھى دفعى نہيں ہے کہ ساراقرآن ايک دفعہ ايک لمحہ ميں نازل کردياگياہو بلکہ اس کى تنزےل تدرےجى اورارتقائى ہے کہ جيسے جيسے حالات سازگارہوتے رہے ا ورمعاشرہ ارتقائى مراحل طے کرتاگيآيات کے نزول کوراستہ ملتاگيااوروہ لوح محفوظ سے زمےن پرآتى رہيں اوراس طرح نازل ہوتا توحالات اورمصالح ايک طرح کے ہوتے اورآےت کااعلان ايک اندازکاہوتا۔ ليکن چونکہ ۲۳ سال ميں نازل ہواہے اوراس طوےل وقفہ ميں حالات مختلف رہے ہيں لہذاکبھى اےسے حالات رہے کہ عام حکم کااعلان کردياجائے اورخصوصيات کاتذکرہ نہ کياجائے تاکہ سادہ ذہن آسانى سے عمل کرنے کے لئے تيارہوجائے اوراس کے بعدوقت آنے پرخصوصيات کااعلان کياجائے ۔ اورکبھى اےساہوا کہ ايک مرتبہ حکم کااعلان کياگيااوراس کے بعد مصالح کے تمام ہوجانے کے بعد اس کے منسوخ ہوجانے کااعلان کردياگيا۔ظاہرہے کہ اس طرح تشابہ کاپےداہوجاناناگزےرتھا اوريہ احتمال بہرحال باقى رہ جائے گا کہ ناسخ ومنسوخ ميں اشتباہ ہوجائے ياعام وخاص کے خصوصيات کاادراک نہ کياجاسکے ياقصدا اس تشابہ سے فائدہ اٹھاياجائے اوراسے فتنہ گرى کاذرےعہ بنالياجائے ۔

معاني محکم ومتشابہ

تاوےل کے سلسہ ميں باربارلفظ متشابہات کاذکرآتاہے اواس کے ساتھ ساتھ لفظ محکمات کابھى ذکرآتاہے جس طرح کہ خود قرآن مجيد ميں دونوںقسم کى آيات کاايک ہى مقام پرذکرکياگياہے کہ ا س قرآن کى بعض آيات محکمات ہيں اوربعض متشابہات ۔ لہذا ضرورى ہے کہ ان دونوں الفاظ کے معاني کى بھى تعےےن کردى جائے تاکہ متعلقہ مباحث کوسمجھنے ميںآساني ہو اوريہ طے کياجاسکے کہ متشابہات کى تاوےل سے فتنہ کاکيامقصدہے اورمتشابہات کے واقعى مفہوم کے ادراک کاذرےعہ کياہے ؟ ۔ علماء قرآنيات نے ان الفاظ کے بارہ معانى بيان کئے ہيں :

۱۔ محکمات سورہٴ انعام کى تين آےتوں کانام ہے ”قل تعالوااتل ماحرم ربکم علےکم ان لاتشرکوابہ شےئا ۔۔۔۔“ اورمتشابہات مقطعات ہيںجنھےں يہودي نہيں سمجھتے تھے ۔ يہ قول ابن عباس کى طرف سے نقل کياگياہے۔

ليکن اس قول ميں تين طرح کى کمزورياں ہيں :

ا۔ ابن عباس نے ان آيات کومحکمات قراردياہے ليکن يہ مطلب ہرگزنہيں ہے کہ با قى ساراقرآن محکمات سے خارج ہے۔

ب۔ ابن عباس نے اےساکہابھى ہے کہ تواس دعوى کى کوئى دليل نہيں ہے ۔

ج۔ اس قول کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکى آيات کى تين قسميں ہوں محکمات (۳آيتيں ) متشابہات (مقطعات) باقى قرآن ۔ حالانکہ قرآن مجيدنے اپنى آےتوں کودوہي حصوں پرتقسيم کياہے ۔

۲۔ محکمات سے مراد مقطعات ہيں ، يعنى ان کے حروف نہ کہ مفاہيم ۔ اورباقى قرآن متشابہات ميں ہے ۔

اس قوميں بھى دوکمزورياںہيں :

ا ۔ اس دعوى کى بھى کوئى دلےل نہيں ہے ۔

ب ۔ اس کامطلب يہ ہوگاکہ سارے قرآن کے اتباع ميں زيغ اورکجى کاامکان ہے جو يقينا خلاف حقيقت ہے ۔

۳۔ محکم کے معنى مبےن اورمتشابہ کے معنى مجمل ۔

اس قول کى کمزورى يہ ہے کہ محکم ومتشابہ مجمل ومبےن کے علاوہ دوسرى چيزوں ہيں اوراس کى دلےل يہ ہے کہ مجمل ومبےن ميں عمل مجمل ہى پرہوتاہے مبےن صرف اس کاقرےنہ ہوتاہے اورقرآن مجيدميں متشابہات پرعمل کرنا صحےح نہيں ہے ،محکماتت متشابہات کے لئے مرجع کي حےثےت رکھتے ہيں کہ ان کے مفاہےم کومتعےن کرنے کے لئے محکمات کى طرف رجوع کرناچاہےے نہ يہ کہ محکمات متشابہات کے معنى متعين کرنے کے لئے مجمل ومبين کوبطورمثال بيان کياگياہے توکوئي حرج نہيں ہے اوراس مثال سے بڑى حدتک اس حقيقت کاادراک کياجاسکتاہے ۔

۴۔ متشابہات سے مرادوہ منسوخ احکام ہيں جن پراےمان ضرورى ہے ليکن عمل کرناصحيح نہيں ہے ۔

اس قول کااشکال يہ ہے کہ اس طرح غےرمنسوخات کومتشابہات نہيں کہاجاسکتاہے حالانکہ آيات صفات وافعال الہيہ کو عام طورسے متشابہات ميں شمارکياگياہے ۔

۵۔ محکمات ان آيات کانام ہے جن کے مضمون پرکوئى عقلى دلےل موجودہو ، جيسے آيات وحدانےت وقدرت وغيرہ اورمتشابہات اس کے ماوراء ہيں ۔

اس قول کاسقم يہ ہے کہ اس طرح احکام کى جملہ آيات متشابہ ہوجائےں گى اوران کااتباع غلط ہوجائے گا اوراگرخود کتاب کے اندرکسى دلےل کاوجود مقصودہے توپورا قرآن ہى متشابہ ہوجائے گا کہ اس کے مضامےن پراس کے اندردلےل عقلى کے وجود کے کوئى معنى نہيںہيں ۔

۶۔محکمات ان آيات کانام ہے جن کاکسى دلےل جلى يادلےل خفى سے علم ممکن ہواورمتشابہات جن کاعلم ممکن نہ ہو جيسے آيات قيامت وغےرہ ۔

اس قول کاسب سے بڑاسقم يہ ہے کہ اس ميںمحکمات اورمتشابہات کوآيات کے بجائے معانى کى صفت تسلےم کياگياہے جوظاہرقرآن کے خلاف ہے ۔

۷۔ محکمات آيات احکام ہيں جن پرعمل کرناضرورى ہے اورمتشابہات ان آيات کے علاوہ ہيں جن ميں بعض بعض ميں تصرف کرتى رہتى ہيں ۔

اس سلسلہ ميں دريافت طلب مسئلہ يہ ہے کہ تصرف سے مراد کياہے ۔ اگرتصرف سے مراد تخصےص اورتقےےدوغےرہ ہے تويہ کام آيات احکام مےن بھى ہوتاہے اوراگراس سے مراد کوئى دلےل خارجى ہے تواس کامطلب يہ ہے کہ آيات احکام کے علاوہ متشابہات کاکوئى مرجع نہيں ہے ۔

۸۔ محکمات ان آيات کانام ہے جن ميں انبياء ومرسلےن کے واقعات بالتفصيل بيان کئے گئے ہيں اورمتشابہات وہ آيات ہيں جن ميں اجمال سے کام لياگياہے ۔

۹۔ متشابہات وہ آيات ہيں جومحتاج بيان ہوں ،اورمحکمات وہ آيات ہيں جن کے بيان کى ضرورت نہ ہو۔

اس کامطلب يہ ہے کہ ايات احکام بھى محکم نہيںہيںاس لئے کہ بيان کى ضرروت توان ميں بھى پائى جاتى ہے ۔

۱۰۔ محکمات وہ آيات ہيں جن پراےمان اورعمل دونوں ضرورى ہيں اورمتشابہات وہ آيات ہيں جن پراےمان ضرورى ہے عمل ضرورى نہيں ہے ۔

يہ قول ساتوےں قول کابدلاہوااندازہے اورمفہوم يہى ہے کہ محکمات صرف آيات احکام ہيں اورسارى آيات متشابہات ہيں ۔ علاوہ اس کے کہ عمل کرنے يانہ کرنے کاسوال تومحکم ومتشابہ طے ہونے کے بعد ہوگا کہ محکم پرعمل ہوگا اورمتشابہ پرعمل نہيں ہوگا ۔ عمل کے ذرےعہ محکم ومتشابہ کاتعےن الٹى سمت ميں سفرکرنے کے مرادف ہے ۔

۱۱۔ محکمات صفات الہيہ اورصفات نبويہ کے علاوہ دےگرتمام آيات ہيں ۔ کلمة القاھا الى مرےم جےسى آيات متشابہات ہيںمحکمات نہيں ہيں ۔

يہ قول ابن تےميہ کى طرف سے نقل کياگياہے اوراس کے با رے ميں قابل توجہ بات يہ ہے کہ ابن تےميہ کے نزدےک آيات صفات ميں علماء اورعوام کے درميان اختلاف ہے اورعلماء يعنى راسخون فى العلم کے علاوہ کوئى ان کے معنى نہيں جانتاہے ۔ ليکن سوال يہ ہے کہ کياتاوےل کاتعلق صرف متشابہات سے ہے جب کہ قرآن مجيدميں غےرمتشابہات کى تاوےل کابھى تذکرہ موجود ہے بلکہ پورے قرآن کي تاوےل کاذکرکياگياہے ۔

۱۲۔محکم وہ کلام ہے جس سے معني ظاہرکومرادلياگياہو ، اورمتشابہ وہ کلام ہے جس سے غےرظاہرکاارادہ کياگياہو ،اوريہى قول متاخرےن کى درميان مشہور ہے ۔

ليکن مشکل يہ ہے کہ متشابہ کى مراد متشابہ ہوتى ہے اورتاوےل سے مراد غےرظاہرى معنى نہيں ہيں ۔ قرآن مجيد ميں کسى مقام پربھى غےرظاہرى معنى کا ارادہ نہيں کياگياہے ورنہ کلام الہى معمہ بن کررہ جائے گا ۔ محکمات مفاہےم کے متعےن کرنے کاذرےعہ ہيں ،اورذرےعہ ظہورکے ثابت کرنے کے لئے ہوتاہے غےرظاہرکي تفہےم کے لئے نہيں ہوتاہے جےساکہ روايات ميں اشارہ کياگياہے کہ قرآن کا بعض ،بعض کى تفسےرکرتاہے يعنى اس کے ظہورکاتعےن کرتاہے نے يہ کہ اس امرکى طرف اشارہ کرتاہے کہ اس سے غےرظاہري معنى کاارادہ کياگياہے ۔

خلاصہ کلام يہ ہے کہ محکم اورمتشابہ کاتعلق ظہوراورعدم ظہورکلام سے نہيں ہے ۔ اس کاتعلق لوگوں کے عقل وفہم وادراک کے تفاوت سے ہے کہ لوگ عرفي معنى سے مانوس ہونے کى بناپرتمام آيات سے عرفي معانى ہى مرادلےتے ہيں چاہے ان کاتعلق الہيات سے ہوياماوراء ماديات سے ۔ جب کہ يہ طرےقہ کارصحےح نہيںہے ۔ ان کافرض ہے کہ محکمات کى طرف رجوع کرےں اوراس رجوع کے ذرےعہ معانى کے تشابہ کوختم کرےں ۔

واضح لفظوں ميں ےوں کہاجائے کہ لفظ کے معنى توظاہرہيں ليکن اس ظاہرى معنى کاحقےقى تصورمشتبہ ہے اوراس کوطے کرنے کے لئے محکمات کى طرف رجوع کرناضرورى ہے اورجب محکمات اورمتشابہات ميں ہم آ ہنگى نہ ہوتومحکمات کوحاکم بنادياجائے گا اورمتشابہات کے واقعي معنى مرادلئے جائيں گے ۔

اقسام فتنہ

قرآن مجيد نے متشابہات کے بارے ميں اس نکتہ کى نشان دہي کى ہے کہ جن کے دلوں ميں کجى ہوتى ہے وہ فتنہ پردازي کے لئے متشابہات کااتباع کرتے ہيں اوران کى من مانى تاوےلےں کرکے طرح طرح کے فتنے برپاکرتے ہيں ۔ تارےخ اسلام ميں ان فتنوں کى حسب ذےل قسميں پائى جاتى ہيں :

۱۔ فتنہ تجسےم وجبروتفوےض ومعصےت انبياء وتشبيہ وغےرہ جہاں آيات ميں وجہ ،ےد وغےرہ کے الفاظ دےکھ کران کو مادى معانى پرمنطبق کياگيااورتجسےم کاعقےدہ اےجادہو ا۔ ياکل کائنات ميں قدرت خداکے جارى وسارى ہونے کا تذکرہ دےکھاگيااوربندوں کومجبورمحض فرض کرکے جبرکاعقےدہ اےجادکياگيا۔ياافعال کى بندوں کى طرف نسبت دےکھ کراورانھےں تمام اعمال کا ذمہ دارپاکرتفوےض کاعقےدہ اےجادکياگيا۔ ياانبياء کرام کے بارے ميں ذنب ،مغفرت ،معصےت جيسے الفاظ کودےکھ کران سے عام بشرى معاني مرادلے کرمعصےت ا نبياء کاعقےدہ اےجادکيا گيا۔ياخالق کائنات کے بارے ميں بندوں جيسے ا لفاظ کے استعمال سے تشبيہ کاعقےدہ اےجادکياگيا اوربندہ اورخداکوايک صف ميں لاکر کھڑاکردياگيا۔

۲۔ فتنہٴ تقرب : اس فتنہ کامقصديہ تھا کہ آيات احکام ميں قرب ا لہى کاتذکرہ دےکھ کر يہ نظريہ اےجادکياگياکہ تمام احکام قرب الہى کاذرےعہ ہيں ،

اوراسى قرب کے لئے ان احکام پرعمل کولازم قراردياگيالہذا جب انسان کوقرب الہى حاصل ہوجائے گا تواس سے تمام احکام ساقط ہوجائےں گے ۔

۳۔ فتنہ اصلاح عالم : اس نظريہ کاماحصل يہ تھا کہ رب العالمےن نے احکام اپنى تسکےن قلب يامظاہرہ اقتدارکے لئے وضح نہيں کئے ہيں بلکہ ان کامقصدعالم کى اصلاح ہے لہذا جيسے جيسے عالمى حالات بدلتے جائےں احکام ميں بھى تغےرہوناچاہےے اورشرےعت مےت تنوع اورتطورپےداہوناچاہےے ،يعني کى اصلاح کرنے کے بجائے خو داحکام کى اصلاح کرناچاہےے ۔

۴۔ فتنہ لغوےت احکام : اس نظريہ کامقصديہ تھاکہ قرآن مجيدکے تمام احکام معاشرہ کى اصلاح کے لئے وضح کئے گئے ہيں اورجب معاشرہ سوفےصدى متغےرہوچکاہے تويہ سارے احکام معطل اوربےکارہوجاناچاہےے اوران پرعمل کرنے کو غےرضرورى بلکہ محمل قراردے دےناچاہےے ۔

۵۔ فتنہ تطہےرقلب : اس فتنہ کامطلب يہ ہے کہ احکام الہيہ کااجراانسانى نفس کے تزکيہ اوراس کے قلب کى تطہےرکے لئے ہواتھا اوراس زمانہ ميں تزکيہ اورتطہےرکااس کے علاوہ کوئى ذرےعہ نہيں تھا ۔ معاشرہ کثافتوں اورنجاستوںميں ڈوباہواتھاتوضرورت تھى اےسے احکام کى جواس معاشرہ کوکثافت ونجاست سے نکال کر طہارت اورنظافت کي منزل تک پہنچائےں ۔ليکن دورحاضرميں يہ صورت حال بالکل تبدےل ہوچکى ہے ۔

ظاہري اعتبارسے نظافت اورصفائى کے اتنے اصول رائج ہوگئے ہيں کہ ہرانسان ہروقت صاف وشفاف اورنظےف رہتاہے ۔بنابرےن وضواورغسل کے احکام بالکل بے معنى ہوگئے ہيں اوراب ان کى کوئى ضرورت نہيں رہ گئى ۔ ہرصبح وشام نہانے والے کو وضوياغسل کون سى طہارت اورپاکےزگى عطاکردے گا اوروہ کس قدرصاف وشفاف ہوجائے گا ۔

باطني اعتبارسے بھى اس قدراخلاقى اصول رائج ہوگئے ہيں اورحکومتي ،عوامى اوربےن الاقوامى سطح پراس قدرآداب واحکام وضح ہوگئے ہيں کہ انسان قہرى طورپرپاکےزہ نفس اورصاحب ادب واخلاق ہوگياہے ۔ اےسے حالات ميں احکام الہيہ کى کوئى ضرورت نہيں ہے اورگوياان کادورگزرچکاہے اوردنياايک نئے دورميں داخل ہوچکى ہے۔

اس طرح اورنہ جانے کتنے فتنے ہيں جوعالم انسانےت ميں رائج ہيں اورکج رو،اورکج دماغ افرادان نظريات کي تائےدکرنے کے لئے متشابہات کاسہارالے کران اوہام وخرافات کواحکام الہيہ پرمنطبق کرناچاہتے ہيں اوراس طرح فتنہ گرى کابازارگرم کرناچاہتے ہيں جب کہ اسلام ميں اس قسم کى فتنہ گرى کاکوئى جوازنہيں ہے اورقرآن نے اسے کج فہمى اورکج دماغى کانتےجہ قراردياہے ۔

متشابہات کى ضرورت

اس سوال کاايک مختصرجائزہ لياجاچکاہے ے۔ا س وقت قدرے تفصيلى بحث سے کام لياجارہاہے تاکہ يہ واضح ہوسکے کہ علماء اسلام نے متشابہات کى ضرروت پرکس کس رخ سے نظرکي ہے اورکس طرح اس کى ضرورت کوثابت کياہے يادوسرے لفظوں ميں ےوں کہاجائے کہ گذشتہ اوراق ميں يہ ظاہرکياگياہے کہ متشابہات کاوجودايک تارےخى ضرورت تھا جوقرآن مجيدکے ۲۳سال ميں تدرےجى نزول کي بناپر ہوناضرورى تھا ليکن يہاں يہ ثابت کياجارہاہے کہ متکلم حکےم کے کلام ميں جہاں محکمات کاوجود ضرورى ہے وہيں متشابہات کاوجودبھى ايک لازمى شے ہے اوراس کے بغےرکلام حکےم کى حکمت کى تکمےل نہيں ہوسکتى ہے ۔

علماء اعلام نے جن چندوجوہ کى طرف اشارہ کياہے ان ميں سے بعض کاتذکرہ اس مقام پرکياجارہاہے :

۱۔ متشابہات کے ذرےعہ انسان ميں خضوع وخشوع اورادائے تسلےم ورضاپےداہوتى ہے کہ کلام کامفہوم انسان پرواضح نہيں ہے ليکن اس کے باوجود اسے کلام خالق سمجھ کر اس پراےمان رکھتاہے اوراس کااسى طرح احتراک کرتاہے جس طرح کے محکمات کااحترام کرتاہے بعےنہ اسي طرح جس طرح ان احکام

پرعمل کرتاہے جن کى کوئى معقول وجہ اس کے ذہن ميںنہيں ہوتى ہے اورحکم اس کے فہم وادراک سے بالاترہوتاہے ليکن اس کے باوجودحکم خالق سمجھ کرتعمےل کرتاہے اوراس کى عقل وفہم کے مطابق ہوتے ہيں اورجن کى حکمت بظاہرواضح ہوتى ہے ۔

ليکن اس دلےل کى کمزورى يہ ہے کہ احکام ميں کم ازکم حکم توواضح ہوتاہے توانسان اس پرعمل کرکے تسلےم ورضاکامظاہرہ کرتاہے ليکن متشابہات ميںتوکوئى بات ہى واضح نہيں ہوتى ہے اورجوبات معلوم اورواضح نہ ہواس کے بارے ميں تسلےم ورضا کے کوئى معنى ہى نہيں ہيں ۔الفاظ قرآن کااحترام کرکے بوسہ دےنااورہے اورتسلےم ورضاکى منزل پرفائزہونااورہے ۔قرآن مجيدنظام زندگى بن کرنازل ہواہے اوراس کامقصدفکروں ونظراورعمل وکردارکى اصلاح ہے وہ احترام کرنے اوربوسہ دےنے کے لئے نازل نہيں ہواہے ۔ ا گرچہ اس کااحترام ہرمسلمان کافرےضہ ہے۔

۲۔ متشابہات کاسب سے بڑافائدہ يہ ہے کہ اس طرح انسان ميں تفکرکاجذبہ پےداہو،اورتفکروتدبرانساني فکرونظرکاعظےم ترےن کمال ہے ۔

لکن اس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ تفکروتدبرکے لئے آيات وتدبرہي کافى ہيں ، متشابہات کى ضرورت نہيں ہے ورنہ ان متشابہات ميں تفکروتدبرسے توگمراہى کابھى اندےشہ رہتاہے جےساکہ عالم اسلام کے حالات سے اندازہ ہوتاہے اورخودقرآن مجيدنے بھى اشارہ کياہے کہ کج دماغ افرادفتنہ پھےلانے کے لئے متشابہات کاسہارالےتے ہيں اورانھےں کے ذرےعہ فتنہ گرى کاکام انجام دےتے ہيں ۔

۳۔ انبياء کرام کے پےغامات پورے عالم انسانےت کے لئے ہوتے ہيں اورعالم انسانےت کے مختلف درجات ہيں ،لہذا اےسے کلمات کاہوناضرورى تھا جن سے خواص استفادہ کرےں اورعوام ا ن کے علم کوپروردگارکے حوالے کردےں اوراس طرح ان ميں تحصےل علم کابھى جذبہ پےداہو۔

اس مسلک کى کمزورى يہ ہے کہ متشابہات خودبھى محکمات کے ذرےعہ واضح ہوجاتے ہيںتوتفوےض کاکوئي سوال ہى نہيں پےداہوتاہے اورقرآن مجيدکے الفاظ کے دوطرح کے معانى نہيں ہيں کہ ايک معنى خواص کے لئے ہواورايک معنى عوام کے لئے ۔ بلکہ اس کے ايک ہى معنى ہيں اوراس معنى کے درجات ہيں کہ جوجس درجہ فکرکاحامل ہوتاہے اس اعتبارسے ا س معنى سے استفادہ کرتاہے ۔

حقيقت امريہ ہے کہ پورے قرآن کى ايک تاوےل ہے جسے ہرشخص نہيںسمجھ سکتاہے اورحقائق قرآن اس تاوےل کانام ہے جس کاادراک مطہرون کے علاوہ کوئى نہيں کرسکتاہے اگرچہ قرآن مجيدکے مکلف تمام افرادہيں ليکن جس طرح مطہرون اپنى تکلےف پرعمل کرسکتے ہيں اس طرح دوسر ے ا فراد نہيں کرسکتے ہيں ۔

مثال کے طورپرقرآن مجيدنے حکم دياہے کہ ”اتقواللہ حق تقاتہ “ (خداسے اس طرح ڈروجوڈرنے کاحق ہے )۔يہ ايک حکم عام ہے جوتمام صاحبان اےمان اورعالم بشرےت کے لئے ہے ليکن مقام عمل ميں خواص کاتقوى اورہے اورعوام کاتقوى اور۔ خواص وعوام ميں مفہوم آےت کافرق نہيں ہے ۔ مصداق اورحقےقت کافرق ہے کہ ايک انسان اس غےبى حقےقت کامکمل ادراک کرلےتاہے اوردوسرے انسان اس ادراک سے عاجزاورمحروم رہتاہے ۔

اوراس کاايک رازيہ بھى ہے کہ نفس کى طہارت علم سے حاصل ہوتى ہے اورعلم بلاعمل بےکارہوتاہے لہذا جب تک علم وعمل ميں کمال نہ پےداہوجائے انسان مطہرون کى منزل ميں نہيں آسکتاہے اورجب تک اس منزل ميںنہ آجائے حقائق تاوےل کاادراک ممکن نہيں ہے ۔

قرآن مجيدنے اسى ذہنى تربےت کے لئے اپنے احکام کوبالتدرےج بيان کيا ۔ پہلے اصول عقائدسمجھائے ،اس کے بعدانفرادى عبادات کى دعوت دى اورآخرميں اجتماعى احکام پےش کئے اورسب کوايک دوسرے سے مربوط بنادياکہ اجتماعيات کافساد اصول معارف کوبھي فاسدکردےتاہے اوراسلام کے سارے فتنے اجتماعيات سے شروع ہوئے ہيں اوران کاسلسلہ اصول ومعارف تک پہونچ گياہے ۔

تيسرانکتہ يہ بھى ہے کہ قرآنى ہداےت تمام عالم بشرےت کے لئے ہے ۔ليکن تمام عالم بشرےت اپنے علم وادراک ميںمتفاوت ہے ۔ بعض لوگ محسوسات کى حدوں ميں محصورہيں اوربعض معقولات کى منزلوں تک پہنچ گئے ہيں ۔ کھلى ہوئى بات ہے کہ محسوسات کے قےدےوں کوبات محسوسات کے ذرےعہ سمجھائى جائے گى اوراہل معقولات کو معقولات کے ذرےعہ ۔ پھرمحسوسات سے معقولات تک پہونچانے کاذرےعہ محکمات کوقراردياجاتاہے جس طرح کہ بچہ کو

ابتداميںشادى کاتصورحلوہ کے ذرےعہ دياجاتاہے کہ يہ ايک شرےنى اورحلاوت ہے اوراس کے بعدذمہ دارےوںکااحساس دلاياجاتاہے تواےسى صورت ميں محسوسات کاذکربھى ضرورى ہوتاہے اورمعقولات کا۔ ايک ابتداميں کام آتاہے اورايک انتہائى مرحلہ ميں ۔ اب اگرکوئى انسان ناقص ہے ياناقص رہناچاہتاہے تومحسوسات ہى کى منزل پررک جاتاہے اورمعقولات تک نہيں جاتاہے اورنہ کسى کوجانے دےتاہے اوريہى فتہ انگےزى ہے جومتشابہات کے بارے ميں استعمال کى جاتى ہے ۔

واضح لفظوں ميں ےوں کہاجائے کہ سطحى ذہن کوطاقت سمجھانے کے لئے ہاتھ،بصارت سمجھانے کے لئے آنکھ ،سماعت سمجھانے کے لئے کان ،اقتدارسمجھان کے لئے عرش وکرسى ،سخاوت سمجھانے کے لئے بسط ےد ضرورى تھا اس کے بغےرحقےقت تک رسائى کاامکان ہى نہيں تھا ۔ ليکن ان الفاظ کے معانى کى حقےقت ظاہرى محسوسات سے ماوراء ہے جہاں تک صاحبان عقل وفہم انھےں محسوس معانى کے ذرےعہ پہونچ جاتے ہيں ، اورجب محکمات کے سہارے معانى کى مادےت کوالگ کردےتے ہيں توايک غےبى حقےقت سامنے آجاتى ہے ليکن اسکے ادراک کے لئے محکمات کاسہاراضرورى ہے اب اگرکوئى شخص محسوسات ہى تک محدود رہاناچاہتاہے يادوسروں کو دھوکادے کر يہيں تک محدودرکھناچاہتاہے تووہ محکمات کونظراندازکرکے خداکوجسم وجسمانےت والابنادےتاہے اوراس طرح خودبھى گمراہ ہوتاہے اوردوسروں کوبھى گمراہ کرتاہے ۔ ليکن حقائق کے تلاش کرنے والے ان حجابات کوہٹاکرغےبيات کاادراک کرلےتے ہيں اوران عظےم ترمعانى کاتصورکرلےتے ہيں جن سے عام انسان محروم رہتے ہيں ۔

مزيدوضاحت کے لئے يہ عرض کياجائے کہ قرآن مجيدکے جملہ بيانات کے لئے عالم حقائق اورعالم غےب ہے جس کوسمجھانے کے لئے مختلف وسائل اختيارکئے گئے ہيں اورعوام الناس کے لئے بہترےن ذرےعہ مثال ہے کہ ان کاذہن بچپنے سے قرےب ترہوتاہے اوربچے بات کومثال ہى سے سمجھتے ہيں اب عوام الناس کے بھى درجات ہيں لہذاايک ايک حقےقت کومختلف مثالوںسے سمجھاياجاتاہے تاکہ ذہن اس حقےقت کاادراک کرلے ۔ اس کے بعدبھى کبھى انسان حقےقت کاادراک کرلےتاہے اورکبھى مثالوں ہى ميں الجھ کررہ جاتاہے اوراسکو حقےقت سمجھ لےتاہے جوتمام تجسےم وتفوےض وجبروغےرہ جيسے عقائد کے ماننے والے افرادکاحشرہواہے کہ انھوںنے اپنے کومحسوسات اورمثالوں ميں محدودکرديااورحقائق سے غافل ہو کر مثالوں ہى کو حقائق کادرجہ دے دياہے جس کے نتےجہ ميں يہ بات بآسانى کہى جاسکتى ہے کہ ايک ہى آےت محسوسات کے قےدےوں کے لئے متشابہات ميں ہے اورمعقولات کاادراک رکھنے والوں کے لئے محکمات ميں ہے کسى آےت کو مطلق طورپرمتشابہ نہيں کہاجاسکتاہے۔ ہاں مطلق طورپراورمحکمات کاوجودبہرحال پاياجاتاہے اوريہي وجہ ہے کہ محکمات کے ذرےعہ فتنہ گرى کاکام نہيں لياجاتاہے اورمتشابہات کواس کاذرےعہ بناياجاتاہے ۔ رہ گئى تاوےل توتاوےل اس حقےقت کانام ہے جسے ممثل قراردياگياہے اورجس کومختلف مثالوں کے ذرےعہ سمجھاياگياہے ۔ اس کاالفاظ کے معانى سے کوئي تعلق نہيں ہے ، اس کاادراک صرف صاحبان عقل وفہم اورراسخون فى العلم يامطہرون ہى کرسکتے ہيں ۔

قرآن اور علم

قرآن اور علم

قرآن اور علم کے رشتے کو سمجھنے کے لئے اتنا ہى کافى ہے کہ قرآن وعالم انسانيت کى رہبرى کے لئے آيا ہے اور عالم انسانيت کى رہبرى کے لئے آياہے اور عالم انسانيت کا کمال و جوہر علم و دانش ہى سے کھلتا ہے۔ قرآن نے رسول اکرم کى بعثت کى غرض بيان کرتے ہوئے يہ واضح کيا ہے کہ رسول کو تعليم کتاب کے لئے بھيجا گيا ہے۔ ”يعلمہم الکتاب“ اور کتاب کى تعريف ميں يہ الفاظ بيان کئے ہيںکہ۔ ”لارطب ولا يابس الا فى کتابٍ مبين“ کوئى خشک و تر ايسا نہيںجو اس کتاب مبين ميں نہ موجود ہو۔ جس کا کھلا ہوا مطلب يہ ہے کہ رسول عالم انسانيت کوہر خشک وتر کى تعليم دينے آيا تھا۔

اس کااندازہ اس بات سے بھى کيا جاسکتا ہے کہ قرآن کريم نے اپنى تنزيل کا آغاز لفظ اقراٴ سے کيا ہے اور انجام علّم الانسان ما لم يعلم پرکيا ہے يعنى تنزيل قرآن کا مقصد قراٴت ہے اور اللہ نے انسان کو اس بات کي تعليم دى ہے جو اسے نہيں معلوم تھي۔غور کرنے کى بات ہے کہ جو رسول اتنى جامع کتاب کى تلاوت وتعليم کے لئے آيا ہووہ کتاب سے بے خبر يا تعليم سے بے گانہ کيسے ہو سکتاہے؟۔ اسلامى روايات کا بہت بڑا ظلم ہے کہ انہوں نے تنزيل قرآن کى روايات ميں سرور دو عالم کى جہالت بھى شامل کردي، حالانکہ لفظ اقراٴ کا وجود ہى اس امر کے اثبات کے لئے کافى تھا کہ رسول قراٴت سے با خبر تھے ورنہ حکم قراٴت لغو ہوجاتا اس لےے کہ جبرئيل بحيثيت رسول کے وحى ليکر آئے تھے،اسکول کے کسى بچے کو تعليم دينے نہيں آئے تھے، واضح لفظوں ميں يوں کہا جائے کہ مدرس بچے سے بھى کہتاہے کہ پڑھو جب کہ وہ پڑھنے سے نا واقف ہوتا ہے اور ملک رسول سے بھى کہہ رہا ہے کہ پڑھوجب کہ وہ تعليم کتاب کے لئے رسول بنايا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ايک بچے اور رسول ميں فرق ہوگا تو دونوں جگہ قراٴت کا تصور بھى الگ الگ ہوگا اور اگر رسول رسالت کے با وجودطفل مکتب اور غار حراکوئى مدرسہ ہوگا توجبرئيل يقينا الف۔ب کي تعليم دينے آئيں ہوں گے۔

کہا يہ جاتا ہے کہ قرآن مجيد نے خود ہى رسول کو جاہل قراٴت و کتابت ثابت کيا ہے تو ہم کہاں سے علم و دانش پر ايمان لے آئيں۔ ارشاد ہوتا ہے ”وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولاتخطہ بيمينک اذاً لارطاب المبطلون“ آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئى کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ اہل باطل شبہ ميں پڑ جاتے۔اور قرآن کو کسى مدرسہ کي تعليم کا نتيجہ قرار ديتے۔

ميري سمجھ ميں نہيںآتا کہ علماء اسلام نے آيت کے کس لفظ سے رسول کى جہالت کا اندازہ کيا ہے، جب کہ قرآن نے صاف صاف لفظوں ميںپڑھنے اور لکھنے کى نفى کى ہے ان دونوں کے جاننے کى نفى نہيں کى ہے بلکہ آگے چل کر اسى سے ملى دوسرى آيت ميںرسول کے علم کى وضاحت بھى کر دى ہے”بل ہو آيات بينات فى صدور الذين اوتوا العلم“بلکہ يہ قرآن چند آيات بينات کا نام ہے جنہيںان صاحبان علم کے سينوں ميں رکھ ديا گيا ہے جنہيںعلم ديا گيا ہے۔ کياآيت سے صاف واضح نہيں ہوتا کہ قرآن پہلے پڑھنے لکھنے کى نفى کى اور اس کے بعدعلم کا اثبات کرديا۔ يعنى علم قرآن پہلے بھى تمہارے سينے ميں تھاليکن ہم نے تمہيںپڑھنے لکھنے سے روک رکھا تھا تاکہ اہل باطل شبہ ميں نہ پڑ جائيں اور انہيںسادہ لوح عوام کے ذہنوں ميں شکوک پيدا کرنے کا موقع نہ ملے۔

قيامت تو يہ ہے کہ مسلمانوں کا ايک طبقہ تنزيل قرآن کے بعد بھى رسول کو قراٴت وکتابت سے جاہل ہى تصوّر کرتا ہے اور اسى بنياد پر دربار رسالت ميںکاتبان وحى اور کاتبان خطوط ورسائل کى ضرورت محسوس کرتا ہے حالانکہ تاريخ ميں صلح حديبيہ کا واقعہ زندہ ثبوت ہے کہ رسول اکرم عالم قراٴت و کتابت تھے ورنہ اگر عالم قراٴت نہ ہوتے تو رسول اللہ کے بجائے کوئى دوسرا لفظ کاٹ ديتے اور اگر عالم کتابت نہ ہوتے تو ابن عبد اللہ کے بجائے کچھ اور لکھ ديتے۔

ميرا ذاتى خيال تو يہ ہے کہ رسول کى جہالت کاافسانہ اس حقيقت پرپردہ ڈالنے کے لےے گڑھا گيا ہے کہ حضور نے آخري وقت ميں قلم و داوات کامطالبہ کيا تھاتاکہ امت کى نجات کے لئے نوشتہ لکھ جائيں اور امت کے بعض جانے پہچانے لوگوں نے آپ کے حکم کو ہذيان قرار دے کر قوم کو قلم و داوات دينے سے روک ديا تھا۔ يعنى مقصد يہ ہے کہ رسول کو جاہل کتابت ثابت کر ليا توکتابت کے لےے کاغذ و قلم مانگنے کوہذيان آسانى کے ساتھ کہا جاسکے گا ورنہ امت اسلاميہ ورنہ امت اسلام رسول پر تہمت يذيان رکھنے والے کے بارے ميںبھى کچھ فيصلہ کر سکتى ہے؟

بہر حال علمى دنياکى آفاقى وسعتوں پر قرآن مجيد کے احسانات کا اندازہ اس بات سے بھى ہوسکتا ہے کہ آسمانى کتابوں کى آخرى کتاب يعني انجيل مقدس اپنى قوموں کو بنى اسرائيل کي بھيڑوں سے تعبير کرتى ہے اور ظاہر ہے کہ جس قوم کي ذہنى سطح بھيڑوں کى سطحِ ذہن جيسى ہوگى اسے علوم و معرفت کے وہ خزانے نہيں دےے جاسکتے جو يا ايہا الناس کى مصداق قوم کو دےے جا سکتے ہيں۔ اور يہى وجہ ہے کہ آج سے دو صدى قبل تک مسيح کے پرستاروں اور کليسا کے ٹھيکيداروں نے جديد تحقيقات کى شديد مخالفت کى ہے اور حرکت زمين، قوت جذب جيسى حقيقتوںکے انکشاف کرنے والوں کو سخت سزاوٴں کا اہل قرار ديا ہے جب کہ قرآن مجيد نے آج سے تقريباً چودہ سو برس قبل اس وقت کے ذہن کى برداشت کا لحاظ کرتے ہوئے دو دو لفظوں ميں دنيا کے ہر بڑے علم کى طرف اشارہ کر ديا تھا اور آنے والي ترقى يافتہ انسانيت کے لےے سمندر کو کوزہ ميں بند کرکے پيش کر ديا تھا۔ اب ترقى يافتہ انسان قرآن کى ان آيتوں کو پڑھے اور سر دھنتا رہے کہ اگريہ کتاب آسمانى کتاب نہ ہوتي، اگر اس کے پيغامات ابدي پيغامات نہ ہوتے تو چودہ صدى قبل کے جاہل عرب معاشرے کے سامنے ان حقائق و معارف کو پيش کرنے کى ضرورت کيا تھي۔ قرآن مجيد نے مختصر الفاظ ميں جن علوم کى طرف اشارہ کيا ہے ان کا اجمالى خاکہ يہ ہے:

۱۔ علم ذرہ:

”وما يعزب عن ربک من مثقال ذرة فى الارض ولا فى السماء ولا اصغر من ذٰلک ولا اکبر الا فى کتابٍ مبين“ (زمين و آسمان کى ذرہ برابر چيز يا اس سے کم وزيادہ بھى اللہ کى نظروں سے بعيد نہيں ہے، اس نے سب کو کتاب مبين ميں جمع کرديا ہے۔

آيت ميں ذرّے کے ذکر کے ساتھ ثقل کاذکراور پھر ذرّے ميں زمين و آسمان کى عموميت اس بات کى دليل ہے کہ ذرّے کا وجود صرف زمين پر نہيں ہے بلکہ آسمانوں پر بھى ہے اوريہ وہ چيز ہے جہاں تک ابھى سائنس کى رسائي نہيں ہوئي۔ اس کے علاوہ ذرّے کے ساتھ اصغر و اکبر کاذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ ذرّے سے چھوٹى چيز کا تصوّر ممکن ہے اور اس کا وجود واقع بھى ہے بلکہ علم خدا ميں محفوظ بھى ہے۔ظاہر ہے ذرّے سے چھوٹى چيز ذرہ نہيں ہے اس لےے کہ اس پر بہرحال ذرے کا اطلاق ہوگا بلکہ ذرے سے چھوٹى چيز وہى کہربائى موجيں ہيں جنہيں آج کى دنيا ميں الکٹرون و پروٹون وغيرہ سے تعبير کيا جاتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ قرآن کريم کى نظر اس سے زيادہ لطيف مادہ کى طرف ہوجيسے اس نے اصغر کہہ کر چھوڑ ديا ہے اور لفظ موج کا استعمال نہيں کيا ہے۔

۲۔علم طبيعت:

”اولم ير الذين کفروا ان السمٰوٰت والارض کانتا رتقا ففتقناہما“۔(کيا کفار نے اس بات پر غور نہيں کيا ہے کہ سماوات و ارض آپس ميں جڑے ہوئے ہيں ہم نے ان دونوں کو الگ کيا ہے۔

سماوات و ارض کے جڑے ہونے اور الگ ہونے کا جو مفہوم بھى ہو، آيت نے علماء طبيعت کے ذہنوں کواس امر کى طرف ضرور متوجہ کر ديا ہے کہ ہر آسمان اپنى زمين کے ساتھ يا ہر آسمان و زمين دوسرے آسمانوں اور زمينوں کے ساتھ مادہ اور طبيعت ميں اتحاد رکھتے ہيں۔ فضا کے بدل جانے آثار ميں فرق ہوسکتا ہے ليکن اصلى مادہ ميں کوئى فرق نہيں ہے۔ اس لےے کہ جب دو چيزوں کو ايک ہى چيز سے الگ کيا جاتا ہے تو دونوں کے طبيعى مادہ ميں اتحاد ہوا کرتا ہے۔ آپ ايک لوٹے پانى کو دو گلاسوں ميں تقسيم کر ديجئے ايک کو آگ کے پاس رکھ ديجئے اور ايک کو برف کے پاس۔ ظاہر ہے کہ جگہ بدل جانے سے دونوں کے آثار ميں فرق ہو جائے گا، ايک گلاس کا پانى ٹھنڈا ہوگا اور ايک کاگرم۔ ليکن اصلى طبيعت کے اعتبار سے دونوں پانى رہيںگے اور پانى کے طبيعى اور ذاتى آثارکے اعتبار سے دونوں ميں اتحاد رہے گا۔

۳۔ جغرافيہ:

”ارسلنا الرياح لواقح فانزلنا من السماء ماء ًا فاسقينا کموہا وما انتم لہ بخازنين“(ہم نے ذريعہ تخم ريزى بنا کرآزاد کرديااور اس کے بعد پانى برسا ديا، پھرتم کو اس پانى سے سيراب کرديا حالانکہ تمہارے پاس اس کا خزانہ نہيں تھا۔)

دور قديم کے اہل جغرافيہ اس بات سے قطعى طور پر ناواقف تھے کہ ہواوٴں کے مصرف کيا کيا ہيں اور ان کا اثر کہاں کيا ہوتا ہے ليکن قرآن نے عرب کو اس کے ذوق کے مطابق اس امر کى طرف متوجہ کيا کہ ان ہواوٴں سے تمہارے نرخرمے کا مادّہ، مادہ خرمے تک پہونچ جاتا ہے اور پھر بارش کے اثر سے پيداوارشروع ہوجاتى ہے اور دور حاضر کو يہ سبق ديا ہے کہ ہوا بادلوں کى دونوںبرقى طاقتوں کو جمع کرتى ہے اور اس کے بعد پانى اسے زمين تک پہونچا ديتا ہے۔

۴۔علم نبات:

”ہو الذى انزل من السماء ماءً ا فاخرجنا بہ نبات کل شئي۔“ (وہى خدا وہ ہے جس نے آسمان سے نازل کيا ہے اور اس کے بعد ہم نے اس پانى سے ہر نبات کو زمين سے نکال ديا ہے۔

آيت کا کھلا ہوا اشارہ ہے کہ نبات کى پيداوار ميں پانى کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے اور پانى کے آسمان سے نازل ہونے کى بھي پيداوار ميں بڑى اہميت ہے اس لےے کہ شديد گرمي سے فضا ميں پيدا ہو جانے والى سمّيت اور بجليوں کى چمک سے پيدا ہونے والے نيٹروجن کو پانى زمين کے اندر پہونچا ديتا ہے تو زمين کى طاقتوں ميں ايک قسم کا ابال آجاتا ہے اور اس نبات کو طاقت ملنے کا بہترين ذريعہ نکل آتا ہے۔ اسى لےے آپ نے ديکھا ہوگا کہ جو اثر بارش کے پہلے پانى ميں ہوتا ہے وہ بعد کے سيلاب ميں بھى نہيں ہوتا اس لےے کہ پہلا پانى اپنے ساتھ فضا کے تمام اثرات کولےکر آتا ہے اور بعد کے پانى کو اس قدر اثرات ميسّر رنہيں ہوتے۔

۵۔علم الحيوان:

”افلا ےنظرون الى الابل کيف خلقت“(آخر يہ لوگ اونٹ کو کيوں نہيں ديکھتے کہ اسے کيسے پےدا کيا گےا ہے؟)

”ان اللّٰہ لايستحيٖ ان يضرب مثلاًمابعوضةفمافوقھا“(اللہ کو چھوٹى سے چھوٹي مثال کے بےان ميں شرم نہيں ہے چاہے وہ مچّھر ہى کيوں نہ ہو۔

”فبعث اللّٰہ غراباًےبحث فى الارض“ (اللہ نے کوّے کو بھےجا تاکہ زمين کھود کر قابےل کو دفن کا طرےقہ سکھائے

”يا ايتھاالنمل ادخلوامساکنکم لا يحطمنکم سليمان وجنودہ“ (اے چيونٹےو!اپنے اپنے سوراخ ميں چلى جاوٴکہيں سليمان کا لشکرتمہيں پامال نہ کردے۔

”و اوحيٰ ربک الى النحل ان اتخذى من الجبال بيوتاً“ (اللہ نے شہد کى مکھى کو تعليم دى کہ وہ پہاڑوں ميں گھر بنائے۔

”الم تر کيف فعل ربک باصحاب الفيل“ (کيا تم نے اصحاب فيل کى حالت نہيں ديکھى کہ ان کے ہاتھى بھوسا ہو کر رہ گئے۔

”وارسل عليہم طيراً ابابيل“ (اللہ نے اڑتے ہوئے ابابيل کو بھيج ديا کہ ہاتھيوں کو تباہ کردےں۔

”وان اوہن البيوت لبيت العنکبوت“ (سب سے کمزور گھر مکڑى کا گھر ہوتا ہے۔)

مذکورہ بالا آيات ميں مختلف مواقع پر يہ بتايا گيا ہے کہ اونٹ کى خلقت ميں ايک خصوصيت پائى جاتي ہے جو دوسرے حيوانوں ميں نہيں ہے۔ مچھر ميں ايک خصوصيت ہے جو ہاتھى ميں نہيں ہے۔ کوّا چيزوں کو چھپانے کے فن ميں ماہر ہو تا ہے اسى لئے کسى نے کوے کو اپنى مادہ سے جوڑا کھاتے نہيں ديکھا ہے۔ چيونٹى سياست کے فن سے واقف ہوتى ہے اور وہ کمزوري کے مواقع پر محاذ چھوڑ دينے ہى کو مناسب سمجھتى ہے۔ شہد کى مکھى پہاڑوں ميں رہ کر اپنے کام کو بہتر انجام دے سکتي ہے۔ ہاتھى ميں کوئى ايسا جزء بھى ہو تا ہے جو ايک کنکرى سے اسے ہلاک کر سکتا ہے۔ ابابيل ميں سنگبارى کى بہتر صلاحيت ہوتى ہے۔ مکڑي ظاہرى حسن کے اعتبار سے بہترين گھر بناتى ہے ليکن اس کا باطن بہت کمزور ہوتا ہے۔

قرآن مجيد نے ان آيتوں ميں عالم بشريت کو تنبيہ کى تھى کہ جانور کو حقير نہ سمجھيں اس کى قوت برداشت انسان سے زيادہ ہوتى ہے۔ چھوٹے افراد کو ذليل نہ سمجھو اس لےے کہ مچھر کى طاقت ہاتھى سے زيادہ ہوتي ہے۔ اپنى سياست اور اپنے مقابلے پر ناز نہ کرو کہ تم سے بہتر سياست جانور جانتے ہيں، اپنى صنعت پر نازاں نہ ہو کہ شہد کى مکھى جو شہد بنا ليتى ہے وہ تم نہيں بنا سکتے ہو، اپنے جثہ پر ناز نہ کرو کہ ہاتھى ابابيل سے ہلاک ہو سکتا ہے۔ اپنے دشمن کو کمزور نہ سمجھو کہ ابابيل ہاتھيوں کے لشکر کو تباہ کر سکتے ہيں۔ ليکن اسى کے ساتھ ساتھ علم الحيوان کے عظيم نکتوں سے بھى آگاہ کر ديا اوردر حقيقت يہى قرآن کا اعجاز بيان ہے کہ وہ ايک بات کہتے کہتے ضمناً دوسرے اہم نکتہ کى طرف اشارہ کر ديتاہے اور مخاطب کا ذہن ادھر متوجہ بھى نہيں ہونے پاتا، پھر جب بعد کے زمانے ميں وہ اس بات پر غور کرتا ہے تو اس کى عظمتوں کے سامنے سجدہ ريز ہو جاتاہے۔!

۶۔ تاريخ طبيعي:

”ما من دابّةٍ فى الارض ولا طائر يطير بجناحيہ على اٴممٍ امثالکم“ (زمين کا کوئى چلنے والا يا ہوا کا کوئى اڑنے والا ايسا نہيں ہے جس ميں تم جيسى قوميت اور اجتماعيت نہ پائى جاتى ہو

دنيائے فلسفہ حيوانات ميں اجتماعى شعور کى قائل ہو نہ ہو، وہ عقل و ادراک کو انسان سے مخصوص کہے يا عام ليکن قرآن مجيد کھلے الفاظ ميں اعلان کرتا ہے کہ اجتماعى شعور صرف انسان کا حصہ نہيں ہے بلکہ اس ميں جملہ حيوانات اور پرندے شامل ہيں سب کے مشترک مسائل ہيں اور سب کى ايک اجتماعى سياست ہے جس کے تحت ان مسائل کو حل کيا جاتا ہے۔ آپ صبح و شام ديکھا کرتے ہيں کہ اگر محلہ کے ايک کتے پر حملہ کر ديا جائے تو سارے کتے بيک آواز جواب ديتے ہيں۔ ايک جانور مر جائے تو سارے جانور اس کے غم ميں نوحہ و زارى کرتے ہيں۔ ايک بھيڑ آگے چلتى ہے تو ساري بھيڑيں اس کے پيچھے چلتى ہيں۔ ايک چيونٹى کسى مٹھاس کى طرف جاتى ہے توايک قطار لگ جاتى ہے، ايک پرندہ آشيانہ بناتا ہے تو سارے پرندے اسى مرکز کى طرف سمٹ آتے ہيں، اور اس طرح کے بے شمار واقعات مشاہدہ ميں آتے رہتے ہيں۔ خود قرآن مجيد نے چيونٹيوں کى اجتماعى دفاعي سياست کا تذکرہ کيا ہے اور امير المومنين على ابن ابى طالب (ع) نے اس کے زراعتى شعور کى طرف اشارہ فرمايا ہے۔

۷۔کيميا گري:

”ان لکم فى الانعام لعبرة“ (تمہارے لےے جانوروں ميں عبرت کے سامان مہيا ہيں۔)

ہرن کے نافے ميں مشک کيڑے کے منھ ميں ريشم اور مکھى کے منھ ميں مختلف پھولوں کے رس سے شہد کا تيار ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حيوانات ميں کيميا گرى کا شعور انسان سے زيادہ ہوتا ہے اور ان باتوں انسان کے لئے عبرت کا سامان مہيا ہے۔

۸۔ زراعت:

”کمثل حبة بربوةٍ اصابہا و ابل فآتت اکلہا ضعفين“ (اس کى مثال اس بلندى پر واقع باغ کى ہے جس پر تيز بارش ہو جائے اور اس کى پيداوار دگنى ہو جائے۔)

آيت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلندى کے باغ کو مناسب پانى مل جائے تو پيداوار کے زيادہ ہونے کے امکانات قوى ہيں اور عجب نہيں کہ اس کا راز يہ ہو کہ پست زمينوں تک بارش کا پاني پہونچتے پہونچتے اپنى اصلى صلاحيت کھو بيٹھتا ہے اور اس ميں زمينوں کے اثرات شامل ہو جاتے ہيں ليکن بلند زمينوں کو يہ اثرات براہ راست ملتے ہيںاس لےے پيداوار کے امکانات زيادہ رہتے ہيں۔

”قال تزرعون سبع سنين داباً فما حصدتم فزروہ فى سنبلہ“

جناب يوسف نے تعبير خواب بيان کرتے ہوئے فرمايا کہ سات برس تک مسلسل زراعت کرو اور جو کچھ پيداوار ہو اس کا زيادہ حصہ باليوں سميت محفوظ کر لو اس لےے کہ اس کے بعد سات سال بہت سخت آنے والے ہيں۔

اس واقعہ نے صاحبان زراعت کو اس امر کى طرف متوجہ کيا کہ غلہ باليوں سے الگ کرکے رکھا جائے تو اس کے خراب ہونے کے امکانات زيادہ ہوتے ہيں اور باليوں سميت رکھا جائے تواس کى زندگي بڑھ جاتى ہے۔ ظاہر ہے کہ يہ علم زراعت کا اہم ترين نکتہ ہے جس سے ہر دور ميں فائدہ اٹھايا جاسکتا ہے۔

۹۔ علم ولادت:

”يخلقکم فى بطون امہاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فى ظلماتٍ ثلٰث“ (اللہ تم کو شکم مادر ميں مسلسل بناتا رہتاہے اور يہ کام تين تاريکيوں ميں انجام پاتا ہے۔)

دور حاضر کى تحقيقات نے واضح کرديا ہے کہ انسانى تخليق کاسلسلہ نطفہ سے لے کر بشريت تک برابر جارى رہتا ہے اور يہ کام تين پردوں منباري، خوربون، لفائفى کے اندر ہوتا ہے جس کي وجہ سے نر اور مادہ کا امتياز مشکل ہو جاتا ہے۔

۱۰۔ صحت غذائي:

”کلوا واشربوا ولا تسرفوا“ (کھاوٴ پيو اور اسراف نہ کرو)

ان فقرات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے امراض کا زيادہ حصہ اس کے اسراف سے تعلق رکھتا ہے۔ اسراف کا مطلب مال کو بيکار پھينک دينا نہيں ہے بلکہ ضرورت سے زيادہ کھا لينا بھى اسراف کي حد ميں داخل ہے اور اسى لےے اس کا ذکر صرف مال کے بجائے کھانے پينے کے ساتھ ہوا ہے يعنى کھانے ميں بےجا زيادتى نہ کرو کہ موجب ہلاکت ہے۔

۱۱۔ حفظان صحت:

”حرمت عليکم الميتت والدم ولحم الخنزير“ (تمہارے اوپر مردار خون اور سور کے گوشت کو حرام کر ديا گيا اس لےے کہ ان چيزوں کے استعمال سے تمہارى صحت پر غلط اثر پڑتا ہے

مردار کا کھانا بے حسى پيدا کرتا ہے، خون کاپينا سنگ دلى کا باعث ہوتا ہے اور سور کا گوشت بے حيائى ايجاد کرتا ہے ، علاوہ اس کے کہ ان چيزوں کے جسم پر طبى اثرات بھى ہوتے ہيں جن کا اندازہ آج کے دور ميں دشوار نہيںہے۔ حيرت کى بات تو يہ ہے کہ مريض کو خون ديتے وقت ہزاروں قسم کى تحقيق کى جاتى ہے اور جانوروں کا خون پيتے وقت انسان ان تمام باتوں کو نظر انداز کرديتا ہے۔

۱۲۔ وراثت:

”يا اخت ہارون ماکان ابوک امرء سوء وما کانت امک بغيا“ (اى ہارون کى بہن مريم نہ تمہارا باپ کوئي بدکردار مرد تھا اور نہ تمہارى ماں بد کردار تھى آخر يہ تمہارے يہاں بچہ کيسے ہوگيا؟)

قرآن مجيد نے مخالفين کے اس فقرہ کى حکايت کرکے اس نکتہ کى وضاحت کردى کہ انسانى کردارپر ماں باپ کا اثرپڑتا ہے اور سيرت کى تشکيل ميںوراثت کا بہر حال ايک حصہ ہوتا ہے۔ اسى لےے جناب مريم نے بھى قانون کى ترديد نہيں کى بلکہ يہ ظاہر کر ديا کہ نہ مير اباپ خراب تھا نہ ميرى ماں برى تھى اور نہ ميں نے کوئي غلط اقدام کيا ہے بلکہ يہ سب قدرت کے کرشمے ہيں جس کا زندہ ثبوت خود يہ بچہ ہے تم اس سے سوال کر لو سب خود ہى معلوم ہو جائےگا۔

۱۳۔ماوراء الطبيعة:

”انّ اللہ يتوفى الانفس حين موتہا و التى لم تمت فى منامہا“ (اللہ ہى وقت موت روح کو لے ليتا ہے اور جس کى موت کا وقت نہيں ہو تا ہے اسے خواب کے بعد بيدار کر ديتا ہے۔)

آيت عالم طبيعت کے علاوہ ايک عالم نفس و روح کى طرف بھى اشارہ کرتى ہے جس کا فائدہ يہ ہے کہ نفس عالم خواب ميں جسم کو چھوڑ کر اپنے عالم کى سير کرتا ہے اگر اس کى موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ اپنے عالم ميں رہ جاتا ہے اور اگر حيات باقى رہتي ہے تو جسم سے پہلا جيسا رشتہ جوڑ ليتا ہے۔

۱۴۔ کہربائى طاقت:

”واذا البحار سجّرت“ (وہ وقت بھى آئے گا جب سمندر بھڑک اٹھےنگے)

آگ کے ساتھ پانى اور پانى کے ساتھ آگ کا تصور آج کي دنيا ميں بھى نا ممکن خيال کيا جاتا ہے چہ جائيکہ چودہ صدى قبل عرب کى جاہل دنيا۔۔ ليکن قرآن مجيد نے سمندر کے ساتھ بھڑکنے کا لفظ استعمال کرکے علمى دنيا کے ذہنوں کو ان کى کہربائى اور برقي طاقتوں کى طرف موڑ ديا جو آج پانى کے دل اندر موجود ہے۔ فرق يہ ہے کہ آج ان طاقتوں سے استفادہ کرنے کے لےے آلات و اسباب کى ضرورت ہوتى ہے اور کل قيامت کا دن وہ ہوگا جب يہ طاقتيں از خود سامنے آجائيں گى اور سارے سمندر بھڑک اٹھيں گے، واخرجت الارض اثقالہا زمين سارے خزانے اگل دے گى تو پانى بھى اپنى سارى طاقتوں کو سر عام لے آئے گا۔

۱۵۔خلاء:

”يا معشر الجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت و الارض فانفذوا لا تنفذون الا بسلطان“ (اے گروہ جن و انس! اگر تم ميں اطراف زمين و آسمان سے نکل جانے کى طاقت ہے تو نکل جاوٴ ليکن ياد رکھو کہ تم بغير غير معمولي طاقت کے نہيں نکل سکتے۔

آيت نے اقطار سماوات و ارض کى وسعتوں کا ذکر کرنے کے باوجود خلاء تک پہونچنے کے امکان پر روشنى ڈالى ہے اور ظاہر ہے کہ جب غير معمولي طاقت کے سہارے فضائے بسيط کى وسعتوں کو پار کرکے خلائے بسيط تک رسائى ممکن ہے تو چاند سورج تک پہونچنے ميں کيا دشواري ہے؟ البتہ بعض سادہ لوح عوام نے اس آيت سے چاند تک جانے کي محاليت پر استدلال کيا ہے ليکن انہيں يہ سوچنا چاہئے کہ چاند و سورج وغيرہ سماوات و ارض کى وسعتوں ميں شامل ہيں اور قرآن مجيد نے جس شئى کو تقريباً ناممکن بتايا ہے وہ ان وسعتوں کے باہر نکل جانا ہے نہ کہ ان وسعتوں ميں سير کرنا ۔ ورنہ اگر ايسا ہوتا تو کم از کم جنات کومخاطب نہ کيا جاتا جو اس فضا ميں ہميشہ ہى پرواز کيا کرتے ہيں۔

۱۶۔علم الافلاک:

”ثم استوى الى السماء و ہى دخان“ (خالق نے آسمان کى طرف توجہ کى جو اس وقت دھواں تھا۔)

آيت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آغاز خلقت افلاک دھويں سے ہوا ہے۔

”الم تروا کيف خلق اللہ سبع سمٰوٰت طباقا و جعل القمر فيہن نوراً و جعل الشمس سراجاً“ (کيا تم نے نہيں ديکھا کہ اللہ نے کس طرح ہفت طبق آسمان پيدا کردےے اور ان ميں چاند کو روشنى اور سورج کو چراغ بنا ديا۔)

يہ اشارہ ہے اس بات کى طرف کہ سورج کا نور ذاتى ہے اور چاند کا نور اس سے کسب کيا ہوا ہے۔

”اللہ الذى رفع السمٰوٰت بغير عمد ترونہا“ (خدا وہ جس نے آسمانوں کو بلند کرديا بغير کسى ايسے ستون کے جسے تم ديکھ سکو۔)

معلوم ہوتا کہ رفعت سماوات ميں کوئى غير مرئى ستون کام کر رہا ہے جسے آج کى زبان ميں قوت جذب و دفع سے تعبير کيا جاسکتا ہے۔

”ومن يرد ان يضلہ يجعل صدرہ حرجاً کانما يصّعّد فى السماء“ (خدا جس کو اس کى گمراہى ميں چھوڑ ديتا ہے اس کے سينے کو اتنا تنگ بنا ديتا ہے جيسے وہ آسمان ميں بلند ہو رہاہو۔)

آيت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آسمان کى بلندى تنگى نفس کا باعث ہے اس لےے کى فضاوٴں ميں ہوا کى مقدار زمين سے کہيں زيادہ کم ہے۔

”و من کل شئى خلقنا زوجين“ (ہم نے ہر شئى کا جوڑا اسى کے اندر سے پيدا کيا ہے۔)

معلوم ہوتا ہے کہ عالم وجود ميں وحدت اور اکائى صرف خالق ومالک کا حصہ ہے باقى ہر شئى کى ذات ميں دوئى اور زوجيت پائى جاتى ہے وہ دوئى ظاہرى اعتبار سے نر اور مادہ کى ہو يا حقيقى اعتبار سے کہربائى موجوںکي؟

ياد رہے کہ آيات بالا کے پيش کرنے سے يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ دور حاضر نے اپنى تحقيقى منزل کو جس حد تک پہونچايا ہے آيت اسى حد کى طرف اشارہ کر رہي ہے بلکہ مقصد صرف يہ ہے کہ ان آيات ميں علم کائنات کى طرف کھلے ہوئے اشارے پائے جاتے ہيں چاہے وہ علم وہى ہے جسے آج کى دنيا ميں پيش کيا جارہا ہے يا اس سے بالا تر کوئى منزل ہوجہاں تک آج کا علم نہيں پہونچ سکا ہے۔ اسى لےے ميں آيات کى تشريح ميں اشارہ کا لفظ استعمال کيا ہے اور اسے تحقيق و تعيين پر محمول نہيں کيا ہے۔

علوم قرآن کے تذکرہ کا ايک مقصد يہ بھى ہے کہ يہ علوم اگر بقائے نوع اور ارتقائے بشر کے ضرورى نہ ہوں تو کم سے کم نگاہ قرآن ميں جائز ضرور ہيں ورنہ قرآن مجيد ان حقائق کى طرف اشارہ کرکے انسانى ذہن کو تحقيق پر آمادہ نہ کرنا ليکن اسے کيا کيا جائے کہ صدر اول کے مسلمانوں نے اس نکتہ سے غفلت برتى اور اسکندرہ کا عظيم کتب خانہ جس سے علوم قرآنى کى تشريح وتفصيل کا کام ليا جاسکتا تھا نذر آتش کرديا گيا اور اس طرح امت اسلاميہ ديگر اقوام سے ہميشہ ہميشہ کے لےے پيچھے ہوگئي، اسکندريہ کے کتب خانہکا نذر آتش ہونا اتنا بڑا ہولناک کام نہيں تھا جتنا بڑا ہولناک امر اس کى پشت پر کام کرنے والا نظريہ تھا۔ کہا يہ گيا کہ ان کتابوں ميں اگر وہى سب کچھ ہے جو قرآن مجيد ميں ہے تو ہميں قرآن کے ہوتے ہوئے ان کتابوں کى ضرورت نہيں ہے اور اگر ان ميں قرآن کريم کے علاوہ کوئى شئى ہے تو امت قرآن کو ايسي کتابيں نذر آتش ہى کردينى چاہئےں جو قرآن سے ہٹ کر مطالب بيان کرتى ہوں۔ يہ ايسا خطرناک اور زہريلا نظريہ تھا جس نے ہر موڑ پر بشريت کو گمراہ کرنے کيا فريضہ انجام ديا ہے۔ برہمنوں نے رسالت کے انکار ميں يہى طرز استدلال اختيار کيا کہ اگر رسول وہى کچھ کہتا ہے جو عقل کا فيصلہ ہے تو عقل کے ہوتے ہوئے رسول کى ضرورت کيا ہے اور اگر رسول عقل کے خلاف بولتا ہے تو خلاف عقل بات کو تسليم کرنا انسانيت اور بشريت کے منافى ہے۔ يہوديوں اور عيسائيوں کا اسدلال بھي يہى تھا کہ اگر شريعت موسيٰ و عيسيٰ برحق ہے تو اس کے منسوخ ہونے کے کيا معني ہيں؟ اور اگر غلط ہے تو خدا نے ايسى شريعت اپنے انبياء کو دى کيوں؟ غرض بشريت کے ہو موڑ پر تباہي کا راز اسى غفلت ميںپوشيدہ نظر آتا ہے اور ميرا خيال تو يہ ہے کہ مسلمانوں کا يہ انداز فکر بھى اپنے ذہن کى پيداوار نہيں تھا بلکہ انہيں اقوام سے لےے ہوئے سبق کا نتيجہ تھا جنہوں نے ہر دور ميں بشريت کو گمراہ کيا ہے۔ اور اس گمراہى کا راز صرف يہ ہے کہ ہر قوم نے اصل مطلب کو ياد رکھا اور تفصيلات کو فراموش کرديا ورنہ برہمنوں کو يہ سوچنا چاہئے تھا کہ نبى کا کام عقل کى مخالفت نہيں ہوتا ہے بلکہ عقلہ کے احکام کى تفصيل ہوا کرتا ہے۔ عقل مالک کى اطاعت کا حکم ديتى ہے اور نبى طريقہ اطاعت کى تعليم ديتا ہے، عقل برائيوں سے الگ رہنے کا فيصلہ کرتى ہے اور نبى برائيوں کى تفصيل بيان کرتا ہے۔ اسى طرح يہوديت اور مسيحيت کے پرستاروں کو يہ سوچنا چاہئے تھا کہ کسى قانون کا حق ہونا اسکے ابدى ہونے کي دليل نہيں ہے بلکہ قانون کبھى کبھى قانون ايک محدود وقفہ کے لےے بنايا جاتا ہے اور اس وقفہ ميں انتہائى صالح اور صحت مند ہوتا ہے ليکن اس وقفہ کے گذر جانے کے بعدوہ بے کار اور غير صحت مند ہو جايا کرتا ہے ايسے قانون کے بارے ميں يہ نہيں کہا جاسکتا کہ چونکہ ايک وقفہ کے لےے صحت مند تھاليکن ہر دور ميں کارگر اور کارآمد ہونا چاہئے۔

مسلمانوں کے اس جاہلانہ طرز فکر کى خرابى کى طرف ايک محقق نے بڑے اچھے انداز سے اشارہ کيا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر صدر اول کے مسلمانوں کو علوم و معارف سے کوئى بھى را بطہ ہوتا تو وہ يہ سوچتے کہ اگر ان کتابوں ميں قرآن کے موافق بيانات ہيں تو انہيں دوسرى قوموں کے سامنے بطور استدلال پيش کيا جاسکتا ہے اور اگر قرآن کے مخالف نظريات ہيں تو قرآن کى روشني ميں ان کى ترديد کرکے ديگر اقوام پر قرآن کي برترى ثابت کى جاسکتى ہے۔ ليکن افسوس کہ اس دور کے مسلمانوں ميںنہ اثبات کى طاقت تھى اور نہ ترديد کي۔ نتيجہ يہ ہوا کہ حکمرانوں نے اپنى جہالت کا پردہ رکھنے کے لئے ايک عظيم علمى سرمايہ کو نذر آتش کرديا اور بشريت منزل معراج سے صديوں پيچھے ہٹ گئي۔

ياد رکھنے کى بات ہے کہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کے پيچھے کوئي مذہبى جذبہ کار فرما نہيں تھا بلکہ يہ در حقيقت اقتدار اور آمريت کے مظاہرے کا جذبہ تھا جو اس شکل ميں سامنے آ رہا تھا قرآن کى موافقت اور مخالفت تو صرف بعد کي پيداوار ہے جس کا سب سے اہم ثبوت امام محمد ابن اسماعيل بخاري اور امام مسلم کى وہ روايات ہيں جنہيں ان حضرات نے کتابت حديث کے ذيل ميں درج کيا ہے اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر اول کے مسلمانوں کا ايک بڑا طبقہ رسول اکرم کى حديثوں کو لکھنے اور جمع کرنے کا مخالف تھا۔ سوچنے کى بات ہے کہ جو مسلمان اپنے رسول کے اقوال جمع کرنے کو بدعت سمجھتا ہو وہ اسکندريہ کے کتب خانہ کے ساتھ کيا برتاوٴ کرے گا۔ بات يہيں تک محدود نہيں رہتى بلکہ ايک منزل آگے بڑھ جاتى ہے اور صاحب نظر انسان کو يہ سوچنا پڑتا ہے کہ اسکندريہ کى کتابوں ميں تو خير مخالفت قرآن کا امکان تھا اس لےے انہيں نظر آتش کرديا گيا۔ رسول اکرم کى حديثوں ميں کونسى خاص بات تھى جس کى وجہ سے اس کى کتابت حرام تھى کيا يہاں بھى مخالفت قرآن کے امکانات تھے؟ يا قرآنى اجمال کو حيث کے تفصيلات کى ضرورت نہ تھي؟ يا کوئى اور جذبہ کام کر رہاتھا جس کے اظہار کے سامنے تاريخ کے منھ پر لگام لگى ہوئى ہے اور مورخ کاناطقہ گنگ ہے، بات صرف يہى ہے کہ مسلمان اپنى جہالت کى پردہ پوشى کے لےے ايک پورى امت کو علوم دين و دنيوى سے محروم کر رہے تھے اور اس روشنى ميں يہ کہنا پڑے گا کہ آج کا مسلمان جس احساس کمترى کا شکار ہے اور آج کى امت اسلاميہ علمى ميدان ميں جس قدر پيچھے ہوگئى ہے اس کي ذمہ دارى دور حاضر سے زيادہ صدر اول کے ان مسلمانوں پر ہے جنہوں نے ممانعت علم و فن اور پابندى فکر و نظر کى بدعت کاسنگ بنياد رکھا تھا۔!

قرآن مجيد اور خواتين

قرآن مجيد اور خواتين

اسلام ميں خواتين کے موضوع پرغورکرنے سے پہلے اس نکتہ کوپيش نظررکھنا ضرورى ہے کہ اسلام نے ان افکارکا مظاہرہ اس وقت کيا ہے جب باپ اپنى بيٹى کو زندہ دفن کرديتاتھا اوراس جلاديت کو اپنے ليے باعث عزت وشرافت تصورکرتاتھا عورت دنياکے ہرسماج ميں انتہائى بے قيمت مخلوق تھي اولاد ماں کو باپ سے ترکہ ميں حاصل کيا کرتى تھى لوگ نہايت آزادى سے عورت کالين دين کياکرتے تھے اوراس کى رائے کى کوئى قيمت نہيں تھى حديہ ہے کہ يونان کے فلاسفہ اس نکتہ پربحث کررہے تھے کہ اسے انسانوں کي ايک قسم قراردياجائے يايہ ايک ايسي انسان نمامخلوق ہے جسے اس شکل وصورت ميں انسان کے انس والفت کے ليے پيداکيا گياہےے تاکہ وہ اس سے ہرقسم کا استفادہ کرسکے استفادہ کرسکے ورنہ اس کا انسانيت سے کوئى تعلق نہيں ہے۔

دورہ حاضرميں آزادى نسواں اورتساوى حقوق کانعرہ لگانے والے اوراسلام پرطرح طرح کے الزامات عائدکرنے والے اس حقيقت کوبھول جاتے ہيں کہ عورتوں کے بارے ميں اس طرح کى باعزت فکراوراس کے سلسلہ ميں حقوق کا تصوربھى اسلام ہي کادياہوا ہے ورنہ اس کى طرح کى باعزت فکر اور اس کے سلسلہ ميں حقوق کا تصور بھى اسلام ہى کا ديا ہوا ہے ورنہ اس نے ذلت کى انتہائى گہرائى سے نکال کر عزت کے اوج پر نہ پہونچا ديا ہوتا تو آج بھى کوئى اس کے بارے ميں اس انداز سے سوچنے والا نہ ہوتا يہوديت اور عيسائيت تو اسلام سے پہلے بھيان موضوعات پر بحث کياکرتے تھے انھيں اس وقت اس آزادي کاخيال کيوں نہيں آيا اورانھوں نے اس دورميں مساوى حقوق کانعرہ کيوں نہيں لگايا يہ آج عورت کى عظمت کاخيال کہاں سے آگيا اوراس کى ہمدردى کا اس قدرجذبہ کہاں سے آگيا ؟

درحقيقت يہ اسلام کے بارے ميں احسان فراموشى کے علاوہ کچھ نہيں ہے کہ جس نے تيراندازي سيکھائى اسى کونشانہ بناديا اورجس نے آزادى اورحقوق کانعرہ ديا اسى پرالزا مات عائدکرديے۔بات صرف يہ ہے کہ جب دنياکوآزادى کاخيال پيداہوا تواس نے يہ غورکرنا شروع کيا کہ آزادى کايہ مفھوم توہمارے ديرينہ مقاصدکے خلاف ہے آزادى کايہ تصورتو اس بات کى دعوت ديتا ہے کہ ہرمسئلہ ميں اس کى مرضي کاخيال رکھاجاے اوراس پرکسى طرح کادباؤنہ ڈالاجائے اوراس کے حقوق کاتقاضايہ ہے کہ اسے ميراث ميں حصہ دياجائے اسے جاگيردارى اورسرمايہ کاشريک تصورکياجائے اوريہ ہمارے تمام رکيک ، ذليل اورفرسودہ مقاصدکے منافى ہے لہذا انھوں نے اسى آزادى اورحق کے لفظ کوباقى رکھتے ہوئے مطلب برآرى کى نئى راہ نکالى اوريہ اعلان کرنا شروع کرديا کہ عورت کى آزادى کامطلب يہ ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے چلى جائے اوراس کے مساوى حقوق کامفھوم يہ ہے کہ وہ جتنے افراد سے چاہے رابطہ رکھے اس سے زيادہ دورحاضر کے مردوں کوعورتوں سے کوئى دلچسپى نہيں ہے يہ عورت کوکرسى اقتدارپربٹھاتے ہيںتواس کاکوئى نہ کوئى مقصدہوتا ہے اوراس کے برسراقتدار لانے ميں کسى نہ کسى صاحب قوت وجذبات کاہاتھ ہوتاہے ،اوريہى وجہ ہے کہ وہ قوموں کى سربراہ ہونے کے بعدبھي کسى نہ کسى سربراہ کى ہاں ميں ہاں ملاتى رہتي ہے اوراندرسے کسى نہ کسي احساس کمترى ميں مبتلارہتى ہے اسلام اسے صاحب اختيارديکھناچاہتاہے ليکن مردوں کآلہ کاربن کرنہيں ۔وہ اسے حق اختياروانتخاب ديناچاہتاہے ليکن اپني شخصيت ،حيثيت ،عزت اورکرامت کاخاتمہ کرنے کے بعدنہيں ۔اس کى نگاہ ميں اس طرح کااختيارمردوں کوحاصل نہيں ہے توعورتوں کاکہاں سے حاصل ہوجائے گاجب کہ اس کى عصمت وعفت کي قدروقيمت مردسے زيادہ ہے اوراس کى عفت جانے کے بعددوبارہ واپس نہيں آتى ہے جب کے مرد کے ساتھ ايسى کوئي پريشانى نہيں ہے۔

اسلام مردوں سے بھى يہ مطالبى کرتا ہے کہ جنس تسکين کے ليے قانون کادامن نہ چھوڑيں اورکوئي قدم ايسا نہ اٹھائيں جوان کى عزت وشرافت کے خلاف ہوچنانچہ ان تمام عورتوں کى نشاندہى کردى گئى جن جنسى تعلقات کا جوازنہيں ہے ان تمام صورتوں کى طرف اشارہ کرديا گيا جن سے سابقہ رشتہ مجروح ہوتا ہے اوران تمام تعلقات کوبھى واضح کرديا جن کے بعدپھردوسرا جنسى تعلق ممکن نہيں رہ جاتا ايسے مکمل اورمرتب نظام زندگى کے بارے ميں يہ سوچنا کہ اس نے يکطرفہ فيصلہ کياہے اورعورتوں کے حق ميں ناانصافى سے کام لياہے خود اس کے حق ميں ناانصافى بلکہ احسان فراموشى ہے ورنہ اس سے پہلے اسى کے سابقہ قوانين کے علاوہ کوئى اس صنف کا پرسان حال نہيں تھا اوردنياکى ہرقوم ميں اسے نشانہ ظلم بنالياگياتھا۔

اس مختصرتمہيدکے بعداسلام کے چند امتيازى نکات کى طرف اشارہ کياجارہاہے جہاں اس نے عورت کى مکمل شخصيت کاتعارف کرايا ہے اوراسے اس کاواقعى مقام دلواياہے ۔

عورت کى حيثيت :

ومن آياتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا اليھاوجعل بينکم مودةورحمة(روم۲۱)

اس کى نشانيوں ميں سے ايک يہ ہے کہ اس نے تمہاراجوڑاتمھيں ميں سے پيداکياہے تاکہ تمھيں اس سے سکون زندگى حاصل ہو اورپھرتمہارے درميان محبت اوررحمت کا جذبہ بھى قراردياہے ۔

آيت کريمہ ميں دو اہم باتوں کى طرف اشارہ کياگياہے:

۱۔ عورت عالم انسانيت ہى کاايک حصہ ہے اوراسے مردکاجوڑابناگياہے ۔اس کى حيثيت مرد سے کمترنہيں ہے۔

۲۔ عورت کامقصدوجودمرد کى خدمت نہيں ہے ،مردکاسکون زندگى ہے اورمردوعورت کے درميان طرفينى محبت اوررحمت ضروى ہے يہ يکطرفہ معاملہ نہيں ہے۔

ولھن مثل الذى عليھن بالمعروف وللرجال عليھن درجة بقرہ ۲۲۸)

عورتوں کے ليے ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان کے ذمہ فرائض ہيں امردوں کوان کے اوپرايک درجہ اورحاصل ہے ۔

يہ درجہ حاکميت مطلقہ کانہيں ہے بلکہ ذمہ دارى کاہےم کہ مردوں کى ساخت ميں يہ صلاحيت رکھى گئى ہے کہ وہ عورتوں کى ذمہ دارى سنبھال سکيں اوراسى بناانھيں نان ونفقہ اوراخراجات کاذمہ داربناگياہے ۔

فاستجاب لھم ربھم انى لااضيع عمل عامل منکم من ذکراوانثى بعضکم من بعض (آل عمران ۱۹۵)

تواللہ نے ان کى دعاکوقبول کرليا کہ ہم کسى عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہيں کرنا چاہتے چاہے وہ مردہوياعورت ،تم ميں بعض بعض سے ہے

يہاں پردونوں کے عمل کوبرابرکى حيثيت دى گئى ہے اورايک کودوسرے سے قراردياگياہے ۔

ولاتتمنوا مافضل اللہ بعضکم على بعض للرجال نصيب ممااکتسبوا وللنساء نصيب ممااکتسبن (نساء۳۲)

اورديکھو جوخدانے بعض کوبعض سے زيادہ دياہے اس کى تمنا نہ کرو مردوں کے ليے اس ميں سے حصہ ہے جوانھوں نے حاصل کرلياہے ۔

يہاں بھى دونوں کوايک طرح کى حيثيت دى گئي ہے اورہرايک کودوسرے کى فضيلت پرنظرلگانے سے روک دياگياہے ۔

وقل رب ارحمھماکماربيانى صغيرا (اسراء۲۳)

اوريہ کہوکہ پروردگاران دونوں (والدين )پراسى طرح رحمت نازل فرما جس طرح انھوں نے مجھے پالا ہے۔

اس آيت کريمہ ميں ماں باپ کوبرابرکى حيثيت دى گئى ہے اوردونوں کے ساتھ احسان بھى لازم قراردياگياہے اوردونوں کے حق ميں دعائے رحمت کى بھي تاکيد کى گئى ہے ۔

ياايھا الذين آمنوالايحل لکم ان ترثوا النساٴ کرھا ولاتعضلوھن لتذھبوا ببعض مآتيمتوھن الا ان ياتين بفاحشة مبينة وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسى ان تکرھواشيئاويجعل اللہ فيہ خيرا کثيرا (نساء۱۹)

ايمان والو ۔ تمھارے لٴے نہيںجائز ہے کہ عورت کے ز بردستي وارث بن جاٴواور نہ يہ حق ہے کہ انھيںعقد سے روک دو کہ اس طرح جو تم نے ان کو ديا ہے اس کا ايک حصہ خود لے لو جب تک وہ کوئى کھلم کھلا بد کارى نہ کريں، اور ان کے ساتھ مناسب برتاٴوکرو کہ اگر انھيںنا پسند کرتے ہو تو شايد تم کسى چيز کو نا پسند کرو اور خدا اس کے اندر خير کثيرقرارديدے،

واذا طلقتم النساٴ فبلغن اجلھن فامسکو ھن بمعروف اٴو سرحوھن بمعروف ولاتمسکوھن ضرارا لتعتقدو اومن يفعل ذالک فقد ظلم نفسہ (بقرہ ۱۳۲) اور جب عورتوںکو طلاق دو اور ان کى مدت عدر قريب آجائے تو چا ہو تو انھيں نيکى کے ساتھ روک لو ورنہ نيکى کے ساتھ آزاد کردو ،اور خبر دار نقصان پہونچانے کى غرض سے مت روکنا کہ اس طرح ظلم کروگے، اور جو ايسا کريگا وہ اپنے ہى نفس کا ظالم ہوگا ۔

مذکورہ دونوں آيات ميںمکمل آزادى کا اعلان کيا گيا ہے جہاںآزادى کا مقصد شرف اور شرافت کا تحفظ ہے اور جان ومال دونوں کے اعتبار سے صاحب اختيار ہونا ہے اور پھر يہ بھى واضح کرديا گيا ہے کہ ان پر ظلم در حقيقت ان پر ظلم نہيں ہے بلکہ اپنے ہى نفس پر ظلم ہے کہ ان کے لئے فقط دنيا خراب ہوتى ہے اور انسان اس سے اپنى عاقبت خراب کر ليتا ہے جو خرابى دنيا سے کہيں زيادہ بدتر بربادى ہے ۔

الرجال قوامون على النساء بما فضل اللہ بعضھم على بعض وبما انفقوا من اموالھم ۔( نساء ۳۴ ) مرد اور عورتوں کے نگراں ہيں اور اس لئے کہ انھوںنے اپنے اموال کو خرچ کيا ہے ۔

آيت کريمہ سے بالکل صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کا مقصد مرد کو حاکم مطلق بنا دينا نہيں ہى اور عورت سے اس کى آزادى حيات کا سلب کرلينا نھيںہے بلکہ اس نے مردکو بعض خصوصيات کى بناء پر کھر کا نگراں اور ذمہ دار بنا ديا ہے اور اسے عورت کے جان مال اور آبرو کا محافظ قراردےدياہے اس کے علاوہ اس مختصر حاکميت يا ذمہ دارى کو بھى مفت نہيں قرار ديا ہے بلکھ اس کے مقابلہ ميں اسے عورت کے تمام اخراجات ومصارف کا ذمہ دار بنا ديا ہے ۔ اور کھلى ہوئى بات ہے کہ جب دفتر کا افسر يا کار خانہ کا مالک صرف تنخواہ دينے کى بنا پر حاکميت کے بےشمار اختيارات حاصل کرليتا ہے اور اسے کوئى عالم انسانيت توہين نہيں قرار ديتا ہے اور دنيا کا ہر ملک اسى پاليسى پر عمل کرليتا ہے تو مرد زندگى کى تمامذمہ دارياں قبول کرنے کے بعد اگر عورت پر پابندى عائد کردے کہ اس کى اجازت کے بغير گھر سے باہر نہ جائے اور کےلئے ايسے وسائل سکون فراہم کردے کہ اسے باہر نہ جا نا پڑے اور دوسرے کى طرف ہوس آميز نگاہ سے نہ ديکھنا پڑے تو کونسى حيرت انگيز بات ہے يہ تو ايک طرح کا بالکل صاف اور سادہ انسانى معاملہ ہے جو ازدواج کى شکل ميں منظر عام پر آتا ہے کر مرد کمايا ہوا مال عورت کا ہوجاتا ہے اور عورت کى زندگى کاسرمايہ مرد کا ہوجاتا ہے مرد عورت کے ضروريات پوراکرنےکے لئے گھنٹوں محنت کرتا ہے اور باھر سے سرمايہ فراھم کرتا ہے اورعورت مرد کى تسکين کے ليے کوئى زحمت نہيں کرتى ہے بلکہ اس کاسرمايہٴ حيات اس کے وجود کے ساتھ ہے انصاف کيا جائے کہ اس قدرفطرى سرمايہ سے اس قدرمحنتى سرمايہ کاتبادلہ کياعورت کے حق ميں ظلم اورناانصافى کہا جاسکتاہے جب کہ مردکى تسکين ميں بھى عورت برابرکى حصہ دارہوتى ہے اوريہ جذبہ يک طرف نہيں ہوتاہے اورعورت کے مال صرف کرنے ميں مردکوکوئى حصہ نہيں ملتا ہے مردپريہ ذمہ دارى اس کے مردانہ خصوصيات اوراس کى فطرى صلاحيت کى بناپررکھى گئى ہے ورنہ يہ تبادلہ مردوں کے حق ميں ظلم ہوتاجاتااورانھيں يہ شکايت ہوتى کہ عورت نے ہميں کياسکون دياہے اوراس کے مقابلہ ميں ہم پرذمہ داريوں کاکس قدربوجھ لاد دياگياہے يہ خوداس بات کى واضح دليل ہے کہ يہ جنس اورمال کاسودانہيں ہے بلکہ صلاحيتوں کى بنياد پرتقسيم کارہے عورت جس قدرخدمت مردکے حق ميں کرسکتى ہے اس کاذمہ دارعورت کابنادياگياہے اورمرد جس قدرخدمت عورت کرسکتاہے اس کااسے ذمہ داربنادياگياہے اوريہ کوئى حاکميت ياجلاديت نہيں ہے کہ اسلام پرناانصافى کاالزام لگادياجائے اوراسے حقوق نسواں کاضائع کرنے وا لاقراردے دياجائے ۔

يہ ضرورہے کہ عالم اسلام ميں ايسے مرد بہرحال پائے جاتے ہيں جومزاجى طورپرظالم ،بے رحم اورجلاد ہيں اورانھيں جلادى کے ليے کوئى موقع نہيں ملتاہے تواس کى تسکين کاسامان گھرکے اندرفراہم کرتے ہيں اوراپنے ظلم کا نشانہ عورت کوبناتے ہيں کہ وہ صنف نازک ہونے کى بناپرمقابلہ کرنے کے قابل نہيں ہے اوراس پرظلم کرنے ميں ان خطرات کااندےشہ نہيں ہے جوکسى دوسرے مرد پرظلم کرنے ميں پےداہوتے ہيں اوراس کے بعداپنے ظلم کاجوازقرآن مجيد کے اس اعلان ميں تلاش کرتے ہيں اوران کاخيال يہ ہے کہ قوامےت نگرانى اور ذمہ دارى نہيں ہے بلکہ حاکمےت مطلقہ اورجلادےت ہے حالانکہ قرآن مجيدنے صاف صاف دو وجوہات کى طرف اشارہ کردياہے ايک مرد کى ذاتى خصوصےت ہے اورامتيازى کےفےت ہے اوراس کى طرف سے عورت کے اخراجات کي ذمہ دارى ہے اورکھلى ہوئى بات ہے کہ دونوں اسباب ميں نہ کسى طرح کى حاکمےت پائى جاتى ہے اورنہ جلادےت بلکہ شاےد بات اس کے برعکس نظرآے کہ مردميں فطرى امتيازتھا تواسے اس امتيازسے فائدہ اٹھانے کے بعد ايک ذمہ دارى کامرکزبنادياگيا اوراس طرح اس نے چارپےسے حاصل کےے توانھےں تنہاکھانے کے بجائے اس ميں عورت کا حصہ قراردياہے اوراب عورت وہ ما لکہ ہے جوگھرکے اندرچےن سے بےٹھى رہے اورمرد وہ خادم قوم ملت ہے جوصبح سے شام تلک اہل خانہ کے آذوقہ کى تلاش ميں حےران وسرگرداں رہے يہ درحقےقت عورت کى نسوانےت کى قےمت ہے جس کے مقابلہ ميں کسى دولت ،شہرت ،محنت اورحےثےت کى کوئي قدروقےمت نہيں ہے۔

ازدواجي زندگى :

انساني زندگى کااہم ترےن موڑہوتاہے جب دوانسان مختلف الصنف ہونے کے باوجود ايک دوسرے کى زندگى ميں مکمل طورسے دخےل ہوجاتے ہيں اورہرايک کو دوسرے کى ذمہ دارى اوراس کے جذبات کاپورے طورپرلحاظ رکھناپڑتاہے ۔اختلاف کى بناپرحالات اورفطرت کے تقاضے جداگانہ ہوتے ہيں ليکن ہرانسان کودوسرے کے جذبات کے پےش نظراپنے جذبات اوراحساسات کى مکمل قربانى دينى پڑتى ہے۔

قرآن مجيد نے انسان کواطمينان دلايا ہے کہ يہ کوئى خارجى رابطہ نہيں ہے جس کى وجہ سے اسے مسائل اورمشکلات کاسامناکرنا پڑے بلکہ يہ ايک فطرى معاملہ ہے جس کاانتطام خالق فطرت نے فطرت کے اندروديعت کردياہے اورانسان کواس کى طرف متوجہ بھى کرديا ہے چنانچہ ارشادہوتاہے :

ومن آياتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجالتسکنوا الےھا وجعل بےنکم مودة ورحمة ان فى ذلک لايات لقوم ےتکرون (روم)

اوراللہ کى نشانييوں ميں سے يہ بھى ہے کہ اس نے تمھارا جوڑا تمھےں ميں سے پےداکياہے تاکہ تمھےں سکون زندگى حاصل ہواورپھرتمہارے درميان مودت اوررحمت قراردى ہے اس ميں صاحبان فکرکے لئے بہت سى نشانياں پائى جاتى ہيں

بے شک اختلاف صنف ،اختلاف تربےت ،اختلاف حالات کے بعد مودت اوررحمت کاپےداہوجانا ايک علامت قدرت ورحمت پروردگارہے جس کے بے شمارشعبہ ہيں اورہرشعبہ ميں متعددنشانياں پائى جاتي ہيں آےت کرےمہ ميں يہ بھى واضح کردياگياہے کہ جوڑا اللہ نے پےداکياہے ےعنى يہ مکمل خارجى مسئلہ نہيں ہے بلکہ داخلى طورپرہرمردميں عورت کے لئے اورہرعورت ميںمردکے لئے صلاحےت رکھ دى گئى ہے تاکہ ايک دوسرے کواپناجوڑاسمجھ کربرداشت کرسکے اوراس سے نفرت اوربےزارى کا شکارنہ ہواوراس کے بعدرشتہ کے زےراثرمودت اوررحمت کابھى قانون بنادياتاکہ فطرى جذبات اورتقاضے پامال نہ ہونے پائےں يہ قدرت کاحکےمانہ نظام ہے جس سے علےحدگى انسان کے لئے بے شمارمشکلات پےداکرسکتى ہے چاہے انسان سياسى اعتبارسے اس علےحدگى پرمجبورہو ياجذباتى اعتبارسے قصدا مخالفت کرے اولياٴ اللہ بھى اپنے ازدواجى رشتوں سے پرےشان رہے ہيں تواس کارازيہي تھا کہ ان پرسياسى اورتبلےغى اعتبارسے يہ فرض تھا کہ اےسى خواتےن سے عقدکرےں اوران مشکلات کاسامناکرےں تاکہ دےن خدافروغ حاصل کرسکے اورکارتبلےغ انجام پاسکے فطرت اپناکام بہرحال کررہى تھى يہ اوربات ہے کہ وہ شرعا اےسے ازدواج پرمجبوراورمامورتھے کہ ان کاايک مستقل فرض ہوتا ہے کہ تبےلغ دےن کى راہ ميں زحمتےں برداشت کرےں کہ يہ راستہ پھولوں کى سےچ سے نہيں گذرتاہے بلکہ پرخاروادييوںسے ہوکرگذرتاہے ۔

اس کے بعد قرآن حکےم نے ازدواجى تعلقات کومزيداستواربنانے کے لئے فرےقےن کى نئى ذمہ دارييوں کااعلان کيااوريہ بات واضح کردياکہ صرف مودت اوررحمت سے بات تمام نہيں ہوجاتى ہے بلکہ کچھ اس کے خارجى تقاضے بھى ہيں جنھےں پوراکرناضروري ہے ورنہ قلبى مودت ورحمت بے ا ثرہوکررہ جائے گى اوراس کاکوئى نتيجہ حاصل نہ ہوگا ارشادہوتاہے :

ھن لباس لکم وانتم لباس لھن ۔(بقرہ ۱۸۷) عورتےں تمہارلئے لباس ہيں اورتم ان کے لئے لباس ہو

بعنى تمہارا خارجى اورمعاشرتى فرض يہ ہے کہ ان کے معاملات کى پردہ پوشى کرو اور اوران کے حالات کواسي طرح طشت ازبام نہ ہونے دوجس طرح لباس انسان کے عےوب کوواضح نہيں ہونے دےتاہے اس کے علاوہ تمہاراايک فرض يہ بھى ہے کہ انھےں سردوگرم زمانے سے بچاتے رہواوروہ تمہيں زمانے کى سردوگرم ہواؤں سے محفوظ رکھےں کہ يہ مختلف ہوائےں اورفضائے کسى بھى انسان کى زندگى کوخطرہ ميں ڈال سکتى ہيں اوراس کے جان اورآبروکوتباہ کرسکتى ہيں ۔د

دوسري طرف ارشادہوتاہے :

نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم انى شئتم (بقرہ)

تمہارى عورتےں تمہارى کھےتياں ہيں لہذا اپنى کھےتى ميں جب اورجس طرح چاہوآسکتے ہو (شرط يہ ہے کہ کھےتى بربادنہ ہونے پائے )

اس بلےغ فقرہ سے مختلف مسائل کاحل تلاش کياگياہے اولا بات کوےک طرفہ رکھا گياہے اورلباس کى طرح فرےقےن کوذمہ داربناگياہے بلکہ مرد کومخاطب کياگياہے کہ اس رخ سے سارى ذمہ دارى مردپرعائد ہوتي ہے اورکھےتى کى بقاکامکمل انتظام کاشتکارکے ذمہ ہے زراعت سے اس کاکوئى تعلق نہيں ہے جب کہ پردہ پوشى اورسردوگرم زمانے سے تحفظ دونوں کى ذمہ دارييوں ميں شامل تھا ۔

دوسرى طرف اس نکتہ کى بھى وضاحت کردى گئى ہے کہ عورت کے رابطہ اورتعلق ميں اس کى اس حےثےت کالحاظ بہرحال ضرورى ہے کہ وہ زراعت کى حےثےت رکھتى ہے اورزراعت کے بارے ميں کاشتکارکويہ اختيارتودياجاسکتاہے کہ فصل کے تقاضوں کودےکھ کرکھےت کوافتادہ چھوڑ دے اورزرعت نہ کرے ليکن يہ اختيارنہيں دياجاسکتاہے کہ اسے تباہ وبرباد کردے اورقبل ا زوقت ياناوقت زراعت شروع کردے کہ اسے زراعت نہيں کہتے ہيں بلکہ ہلاکت کہتے ہيں اورہلاکت کسى قےمت پرجائزنہيں قراردي جاسکتى ہے ۔

مختصريہ ہے کہ اسلام نے رشتہٴ ازدواج کوپہلى منزل پرفطرت کاتقاضاقرارديا ۔پھرداخلى طورپراس ميں محبت اوررحمت کااضافہ کيا اورظاہرى طورپرحفاظت اورپردہ پوشى کواس کاشرعى نتيجہ قرارديااورآخرميں استعمال کے تمام شرائط وقوانےن کى طرف اشارہ کردياتاکہ کسى بدعنوانى ،بے ربطى اوربے لطفى نہ پےداہونے پائے اورزندگى خوشگواراندازسے گذرجائے ۔

بدکارى :

ازدواجي رشتہ کے تحفظ کے لئے اسلام نے دوطرح کے انتظامات کےے ہيں : ايک طرف اس رشتہ کى ضرورت ،اہمےت اوراس کى ثانوى شکل کى طرف اشارہ کيااوردوسري طرف ان تمام راستوں پرپابندى عائدکردى جس کى بناپريہ رشتہ غےرضرورى ياغےراہم ہوجاتاہے اورمردکو عورت ياعورت کومردکي ضرورت نہيں رہ جاتى ہے ارشادہوتاہے :

ولاتقربواالزناانہ کان فاحشةوساء سبےلا (اسراء)

اورخبردارزناکے قرےب بھى نہ جانا کہ يہ کھلى ہوئى بے حيائي ہے اوربدترےن راستہ ہے

اس ارشادگرامى ميں زناکے دونوں مفاسدکى وضاحت کى گئى ہے کہ ازدواج کے ممکن ہوتے ہوے اوراس کے قانون کے رہتے ہوئے زنااوربدکارى ايک کھلى ہوئى بے حيائي ہے کہ يہ تعلق انھےں عورتوں سے قائم کياجائے جن سے عقد ہوسکتاہے توبھى قانون سے انحراف اورعفت سے کھےلنا ايک بے غےرتى ہے اوراگران عورتوں سے قائم کياجائے جن سے عقدممکن نہيں ہے اوران کاکوئى مقدس رشتہ پہلے سے موجودہے تويہ مزيدبے حيائي ہے کہ اس طرح اس رشتہ کى بھى توہےن ہوتى ہے اوراس کاتقدس بھى پامال ہوجاتاہے ۔

پھرمزيدوضاحت کے لئے ارشادہوتا ہے :

ان الذےن ےحبون ان تشےع الفاحشة فى الذےن آمنوا لھم عذاب الےم (نور)

جولوگ اس امرکودوست رکھتے ہيں کہ صاحبان اےمان کے درميان بدکارى اوربے حيائى کى اشاعت ہوان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

جس کامطلب يہ ہے کہ اسلام اس قسم کے جرائم کى عمومےت اوران کااشتہارد ونوں کوناپسندکرتا ہے کہ اس طرح ا ےک انسان کى عزت بھى خطرہ ميں پڑجاتى ہے اوردوسى طرف غےرمتعلق افرادميں اےسے جذبات بےدارہوجاتے ہيں اوران ميں جرائم کوآزمانے اوران کاتجربہ کرنے کاشوق پےداہونے لگتاہے جس کاواضح نتيجہ آج ہرنگاہ کے سامنے ہے کہ جب سے فلموں اورٹى وى کے اسکرےن کے ذرےعہ جنسى مسائل کى اشاعت شروع ہوگٴى ہے ہرقوم ميں بے حيائي ميں اضافہ ہوگياہے اورہرطرف اس کادور دورہ ہوگياہے اورہرشخص ميں ان تمام حرکات کاذوق اورشوق بےدارہوگياہے جن کامظاہرہ صبح وشام قوم کے سامنے کياجاتا ہے اوراس کابدترےن نتيجہ يہ ہواہے کہ مغربي معاشرہ ميں شاہراہ عام پروہ حرکتےں ظہورپذےرہورہى ہيں جنھےں نصف شب کے بعد فلموں کے ذرےعہ پےش کياجاتاہے اوراپنى دانست ميں اخلاقيات کامکمل لحاظ رکھاجاتاہے اورحالات اس امرکى نشاندہي کررہے ہيں کہ مستقبل اس سے زيادہ بدترےن اوربھيانک حالات ساتھ لے کرآرہاہ ہے اورانسانےت مزيد ذلت کے کسى گڑھے ميں گرنے والى ہے قرآن مجيد نے انھےں خطرات کے پےش نظرصاحبان اےمان کے درميان اس طرح کى اشاعت کوممنوع اورحرام قراردےدياتھا کہ ايک دوافراد کاانحراف سارے سماج پراثراندازنہ ہواورمعاشرہ تباہى اوربربادى کا شکارنہ ہو۔ رب کرےم ہرصاحب اےمان کواس بلاسے محفوظ رکھے ۔

تعددازدواج :

دورحاضرکاحساس ترےن موضوع تعددازدواج کاموضوع ہے جسے بنياد بناکرمغربى دنيانے عورتوں کواسلام کے خلاف خوب استعمال کياہے اورمسلمان عورتوں کوبھى يہ باورکرانے کى کوشش کى ہے کہ تعددازدواج کاقانون عورتوں کے ساتھ ناانصافى ہے اوران کى تحقےروتوہےن کابہترےن ذرےعہ ہے گوياعورت اپنے شوہرکى مکمل محبت کى بھى حقدارنہيں ہوسکتى ہے اوراسے شوہرکى آمدنى کى طرح اس کى محبت کي بھى مختلف حصوں پرتقسےم کرنا پڑے گااورآخرميں جس قدرحصہ اپني قسمت ميں لکھا ہوگااسى پراکتفاکرناپڑے گا۔

عورت کامزاج حساس ہوتاہے لہذا اس پراس طرح کي ہرتقرےرباقاعدہ طورپراثراندازہوسکتى ہے اوريہى وجہ ہے کہ مسلمان مفکرےن نے اسلام اورمغرب کوےکجاکرنے کے لئے اوراپنے زعم ناقص ميں اسلام کوبدنامى سے بچانے کے لئے طرح طرح کى تاوےلےں کى ہيں اورنتيجہ کے طورپريہ ظاہرکرناچاہاہے کہ اسلام نے يہ قانون صرف مردوں کي تسکےن قلب کے لئے بنادياہے ورنہ اس پرعمل کرنا ممکن نہيں ہے اور نہ اسلام يہ چاہتاہے کہ کوئى مسلمان اس قانون پرعمل کرے اوراس طرح عورتوں کے جذبات کومجروح بنائے ۔ ان بےچارے مفکرےن نے يہ سوچنے کى بھى زحمت نہيں کى ہے کہ اس طرح الفاظ قرآن کى توتاوےل کى جاسکتى ہے اورقرآن مجيد کومغرب نوازقانون ثابت کياجاسکتاہے ۔ ليکن اسلام کے سربراہوں اوربز رگوں کى سےرت کاکياہوگا جنھوں نے عملى طورپراس قانون پرعمل کيا ہے اورايک وقت ميں متعدد بےوياں رکھى ہيں جب کہ ان کے ظاہرى اقتصادى حالات بھى اےسے نہيں تھے جےسے حالات آجکل کے بے شمارمسلمانوں کوحاصل ہيں اوران کے کردارميں کسى قدرعدالت اورانصاف کييوں نہ فرض کرلياجائے عورت کى فطرت کاتبدےل ہونا ممکن نہيں ہے اوراسے يہ احساس بہرحال رہے گا کہ مےرے شوہرکى توجہ يامحبت مےرے علاوہ دوسرى خواتےن سے بھى متعلق ہے ۔

مسئلہ کے تفصےلات ميں جانے کے لئے بڑاوقت درکارہے اجمالى طورپرصرف يہ کہاجاسکتاہے کہ اسلام کے خلاف يہ محاذ ان لوگوں نے کھولا ہے جن کے يہاں عورت سے محبت کاکوئى شعبہ نہيں ہى ہے اوران کے نظام ميں شوہريازوجہ کى اپنائےت کاکوئى تصورہى نہيںہے يہ اوربات ہے کہ ان کي شادى کولومےرج سے تعبےرکياجاتا ہے ليکن يہ ا ندازشادى خود اس بات کى علامت ہے کہ انسان نے اپنى محبت کے مختلف مرکزبنائے ہيں اورآخرميں قافلہ جنس کوايک مرکزپرٹھہرادياہے اوريہى حالات ميں اس خالص محبت کاکوئى تصورہى نہيں ہوسکتاہے جس کااسلام سے مطالبہ کياجارہاہے ۔

اس کے علاوہ اسلام نے توبےوى کے علاوہ کسي عورت سے محبت کاجائزبھى نہيں رکھا ہے اوربےوييوں کي تعدادبھى محدود رکھى ہے اورعقد کے شرائط بھى رکھ دےئے ہيں مغربى معاشرہ ميں توآج بھى يہ قانون عام ہے کي ہرمردکى زوجہ ايک ہى ہوگى چاہے اس کى محبوبہ کسى قدرکييوں نہ ہوں سوال يہ پےداہوتاہے کہ يہ محبوبہ محبت کے علاوہ کسى اوررشتہ سے پےداہوتى ہے ؟ اوراگرمحبت ہى سے پےداہوتى ہے تويہ محبت کى تقسےم کے علاوہ کياکوئي اورشئے ہے ؟حقےقت امريہ ہے کہ ازدواج کى ذمہ دارييوں اورگھرےلوزندگى کے فرائض سے فرارکرنے کے لئے مغرب نے عياشى کانياراستہ نکلاہے اورعورت کوجنس سربازاربنادياہے ،اوريہ غرےب آج بھى خوش ہے کہ مغرب نے ہميں ہرطرح کااختيار دياہے اوراسلام نے پابندبنادياہے ۔

يہ صحيح ہے کہ اگرکسى بچہ کودرياکنارے موجوںکاتماشہ کرتے ہوئے چھلانگ لگانے کاارادہ کرے اورچھوڑدےجئے توےقےنا خوش ہوگا کہ آپ نے اس کى خواہش کااحترام کياہے اوراس کے جذبات پرپابندي عائدنہيں کى ہے چاہے اس کے بعدڈوب کرمرہى کےون نہ جائے ليکن اگراسے روک دياجائے گاتووہ ےقےنا ناراض ہوجائے گاچاہے اس ميں زندگى کارازہى کييوں نہ مضمرہو مغربى عورت کي صورت حال اس مسئلہ ميں بالکل اےسى ہى ہے کہ اسے آزادي کى خواہش ہے اوروہ ہرطرح اپنى آزادى کواستعمال کرنا چاہتي ہے اورکرتى ہے ۔ ليکن جب مختلف امراض ميں مبتلاہوکردنياکے لئے ناقابل توجہ ہوجاتى ہے اورکوئى اظہارمحبت کرنے والا نہيں ملتاہے تواسے اپنى آزادى کے نقصانات کااندازہ ہوتاہے ليکن اس وقت موقع ہاتھ سے نکل چکاہوتاہے اورانسان کے پاس کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئى چارہ کارنہيں ہوتاہے ۔

مسئلہ تعددازدواج پرسنجےدگى سے غورکياجائے تويہ ايک بنيادى مسئلہ ہے جودنياکے بے شمارمسائل کاحل ہے اورحےرت انگےزبات يہ ہے کہ دنياکى بڑھتي ہوئى آبادى اورغذا کى قلت کودےکھ کرقلت اولاد اورضبط تولےد کااحساس توتمام مفکرےن کے دل ميں پےداہوا ليکن عورتوں کى کثرت اورمردوں کى قلت سے پےداہونے والے مشکلات کوحل کرنے کاخيال کسي کے ذہن ميں نہيں آيا۔

دنياکى آبادى کے اعدادوشمارکے مطابق اگريہ بات صحيح ہے کہ عورتوں کى آبادى مردوں سے زيادہ ہے توايک بنيادى سوال يہ پےدا ہوتا ہے کہ اس مزيدآبادي کا انجام کياہوگا اس کے لئے ايک راستہ يہ ہے کہ اسے گھٹ گھٹ کرمرنے دياجائے اوراس کے جنسى جذبات کى تسکےن کا کوئي انتظام نہ کياجائے يہ کام جابرانہ سياست توکرسکتى ہے ليکن کرےمانہ شرےعت نہيں کرسکتى ہے اوردوسرا راستہ يہ ہے کہ اسے عياشوں کے لئے آزادکردياجائے اورکسى بھى اپنى جنسى تسکےن کااختياردے دياجائے يہ بات صرف قانون کى حدتک توتعددازدواج سے مختلف ہے ليکن عملى اعتبارسے تعدد ازدواج ہي کى دوسرى شکل ہے کہ ہرشخص کے پاس ايک عورت زوجہ کے نام سے ہوگى اورايک کسى اورنام سے ہوگى اوردونوں ميں سلوک ،برتاواورمحبت کافرق رہے گاکہ ايک اس کى محبت کامرکزبنے گى اورايک اس کاخواہش کا ۔انصاف سے غورکياجائے کہ يہ کيادوسري عورت کى توہےن نہيں ہے کہ اسے نسوانى احترام سے محروم کرکے صرف جنسى تسکين تک محدود کردياجائے اورکيا اس صورت ميں يہ امکان نہيں پاياجاتاہے اوراےسے تجربات سامنے نہيں ہيں کہ اضافى عورت ہى اصلى مرکزمحبت قرارپائے اورجسے مرکزبنايا تھا اس کى مرکزےت کاخاتمہ ہوجائے ۔

بعض لوگ نے اس مسئلہ کايہ حل نکالنے کي کوشش کى ہے کہ عورتوں کى آبادى ےقےنا زيادہ ہے ليکن جوعورتےں اقتصاد- - --ى طورپرمطمئن ہوتى ہيں انھےں شادي کى ضرورت نہيں ہوتى ہے اوراس طرح دونوں کااوسط برابرہوجاتاہے اورتعدد کى کوئى ضرورت نہيں رہ جاتى ہے ليکن يہ تصورانتہائى جاہلانہ اوراحمقانہ ہے اوريہ دےدہ ودانستہ چشم پوشي کے مرادف ہے کہ شوہرکى ضرورت صرف معاشى بنيادوں پرہوتى ہے اورجب معاشى حالات سازگارہوتے ہيں توشوہرکى ضرورت نہيں رہ جاتى ہے حالانکہ مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے پرےشان حال عورت توکسي وقت حالات ميں مبتلاہوکرشوہرکى ضرورت کے احساس سے غافل ہوسکتي ہے ليکن مطمئن عورت کے پاس تواس کے علاوہ کوئى دوسرا مسئلہ ہى نہيں ہے ، وہ اس بنياد ى مسئلہ سے کس طرح غافل ہوسکتى ہے ۔

اس مسئلہ کادوسرا رخ يہ بھى ہے کہ مردوں اورعورتوں کى آبادى کے اس تناسب سے انکارکردياجائے اوردونوں کوبرابرتسلےم کرلياجائے ليکن ايک مشکل بہرحال پےداہوگى کہ فسادات اورآفات ميں عام طورسے مردوں ہى کى آبادى ميں کمى پےداہوتى ہے اوراس طرح يہ تناسب ہروقت خطرہ ميں رہتاہے اورپھربعض مردوں ميں يہ استطاعت نہيں ہوتى ہے کہ وہ عورت کى زندگى اٹھاسکےں ،يہ اوربات ہے کہ خواہش ان کے دل ميں بھى پےداہوتى ہے اس لئے کہ جذبات معاشى حالات کي پےداوارنہے-ں ہوتے ہيں ۔ان کاسرچشمہ ان حالات سے بالکل الگ ہے اوران کى دنياکاقياس اس دنياپرنہيں کياجاسکتاہے ۔اےسى صورت ميں مسئلہ کاايک ہى حل رہ جاتاہے کہ جوصاحبان دولت وثروت واستطاعت ہيں انھےں مختلف شادييوں پرآمادہ کياجائے اورجوغرےب اورنادارہيں اورمستقل خرچ برداشت نہيں کرسکتے ہيں ان کے لئے غےرمستقل انتطام کياجائے اورسب کچھ قانون کے دائرہ کے اندرہو مغربى دنياکى طرح لاقانونيت کاشکارنہ ہوکہ دنيا کى ہرزبان ميں قانونى رشتہ کوازدواج اورشادى سے تعبےرکياجاتاہے اورغےرقانونى رشتہ کوعياشى کہاجاتاہے اسلام ہرمسئلہ کوانسانےت ،شرافت اورقانون کى روشنى ميں حل کرناچاہتاہے اورمغربى دنياقانون اورلاقانونےت ميں امتيازکى قائل نہيں ہے حےرت کي بات ہے جولوگ سارى دنياميں اپنى قانون پرستي کاڈھنڈورا پےٹتے ہيں وہ جنسى مسئلہ ميں اس قدربے حس ہوجاتے ہيں کہ يہاں کسى قانون کااحساس نہيں رہ جاتا ہے اورمختلف قسم کے ذلےل ترےن طرےقے بھى برداشت کرلےتے ہيں جواس بات کى علامت ہے کہ مغرب ايک جنس زدہ ماحول ہے جس نے انسانےت کااحترام ترک کردياہے اوروہ اپنى جنسےت ہى کواحترام انسانےت کانام دے کراپنے عےب کى پردہ پوشى کرنے کى کوشش کررہاہے ۔

بہرحال قرآن نے اس مسئلہ پراس طرح روشنى ڈالى ہے :

وان خفتم الا تقسطوا فى الےتامى فانکحوا ماطاب لکم من النساٴ مثنى اوثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدةاوماملکت اےمانکم ذلک ادنى الاتعدلوا (نساء۳)

اوراگرتمہيں يہ خوف ہے کہ ےتےموںکے بارے ميںانصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتےں تمھےںاچھى لگےںان سے عقد کرو دو تےن چار اور اگر خوف ہے کہ ان ميںبھى انصاف نہ کرسکوگے تو پھر ايک يا جو تمھارى کنےزےںہيں۔آےت شرےفہ سے صاف ظاھر ہوتا ہے کہ سماج کے ذھن ميں ايک تصور تھا کہ ےتےموںکے ساتھ عقد کرنے ميں اس سلوک کا تحفظ مشکل ہوجاتا ہے جس کا مطالعہ ان کے بارے ميںکيا گيا ہے تو قرآن نے صاف واضح کر ديا کہ اگر ےتےموںکے بارے ميںانصاف مشکل ہے اور اس کے ختم ہوجانے کا خوف اور خطرہ ہے تو غےرےتےم افراد ميںشادياں کرو اور اس مسٴلہ ميںتمھےںچار تک آزادى دےدى گئى ہے کہ اگر انصاف کرسکوتو چار تک عقد کرسکتے ہو ہاں اگر يہاںبھى انصاف بر قرار نہ رہنے خوف ہے تو پھر ايک ہى پر اکتفاء کرو اور باقى کنيزوى سى استفادہ کرو ۔

اس ميں کوئى شک نہيںہے کہ تعدد ازدواج ميںانصاف کى قےد ہوس رانى کے خاتمہ اور قانون کى بر ترى کى بہترےن علامت ہے اور اس طرح عورت کے وقار واحترام کو مکمل تحفظ ديا گيا ہے ليکن اس سلسلہ ميں يہ بات نظر انداز نہيںہونى چاہئيے کہ انصاف کا وہ تصور بالکل بے بنياد ہے جو ہمارے سماج ميں رائج ہو گيا ہے اور جس کے پےش نظر تعدد ازدواج کو صرف ايک نا قابل عمل فارمولاقرار دے ديا گيا ہے کہا يہ جاتا ہے کہ انصاف مکمل مساوات ہے اور مکمل مساوات بہر حال ممکن نہيںہے اسى لئے کہ نئى عورت کى بات اور ہوتى ہے ارور پرانى عورت کى بات اور ہوتى ہے اور دونوں کے ساتھ مساويانہ برتاؤ ممکن نہيں حالانکہ يہ تصور بھى ايک جاہلانا ہے انصاف کے معنى صرف يہ ہيں کہ ہر صاحب حق کو اسکا حق دےديا جائے جسے شرےعت کى زبان ميں واجبات کى پابندي اور حرام سے پرہےز سے تعبےر کيا جاتا ہے اس سے زيادہ انصاف کا کوئى مفہوم نہيں ہے بنا بر اےں اگر اسلام نے چار عو رتوں ميں ہر عو رت کى ايک رات قرار دى ہے تو اس سے زيادہ کا مطالبہ کرنا نا انصافى ہے گھر ميں رات نہ گذارنا نا انصافى نہيں ہے اسى طرح اگر اسلام نے فطرت کے خلاف نٴى اور پرانى زوجہ کو ےکساںقرارديا ہے تو ان کے درميان امتياز برتنا خلاف انصاف ہے ليکن اگر اسى نے فطرت کے تقاضوں کے پےش نظر شادى کے ابتدائى سات دن نٴى زوجہ کے لئے َََََمقرر کردےئے ہيں تو اس سلسہ ميں پرانى زوجہ کا مداخلت کرنا نا انصافى ہے ۔ شوہر کا امتيازى برتاوٴ کرنانا انصافى نہيں ہے اور حقےقت امر يہ ہے کہ سماج نے شوہر کے سارے اختيار سلب کر لئے ہيں لھذا اسکا ہر اقدام ظلم نظر آتا ہے ورنہ اےسے شوہر بھى ہوتے ہيں جو قومى يا سياسى ضرورت کى بناٴ پر مدتوں گھر کے اندر داخل نہيں ہوتے ہيں اور زوجہ اس بات پر خوش رہتى ہے کہ ميں بہت بڑے عہدےدار ياوزےرکي زوجہ ہوں اوراس وقت اسے اس بات کاخيال بھى آتاہے کہ مےراکوئى حق پامال ہورہاہے ليکن اسى زوجہ کواگريہ اطلاع ہوجائے کہ وہ دوسرى زوجہ کے گھررات گذارتا ہے توايک لمحہ کے لئے برداشت کرنے کوتيار نہ ہوگى جوصرف ايک جذباتى فےصلہ ہے اوراس کاانساني زندگى کے ضروريات سے کوئى تعلق نہيں ہے ضرورت کالحاظ رکھا جائے تواکثرحالات ميں اوراکثرانسانوں کے لئے متعددشادياں کرنا ضروريات ميں شامل ہے جس سے کوئى مردياعورت انکارنہيں کرسکتاہے يہ اوربات ہے کہ سماج سے دونوں مجبورہيں اورکبھى گھٹن کي زندگى گذارلےتے ہيں اورکبھى بے راہ روى کے راستہ پرچل پڑتے ہيں جسے ہرسماج برداشت کرلےتاہے اوراسے معذورقراردےدےتا ہے جب کہ قانون کى پابندى اوررعايت ميں معذورقرارنہيں ديتاہے ۔

اس سلسلہ ميں يہ بات بھى قابل توجہ ہے کہ اسلام نے تعددازدواج کوعدالت سے مشروط قراردياہے ليکن عدالت کواختيارى نہيں رکھاہے بلکہ ا سے ضرورى قراردياہے اورہرمسلمان سے مطالبہ کياہے کہ اپنى زندگى ميں عدالت سے کام لے اورکوئى کام خلاف عدالت نہ کرے عدالت کے معنى واجبات کي پابندى اورحرام سے پرہےز کے ہيں اوراس مسئلہ ميں کوئي انسان آزادنہيں ہے ،ہرانسان کے لئے واجبات کى پابندى بھي ضرورى ہے اورحرام سے پرہےزبھى ۔لہذاعدالت کوئي اضافى شرط نہيں ہے ۔اسلامى مزاج کاتقاضہ ہے کہ ہرمسلمان کوعادل ہونا چاہےے اورکسى مسلمان کوعدالت سے باہرنہيں ہوناچاہےے جس کالازمى اثريہ ہوگا کہ قانون تعددازدواج ہرسچے مسلمان کے لئے قابل عمل بلکہ بڑى حد تک واجب ا لعمل ہے کہ اسلام نے بنيادى مطالبہ دوياتےن ياچارکاکياہے اورايک عورت کواستثنائى صورت دى ہے جوصرف عدالت کے نہ ہونے کى صورت ميں ممکن ہے اوراگرمسلمان واقعي مسلمان ہے ےعنى عادل ہے تواس کے لئے قانون دوياتےن ياچار ہى کاہے اس کاقانون ايک کانہيں ہے جس کى مثالےں بزرگان مذہب کى زندگى ميں ہزاروں کى تعدادميں مل جائےں گى اورآج بھى رہبران دےن کى اکثرےت اس قانون پرعمل پےراہے اوراسے کسى طرف سے خلاف اخلاق وتہذےب ياخلاف قانون وشرےعت نہيں سمجھتى ہے اورنہ کوئى ان کے کردارپراعتراض کرنے کى ہمت کرتاہے زےرلب مسکراتے ضرورہيں کہ يہ اپنے سماج کے جاہلانہ نظام کى دےن ہے اورجہالت کاکم سے کم مظاہرہ اسى اندازسے ہوتاہے ۔

اسلام نے تعددازدواج کے ناممکن ہونے کى صورت ميں بھى کنےزوں کى اجازت دى ہے کہ اسے معلوم ہے کہ فطرى تقاضے صحيح طورپر ايک عورت سے پورے ہونے مشکل ہيں ،لہذا اگرناانصافى کاخطرہ ہے اوردامن عدالت کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کااندےشہ ہے تو انسان زوجہ کے ساتھ رابطہ کرسکتاہے اگرکسى سماج ميں کنےزوں کاوجود ہواوران سے رابطہ ممکن ہو۔ اس مسئلہ سے ايک سوال خوج بخود پےداہوتا ہے کہ اسلام نے اس احساس کاثبوت دےتے ہوئے کہ ايک عورت سے پرسکون زندگي گذارنا انتہائى دشوراگذارعمل ہے پہلے تعدد ازدواج کى اجازت دي اورپھراس کے ناممکن ہونے کى صورت ميں دوسرى زوجہ کي کمى کنےزسے پورى کى تواگرکسى سماج ميں کنےزوں کاوجود نہ ہويا اس قدرقلےل ہو کہ ہرشخص کى ضرورت کاانتظام نہ ہوسکے تواس کنےزکامتبادل کياہوگا اوراس ضرورت کااعلاج کس طرح ہوگاجس کى طرف قرآن مجيدنے ايک زوجہ کے ساتھ کنےزکے اضافہ سے اشارہ کياہے ۔

يہى وہ جگہ ہے جہاں سے متعہ کے مسئلہ کآغازہوتاہے يااورانسان يہ سوچنے پرمجبورہوتاہے کہ اگراسلام نے مکمل جنسى حيات کى تسکےن کاسامان کياہے اورکنےزوں کاسلسلہ موقوف کردياہے اورتعددازدواج ميں عدالت وانصاف کى شرط لگادى ہے تواسے دوسرا رستہ بہرحال کھولنا پڑے گاتاکہ انسان عياشي اوربدکارى سے محفوظ رہ سکے ،يہ اوربات ہے کہ ذہنى طورپرعياشي اوربدکارى کے دلدادہ افراد متعہ کوبھى عياشى کانام دےدےتے ہيں اوريہ متعہ کى مخالفت کى بناپرنہيںہے بلکہ عياشي کے جوازکى بناپرہے کہ جب اسلام ميں متعہ جائزہے اوروہ بھى ايک طرح کى عياشى ہے تومتعہ کى کياضرورت ہے سےدھے سےدھے عياشى ہى کييوںنہ کى جائے اوريہ درحقےقت متعہ کى دشوارييوںکا اعتراف ہے اوراس امرکا اقرارہے کہ متعہ عياشى نہيں ہے اس ميں قانون ،قاعدہ کى رعاےت ضرورى ہے اورعياشى ان تمام قوانےن سے آزاد اوربے پرواہ ہوتى ہے ۔

سرکاردوعالم ﷺکے اپنے دورحکومت ميں اورخلافتوں کے ابتدائى دورميں متعہ کارواج قرآن مجيدکے اسى قانون کى عملى تشرےح تھا جب کہ اس دورميں کنےزوں کاوجود تھا اوران سے استفادہ ممکن تھا تويہ فقہاء اسلام کوسوچناچاہےے کہ جب اس دورميں سرکاردوعالم نے حکم خداکے اتباع ميں متعہ کوحلال اوررائج کردياتھا توکنےزوں کے خاتمہ کے بعد اس قانون کوکس طرح حرام کياجاسکتاہے يہ توعياشى کاکھلاہوا راستہ ہوگاکہ مسلمان اس کے علاوہ کسى ر استہ نہ جائے گا اورمسلسل حرام کارى کرتارہے جےسا کہ امےرالمومنےن حضرت علي ﷼ نے فرماياتھا کہ اگرمتعہ حرام نہ کردياگياہوتا توبدنصےب اورشقى انسان کے علاوہ کوئى زنانہ کرتا گويآپ اس امرکى طرف اشارہ کررہے تھے کہ متعہ پرپابندي عائد کرنے والے نے متعہ کاراستہ بندنہيں کياہے بلکہ عياشي اوربدکارى کا راستہ کھولا ہے اوراس کاروزقيامت جوابدہ ہوناپڑے گا۔

اسلام اپنے قوانےن ميںانتہائى حکےمانہ روش اختيارکرتاہے اوراس سے انحراف کرنے والوں کوشقى اوربدبخت سے تعبےرکرتاہے ۔!