Wednesday 15 April 2009

حفظ قرآن کی منزلت

حفظ قرآن کی منزلت

جو شخص اسلام کو قبول کرے گا ،اوراسکافرماں بردارھو گا ، قرآن کی تلاوت کرے گااور اسے حفظ کرے ھر سال بیت المال سے دو سو دینار عطاکیاجائے گا اور اگر دنیا میں نہ مل سکے تو روز قیامت ۔ کہ جس دن اسے زیادہ ضرورت ھو گی اس کو دیا جائے گا ۔ (حضرت علی علیہ السلام

اھمیت
خود قرآن کی اپنی خصوصیات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس کے بارے میں مسلسل سفارشیں سبب بنیں کہ یہ کتاب لوگوں کی پوری زندگی میں رچ بس گئی ۔ اس زمانے کے مومنوں کے پاس سوائے قرآن کے کوئی دوسری کتاب نہ تھی اور تلاوت کرناحفظ کرنا اور پڑھانا فقط اسی سے مخصوص تھا ۔
حفظ قرآن ، مسلمانوں کے درمیان ھمیشہ ایک رسم اور اھم عبادت کے عنوان سے رائج تھا یھاںتک کہ چھپائی کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد بھی حفظ قرآن نے اپنے مقام کو محفوظ رکھا ۔ یہ کام قرآن اور اس کے حفظ کی عظیم منزلت کے زیر سایہ تحقق پذیر ھوا ، ایسی منزلت کہ جس کو مندرجہ ذیل مختلف زاویوں سے مورد تحقیق قرار دیا جا سکتا ھے ۔

قرآن
قرآن نے کتاب خدا کو یاد رکھنے کے بارے میں صرف ایک جگہ بات کی ھے ۔ جھاں پر فرماتا ھےو اذکرن ما یتلی فی بیوتکن من اٰیات اللہ و الحکمة ان اللہ کان لطیفا خبیرا ان حکمت اور آیات الٰھی جن کی تمھارے گھر وں میں تلاوت کی جاتی ھے کو یاد رکھو ( جان لو کہ ) بیشک خدا مھربان اور ھر چیز سے آگاہ ھے
ذکر“ اس آیت میں ”نسیان “ (فراموشی ) کے مقابلے میں حفظ اور یاد رکھنے کے معنی میں ھے۔ خدا وند متعال نے اس آیت میں اور اس سے قبل کی آیات میں ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کچھ وظائف معین کئے ھیں جنمیںسے آخری وظیفہ اس آیت میں بیان ھوا ھے ۔
قرآن ان کو سفارش کرتا ھے کہ جو بھی کلام الٰھی تمھارے گھروں میں نازل ھوتا ھے اس کو یاد رکھو اور ان کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پھناؤ ۔
یہ آیت در واقع حفظ قرآن کی قدر و قیمت کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتی ھے ۔
آیت کی مخاطبین ، ازواج رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھیں لیکن چونکہ شریعت کی اساس ، حفظ قرآن و حفظ سنت پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھے لھذا آیت کا مخاطب در واقع کوئی خاص گروہ نھیں ھے بلکہ تمام مسلمان ھیں جو قرآن و سنت سے تمسک اور اس کے حفظ میں شریک ھیں ۔

احادیث
معصومین علیھم السلام کے اس بارے میں بھت زیادہ اقوال ھیں اور مختلف موقعوں پر اپنے مخاطبین کے ایمان و آگاھی کے اعتبار سے اس کی طرف اشارہ کیاگیا ھے ۔
دینی پیشواؤں کے اقوال بتاتے ھیں کہ حفظ قرآن اتنا اھمیت رکھتا ھے کہ بھت سے معنوی مقامات بغیر اس کی مدد کے ھاتھنھیں آسکتے ۔

ان میں سے بعض مقامات مندرجہ ذیل ھیں

۱۔فرشتوں کے ساتھ ھمنشینی
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں : وہ حافظ قرآن جوقرآن پر عمل کرے ،پیغام رسان اور نیک کردار فرشتوں کا ھم نشین ھو گا کچھ لوگوں نے اس روایت کو آیھٴ ” بایدی سفرة “ کے ذیل میں ذکر کیا ھے اور معتقد ھیں کہ ”سفرة“ ( سفراء ) سے مراد حفاظ ، قراء ، کتّاب قرآن ( قرآن لکھنے والے ) اور وہ دانشور حضرات ھیں جو ھر زمانے میں آیا ت الٰھی کو شیطانوں کی دستکاری سے محفوظ رکھتے ھیں یہ تفسیر صحیح نھیں معلوم ھوتی کیونکہ خدا وندعالم فرما رھا ھے کہ : آیات الٰھی نیک کردار پیغام رسانوں کے سپرد کی گئی ھیں ، اور روایت سے پتا چلتا ھے کہ حافظ حضرات سفراء الٰھی کے ھم نشین ھیں ۔ نہ خود سفراء ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ، حافظین و مفسرین کی سفراء کے ساتھ ھمراھی اور ھم نشینی پر گواہ ھے بے شک جب دانشور حضرات اور حافظ حضرات ، فرشتوں اور حاملین وحی جیسا کام انجام دیں گے تو ان کے ساتھ ایک مقام و مرتبے میں جگہ پائیں گے ۔

۲۔ بزرگان امت کی لیسٹ میں جگہ پانا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں ” میری امت کے شرفاء ، قاری ، حافظ اور شب زندہ دار لوگ ھیں “ ۔

۳۔ عذاب الٰھی سے محفوظ رھنا
امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ھیں :” قرآن کی تلاوت کرو اور اسے یاد رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دل کو عذاب نھیں کرے گا جس میں قرآن ھو “۔
قرآن حفظ کرنا اور اس کے ساتھ مانوس رھنا ، انسان کو وحی الٰھی پر عمل کرنے اور معارف قرآن سے بھرہ مند ھونے کی راہ پر لگادیتا ھے ، جس کے نتیجے میں وہ جھنم کی آگ سے محفوظ رھتا ھے ۔

۴۔ دل کا آباد ھونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں : ” جس شخص کے اندر قرآن کا کچھ حصہ ( کوئی سورہ یا آیت ) بھی نہ ھو وہ ویران گھر کی طرح ھے ۔
جس طرح ویران گھر لوگوں کی نظر میں کوئی قدر و قیمت نھیں رکھتا اسی طرح آیات الٰھی سے خالی دل ، خدا کے نزدیک کوئی وقعت نھیں رکھتا ۔
شرافت کی بنیاد اور انسانوں کی قدر و قیمت ، تقویٰ اور قرآن کے ساتھ انس رکھنا ھے ۔ روح جسم کی طرح غذا کی محتاج ھے اور اس کی غذا قرآن اور معارف الٰھی ھیں وہ دل جو کلام خدا سے بے بھرہ ھو ، مردہ اور ویران گھر کی طرح ھے ۔

۵۔ مغفرت الٰھی کا شامل حال ھونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص قرآن کو حفظ سے پڑھے اور خیال کرے کہ خدا اس کو نھیں بخشے گا وہ ان لوگوں کی فھرست میں ھو گا جو آیات الٰھی کا مذاق اڑاتے ھیں “۔

۶۔ دو گنا اجر
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ” جو شخص قرآن سیکھنے کی کوشش کرے اور حافظے کی کمزوری کی وجہ سے بہ مشکل حفظ کر سکے اس کے لئے دگنا اجر ھے ۔ ( ایک اجر ،حفظ کا دوسرا سختی کو تحمل کرنے کا )

۷۔ شفاعت کی قبولی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اتنا قرآن پڑھے کہ اسے یاد ھو جائے خدا اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کی شفاعت اس کی خاندان کے ایسے دس افراد کے سلسلے میں قبول کرے گا جن پر جھنم واجب ھو گی ۔
قرآن مومنوں کے حق میں شفاعت کر ے گا اور ان کو جنت تک لے جائے گا ، حافظ اور حامل قرآن بھی قرآن کے مانند ، شفاعت کی طاقت رکھتا ھے ۔
البتہ حافظو ں کی شفاعت ، قرآن کی شفاعت سے الگ ھے ۔
قران کی شفاعت عمومی ھے لیکن حافظوں کی محدود ھے ، صرف اپنے خاندان کی اور وہ بھی فقط ھاتھوں کی انگلیوں کی تعداد کے برابر قبول ھو گی ۔

۸۔ جنت کا سب سے اونچا مقام ( آخری درجہ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :” جنت کے درجات اتنے ھیں جتنی قرآن کی آیتیں ، جب اھل قرآن جنت میں داخل ھوگا اس سے کھا جائے گا :پڑھو اور اوپر جاؤ کہ ھر آیت کا ایک درجہ ھے پس حافظ قرآن سے اونچا درجھ، کوئی نھیں ھے ۔

۹۔ انبیاء جیسا ثواب پانا
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :” بلا شبہ ، خدا کے نزدیک بھترین بندے بعد از انبیاء علماء ھیں اس کے بعد قرآن کے قاری اور حافظ ، یہ لوگ انبیاء کی طرح دنیا سے جائیں گے انبیاء کے ساتھ قبور سے نکلیں گے انھیں کے ساتھ پل صراط سے گزریں گے اور انھیں جیسا ثواب پائیں گے

No comments:

Post a Comment