اصحاب القريہ
انطاكيہ كے رسول
''انطاكيہ ''شام كے علاقہ كا ايك قديم شہر ہے بعض كے قول كے مطابق يہ شہر مسيح عليہ السلام سے تين سو سال پہلے تعمير ہوا،يہ شہر قديم زمانے ميں دولت و ثروت اور علم و تجارت كے لحاظ سے مملكت روم كے تين بڑے شہروں ميں سے ايك شمار ہوتا تھا_
شہر انطاكيہ ،حلب سے ايك سو كلو ميٹر سے كچھ كم اور اسكندريہ سے تقريبا ساٹھ كلو ميٹر كے فاصلے پر واقع ہے _
يہ خليفہ ثانى كے زمانہ ميں ''ابو عبيدہ جراح'' كے ہاتھوں فتح ہوااور روميوں كے ہاتھوں سے نكل گيا اس ميں رہنے والے لوگ عيسائي تھے انھوں نے جزيہ دينا قبول كر ليا اور اپنے مذہب پر باقى رہ گئے _
پہلى عالمى جنگ كے بعد يہ شہر'' فرانسيسيوں'' نے اسے چھوڑنے كا فيصلہ كيا تو اس بات كے پيش نظر كہ ان كے شام سے نكلنے كے بعد اس ملك ميں ہونے والے فتنہ و فساد سے عيسائيوں كو كوئي گزند نہ پہنچے، انھوں نے اسے تركى كے حوالے كرديا_
انطاكيہ عيسائيوں كى نگاہ ميں اسى طرح دوسرا مذہبى شہر شمار ہوتا ہے جس طرح مسلمانوں كى نظر ميں مدينہ ہے
626
اور ان كا پہلا شہر بيت المقدس ہے جس سے حضرت عيسى عليہ السلام نے اپنى دعوت كى ابتداء كى او راس كے بعد حضرت عيسى (ع) پر ايمان لانے والوں ميں سے ايك گروہ نے انطاكيہ كى طرف ہجرت كى اور'' پولس'' اور'' برنابا'' شہروں كى طرف گئے، انھوں نے لوگوں كو اس دين كى طرف دعوت دى ،يہاں سے دين عيسوى نے وسعت حاصل كي، اسى بناء پرقرآن ميں اس شہر كے بارے ميں خصوصيت كے ساتھ گفتگو ہوئي ہے_
قرآن اس واقعہ كو بيان كرتے ہوئے فرماتا ہے:
''تم ان سے بستى والوں كى مثال بيان كرو كہ جس وقت خدا كے رسول ان كى طرف آئے_''(1)
قرآن اس اجمالى بيان كے بعد ان كے قصے كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہتا ہے: '' وہ وقت كہ جب ہم نے دو رسولوںكو ان كى طرف بھيجا ليكن انھوں نے ہمارے رسولوں كى تكذيب كى ،لہذا ہم نے ان دو كى تقويت كے لئے تيسرا رسول بھيجا ،ان تينوں نے كہا كہ ہم تمہارى طرف خدا كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں''_(2)
اس بارے ميں كہ يہ رسول كون تھے ،مفسرين كے درميان اختلا ف ہے ،بعض نے كہا ہے كہ ان دو كے نام'' شمعون ''اور ''يوحنا''تھے اور تيسرے كا نام ''پولس ''تھا اور بعض نے ان كے دوسرے نام ذكر كئے ہيں_
اس بارے ميں بھى مفسرين ميں اختلاف ہے كہ وہ خدا كے پيغمبراور رسول تھے يا حضرت مسيح عليہ السلام كے بھيجے ہوئے اور ان كے نمائند ے تھے (اور اگر خدا يہ فرماتا ہے كہ ہم نے انھيں بھيجا تواس كى وجہ يہ ہے كہ مسيح عليہ السلام كے بھيجے ہوئے بھى خدا ہى كے رسول ہيں )_يہ اختلافى مسئلہ ہے اگر چہ قران ظاہر پہلى تفسير كے موافق ہے اگر چہ اس نتيجہ ميں كہ جو قران لينا چاہتا ہے كوئي فرق نہيں پڑتا _
اب ہميں يہ ديكھنا ہے كہ اس گمراہ قوم نے ان رسولوں كى دعوت پر كيا رد عمل ظاہر كيا ؟قران كہتا ہے:
| (1)سورہ ى س آيت 13
|
627
انھوں نے بھى وہى بہانہ كياكہ جو بہت سے سركش كافروں نے گزشتہ خدائي پيغمبروں كے جواب ميں كيا تھا: ''انھوں نے كہا ،تم تو ہم ہى جيسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے كوئي چيز نازل نہيں كى ہے، تمہارے پاس جھوٹ كے سوا اور كچھ نہيں ہے _''(1)
اگر خدا كى طرف سے كوئي بھيجا ہوا ہى انا تھا تو كوئي مقرب فرشتہ ہونا چاہئے تھا ،نہ كہ ہم جيسا انسان اور اسى امر كو انھوں نے رسولوں كى تكذيب اور فرمان الہى كے نزول كے انكار كى دليل خيال كيا _
حالانكہ وہ خود بھى جانتے تھے كہ پورى تاريخ ميں سب رسول نسل ادم عليہ السلام ہى سے ہوئے ہيں ان ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام بھى تھے كہ جن كى رسالت سب مانتے تھے ،يقينا وہ انسان ہى تھے اس سے قطع نظر كيا انسانوں كى ضروريات ،مشكلات اور تكليفيں انسان كے علاوہ كوئي اور سمجھ سكتا ہے_؟(2)
بہر حال يہى پيغمبر اس گمراہ قوم كى شديد اور سخت مخالفت كے باوجود مايوس نہ ہوئے اور انھوں نے كمزورى نہ دكھائي اور ان كے جواب ميں ''كہا:ہمارا پروردگار جانتا ہے كہ يقينا ہم تمہارى طرف اس كے بھيجے ہوئے ہيں _''
''اور ہمارے ذمہ تو واضح اور اشكار طورپر ابلاغ رسالت كے علاوہ اور كوئي چيز نہيں ہے _''(وما علينا الا البلاغ المبين)
| (1)سورہ ى س آيت 15
|
_
628
مسلمہ طورپر انھوں نے صرف دعوى ہى نہيں كيا اور قسم پر ہى قناعت نہيں كي، بلكہ''بلاغ مبين ''ان كا ابلاغ ''بلاغ مبين ''كا مصداق نہ ہونا كيونكہ ''بلاغ مبين''تو اس طرح ہونا چاہئے كہ حقيقت سب تك پہنچ جائے اور بات يقينى اور محكم دلائل اور واضح معجزات كے سوا ممكن نہيں ہے _ بعض روايات ميں بھى ايا ہے كہ انھوں نے حضرت مسيح عليہ السلام كى طرح بعض ناقابل علاج بيماروںكو حكم خدا سے شفا بخشي_
ہم اپ كو سنگسار كر ديں گے
ليكن يہ دل كے اندھے واضح منطق اور معجزات كے سامنے نہ صرف جھكے نہيں بلكہ انھوں نے اپنى خشونت اور سختى ميں اضافہ كر ديا اور تكذيب كے مرحلے سے قدم اگے بڑھاتے ہوئے تہديد اور شدت كے مرحلے ميں داخل ہوگئے ''انھوں نے كہا:ہم تو تمہيں فال بد سمجھتے ہيں تمہارا وجود منحوس ہے اور تم ہمارے شہر كے بد بختى كا سبب ہو_''(1)
ممكن ہے كہ ان انبياء الہى كے انے كے ساتھ ہى ا س شہر كے لوگوں كى زندگى ميں ان كے گناہوں كے زير اثر يا خدائي تنبيہ كے طورپر بعض مشكلات پيش ائي ہوں ،جيسا كہ بعض مفسرين نے نقل بھى كيا ہے كہ ايك مدت تك بارش كا نزول منقطع رہا،ليكن انھوں نے نہ صرف يہ كہ كوئي عبرت حاصل نہيں كى بلكہ اس امر كو پيغمبروں كى دعوت كے ساتھ وابستہ كرديا_
پھر اس پر بس نہيں كى بلكہ كھلى دھمكيوں كے ساتھ اپنى قبيح نيتوں كو ظاہر كيا اور كہا:''اگر تم ان باتوں سے دستبردار نہ ہوئے تو ہم يقينى طورپر سنگسار كرديں گے اور ہمارى طرف سے تمہيں دردناك سزاملے گي''_(2) يہ وہ مقام تھا كہ خدا كے پيغمبر اپنى منہ بولتى منطق كے ساتھ ان كى فضول ہذيانى باتوں كا جواب دينے كے لئے تيار ہوگئے اور ''انھوں نے كہا : تمہارى بد بختى اور نحوست خود تمہارى ہى طرف سے ہے اور اگر تم ٹھيك طرح سے غور كرو تو اس حقيقت سے واقف ہو جاو گے ''_(3)
| (1)سورہ ى س آيت 18
|
No comments:
Post a Comment