اصحاب الجنہ سر سبز باغات كے مالك قران ميں پہلے زمانہ كے كچھ دولتمندوں كے بارے ميںجو ايك سر سبز و شاداب باغ كے مالك تھے اور اخر كار وہ خود سرى كى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ايك داستان بيان كرتا ہے ،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان اس زمانہ لوگوں ميں مشہور و معروف تھي،اور اسى بناء پر اس كو گواہى كے طورپر پيش كيا گيا ہے جيساكہ ارشاد ہوتا ہے:
''ہم نے انھيں ازمايا ،جيساكہ ہم نے باغ والوں كى ازمائشے كى تھى _''
يہ باغ كہاں تھا ،عظيم شہر صنعا ء كے قريب سر زمين يمن ميں ؟يا سر زمين حبشہ ميں ؟يا بنى اسرائيل كى سر زمين شام ميں ؟يا طائف ميں ؟اس بارے ميں اختلاف ہے ،ليكن مشہور يمن ہى ہے _
اس كا قصہ يہ ہے كہ يہ باغ ايك بوڑھے مر د مومن كى ملكيت تھا ،وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس ميں سے لے ليا كرتا اور باقى مستضعفين اور حاجت مندوں كو دے ديتا تھا ،ليكن جب اس نے دنيا سے انكھ بند كر لى (اور مر گيا )تو اس كے بيٹوں نے كہا ہم اس باغ كى پيداوار كے زيادہ مستحق ہيں ،چونكہ ہمارے عيال واطفال زيادہ ہيں ،لہذا ہم اپنے باپ كى طرح عمل نہيں كر سكتے ،اس طرح انھوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ ان تمام حاجت مندوں كو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم كرديں ،لہذا ان كى سر نوشت وہى ہوئي جو قران ميں بيان ہوئي 642
_
ارشاد ہوتاہے :''ہم نے انھيں ازمايا ،جب انھوں نے يہ قسم كھائي كہ باغ كے پھلوں كو صبح كے وقت حاجت مندوں كى نظريں بچا كر چنيں گے _''اور اس ميں كسى قسم كا استشناء نہ كريں گے اور حاجت مندوں كے لئے كوئي چيز بھى نہ رہنے ديں _''(1)
ان كا يہ ارادہ اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ يہ كام ضرورت كى بناپر نہيں تھا ،بلكہ يہ ان كے بخل اور ضعيف ايمان كى وجہ سے تھاكيونكہ انسان چاہے كتناہى ضرورت مند كيوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو كثيرپيداو ار والے باغ ميں سے كچھ نہ كچھ حصہ حاجت مندوں كے لئے مخصوص كرسكتاہے _
اس كے بعد اسى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہتا ہے :
''رات كے وقت جب كہ وہ سوئے ہوئے تھے تيرے پروردگار كا ايك گھيرلينے والا عذاب ان كے سارے باغ پر نازل ہوگيا ''(2)
ايك جلانے والى اگ اور مرگ بار بجلى اس طرح سے اس كے اوپر مسلط ہوئي كہ :''وہ سر سبز و شاداب باغ رات كى مانند سياہ اور تاريك ہوگيا _(3)اور مٹھى بھر راكھ كے سوا كچھ بھى باقى نہ بچا_
بہر حال باغ كے مالكوں نے اس گمان سے كہ يہ پھلوںسے لدے درخت اب تيار ہيں كہ ان كے پھل توڑ لئے جائيں :''صبح ہوتے ہى ايك دوسرے كو پكارا_انھوں نے كہا:''اگر تم باغ كے پھلوں كو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے كھيت اور باغ كى طرف چلو_''(4)
''اسى طرح سے وہ اپنے باغ كى طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ايك دوسرے سے باتيں كر رہے تھے _كہ اس بات كا خيال ركھو كہ ايك بھى فقير تمہارے پاس نہ انے پائے _''(5) (1)سورہ قلم ايت 17_18
(2)سورہ قلم ايت 19
(3)سورہ قلم ايت 20
(4)سورہ قلم ايت 21
(5)سورہ قلم ايت 21و22 | 643
اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتيں كر رہے تھے كہ ان كى اواز كسى دوسرے كے كانوں تك نہ پہنچ جائے ،كہيں ايسا نہ ہو كہ كوئي فقير خبردار ہو جائے اور بچے كچے پھل چننے كے لئے يا اپنا پيٹ بھر نے كے لئے تھوڑا سا پھل لينے ان كے پاس اجائے _
ايسا دكھائي ديتا ہے كہ ان كے باپ كے سابقہ نيك اعمال كى بناء پر فقراء كا ايك گروہ ايسے دنوںكے انتظار ميں رہتا تھا كہ باغ كے پھل توڑنے كا وقت شروع ہوتو اس ميں سے كچھ حصہ انھيں بھى ملے ،اسى لئے يہ بخيل اور ناخلف بيٹے اس طرح سے مخفى طورپر چلے كہ كسى كو يہ احتمال نہ ہو كہ اس قسم كا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء كو اس كى خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چكا ہو _
''اسى طرح سے وہ صبح سويرے اپنے باغ اور كھيت ميںجانے كے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء كو روكنے كے لئے پورى قوت اور پختہ ارادے كے ساتھ چل پڑے _''(1 سرسبز باغ كے مالكوں كا دردناك انجام وہ باغ والے اس اميد پر كہ باغ كى فراواں پيدا وار كو چنيں اور مساكين كى نظريں بچاكر اسے جمع كر ليں اور يہ سب كچھ اپنے لئے خاص كر ليں ،يہاں تك كہ خدا كى نعمت كے اس وسيع دسترخوان پر ايك بھى فقير نہ بيٹھے ،يوں صبح سويرے چل پڑے ليكن وہ اس بات سے بے خبر تھے كہ رات كے وقت جب كہ وہ پڑے سو رہے تھے ايك مرگبار صاعقہ نے باغ كو ايك مٹھى بھر خاكستر ميں تبديل كر ديا ہے _
قران كہتا ہے : ''جب انھوں نے اپنے باغ كو ديكھاتو اس كا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا كہ انھوں نے كہا يہ ہمارا باغ نہيں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہيں ،''(2)
پھر انھوں نے مزيد كہا :''بلكہ ہم توحقيقت ميں محروم ہيں _''(3)
ہم چاہتے تھے كہ مساكين اور ضرور ت مندوںكو محروم كريں ليكن ہم تو خود سب سے زيادہ محروم ہو (1)سورہ قلم ايت 23و24
(2)سورہ قلم ايت 26
(3)سورہ قلم ايت 27 | |
No comments:
Post a Comment