Tuesday 21 August 2012

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب
اپنے شفیق والدین کے نام

نام کتاب: علوم قرآن کا اجمالی پس منظر(مقدمہ تفسیرقرآن)
مؤلف: محمد باقرمقدسی
نظرثانی: سیدضیغم عباس نقوی (ہند)
ناشر:
چھاپخانہ :
طبع:
تعداد:
کمپوزنگ وترتیب: محمد حسن جوہری
قیمت:
جملہ حقوق بحق مؤلف ہیں

حرف آغاز
عالم امکان کی سعادتمندی، آبادی، اور ترقی و تکامل کی خاطر اللہ نے کائنات کو تمام وسائل اور لوازمات سے مالا مال فرمایا وہ ذات یکتا ایسی ذات ہے کہ جس نے اپنی ذات کی تعریف اسطرح کی ہے واللہ ہو الغنی الحمید جبکہ عالم امکان کی تعریف میں فرمایا'' و انتم الفقرائ'' ایسی ذات کے بارے میں تمام اسلامی مکاتب فکر او رفلاسفر کا بالاتفاق یہ نظریہ ہے کہ وہ ذات تمام کمالات کا مجموعہ ہے جس میں کمی اور نقص کا تصور ناممکن ہے لہذا تمام کائناتی کمالات کا مجموعہ اورسرچشمہ ذات باری تعالی نظر آتا ہے، اس ذات سے ہٹ کر تصور کیا جائے تو یقینا احتیاج اور نیاز مندی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تب بھی تو اللہ نے قرآن مجید میں گذشتہ امتوں کے عبرت ناک حالات کو صاف لفظوں میں بیان کیا تاکہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ ہم جو کچھ کرنا چاہیںتو کرسکتے ہیں،اگر کوئی شخص اس خیال کی بنیاد پر قوم لوط ا ور قوم ثمود یا دیگر اقوام کی سیرت کو مشعل راہ قرار دے تو یقینا اللہ اس کو اسطرح کیفر کردار تک پہنچائے گا کہ جس طرح لوط اور ثمود وغیرہ کی قوم کو پہونچایا تھا، نیز اللہ نے فرعون اور قارون کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا تاکہ بشر جس طرح فرعون نے قدرت کو قارون علم کو اپنی ذاتی کمال سمجھتے تھے۔ اسطرح دیگر انسان بھی کمالات کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھیں لہذا اگر کوئی عاقل اس طرح کا تصور کرے کہ تمام کمالات چاہے مادی ہوں یا معنوی ہماری زحمت اور ذاتی تربیت کا نتیجہ ہے اور اللہ تبارک وتعالی سے کوئی ربط نہیں ہے، تو اسکا حشر بھی وہی ہوگا جو فرعون اور قارون کوہواتھا۔
نیزاللہ نے شیطان کی ہر حرکات و سکنات کو مفصل طور پرکلام مجید میں ذکر فرمایا، تاکہ لوگ تکبر و غرور کی بیماری کا شکار نہ ہوں، اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہوا تو اسکا علاج بھی وہی ہوگا جو شیطان کا علاج تھا۔
لہذا اللہ نے اس باطل نظریے (یعنی کمالات اپنی زحمات کا نتیجہ ہیں اور اللہ سے کوئی ربط نہیں ہے )کو رد کرتے ہوئے بشر کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کی خاطر گذشتہ امتوں اورفرعون و قارون اور شیطان کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان کیا تا کہ بشر تمام کمالات کا سرچشمہ ذات باری تعالی سمجھے ، اسی حقیقت کو درک کرنے کی خاطر اللہ نے قیامت تک کے انسانوں کی طبیعت اور فطرت کے ہماہنگ گفتگو کی ہے یعنی کچھ لوگوں کی طبیعت ،عشق و محبت سے متاثر اور منفعل ہو جاتی تھی جس کو اپنی طرف مبذول کر نے کے لئے یوسف اور ذلیخا کی کہانی کو صاف الفاظ میں بیان کیا، جبکہ کچھ لوگوں کی طبیعت عبادات اور زہد و تقوی اور دعاؤں سے متاثر ہو جاتی تھی جسکی آبیاری کیلئے انبیاؑ اور اوصیاء ؑکی نمایاں سیرت کو زہد و تقوی راز و نیاز کامجموعہ ہونے کی خبر دی ہے اور کچھ لوگوں کی طبیعت جنگجو اور شجاعانہ طبیعت تھی جن کی پیاس کو بجھانے کی خاطر اللہ نے گذشتہ انبیاء اور ہمارے آخری نبی ؐکی سیاسی پالیسیوں کو جنگ احزاب، جنگ بدر، جنگ احد، جنگ تبوک او ردیگر جنگوں کے نام سے یاد کیا ہے تاکہ کوئی مسلمان جنگجو کفار و مشرکین بالاخص یہودیوں کی غلط پالیسیوں کو میدان جنگ میںاپنا اصول و ضوابط قرار نہ دے ،حالانکہ خوبصورتی اور لذت روحی سے ،طبیعت متاثر ہونے والے افراد کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنےکی خاطر حور العین کی تمام خصوصیات کو ''لم یطمثہن انس قبلہم ولا جان کانھن الیاقوت والمرجان ''یا کواکب اترابا وجعلناھن ابکارا''کے الفاظ میں روشن فرمایا۔نیز کچھ انسانوں کی طبیعت ہنر اور فنون کی طبیعت ہوتی تھی جن کی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر طرح طرح کے فنون و ہنروں کا تذکرہ کیا۔اورہنروںاورفنون کوعلم کادرجہ دیا ۔
اس طرح کچھ انسانوں کی طبیعت اس طرح کی ہے جو اخلاق حسنہ کو پسند کرتی ہے جنکی چاہت او رخواہشات کو پورا کرنے کی خاطر اخلاق کے تمام اصول و ضوابط منفی و مثبت نکات اور مطالب کو واضح الفاظ میں بیان کیا اورنمونہ کے طور پر حضرت ابراہیم کی سیرت کو ''لقد کان فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ '' یا ہمارے آخری نبی کی نمایاںسیرت کو'' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ''کے عنوان کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ اخلاق حسنہ سے طبیعت بیدار ہونے والے افراد اخلاق حسنہ کے اصول و ضوابط انہی ہستیوں کو نمونہ عمل قرار دے دیے ، نیز اللہ نے کبھی جنت کے اوصاف اور خصوصیات کو ''خالدین فیہا تجری من تحت الانھار ،لا تسمع فیہا لاغیۃ'' وغیرہ واضح الفاظ میں بیان کیا ہے تاکہ جنت کی لذت اور آرامش کی لالچ میں طبیعت اور ضمیر اللہ کی طرف مبذول ہو۔
اور اللہ نے کبھی تاریخ اور ضرب المثل کو بیان کرکے شعر و شاعری کی طبیعت والے افراد کی طبیعت کو اپنی طرف مرکوز کیا جبکہ قرآن کے تمام الفاظ کو فصاحت اور بلاغت سے اسطرح مالا مال کیا حتی نزول قرآن کے وقت جتنے فصحا اور بلغا تھے بالاتفاق کہنے لگے قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد بن عبداللہ سحر اور جادو کر رہا ہے لہذا فصاحت و بلاغت سے طبیعت اور ضمیر بیدار ہونے والے افراد کے لئے ایسی فصاحت و بلاغت کے نکات کو بیان کیا تا کہ قیامت تک اس کلام سے فصیح تر کلام نہ ہوسکے۔
لہذا قرآن کے آغاز سے خاتمہ تک کی آیات پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اللہ نے ہر انسان کو چاہے موجود بالفعل ہو یا با القوۃ اس کی طبیعت اور زمان و مکان کے مطابق دستور دیاہے تاکہ انسان ضروریہ خیال کرے کہ تمام کمالات کا سر چشمہ ذات باری تعالی ہے ، ایسا گمان اور خیال غلط ہے کہ ہماری کوششوں او رزحمات کا نتیجہ قدرت اور علم اور کمالات ہے بیشک زحمات اور کوشش کا لازمہ قدرت اور علم او رکمالات ہے لیکن کوشش اور زحمات کے باوجود تمام کمالات کی بازگشت اور سرچشمہ ذات باری تعالی ہی نظر آتا ہے۔
نیز قرآن تمام علوم کا ایسا بحر بیکراں اور اقیانوس ہے جس سے ہر غواص فیضیاب اور سیراب ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے ، اگر چہ اس دور میں ٹیکنالوجی ،سائنس ،فیالوجی ، فیزیک ،کیماوی، ریاضی یا دیگر علوم عروج پر فائز ہیں تو یہ خیال نہ کیجیے کہ قرآن میں ایسے علوم اور مضامین کا تذکرہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ قرآن تمام کتب آسمانی کے ترجمان کی حیثیت سے ''من البدوی الی الختم ''کے ان تمام علوم کامجموعہ ہے جن کو بشر کے لئے قیامت تک کیلئے ضروری ہے مگر ہم نے قرآن کو صحیح معنی میں درک نہیں کئے ہیں ورنہ خود قرآن نے صاف لفظوں میں بیان کیا ہے '' لا رطب و لا یابس الا فی کتاب مبین'' بیشک قرآن میں جس طرح ریاضی کی کتاب میں تمام فارمولوں کا ذکر ہے اسطرح تمام علوم کا مفصل اور ہر فارمولے کو ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن جس علوم کا انسان محتاج ہے جو اس کی زند گی کی سعادتمندی کا باعث ہے اس کا یقینا قرآن میں اجمالی طور پر تذکرہ ہو چکا ہے اور ان تمام علوم کو قرآن کی آیات سے حاصل کرنے کیلئے تفکر اور تدبر کے علاوہ برسوں سال تعلیمات اسلامی کے گہوارے میں تربیت اور تلمذ کر نے کی ضرورت ہے ہاں آپ یقینا کہہ سکتے ہیںکہ برسوںسال تعلیمات اسلامی کے گہوارے میں تربیت یافتہ علماء اورمحققین میں سے کتنوں نے کہکشانوں اور ٹکنالوجیوں اور ایجادات و انکشافات کے فارمولے پیش کئے ہیں ؟
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب بشر پر مادہ پرستی اور مادیات کی حکومت حاکم ہو جاتی ہے تو ہر چیز کومادہ او رمادیات ہی سے مقایسہ کرتے ہیں کیا ایسے فارمولے کو پیش کرنا مشکل ہے یا طے الارض کرنا؟ کیا ایٹم بم بنانا مشکل ہے یا ایک ہی نظر سے سوپر طاقتوں کو خاک میں ملانا مشکل ہے ؟
علم رمل ، علم جفر، فیازلوجی سائنس کے تمام فارمولے اورریاضی کے تمام مسائل اور تمام قضایا عقلیہ سے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے واے علماء اورمجتہدین اس دور کے ماہرپروفیسر اورڈاکٹر سے کئی گنا زیادہ آگاہ ہیں لیکن اسلام انسانوں کو مارنے کیلئے یا ان پر ظلم و ستم کرنے کیلئے ملحدین کی طرح ان چیزوںکی بنانے کی اجازت نہیں دیتا ، لہذا آ ج ملحدین یا ضعیف الایمان افراد ایک مضمون یاکسی ایک فیلڈ میں چند ایک فرمولوں کی روشنی میں کوئی چیز پیش کریںتو اس کو کوئی بڑی چیز نہ سمجھیں اگر یہ لوگ کسی علم کے چند ایک اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں تو ہمارے مجتہدین اس جیسے ہزاروں علوم کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں لیکن نظام اسلامی ان کی طرح بنانے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ ملحدین اور ضعیف الایمان کسی عہد اور پیمان کے پابند نہیں رہتے بلکہ ان کا مقصد اور ہدف فقط یاد کردہ فارمولوں کی رو سے کوئی چیز انکشاف کرنا اور ایجاد کرنا ہے ، جبکہ علماء اسلامی کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ ان اصول و ضوابط کی رو سے انسان کی سعادتمندی مادی اور معنوی زندگی کے مرا حل کو بیان کریں،تاکہ حضرت حق کی شناخت کرسکیں۔
لہذا علم طب ،فیازلوجی ،فلاسفہ ،فزیک وغیرہ کے کتنے محققین آئے ہیںاور گذرے ہیں لیکن مثبت نتائج کے ساتھ منفی نتائج سے خالی نہیںرہے ہیں جبکہ قرآن واحدکتاب ہے جو انسان کے مادی اور معنوی تمام اصول و ضوابط پر مشتمل ہے. باقی تمام علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ تمام مسائل کو عام عادی انسان کی طرح تفصیلی بیان کرے، بلکہ اشارے اور اجمالی تذکرہ کرکے عقل وتفکر و تدبر کو بروی کار لانا اس کا مقصدتھا۔
لہذا پیغمبر اکرم (ص) اور اہلبیت(ع) نے قرآن کے حقیقی مفسر کی حیثیت سے تمام کنایات اور انکشافات و اختراعات کی تشریح کی ہے . اور مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکار حضرات بھی تمام علوم کا سرچشمہ قرآن اور اہل بیت (ع) کوقرار دیتے رہے ہیں،لیکن مسلمان حضرات کا قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود قرآن کے فیوضات سے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اورہمارا معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود ہمارے مراکز وتربیت گاہوں میںقرآنی تعلیم اوردرس قرآن سے ہمیں محروم رکھاگیا ہے اسی لیے آج قرآن کے کرامات اور فیوضات سے محروم ہیں جبکہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ تمام کمالات کاسرچشمہ ذات باری تعالی ہے قرآن اس کا کلام ہے جو ہرنقص اورعیب سے پاک ہونے کے علاوہ صرف ہماری سعادت اورکامیابی ہی کے لئے بھیجاگیا ہے جسمیںقیامت تک کے لئے بشر کے تمام مسائل اورقضایااورتمام علوم کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو ثابت کر نے کے لئے اہل بیت (ع) کی سیرت نمایاں دلیل ہے یعنی اہل بیت (ع)واحد ہستیاںہیںکہ جنہوںنے قرآن کوصحیح معنوںمیںسمجھا اورتعلیم قرآن کے ذریعے پوری دنیاکے مفکرین اورمحققین کے نظریات اورتحقیقات پرفوقیت حاصل کی ،لہذاان کے جانی دشمن اوراس زمانے کے متعصب ترین محققین بھی اہل بیت (ع) کے کمالات اورعلمی نظریات کا اعتراف کرچکے ہیں، جبکہ اسو قت نہ کوئی پیشرفتہ تربیت گاہ تھا اورنہ ہی کوئی ماہر استاد ،اگرچہ شیعہ امامیہ کاعقیدہ علم امام کے بارئے میںبہت ہی مفصل اورعمیق ہے جسکا خاکہ ذہن میںڈالنے کے لئے مستقل ایک تحقیقی کتاب کی ضرورت ہے لیکن اس دور میںعلم کے دعویدار ہونے والے حضرات کی توجہ کو سیرت اہل بیت (ع) اورتعلیم قرآن کی طرف مبذول کرنا چاہتاہوںتاکہ ریاضی اورفزیک یاکسی دیگر مضامین کے چند ایک فرمولے یاد کر کے خود کو یاد خدا اورتعلیم قرآن سے بالاتر نہ سمجھیںبلکہ تمام تعلیمات سے بالاتر تعلیم قرآن، تمام موجودات سے بالاتر اللہ تبارک وتعالی اوربہترین مشعل راہ اہل بیت (ع) کی سیرت سمجھیں، آپ بغیر کسی تردید کے فہم قرآن اورتعلیم قرآن سے بہرہ مند حضرات کی تعلیمی طاقت واستعداد کواس دور کے چند ایک فرمولے یاد کرنے والے پڑھے لکھے افراد کی طاقت سے مقائسہ کر کے اندازہ کرسکتے ہیںکہ ہرعاقل جانتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت علم ہے ۔
لہذاامام سجاد(ع)اور اس دور کے پڑھے لکھے افراد یا امام جعفرصادق (ع) اوراس دور کے پڑھے لکھے افراد یاپیامبر گرامی (ص)اور اس دورکے پڑھے لکھے افراد ی حضرت علی (ع) اور دیگر افراد کی علمی طاقت کو موازنہ کرسکتے ہیںاور مسلمان حضرات اس دور میںفقط قرآن کو سمجھیںتو پوری دنیا کی طاقت اورسوپر طاقت کے دعویداروںکو باآسانی جواب دے سکتے ہیں۔
لیکن ہم نے قرآن مجید سے نہ فقط استفادہ نہیں کیا بلکہ اس کو مہجور ومہموز قرار دیا ورنہ ہماری سیرت یہ نہ ہوتی کہ ہم مسلمان کہ شیعہ امامیہ ہونے کے باوجود مسائل سیاسی ،ثقافتی ،اقتصادی،اخلاقی ،فکری ،علمی ،اور ان جیسے تمام میدانوں میں قرآ ن سے مدد لینے کے بجائے عصر حاضر کے ملحدین کی تقلید کرتے ہوئے قرآن کو مسائل فقہی،اور اموات کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ،یا زیادہ سے زیادہ سر سری تلاوت تک محدود رکھا ہوا ہے فاتحہ خوانی ،تلاوت کلام پاک ،جیسے امور میں ثواب حاصل ہونے پرکسی کو انکار نہیںلیکن قرآن مجید کاہدف اصلی ، بشرکو دنیاوآخرت میںسعادت وخوشبختی سے ہمکنار کرنا ہے اور یہ سعادت وخوشبختی فھم اوردرک معانی قرآن اور اس پر عمل پیرا ہونے میںمضمر ہے ۔
والسلام

المذنب محمد باقرمقدسی
ایران قم ١٤٢٨
     

No comments:

Post a Comment