Wednesday, 15 April 2009

قارون ، بنى اسرائيل كا مغرور اور مالدار شخص

قارون ، بنى اسرائيل كا مغرور
اور
مالدار شخص

يہاں پر گفتگو بنى اسرائيل كے ايك اور مسئلے اور الجھن كى جاتى ہے مسئلہ يہ ہے كہ ان ميں ايك سركش سرمايہ دار تھا اس كا نام قارون تھا جوغروروسركشى ميں مست كردينے والى دولت كا مظہر تھا ،اصولى طور پر حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى زندگى ميں تين متجاوز طاغوتى طاقتوں كے خلاف جہاد كيا ايك فرعون تھا جو حكومت واقتدار كا مظہر تھا، دوسرا قارودن تھا جو ثروت ودولت كا مظہر تھا اورتيسرا سامرى تھا كہ جو مكرو فريب كا مظہر تھا اگرچہ حضرت موسى كا سب سے بڑا معركہ حكومت كے خلاف تھا ليكن دوسرے معركہ بھى اہم تھے اور وہ بھى عظيم تربيتى نكات كے حامل ہيں _
مشہور ہے كہ قاردن حضرت موسى عليہ السلام كا قريبى رشتہ دار تھا (چچا، يا چچازادبھائي يا خالہ زادبھائي ) اس نے توريت كا خوب مطالعہ كيا تھا پہلے وہ مومنين كى صف ميں تھا ليكن دولت كا گھمنڈ اسے كفر كى آغوش ميں لے گيا اور اسے زمين ميں غرق كرديا اس غرورنے اسے پيغمبر خدا كے خلاف جنگ پر آمادہ كيا اور اس كى موت سب كے لئے باعث عبرت بن گئي_ارشاد ہوتا ہے :
''قاورن موسى كى قوم ميں سے تھا ليكن اس نے ان پر ظلم كيا ''_(1)
(1) سورہ قصص آيت76



434
اس ظلم كا سبب يہ تھا كہ اس نے بہت سى دولت كمالى تھى اور چونكہ وہ كم ظرف تھا اور ايمان مضبوط نہ تھا اس لئے فراواں دولت نے اسے بہكاديا اور اسے انحراف واستكبار كى طرف لے گئي _
قرآن كہتا ہے :'' ہم نے اسے مال ودولت كے اتنے خزانے ديے كہ انہيں اٹھانا ايك طاقتور گروہ كے لئے بھى مشكل تھا ''_(1)
قارون كے پاس اس قدر سونا چاندى اور قميتى اموال تھے كہ ان كے صندوقوں كو طاقتور لوگوں كا ايك گروہ بڑى مشكل سے ايك جگہ سے دوسرى جگہ لے كر جاتا تھا _''

چار نصيحتيں

آيئےس بحث سے آگے بڑھيں اور ديكھيںكہ بنى اسرائيل نے قارون سے كيا كہا: قرآن كہتا ہے: ''اس وقت كو ياد كرو جب اس كى قوم نے اس سے كہا : تم ميں ايسى خوشى نہيں ہونى چاہئے جس ميں تكبر اور غفلت ہوكيونكہ خدا غرور ميں ڈوبے ہوئے خوشحال افراد كو پند و نصيحت نہيں كرتا ''_(2)
اس كے بعد چار اور قيمتي،سر نوشت ساز اور تربيتى نصيحتيں كرتے ہيں اس طرح كل پانچ ہوگئيں _
پہلے كہتے ہيں : ''اللہ نے جو كچھ تجھے ديا ہے اس سے دار آخرت حاصل كر''_ (3)
يہ اس طرف اشارہ ہے كہ بعض كج فہم افراد كے خيال كے برخلاف مال ودولت كوئي برى چيز نہيں ہے اہم بات يہ ہے كہ وہ كس راستے پر صرف ہورہا ہے اگر اس كے ذريعے دار آخرت كو تلاش كيا جائے تو پھر اس سے بہتر كيا ہوسكتا ہے ليكن اگر وہ غرور، غفلت ، ظلم وتجاوز اور ہوس پرستى كا ذريعہ بن جائے تو پھر اس سے بدتر بھى كوئي چيز نہيں _
دوسرى نصيحت انہوں نے مزيد كہا: ''دنيا سے اپنے حصے كو نہ بھول جا ''_(4)
(1)سورہ قصص آيت76
(2)سورہ قصص آيت76
(3)سورہ قصص آيت 77
(4)سورہ قصص 77

435
يہ ايك حقيقت ہے كہ ہر انسان كا اس دنيا ميں ايك محدود حصہ ہے يعنى وہ مال جو اس كے بدن ،لباس اور مكان كے لئے دركار ہوتا ہے اور ان پر صرف ہوتا ہے اس كى مقدار معين ہے اور ايك خاص مقدار سے زيادہ اس كے لئے قابل جذب ہى نہيں ہوتا _
انسان كو يہ حقيقت فراموش نہيں كرنى چاہئے _
تيسرى نصيحت يہ ہے : ''جيسے خدا نے احسان كيا ہے تو بھى نيكى كر''_ (1)
يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ انسان ہميشہ اللہ كے احسان پر نظر لگائے ہوئے ہے اور اس كى بارگاہ سے ہر خير كا تقاضاكر رہا ہے اور اسى سے ہر قسم كى توقع باندھے ہوئے ہے تو اس طرح سے وہ كيونكر كسى كے صريح تقاضے كو يازبان حال كے تقاضا كو نظر انداز كرسكتا ہے اور اس سے كيسے بے اعتناى برت سكتا ہے ''_
آخر ميں چوتھى نصيحت يہ ہے: ''كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ مادى وسائل تجھے دھوكہ ديں اور تو انہيں گناہ اور دعوت گناہ ميں صرف كردے،زمين ميں ہرگز گناہ و فساد نہ كر كيونكہ اللہ مفسدين كو پسند نہيں كرتا''_(2)
صحيح طور پر معلوم نہيں كہ نصيحت كرنے والے يہ افراد كون تھے_
البتہ يہ بات مسلم ہے كہ وہ اہل علم،پرہيزگار،زيرك بابصيرت اور جرا ت مند افراد تھے_

قارون كا جواب

اب ہميں يہ ديكھنا ہے كہ اس سركش و ستمگر بنى اسرائيل نے ان ہمدرد واعظين كو كيا جواب ديا_
قارون تو اپنى اس بے حساب دولت كے نشے ميں چور تھا اس نے اسى غرور سے كہا:''ميں نے يہ سب دولت اپنے علم و دانش كے بل بوتے پر حاصل كى ہے''_(3)
تمہيںاس سے كيا كہ ميں اپنى دولت كيسے خرچ كرتا ہوں،جو ميں نے كمايا اسے خود كمايا ہے تو پھر صرف كرنے ميں بھى مجھے تمہارى راہنمائي كى كوئي ضرورت نہيں_
(1)سورہ قصص آيت 87
(2)سورہء قصص آيت 77
(3)سورہ قصص آيت78

436
علاوہ ازيں خدا مجھے اس دولت كے لائق سمجھتا تھا تبھى تو اس نے مجھے عطا كى ہے اور اسے صرف كرنے كى راہ بھى اس نے مجھے بتائي ہے ميں دوسروں سے بہتر جانتا ہوں_تمہيں اس ميں دخيل ہونے كى ضرورت نہيں_ ان سب باتوں سے قطع نظر زحمت ميں نے كى ہے،تكليف ميں نے اٹھائي ہے،خون جگر پيا ہے تب كہيں يہ دولت جمع كى ہے،دوسروں كے پاس بھى ايسى لياقت و توانائي ہوتى تو وہ زحمت و كوشش كيوں نہ كرتے_ ميں نے كوئي ان كا راستہ تو نہيں روك ركھا اور اگر ان ميں اس كى لياقت نہيں ہے تو پھر كيا ہى اچھا ہے كہ بھوكے رہيں اور مرجائيں_
يہى وہ بوسيدہ اور گھٹيا منطق ہے كہ جو عام طور پربے ايمان سرمايہ دار نصيحت كرنے والوں كے سامنے پيش كرتے ہےں

No comments:

Post a Comment